کفایت شعاری اور شاہانہ اخراجات
وزراء اور مشیروں کے بھاری بھرکم ماہانہ مشاہروں اور دیگر پْرکشش مراعات میں کم ازکم پچاس فیصد کٹوتی کرنے کی بھی ضرورت ہے
پاکستان آج اپنی تاریخ کے مشکل ترین مالی و معاشی بحران کا شکار ہے ، اس بحران کے لیے بنیادیں ستر سال پہلے کھودنے کا آغاز ہوا اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان بنیادوں پر کھڑی گئی عمارت اپنے ہی بوجھ تلے لرز رہی ہے۔ کسی بھی حکومت نے ملکی معیشت کو خود انحصاری اور جینوئن ترقی کے ماڈل پر تیار ہی نہیں کیا۔
شروع دن سے ہی عالمی مالیاتی اداروں نے جو پالیسی دی ، پاکستان کے حکمرانوں نے اسے نافذ کردیا۔عالمی اسٹرٹیجک صف بندی میں بھی جدھر امریکا، مغربی یورپ نے اشارہ کیا، ہمارے حکمران اس صف میں شامل ہوگئے ۔سندھ طاس معاہدہ ہو، منگلہ ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر ہو، عالمی بینک کی مدد شامل رہی ہے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہماری کسی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں رہا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز نے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے مغربی کلچر کا انتخاب کیا۔یوں ملک میں ایک ایسا طبقہ پروان چڑھا جو ریاستی مراعات کے باعث خوشحال ہوا۔
ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ملک کے لیے ایک معاشی پالیسی فراہم نہیں کرسکے ' صرف وقت گزاری کے لیے مالیاتی پالیسیوں کا کمزور ترین سہارا لیا گیا ' یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ' اس وقت موجودہ حکومت کا سارا زور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط جاری کرانے پر صرف ہو رہا ہے جس کے بغیر حالات کے سنبھلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صرف ایک ہفتے کے دوران ساٹھ روپے فی لیٹر بڑھ چکی ہے ' جب کہ مزید اضافے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کا بغور جائزہ لیں تو یہاں بھی خرابی ہمارے پالیسی سازوں میں ہی نظر آتی ہے ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول و ڈیزل کے نرخ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ پیداواری لاگت میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے، بین الاقوامی سرمایہ کار ہماری طرف اس لیے رخ نہیں کرتے کہ ایک تو ہمارا سرکاری نظام شفاف نہیں اور قدم قدم پرکرپشن اورکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسرا سیاسی بے یقینی کی فضا ہے ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارا نظام انھیں تحفظ کا احساس نہیں دے پاتا۔ پیداواری لاگت میں اضافہ بھی پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری برآمدات درآمدات سے بڑھ نہیں پا رہیں یا یہ کہیے کہ ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں نہیں۔
ایک اور پہلو جس نے ہمیں عالمی سطح پر مقروض قوم بنا کر رکھ دیا ہے، وہ ہمارا قومی لائف اسٹائل ہے۔ قرض کی مے پیتے پیتے ہم اس خمار میں مبتلا رہے ہیں کہ کسی دن ہماری یہ فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ حکومتی اور معاشرتی سطح پر ہم نے سادہ طرزِ زندگی کو عرصہ ہوا خیرباد کہہ دیا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ یا پھر حکومت جب تک وہ اپنی آمدنی کو اخراجات سے زیادہ نہیں کرتی، کبھی مطمئن زندگی نہیں گزار سکتی، ہماری حکومتوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا کہ اپنے اخراجات کیسے کم کریں۔
سرکاری افسروں کو گاڑی دینے کی پالیسی ملکی معیشت پر بوجھ بن چکی ہے' ریاستی اداروں کے سربراہان اور افسر سرکاری گاڑی اور پٹرول کا استعمال '' مال مفت دل بے رحم'' کے مصداق کرتے ہیں۔ افسران کی اولاد سرکاری گاڑیوں میں اپنے تعلیمی اداروں میں آتی جاتی ہے ' بیگمات رات گئے تک شاپنگ کرتی ہیں ' تو بھی گاڑی اور ڈرائیور سرکاری ہوتا ہے ۔ نوکر شاہی کوگاڑیاں اور پٹرول کی سہولت دینے کے بجائے انھیں صرف پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مہیا کی جائے۔
صاحب دفتر میں ہوں اور انھیں کسی سرکاری کام کے لیے جانا ہوتو سرکاری گاڑی اور ڈرائیور انھیں لے جائے اور واپس دفتر لے آئے۔دفتری اوقات ختم ہوجائیں تو گاڑی سرکاری پارکنگ میں کھڑی کردی جائے۔اس طرح ہزاروں لیٹر پٹرول کی بچت ہوگی۔ ایک عام آدمی جس کی ماہانہ تنخواہ بمشکل تیس ہزار روپے ہے ' اس کے لیے پٹرول دو سو دس روپے فی لٹر ہے ' نوکرشاہی دو سو یا چار سو لیٹر مفت استعمال کرے تو یہ غریب ملک کے ٹیکس پیئرز اور غریب عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے جس بے دریغ استعمال کرکے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی بہتات ' پھر ان کی مرمت وغیرہ اور سرکاری افسران کے لیے دیگر مراعات نوکرشاہی کے شاہانہ زندگی کی مثال ہے حالانکہ ہمارے پاس اُس کے لیے وسائل موجود نہیں ، ادھر معاشرے میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔معاشرتی اسٹیٹس کی دوڑ شروع ہوئی تو قرض لے کر گاڑی لینے کا خبط سوار ہوگیا ، حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ جس کی وجہ ملک میں سرکاری ٹرانسپورٹ ختم ہوگئی، اس کی وجہ مڈل کلاس نے مجبوراً گاڑیاں خریدنا شروع کردیں۔
آج ہمارے معاشرے سے سائیکل غائب ہو گئی ہے' اُس کی جگہ موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں نے لے لی ہے۔ سادگی اوپر سے نیچے تک آتی ہے ، ہماری ایلیٹ کلاس نے اپنے لائف اسٹائل میں یورپ اور امریکا کے شہریوں کو بھی مات دے رکھی ہے۔ ہماری پوش آبادیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں مگر اس رفتار سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ ہمارے ٹیکسوں کی آمدنی کا آج بھی بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے ۔
وزراء اور مشیروں کے بھاری بھرکم ماہانہ مشاہروں اور دیگر پْرکشش مراعات میں کم ازکم پچاس فی صد کٹوتی کرنے کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ملک ماہانہ بنیاد پر ان خطیر اور شاہانہ اخراجات کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا۔ وفاقی کابینہ میں عمومی طور پر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج نظر آتی ہے جو ملکی خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ ڈالتی ہے۔ وزراء اور سرکاری افسران و ملازمین غیر ضروری طور پر بیرونی دورے کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جن پر غریب اور مقروض قوم کے کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
اس رحجان پر بھی قدغن لگانے کی ضرورت ہے، صرف وہ غیر ملکی دورے کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور جو ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہوں۔ حکمراں طبقے کے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے پر بھی سختی سے پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
حکمران طبقے پر لازم کیا جائے کہ وہ اگر بیرون ملک علاج کرانا چاہتا ہے تو اپنے خرچ پر کرائے ، ریاست اس پر پیسے نہیں خرچ سکتی ہے۔ اسی طرح سرکاری خرچ پر ہر سال لاؤ لشکر کے ساتھ حج و عمرہ کی ''سعادت'' حاصل کرنے کا بھی سد باب ہونا چاہیے۔ جسے بھی حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنا ہے، وہ اپنے خرچ پر کرے۔ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی بلا تاخیر کی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ دور حکومت کی بات کریں تو حقیقت یہی ہے کہ قرض نہ لینے کا نعرہ لے کر اقتدار میں آنے کے باوجود پچھلے تمام ادوار سے زیادہ قرض لیا گیا اور حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے دور میں جتنی تیزی سے معاشی تنزلی ہوئی اس کی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
اس سب کے باوجود ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا بل شاید وہ واحد ایجنڈا تھا جسے تمام جماعتوں نے بغیر کسی حیل و حجت اور اعتراض کے پا س کر لیا ، یعنی ہم ذاتی مفادات کے حصول کے لیے تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن قومی مفادات کے لیے نہیں۔ چیزوں کے نرخ جس تیزی سے رو ز کے روز بڑھے اس کا سلسلہ اب تک تھمنے میں ہی نہیں آ رہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ یہی صورت حال اب موجودہ حکومت کو بھی درپیش ہے کہ کوئی چیز کسی کے کنٹرول میں ہی نہیں رہی اور عام آدمی ہے کہ اس چکی میں پس کر رہ گیا ہے ، جس طرح سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں۔
اس وقت بڑے تاجر وہی کام کرنے میں لگے ہیں۔ اپنے بھرے ہوئے گوداموں میں ڈالر کے ریٹ کی تبدیلی کا بہانہ بنا کر روز نیا ریٹ نکالتے ہیں اور چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے کام کرنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ ملکی سیاسی گہما گہمی اور جلسوں کو دیکھیں تو آپ کو کروڑوں روپے کے اخراجات کیے جارہے ہیں۔
عمران خان جلسوں سے خطاب کے لیے صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں ' دوسری جانب خیبر پختون خوا کے جنگلوں میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت نے ہیلی کاپٹر فراہم نہیں کیا۔ اسی طرح وزیراعظم یا وزراء اگر مسلم لیگ ن کے سیاسی جلسے میں شرکت کرتے ہیں تو انھیں بھی سرکاری گاڑی یا ہیلی کاپڑ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اہل سیاست کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روش کو بدلیں اور مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکالیں ، اس بات کا تہیہ کر لیں کہ معیشت اور مہنگائی پر سیاست نہیں کرنی، بلکہ اسے ایک قومی اور اجتماعی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا ہے۔ قوموں کی آزادی اُن کی معاشی خود مختاری سے جڑی ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کر کے ایسے فیصلے کرے جو ہمیں کی اس معاشی غلامی سے نجات دلائیں۔
شروع دن سے ہی عالمی مالیاتی اداروں نے جو پالیسی دی ، پاکستان کے حکمرانوں نے اسے نافذ کردیا۔عالمی اسٹرٹیجک صف بندی میں بھی جدھر امریکا، مغربی یورپ نے اشارہ کیا، ہمارے حکمران اس صف میں شامل ہوگئے ۔سندھ طاس معاہدہ ہو، منگلہ ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر ہو، عالمی بینک کی مدد شامل رہی ہے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہماری کسی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں رہا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز نے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے مغربی کلچر کا انتخاب کیا۔یوں ملک میں ایک ایسا طبقہ پروان چڑھا جو ریاستی مراعات کے باعث خوشحال ہوا۔
ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ملک کے لیے ایک معاشی پالیسی فراہم نہیں کرسکے ' صرف وقت گزاری کے لیے مالیاتی پالیسیوں کا کمزور ترین سہارا لیا گیا ' یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ' اس وقت موجودہ حکومت کا سارا زور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط جاری کرانے پر صرف ہو رہا ہے جس کے بغیر حالات کے سنبھلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صرف ایک ہفتے کے دوران ساٹھ روپے فی لیٹر بڑھ چکی ہے ' جب کہ مزید اضافے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کا بغور جائزہ لیں تو یہاں بھی خرابی ہمارے پالیسی سازوں میں ہی نظر آتی ہے ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول و ڈیزل کے نرخ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ پیداواری لاگت میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے، بین الاقوامی سرمایہ کار ہماری طرف اس لیے رخ نہیں کرتے کہ ایک تو ہمارا سرکاری نظام شفاف نہیں اور قدم قدم پرکرپشن اورکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسرا سیاسی بے یقینی کی فضا ہے ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارا نظام انھیں تحفظ کا احساس نہیں دے پاتا۔ پیداواری لاگت میں اضافہ بھی پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری برآمدات درآمدات سے بڑھ نہیں پا رہیں یا یہ کہیے کہ ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں نہیں۔
ایک اور پہلو جس نے ہمیں عالمی سطح پر مقروض قوم بنا کر رکھ دیا ہے، وہ ہمارا قومی لائف اسٹائل ہے۔ قرض کی مے پیتے پیتے ہم اس خمار میں مبتلا رہے ہیں کہ کسی دن ہماری یہ فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ حکومتی اور معاشرتی سطح پر ہم نے سادہ طرزِ زندگی کو عرصہ ہوا خیرباد کہہ دیا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ یا پھر حکومت جب تک وہ اپنی آمدنی کو اخراجات سے زیادہ نہیں کرتی، کبھی مطمئن زندگی نہیں گزار سکتی، ہماری حکومتوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا کہ اپنے اخراجات کیسے کم کریں۔
سرکاری افسروں کو گاڑی دینے کی پالیسی ملکی معیشت پر بوجھ بن چکی ہے' ریاستی اداروں کے سربراہان اور افسر سرکاری گاڑی اور پٹرول کا استعمال '' مال مفت دل بے رحم'' کے مصداق کرتے ہیں۔ افسران کی اولاد سرکاری گاڑیوں میں اپنے تعلیمی اداروں میں آتی جاتی ہے ' بیگمات رات گئے تک شاپنگ کرتی ہیں ' تو بھی گاڑی اور ڈرائیور سرکاری ہوتا ہے ۔ نوکر شاہی کوگاڑیاں اور پٹرول کی سہولت دینے کے بجائے انھیں صرف پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مہیا کی جائے۔
صاحب دفتر میں ہوں اور انھیں کسی سرکاری کام کے لیے جانا ہوتو سرکاری گاڑی اور ڈرائیور انھیں لے جائے اور واپس دفتر لے آئے۔دفتری اوقات ختم ہوجائیں تو گاڑی سرکاری پارکنگ میں کھڑی کردی جائے۔اس طرح ہزاروں لیٹر پٹرول کی بچت ہوگی۔ ایک عام آدمی جس کی ماہانہ تنخواہ بمشکل تیس ہزار روپے ہے ' اس کے لیے پٹرول دو سو دس روپے فی لٹر ہے ' نوکرشاہی دو سو یا چار سو لیٹر مفت استعمال کرے تو یہ غریب ملک کے ٹیکس پیئرز اور غریب عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے جس بے دریغ استعمال کرکے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی بہتات ' پھر ان کی مرمت وغیرہ اور سرکاری افسران کے لیے دیگر مراعات نوکرشاہی کے شاہانہ زندگی کی مثال ہے حالانکہ ہمارے پاس اُس کے لیے وسائل موجود نہیں ، ادھر معاشرے میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔معاشرتی اسٹیٹس کی دوڑ شروع ہوئی تو قرض لے کر گاڑی لینے کا خبط سوار ہوگیا ، حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ جس کی وجہ ملک میں سرکاری ٹرانسپورٹ ختم ہوگئی، اس کی وجہ مڈل کلاس نے مجبوراً گاڑیاں خریدنا شروع کردیں۔
آج ہمارے معاشرے سے سائیکل غائب ہو گئی ہے' اُس کی جگہ موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں نے لے لی ہے۔ سادگی اوپر سے نیچے تک آتی ہے ، ہماری ایلیٹ کلاس نے اپنے لائف اسٹائل میں یورپ اور امریکا کے شہریوں کو بھی مات دے رکھی ہے۔ ہماری پوش آبادیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں مگر اس رفتار سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ ہمارے ٹیکسوں کی آمدنی کا آج بھی بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے ۔
وزراء اور مشیروں کے بھاری بھرکم ماہانہ مشاہروں اور دیگر پْرکشش مراعات میں کم ازکم پچاس فی صد کٹوتی کرنے کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ملک ماہانہ بنیاد پر ان خطیر اور شاہانہ اخراجات کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا۔ وفاقی کابینہ میں عمومی طور پر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج نظر آتی ہے جو ملکی خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ ڈالتی ہے۔ وزراء اور سرکاری افسران و ملازمین غیر ضروری طور پر بیرونی دورے کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جن پر غریب اور مقروض قوم کے کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
اس رحجان پر بھی قدغن لگانے کی ضرورت ہے، صرف وہ غیر ملکی دورے کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور جو ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہوں۔ حکمراں طبقے کے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے پر بھی سختی سے پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
حکمران طبقے پر لازم کیا جائے کہ وہ اگر بیرون ملک علاج کرانا چاہتا ہے تو اپنے خرچ پر کرائے ، ریاست اس پر پیسے نہیں خرچ سکتی ہے۔ اسی طرح سرکاری خرچ پر ہر سال لاؤ لشکر کے ساتھ حج و عمرہ کی ''سعادت'' حاصل کرنے کا بھی سد باب ہونا چاہیے۔ جسے بھی حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنا ہے، وہ اپنے خرچ پر کرے۔ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی بلا تاخیر کی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ دور حکومت کی بات کریں تو حقیقت یہی ہے کہ قرض نہ لینے کا نعرہ لے کر اقتدار میں آنے کے باوجود پچھلے تمام ادوار سے زیادہ قرض لیا گیا اور حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے دور میں جتنی تیزی سے معاشی تنزلی ہوئی اس کی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
اس سب کے باوجود ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا بل شاید وہ واحد ایجنڈا تھا جسے تمام جماعتوں نے بغیر کسی حیل و حجت اور اعتراض کے پا س کر لیا ، یعنی ہم ذاتی مفادات کے حصول کے لیے تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن قومی مفادات کے لیے نہیں۔ چیزوں کے نرخ جس تیزی سے رو ز کے روز بڑھے اس کا سلسلہ اب تک تھمنے میں ہی نہیں آ رہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ یہی صورت حال اب موجودہ حکومت کو بھی درپیش ہے کہ کوئی چیز کسی کے کنٹرول میں ہی نہیں رہی اور عام آدمی ہے کہ اس چکی میں پس کر رہ گیا ہے ، جس طرح سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں۔
اس وقت بڑے تاجر وہی کام کرنے میں لگے ہیں۔ اپنے بھرے ہوئے گوداموں میں ڈالر کے ریٹ کی تبدیلی کا بہانہ بنا کر روز نیا ریٹ نکالتے ہیں اور چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے کام کرنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ ملکی سیاسی گہما گہمی اور جلسوں کو دیکھیں تو آپ کو کروڑوں روپے کے اخراجات کیے جارہے ہیں۔
عمران خان جلسوں سے خطاب کے لیے صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں ' دوسری جانب خیبر پختون خوا کے جنگلوں میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت نے ہیلی کاپٹر فراہم نہیں کیا۔ اسی طرح وزیراعظم یا وزراء اگر مسلم لیگ ن کے سیاسی جلسے میں شرکت کرتے ہیں تو انھیں بھی سرکاری گاڑی یا ہیلی کاپڑ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اہل سیاست کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روش کو بدلیں اور مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکالیں ، اس بات کا تہیہ کر لیں کہ معیشت اور مہنگائی پر سیاست نہیں کرنی، بلکہ اسے ایک قومی اور اجتماعی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا ہے۔ قوموں کی آزادی اُن کی معاشی خود مختاری سے جڑی ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کر کے ایسے فیصلے کرے جو ہمیں کی اس معاشی غلامی سے نجات دلائیں۔