پانی کی کمیابی پر قومی پالیسی تشکیل دی جائے
ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان تئیس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنھیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے
ملک میں پانی کی کمی کا بائیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جب کہ صوبوں کو 50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ آبی ذخائر میں97 فیصد کمی ہو گئی ہے۔
ارسا کی جانب سے پانی کی صورتحال کی تفصیلات کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت انتہائی کم ہے، تربیلا ڈیم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خالی ہے جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈیمز میں پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ ہے ۔ دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔ گزشتہ سال ان دنوں دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 2 لاکھ 84 ہزار کیوسک تھا۔
اگر ملک میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتی ہیں تو پانی کا بحران مزید بڑھ جائے گا جب کہ آئی ایم ایف ، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔
ایک جانب تو ہمیں قلت آب کا سامنا ہے، دوسری جانب بھارتی آبی جارحیت ہے، لیکن ان خطرات کے باوجود اسٹیک ہولڈرزکے درمیان جاری کشمکش ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے، کسی ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نہ نکالنا ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ بن چکا ہے۔
پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرایع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے ،کیا یہ ہمارے لیے کافی ہے؟ پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک عرصے سے نئے ڈیم بنانے کی بہت سی تجاویز تو زیر غور ہیں اورکئی پروجیکٹس پرکام بھی جاری ہے لیکن تاحال کوئی ایسا بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا جس سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوام میں مقبول ہونے کے بعض ایسے اعلانات کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عوام بیانات سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ ہمارے ملک میں ایک سیاسی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے، لہٰذا کوئی بھی حکومت اس کی تعمیر کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان جس ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے وہ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
ایسے حالات میں عوامی مسائل بس سیاسی تقریروں میں ہی حل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مطلوبہ تعداد میں ڈیمز کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پانی کے کمی سے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا بھی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس وقت بھی ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام بے حال ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ،کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 6 سے 14 گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے جب کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں بجلی کی طلب بڑھنے سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ بجلی کی 6 سے 8 گھنٹے کی بندش کے علاوہ ٹرپنگ بھی جاری ہے جس سے شہری شدید کوفت کا شکار ہیں۔ پشاور کے شہری علاقوں میں 6 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 16 گھنٹے بجلی کی بندش کی جا رہی ہے۔
سال 2017 میں ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضایع ہوجاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے 3 مزید ڈیمز کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو پانی کے شدید بحران سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات بھی کیے جائیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صورت حال یہی رہی تو ممکن ہے کہ 2025تک ملک میں پانی کا شدید بحران ہو جائے۔ پانی کا یہ مسئلہ نیا نہیں لیکن آہستہ آہستہ سنگین نوعیت اختیار کر رہا ہے، دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے ، علاوہ ازیں پاکستان کے24 بڑے شہروں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے ، اور صرف کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے 1 کروڑ 60 لاکھ گھروں میں پانی آتا ہی نہیں ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے بھی محروم ہیں اور یہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہے، اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میٹر تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025 تک پانی کی قطعی کمی واقع ہوجائے۔
پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں ، جیسے شہری علاقوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ، زراعت ، پانی کے نظام کی بد انتظامی اور آب و ہوا (ماحولیاتی) میں تبدیلی۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، ہم 22 کروڑ ہوچکے ہیں ، اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ ، جب کہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہوسکتی ہے۔ ہم جتنا پانی ضایع کر رہے ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک کو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی سماجی و اقتصادی ترقی کا دارومدار زراعت پر ہے۔ ملکی شرح نمو میں زراعت کا حصہ تقریباً اکیس فیصد ہے اور پنتالیس فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ زرعی ترقی میں پانی کی مناسب اور بروقت دستیابی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جب کہ دستیاب پانی کا 90فیصد سے زائد زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔
جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ نہروں سے کھالوں میں منتقل ہونے والے پانی کی 50 فیصد سے زائد مقدار کھیت تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کھالوں کی ناپختگی، خراب بناوٹ اور انجینئرنگ معیار کے مطابق نہ ہونا ہے۔ روایتی طریقے سے زمین کی ہمواری کے برعکس لیزر لینڈ لیولنگ سے آبپاشی کے پانی کے ضیاع میں35 فیصد کمی اور فصلوں کی پیداوار میں 23 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور گزشتہ چند سالوں سے ہماری زراعت موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے شدید متاثر ہورہی ہے جس کا براہِ راست اثر کسان پر پڑرہا ہے۔ زرعی سائنسدانوں کے مطابق پاکستان میں ڈرپ نظامِ آبپاشی کو سولر سسٹم کی مدد سے کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے کیونکہ صوبہ پنجاب میں ایک سال میں تقریباً تین سو دن تک سورج کی روشنی کی ایک مؤثر مقدار روزانہ آٹھ گھنٹے تک دستیاب ہوتی ہے۔
پاکستان بارش ،برف اور گلیشیئر پگھلنے سے اپنا پانی حاصل کرتا ہے، کیونکہ ملک کا 92 فیصد حصہ نیم بنجر ہے لہٰذا پاکستان اپنی پانی کی فراہمی کے لیے بارش پر منحصر ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے مٹی میں موجود پانی بھی تیزی سے بخارات بن کر سوکھ رہا ہے، جس سے فصلوں کے لیے پانی کی طلب میں بھی اور اضافہ ہورہا ہے۔
پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے بروقت منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ ہمیں نئے ڈیمز اور آبپاشی کے نظام تک بہتر رسائی کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آبی بحران کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت آب سے خوراک کی کمی کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات ، حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے ،کیونکہ یہ معاشیات کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کسی شے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہو تو اس کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔
ایک طرف ملک کے اندر پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ماہرین آگاہ کررہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان تئیس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنھیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے۔
''گلوبل لینڈ آؤٹ لک'' نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ جن دیگر بائیس ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے ان میں افغانستان، ایران، عراق اور امریکا شامل ہیں۔ رپورٹ میں 2050ء کے حالات کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تب تک مختلف خطوں اور ممالک کو پانی کی قلت کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حرف آخر ، حل ایک ہی ہے کہ حکومت اس مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دے اور اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک ایسی قومی پالیسی بنائی جائے جس میں ملک کی تمام انتظامی اکائیوں سے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ کوئی اگلی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی، جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی قلت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، آنے والے برسوں میں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
ارسا کی جانب سے پانی کی صورتحال کی تفصیلات کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت انتہائی کم ہے، تربیلا ڈیم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خالی ہے جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈیمز میں پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ ہے ۔ دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔ گزشتہ سال ان دنوں دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 2 لاکھ 84 ہزار کیوسک تھا۔
اگر ملک میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتی ہیں تو پانی کا بحران مزید بڑھ جائے گا جب کہ آئی ایم ایف ، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔
ایک جانب تو ہمیں قلت آب کا سامنا ہے، دوسری جانب بھارتی آبی جارحیت ہے، لیکن ان خطرات کے باوجود اسٹیک ہولڈرزکے درمیان جاری کشمکش ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے، کسی ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نہ نکالنا ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ بن چکا ہے۔
پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرایع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے ،کیا یہ ہمارے لیے کافی ہے؟ پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک عرصے سے نئے ڈیم بنانے کی بہت سی تجاویز تو زیر غور ہیں اورکئی پروجیکٹس پرکام بھی جاری ہے لیکن تاحال کوئی ایسا بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا جس سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوام میں مقبول ہونے کے بعض ایسے اعلانات کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عوام بیانات سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ ہمارے ملک میں ایک سیاسی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے، لہٰذا کوئی بھی حکومت اس کی تعمیر کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان جس ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے وہ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
ایسے حالات میں عوامی مسائل بس سیاسی تقریروں میں ہی حل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مطلوبہ تعداد میں ڈیمز کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پانی کے کمی سے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا بھی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس وقت بھی ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام بے حال ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ،کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 6 سے 14 گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے جب کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں بجلی کی طلب بڑھنے سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ بجلی کی 6 سے 8 گھنٹے کی بندش کے علاوہ ٹرپنگ بھی جاری ہے جس سے شہری شدید کوفت کا شکار ہیں۔ پشاور کے شہری علاقوں میں 6 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 16 گھنٹے بجلی کی بندش کی جا رہی ہے۔
سال 2017 میں ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضایع ہوجاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے 3 مزید ڈیمز کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو پانی کے شدید بحران سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات بھی کیے جائیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صورت حال یہی رہی تو ممکن ہے کہ 2025تک ملک میں پانی کا شدید بحران ہو جائے۔ پانی کا یہ مسئلہ نیا نہیں لیکن آہستہ آہستہ سنگین نوعیت اختیار کر رہا ہے، دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے ، علاوہ ازیں پاکستان کے24 بڑے شہروں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے ، اور صرف کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے 1 کروڑ 60 لاکھ گھروں میں پانی آتا ہی نہیں ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے بھی محروم ہیں اور یہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہے، اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میٹر تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025 تک پانی کی قطعی کمی واقع ہوجائے۔
پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں ، جیسے شہری علاقوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ، زراعت ، پانی کے نظام کی بد انتظامی اور آب و ہوا (ماحولیاتی) میں تبدیلی۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، ہم 22 کروڑ ہوچکے ہیں ، اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ ، جب کہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہوسکتی ہے۔ ہم جتنا پانی ضایع کر رہے ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک کو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی سماجی و اقتصادی ترقی کا دارومدار زراعت پر ہے۔ ملکی شرح نمو میں زراعت کا حصہ تقریباً اکیس فیصد ہے اور پنتالیس فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ زرعی ترقی میں پانی کی مناسب اور بروقت دستیابی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جب کہ دستیاب پانی کا 90فیصد سے زائد زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔
جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ نہروں سے کھالوں میں منتقل ہونے والے پانی کی 50 فیصد سے زائد مقدار کھیت تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کھالوں کی ناپختگی، خراب بناوٹ اور انجینئرنگ معیار کے مطابق نہ ہونا ہے۔ روایتی طریقے سے زمین کی ہمواری کے برعکس لیزر لینڈ لیولنگ سے آبپاشی کے پانی کے ضیاع میں35 فیصد کمی اور فصلوں کی پیداوار میں 23 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور گزشتہ چند سالوں سے ہماری زراعت موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے شدید متاثر ہورہی ہے جس کا براہِ راست اثر کسان پر پڑرہا ہے۔ زرعی سائنسدانوں کے مطابق پاکستان میں ڈرپ نظامِ آبپاشی کو سولر سسٹم کی مدد سے کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے کیونکہ صوبہ پنجاب میں ایک سال میں تقریباً تین سو دن تک سورج کی روشنی کی ایک مؤثر مقدار روزانہ آٹھ گھنٹے تک دستیاب ہوتی ہے۔
پاکستان بارش ،برف اور گلیشیئر پگھلنے سے اپنا پانی حاصل کرتا ہے، کیونکہ ملک کا 92 فیصد حصہ نیم بنجر ہے لہٰذا پاکستان اپنی پانی کی فراہمی کے لیے بارش پر منحصر ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے مٹی میں موجود پانی بھی تیزی سے بخارات بن کر سوکھ رہا ہے، جس سے فصلوں کے لیے پانی کی طلب میں بھی اور اضافہ ہورہا ہے۔
پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے بروقت منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ ہمیں نئے ڈیمز اور آبپاشی کے نظام تک بہتر رسائی کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آبی بحران کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت آب سے خوراک کی کمی کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات ، حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے ،کیونکہ یہ معاشیات کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کسی شے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہو تو اس کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔
ایک طرف ملک کے اندر پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ماہرین آگاہ کررہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان تئیس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنھیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے۔
''گلوبل لینڈ آؤٹ لک'' نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ جن دیگر بائیس ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے ان میں افغانستان، ایران، عراق اور امریکا شامل ہیں۔ رپورٹ میں 2050ء کے حالات کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تب تک مختلف خطوں اور ممالک کو پانی کی قلت کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حرف آخر ، حل ایک ہی ہے کہ حکومت اس مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دے اور اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک ایسی قومی پالیسی بنائی جائے جس میں ملک کی تمام انتظامی اکائیوں سے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ کوئی اگلی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی، جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی قلت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، آنے والے برسوں میں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔