دعا زہرا کو دارالامان بھیجنے اور میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم
دعا زہرہ اور شوہر سندھ ہائیکورٹ میں پیش، پسند کی شادی کی تصدیق
کراچی:
پولیس نے دعا زہرہ اور شوہر کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردیا جہاں لڑکی نے عدالت کے سامنے پسند کی شادی کی تصدیق کردی۔
سندھ ہائیکورٹ میں دعا زہرہ کیس کی سماعت ہوئی تو پولیس نے دعا زہرہ اور اس کے شوہر کو پیش کیا۔ کمرہ عدالت میں دعا کے داخل ہوتے ہی ماں نے بیٹی کو گلے لگانے کی کوشش کی تو سیکیورٹی اہلکاروں نے سماعت کے بعد ملاقات کا بول کر منع کردیا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ظہیر نے دعا زہرا سے پنجاب میں شادی کی، سندھ میں کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ والدین کے وکیل نے استدعا کی کہ بچی چھوٹی ہے۔
دعا زہرا نے کلمہ پڑھ کر بیان دیا کہ میں اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، اس نے مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کی بلکہ پسند کی شادی ہے، مجھے اغوا نہیں کیا گیا، میری عمر 18 سال ہے، مجھے چشتیاں سے لایا گیا ہے۔ والد نے مداخلت کی کوشش کی تو عدالت نے والد کو جھاڑتے پلاتے ہوئے خاموش کرادیا۔
دعا نے والدین سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں مجھے والدین سے ملاقات نہیں کرنی۔
عدالت نے دعا زہرا کو شیلٹر ہوم بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ عمر کا تعین کرکے دو روز میں رپورٹ پیش کریں۔
قبل ازیں سی آئی اے پولیس کراچی نے لاہور پولیس کے ہمراہ بہاولنگر میں کارروائی کرتے ہوئے دعازہرہ کو بازیاب کرانے کے بعد اس کے شوہر کے ہمراہ کراچی منتقل کر دیا ۔
دعا زہرہ کو وومن پولیس کی حفاظت میں جبکہ اس کے مبینہ شوہر ظہیر کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل میں سخت حفاظت میں رکھا گیا۔ دعا زہرہ اور ظہیر کا نکاح نامہ بھی چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکا ہے۔
دعا زہرہ کے اغوا کا مقدمہ اس کے والد کی مدعیت میں الفلاح تھانے میں درج کیا گیا تھا ، مقدمے کی تفتیش قانون کے مطابق اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( سی آئی اے ) کے حوالے کی گئی ، دعا کی بازیابی کے لیے ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان کی سربراہی میں 7 مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس نے دعا زہرہ کو چشتیاں سے بازیاب کرا لیا
دعا زہرہ کے بازیابی میں تاخیر پر عدالتی برہمی کے بعد ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان کی سربراہی میں ، ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ، ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل اور دیگر تفتیشی افسران گزشتہ 15 دن سے پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں مقامی پولیس کے ہمراہ دعا زہرہ کی تلاش میں مصروف رہے۔
ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان مایوس ہو کر 4 روز قبل کراچی واپس آگئے تھے جبکہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی پولیس پارٹی نے لاہور پولیس کے ہمراہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں ظہیر کے رشتے دار کے گھر چھاپہ مار کر دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر کو بازیاب کرا لیا تھا ۔
عدالت نے دعا زہرہ کی بازیابی میں تاخیر پر سابقہ آئی جی سندھ کامران فضل کو ان کی سیٹ پر نااہل قرار دیتے ہوئے کام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی مشاورت سے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا تبادلہ کر کے آئی جی سندھ مقرر کر دیا تھا ، کامران فضل کے پاس آئی جی سندھ کا عارضی چارج تھا وہ ڈیڑھ ماہ بعد ریٹائر ہونے والے ہیں ۔
پولیس نے دعا زہرہ اور شوہر کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردیا جہاں لڑکی نے عدالت کے سامنے پسند کی شادی کی تصدیق کردی۔
سندھ ہائیکورٹ میں دعا زہرہ کیس کی سماعت ہوئی تو پولیس نے دعا زہرہ اور اس کے شوہر کو پیش کیا۔ کمرہ عدالت میں دعا کے داخل ہوتے ہی ماں نے بیٹی کو گلے لگانے کی کوشش کی تو سیکیورٹی اہلکاروں نے سماعت کے بعد ملاقات کا بول کر منع کردیا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ظہیر نے دعا زہرا سے پنجاب میں شادی کی، سندھ میں کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ والدین کے وکیل نے استدعا کی کہ بچی چھوٹی ہے۔
دعا زہرا نے کلمہ پڑھ کر بیان دیا کہ میں اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، اس نے مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کی بلکہ پسند کی شادی ہے، مجھے اغوا نہیں کیا گیا، میری عمر 18 سال ہے، مجھے چشتیاں سے لایا گیا ہے۔ والد نے مداخلت کی کوشش کی تو عدالت نے والد کو جھاڑتے پلاتے ہوئے خاموش کرادیا۔
دعا نے والدین سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں مجھے والدین سے ملاقات نہیں کرنی۔
عدالت نے دعا زہرا کو شیلٹر ہوم بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ عمر کا تعین کرکے دو روز میں رپورٹ پیش کریں۔
قبل ازیں سی آئی اے پولیس کراچی نے لاہور پولیس کے ہمراہ بہاولنگر میں کارروائی کرتے ہوئے دعازہرہ کو بازیاب کرانے کے بعد اس کے شوہر کے ہمراہ کراچی منتقل کر دیا ۔
دعا زہرہ کو وومن پولیس کی حفاظت میں جبکہ اس کے مبینہ شوہر ظہیر کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل میں سخت حفاظت میں رکھا گیا۔ دعا زہرہ اور ظہیر کا نکاح نامہ بھی چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکا ہے۔
الفلاح تھانے کی حدود شاہ فیصل کالونی گرین ٹاؤن سے 16 اپریل 2022 کو رمضان المبارک میں غائب ہونے والی لڑکی دعا زہرہ دختر سید مہدی علی کاظمی اور اس کے شوہر ظہیر احمد ولد منیر احمد کو سی آئی اے پولیس نے پنجاب کے علاقے بہاولنگر چشتیاں سے کراچی منتقل کیا۔
دعا زہرہ کے اغوا کا مقدمہ اس کے والد کی مدعیت میں الفلاح تھانے میں درج کیا گیا تھا ، مقدمے کی تفتیش قانون کے مطابق اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( سی آئی اے ) کے حوالے کی گئی ، دعا کی بازیابی کے لیے ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان کی سربراہی میں 7 مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس نے دعا زہرہ کو چشتیاں سے بازیاب کرا لیا
دعا زہرہ کے بازیابی میں تاخیر پر عدالتی برہمی کے بعد ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان کی سربراہی میں ، ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ، ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل اور دیگر تفتیشی افسران گزشتہ 15 دن سے پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں مقامی پولیس کے ہمراہ دعا زہرہ کی تلاش میں مصروف رہے۔
ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان مایوس ہو کر 4 روز قبل کراچی واپس آگئے تھے جبکہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی پولیس پارٹی نے لاہور پولیس کے ہمراہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں ظہیر کے رشتے دار کے گھر چھاپہ مار کر دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر کو بازیاب کرا لیا تھا ۔
عدالت نے دعا زہرہ کی بازیابی میں تاخیر پر سابقہ آئی جی سندھ کامران فضل کو ان کی سیٹ پر نااہل قرار دیتے ہوئے کام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی مشاورت سے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا تبادلہ کر کے آئی جی سندھ مقرر کر دیا تھا ، کامران فضل کے پاس آئی جی سندھ کا عارضی چارج تھا وہ ڈیڑھ ماہ بعد ریٹائر ہونے والے ہیں ۔