کفایت شعاری اور قانون کی عملداری
حکومت نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو فیصلے کیے ہیں، وہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے
پاکستان میں سرکار کفایت شعاری کے مشن پر گامزن ہے۔ملک چونکہ معاشی و مالیاتی مشکلات کا شکار ہے، اس لیے اب قومی خزانے کے بل بوتے پر شاہ خرچیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے وزیراعظم میاں شہباز شریف کفایت شعاری کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی چند فیصلے کیے ہیں اور مزید فیصلے کرنے کی بات کی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ہفتے کی چھٹی بھی بحال کردی ہے، کابینہ ارکان اور سرکاری عہدیداروں کے ایندھن کے کوٹے میں40 فیصد کٹوتی بھی کر دی ہے جب کہ سرکاری استعمال کے لیے ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری، سرکاری حکام کے بیرون ملک علاج و معالجے اور دفاتر میں لنچ ، ڈنر اور ہائی ٹیز پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔
جمعہ کو گھر سے کام کرنے کی تجویز دی گئی جس کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ شاپنگ مالز اور کاروباری مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کی تجویز پر بھی غور ہوا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے دیگر وزرا قمر زمان کائرہ،امین الحق اور مولانا اسعد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اخبار نویسوں کو آگاہ کیا اور ان کے سوالوں کے جواب دیے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کو بجلی کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی ہے، ان دنوں ملک کو غیر معمولی ہیٹ ویو کا سامنا ہے، ہفتے کی چھٹی بحال ہونے کی وجہ سے سالانہ 38کروڑ 60لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی اور درآمدی بل پر77 ارب روپے کا اثر پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ متبادل اسٹریٹ لائٹس بند کرنے کی تجویز پر بھی گفتگو ہوئی اور صوبائی، بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس کو یقینی بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ کاروباری مراکز جلد بند کرنے کی تجویز پر تاجروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔سرکاری اجلاسوں کو زیادہ سے زیادہ ورچوئل اور ڈیجیٹل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے رضاکارانہ طور پر اپنی اور وفاقی وزرا کو مہیا سیکیورٹی گاڑیوں میں 50 فیصد کمی کر دی ہے، تمام اقسام کی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی البتہ ایمبولینسز، اسکول بس، کچرا اٹھانے والی گاڑیوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ کابینہ نے نئی بھرتیوں اور سرکاری دفاتر کے لیے فرنیچر کی خریداری پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ،گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل کی بچت اور کارکردگی بڑھانے کے لیے صوبائی حکومتیں سال میں 2 مرتبہ گاڑیوں کی لازمی ٹیوننگ کے نوٹیفکیشن جاری کریںگی۔
سرکاری دفاتر کے لیے مشینوں بشمول ایئرکنڈیشنر، مائیکرو ویو، فریج، فوٹو کاپی مشین اور دیگر اشیاء کی خریداری پر بھی پابندی ہوگی، بیرون ملک سے آئے وفود کے علاوہ تمام سرکاری دعوتوں، سرکاری دفاتر کے لیے اخبارات، میگزین اور رسالوں کی خریداری پر پابندی کر دی گئی۔ بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات میں 10 فیصد کمی کی گئی ہے،غیر ضروری اسامیاں ختم کی جائیں گی۔
وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا، اگر حکومت اور اتحادی جماعتیں مل کر فوری طور پر پٹرول ، ڈیزل اور بجلی وغیرہ کی قیمتیں کم کر کے الیکشن کی طرف چلے جاتیں تو عوام کی نظروں میں بہتر حکمت عملی نظر آتی لیکن ہم نے طویل المدتی فیصلے کیے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر ہو سکے۔ حکومت مستقل معاشی پلان دینے جا رہی ہے۔
مشیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت پٹرول پرٹارگٹڈ سبسڈی کی جانب جا رہی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک موٹر سائیکل والے کو سبسڈی دی جائے تو ایک لینڈ کروزر والا بھی وہی سبسڈی لے۔ مشکل صورتحال میں مشکل اور غیر مقبول فیصلوں سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ انھوں نے واضح کیا کہ تیل پر سبسڈی سے ابتدائی طور پر بے نظیر انکم اسپورٹس کے اعداد وشمار کے مطابق 90 لاکھ افراد مستفید ہوں گے جب کہ اس میں مزید 60 لاکھ کا اضافہ کریں گے۔
کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے سرکاری ملازمین کو پٹرول الاؤنس کے ساتھ گاڑیوں کے استعمال پر اظہارِ برہمی کیا، انھوں نے حکم دیا کہ سرکاری ملازمین سے گاڑیاں یا الائونس واپس لیا جائے۔ مریم اورنگزیب نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جن افرادکی ماہانہ آمدن40ہزار روپے سے کم ہے، وہ 786پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر کے سستا پٹرول ،ڈیزل اسکیم میں رجسٹریشن کرائیں۔
حکومت نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو فیصلے کیے ہیں، وہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جانی چاہیے ۔ پارلیمان سے قانون منظور ہونے کے بعد یہ فیصلے باقاعدہ آئینی حیثیت اختیار کرجائیں گے۔
ایک جانب حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف ملک میں افواہ سازی بھی زوروں پر ہے۔منگل کوپٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔اس افواہ نے ملک بھر میں افراتفری پھیلا دی۔کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں سہ پہر کو پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگنا شروع ہوگئیں۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے بیانات بھی جاری کیے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا کوئی اعلان یا فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن ملک کے خوشحال اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے گاڑیوں کے مالکان نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور گھروں میں کھڑی گاڑیوں کو نکال کرکے پیٹرول پمپ پر جا پہنچے اور وہاں لائن میں لگ گئے ، پٹرول پمپس پر گاڑیوں کا اژدہام ہوگیا جس سے اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔
افراتفری کی یہ صورتحال رات گئے تک جاری رہی ۔ لینڈ کروز سے لے کر چھوٹی گاڑیوں تک پٹرول پمپس تک پہنچ گئیں، شہریوں نے ضرورت سے زائد پٹرول کی خریداری کی اور گاڑیوں کی ٹنکیاں فل کرالیں جس سے متعد پٹرول پمپس پر پٹرول کا اسٹاک ختم ہوگیا۔
پٹرول پمپس پر افراتفری اور گاڑیوں کی طویل قطاریں پاکستان کے خوشحال اور درمیانے طبقے کے مائنڈ سیٹ اور ان کی ذہانت کے لیول کو آشکار کرتی ہیں۔پٹرول پمپس پر موٹر سائیکلز اور رکشے کم جب کہ چمچماتی گاڑیاں زیادہ تھیں۔ لگژری اور چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھے ''صاحب'' اور ڈرائیورز اسٹارٹ گاڑی میں اے سی آن کیے گھنٹوں لائن میں لگے رہے حالانکہ پٹرول کی کوئی ایمرجنسی نہیں تھی،ضرورت سے زیادہ پٹرول ڈلواتے رہے حالانکہ یہ سارے لوگ خود کو مہذب اور پڑھے لکھے کہلاتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، جس ملک کے خوشحال اور درمیانے طبقے کی یہ حالت ہو، اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملک کا تعلیمی سسٹم اور نصاب انتہائی ناقص ہے ، خصوصاً مہنگے نجی تعلیمی ادارے نوجوانوں میں نظم وضبط، صبر و برداشت،ایثار و اخلاص جیسے ضروری اوصاف پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔
اس کی دوسری مثال پنجاب میں فلور ملز مالکان کی ہڑتال ہے ۔ فلور ملز مالکان کا تعلق امیر ترین طبقے سے ہے ۔سرکار ہر فلور ملز کو سبسڈی کے ساتھ گندم کا مقررہ کوٹا مہیا کرتی ہے ۔ سب کو پتہ ہے کہ پنجاب کے بعض اضلاع میں قائم فلور ملز کا کوٹا ضلع کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان سے گندم، آٹا افغانستان اور ایران تک اسمگل ہوتا ہے۔
اب پنجاب میں فلور ملز نے جواز یہ بتایا ہے کہ فلور ملوں میں چھاپوں، گرفتاریوں اور گندم پر قبضے کے خلاف ہڑتال کی ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے آٹا کی ترسیل کا 30 سالہ ''آٹا ڈیلرز سپلائی نظام'' ختم کردیا گیا ہے، جس پر فلور ملز مالکان کی ہڑتال کے بعد فلور ڈیلرز ایسوسی ایشن بھی ہڑتال پر چلی گئی۔ فلور ملز مالکان کا مطالبہ ہے کہ سرکاری انتظامیہ فلور ملز میں چھاپے اور گرفتاریاں و مقدمات کا سلسلہ بند کرے۔ ہر فلور مل کو چور کہنا یا سمجھنا بیورو کریسی اور حکومت کی غلطی ہے۔
یہ موقف بالکل درست ہے، ہر فلور ملز ہیرا پھیری میں ملوث نہیں ہوتی البتہ یہ بھی سچ ہے کہ کہیں نہ کہیں ہوتی بھی ہے۔ نوکرشاہی کو ذرا سا اختیار ملے تو زیادہ وہ خود بنالیتی ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کو بیوروکریسی سے بھی قانون کے مطابق فرائض ادا کرانا ہے اور فلور ملز مالکان کو قانون وضوابط کا پابند بنانا ہے کیونکہ ریاست اور آئین عوام کے نام پر قائم ہوتے ہیں اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی ریاست اور حکومت کی پہلی اور بنیادی ڈیوٹی ہے ۔ملک میں مہنگائی اور افراط زر بہت زیادہ ہے۔
ان مشکل حالات میں کاروباری طبقے کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے جنون سے باہر نکل کر قانون کو فالو کرنا چاہیے اور اسی طرح پارلیمنٹیرینز اور سرکاری افسروں کو بھی قانون کو ہی فالو کرنا چاہیے۔ قانون سے تجاوز سرکاری ملازم کرے یا کاروباری طبقہ دونوں کے لیے غلط ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی چند فیصلے کیے ہیں اور مزید فیصلے کرنے کی بات کی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ہفتے کی چھٹی بھی بحال کردی ہے، کابینہ ارکان اور سرکاری عہدیداروں کے ایندھن کے کوٹے میں40 فیصد کٹوتی بھی کر دی ہے جب کہ سرکاری استعمال کے لیے ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری، سرکاری حکام کے بیرون ملک علاج و معالجے اور دفاتر میں لنچ ، ڈنر اور ہائی ٹیز پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔
جمعہ کو گھر سے کام کرنے کی تجویز دی گئی جس کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ شاپنگ مالز اور کاروباری مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کی تجویز پر بھی غور ہوا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے دیگر وزرا قمر زمان کائرہ،امین الحق اور مولانا اسعد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اخبار نویسوں کو آگاہ کیا اور ان کے سوالوں کے جواب دیے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کو بجلی کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی ہے، ان دنوں ملک کو غیر معمولی ہیٹ ویو کا سامنا ہے، ہفتے کی چھٹی بحال ہونے کی وجہ سے سالانہ 38کروڑ 60لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی اور درآمدی بل پر77 ارب روپے کا اثر پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ متبادل اسٹریٹ لائٹس بند کرنے کی تجویز پر بھی گفتگو ہوئی اور صوبائی، بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس کو یقینی بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ کاروباری مراکز جلد بند کرنے کی تجویز پر تاجروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔سرکاری اجلاسوں کو زیادہ سے زیادہ ورچوئل اور ڈیجیٹل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے رضاکارانہ طور پر اپنی اور وفاقی وزرا کو مہیا سیکیورٹی گاڑیوں میں 50 فیصد کمی کر دی ہے، تمام اقسام کی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی البتہ ایمبولینسز، اسکول بس، کچرا اٹھانے والی گاڑیوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ کابینہ نے نئی بھرتیوں اور سرکاری دفاتر کے لیے فرنیچر کی خریداری پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ،گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل کی بچت اور کارکردگی بڑھانے کے لیے صوبائی حکومتیں سال میں 2 مرتبہ گاڑیوں کی لازمی ٹیوننگ کے نوٹیفکیشن جاری کریںگی۔
سرکاری دفاتر کے لیے مشینوں بشمول ایئرکنڈیشنر، مائیکرو ویو، فریج، فوٹو کاپی مشین اور دیگر اشیاء کی خریداری پر بھی پابندی ہوگی، بیرون ملک سے آئے وفود کے علاوہ تمام سرکاری دعوتوں، سرکاری دفاتر کے لیے اخبارات، میگزین اور رسالوں کی خریداری پر پابندی کر دی گئی۔ بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات میں 10 فیصد کمی کی گئی ہے،غیر ضروری اسامیاں ختم کی جائیں گی۔
وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا، اگر حکومت اور اتحادی جماعتیں مل کر فوری طور پر پٹرول ، ڈیزل اور بجلی وغیرہ کی قیمتیں کم کر کے الیکشن کی طرف چلے جاتیں تو عوام کی نظروں میں بہتر حکمت عملی نظر آتی لیکن ہم نے طویل المدتی فیصلے کیے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر ہو سکے۔ حکومت مستقل معاشی پلان دینے جا رہی ہے۔
مشیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت پٹرول پرٹارگٹڈ سبسڈی کی جانب جا رہی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک موٹر سائیکل والے کو سبسڈی دی جائے تو ایک لینڈ کروزر والا بھی وہی سبسڈی لے۔ مشکل صورتحال میں مشکل اور غیر مقبول فیصلوں سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ انھوں نے واضح کیا کہ تیل پر سبسڈی سے ابتدائی طور پر بے نظیر انکم اسپورٹس کے اعداد وشمار کے مطابق 90 لاکھ افراد مستفید ہوں گے جب کہ اس میں مزید 60 لاکھ کا اضافہ کریں گے۔
کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے سرکاری ملازمین کو پٹرول الاؤنس کے ساتھ گاڑیوں کے استعمال پر اظہارِ برہمی کیا، انھوں نے حکم دیا کہ سرکاری ملازمین سے گاڑیاں یا الائونس واپس لیا جائے۔ مریم اورنگزیب نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جن افرادکی ماہانہ آمدن40ہزار روپے سے کم ہے، وہ 786پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر کے سستا پٹرول ،ڈیزل اسکیم میں رجسٹریشن کرائیں۔
حکومت نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو فیصلے کیے ہیں، وہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جانی چاہیے ۔ پارلیمان سے قانون منظور ہونے کے بعد یہ فیصلے باقاعدہ آئینی حیثیت اختیار کرجائیں گے۔
ایک جانب حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف ملک میں افواہ سازی بھی زوروں پر ہے۔منگل کوپٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔اس افواہ نے ملک بھر میں افراتفری پھیلا دی۔کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں سہ پہر کو پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگنا شروع ہوگئیں۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے بیانات بھی جاری کیے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا کوئی اعلان یا فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن ملک کے خوشحال اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے گاڑیوں کے مالکان نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور گھروں میں کھڑی گاڑیوں کو نکال کرکے پیٹرول پمپ پر جا پہنچے اور وہاں لائن میں لگ گئے ، پٹرول پمپس پر گاڑیوں کا اژدہام ہوگیا جس سے اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔
افراتفری کی یہ صورتحال رات گئے تک جاری رہی ۔ لینڈ کروز سے لے کر چھوٹی گاڑیوں تک پٹرول پمپس تک پہنچ گئیں، شہریوں نے ضرورت سے زائد پٹرول کی خریداری کی اور گاڑیوں کی ٹنکیاں فل کرالیں جس سے متعد پٹرول پمپس پر پٹرول کا اسٹاک ختم ہوگیا۔
پٹرول پمپس پر افراتفری اور گاڑیوں کی طویل قطاریں پاکستان کے خوشحال اور درمیانے طبقے کے مائنڈ سیٹ اور ان کی ذہانت کے لیول کو آشکار کرتی ہیں۔پٹرول پمپس پر موٹر سائیکلز اور رکشے کم جب کہ چمچماتی گاڑیاں زیادہ تھیں۔ لگژری اور چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھے ''صاحب'' اور ڈرائیورز اسٹارٹ گاڑی میں اے سی آن کیے گھنٹوں لائن میں لگے رہے حالانکہ پٹرول کی کوئی ایمرجنسی نہیں تھی،ضرورت سے زیادہ پٹرول ڈلواتے رہے حالانکہ یہ سارے لوگ خود کو مہذب اور پڑھے لکھے کہلاتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، جس ملک کے خوشحال اور درمیانے طبقے کی یہ حالت ہو، اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملک کا تعلیمی سسٹم اور نصاب انتہائی ناقص ہے ، خصوصاً مہنگے نجی تعلیمی ادارے نوجوانوں میں نظم وضبط، صبر و برداشت،ایثار و اخلاص جیسے ضروری اوصاف پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔
اس کی دوسری مثال پنجاب میں فلور ملز مالکان کی ہڑتال ہے ۔ فلور ملز مالکان کا تعلق امیر ترین طبقے سے ہے ۔سرکار ہر فلور ملز کو سبسڈی کے ساتھ گندم کا مقررہ کوٹا مہیا کرتی ہے ۔ سب کو پتہ ہے کہ پنجاب کے بعض اضلاع میں قائم فلور ملز کا کوٹا ضلع کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان سے گندم، آٹا افغانستان اور ایران تک اسمگل ہوتا ہے۔
اب پنجاب میں فلور ملز نے جواز یہ بتایا ہے کہ فلور ملوں میں چھاپوں، گرفتاریوں اور گندم پر قبضے کے خلاف ہڑتال کی ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے آٹا کی ترسیل کا 30 سالہ ''آٹا ڈیلرز سپلائی نظام'' ختم کردیا گیا ہے، جس پر فلور ملز مالکان کی ہڑتال کے بعد فلور ڈیلرز ایسوسی ایشن بھی ہڑتال پر چلی گئی۔ فلور ملز مالکان کا مطالبہ ہے کہ سرکاری انتظامیہ فلور ملز میں چھاپے اور گرفتاریاں و مقدمات کا سلسلہ بند کرے۔ ہر فلور مل کو چور کہنا یا سمجھنا بیورو کریسی اور حکومت کی غلطی ہے۔
یہ موقف بالکل درست ہے، ہر فلور ملز ہیرا پھیری میں ملوث نہیں ہوتی البتہ یہ بھی سچ ہے کہ کہیں نہ کہیں ہوتی بھی ہے۔ نوکرشاہی کو ذرا سا اختیار ملے تو زیادہ وہ خود بنالیتی ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کو بیوروکریسی سے بھی قانون کے مطابق فرائض ادا کرانا ہے اور فلور ملز مالکان کو قانون وضوابط کا پابند بنانا ہے کیونکہ ریاست اور آئین عوام کے نام پر قائم ہوتے ہیں اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی ریاست اور حکومت کی پہلی اور بنیادی ڈیوٹی ہے ۔ملک میں مہنگائی اور افراط زر بہت زیادہ ہے۔
ان مشکل حالات میں کاروباری طبقے کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے جنون سے باہر نکل کر قانون کو فالو کرنا چاہیے اور اسی طرح پارلیمنٹیرینز اور سرکاری افسروں کو بھی قانون کو ہی فالو کرنا چاہیے۔ قانون سے تجاوز سرکاری ملازم کرے یا کاروباری طبقہ دونوں کے لیے غلط ہے۔