سارے رنگ
جو بوٹیاں اپنے آپ آئیں آنے دو۔۔۔
MULTAN:
''اللہ نہ کرے۔۔۔!''
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
یہ گذشتہ دنوں کی ایک حَبس زدہ سی صبح تھی، ہم دفتر آنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے، تو کالونی کے بس اسٹاپ سے ذرا ہی وَرے، ہمیں 'مبشر کے ابو' پسینے میں شرابور پیدل آتے ہوئے دکھائی دیے۔۔۔ ہم نے انھیں دیکھ کر اپنی رفتار دھیمی کی اور علیک سلیک کی، حال چال پوچھے۔
انھوں نے ہماری بے تکلفی دیکھی، تو کچھ پہچانے نہیں اور ہمارے تعارف کے خواہاں ہوئے، ہم نے بتایا کہ انکل، ہم دراصل مبشر کے ساتھ پڑھتے تھے، تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ارے بھئی، پھر تو تم ہمارے ہی بچے ہو اور جوابی رسمی گفتگو کی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں کالونی آگئے ہیں۔۔۔؟ تو وہ بے ساختہ بولے ''اللہ نہ کرے۔۔۔! میں تو یہاں فلاں چیز لینے آیا تھا۔''
ہمیں یوں محسوس ہوا کہ ہم نے ان سے کسی بہت بری جگہ کا پوچھ لیا۔ ارے بھئی، یہ ''اللہ نہ کرے۔۔۔!'' سے کیا مراد ہے۔ کیا یہاں انسان نہیں رہتے۔۔؟ یا یہاں کے لوگ بہت برے اور خراب ہیں۔۔۔؟ اور کیا آپ ابھی خود 12، 15 برس پہلے تک یہاں نہیں رہتے تھے، بقول آپ کے آپ نے اپنا پورا بچپن اور جوانی یہاں گزار دی۔۔۔ تو اب اپنی ہی جنم بھومی سے ایسی بیزاری اور لاتعلقی چہ معنی دارد۔۔۔؟
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ ہمارا کیسا رویہ ہے کہ ہم زندگی میں جب ایک دو سیڑھی آگے بڑھ جاتے ہیں، فوراً اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اپنے چھوٹے سے گھر، بارش میں ٹپکتی ہوئی چھت، پرانے محلے اور اس کی پتلی گلی تک سبھی کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔ نہ صرف بھول جاتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے 'تبدیل شدہ' ان جذبات کا اظہار اسی جگہ کے مکین کے سامنے ہی کر رہے ہیں۔
ہم نے مبشر کے ابو سے تو کچھ نہ کہا، لیکن دفتر آنے کے بعد دیر تک یہ سوچتے رہے کہ فطرت نے یہ حضرت انسان میں کیسی کیسی 'خوبیاں' رکھ چھوڑی ہیں۔ یہ بہت جلد اپنی اصلیت، اپنی پچھلی زندگی کی کٹھنائیاں، مشکلات اور دشواریاں نہ صرف بھول جاتا ہے، بلکہ پھر اپنی ہی پرانی حیثیت کے لوگوں کے سامنے گردن اکڑائے پھرتا ہے۔
ایسے ہی ایک اور صاحب تھے، جو اب بہت بڑے آدمی تھے، لیکن ان کا بچپن ایک بہت معمولی سے گھر میں گزرا تھا۔ کسی بھی محفل میں جب پرانی باتوں کا ذکر چھڑ جاتا تھا اور بات جب پرانی گلی، اور اُسی چھوٹے سے گھر والے محلے میں پہنچتی تھی، وہ یک دم موضوع پلٹ دیتے تھے۔ جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ انھیں یوں سرِعام اپنے اُس پس ماندہ ماضی کو یاد کرنا اچھا نہیں لگتا، حالاں کہ وہاں موجود سبھی لوگ اس ماضی سے واقف ہوتے تھے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'جب آپ کچھ بن جائیں اور تب بھی نہ صرف اپنے اُن دنوں کا ذکر کریں، کہ جب آپ کچھ بھی نہ تھے، یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔' واقعی، یہ ظرف اور گنجائش بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ ترقی کرنے کے بعد ہم اپنے پچھلے ہم سایوں، پچھلے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی اسی طرح ملیں کہ جیسے ہم پہلے ملتے تھے۔ بلکہ سب کو یہ بھی بتا سکیں کہ ہمارا ماضی بھی یہی تھا۔
ہم ایک درجہ اوپر چڑھتے ہی اپنے آپ کو ایسا طُرّم خان سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے ہم ہمیشہ سے ہی ایسے 'ترقی یافتہ' اور رئیس تھے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں ہے، ہم خود نیچے سے اوپر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم نے چند برسوں پہلے ہی ایک گھر سے دوسرا گھر لیا ہوا ہوتا ہے، ہمیں کرائے کے مکان سے اپنا مکان بنائے ابھی کچھ ہی وقت بیتتا ہے کہ ہم بدل جاتے ہیں اور کوئی اگر اَن جانے میں یہ پوچھ بیٹھے کہ کیا آپ دوبارہ یہاں رہنے لگے ہیں؟ تو آپ ناپسندیگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''اللہ نہ کرے۔۔۔!''
۔۔۔
جو بوٹیاں اپنے آپ آئیں آنے دو۔۔۔
عبدالرحمٰن
سخن فہمی عالم بالا معلوم، یہ مثل بھی فارسی کی ہے، مگر اردو میں بولی جاتی ہے۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ فلاں کی سمجھ بُوجھ کا اندازہ ہوگیا کہ کچھ بھی نہیں۔ یہ محض خیال ہی خیال تھا کہ وہ بڑے دانش مند ہیں۔ عقل و تمیز میں بے بدل ہیں، مگر دھول ہیں۔ پول ہی نِکلا، کہتے ہیں یہ فقرہ ایک شاعر کی زبان سے نِکلا۔ چُست و برمحل تھا۔ ضرب المثل ہوگیا۔۔۔ شعرا اپنے آپ کو تلامیدالرحمٰن کہتے اور سمجھتے آئے ہیں۔ یعنی خدا کے شاگرد۔ اﷲ تعالیٰ سے بے واسطہ غیر فیض پانے والے۔ اسی لیے اُستادوں سے ان کی اکثر نہیں بنتی۔ جلدی ہی ان سے بگڑ بیٹھے۔ یا اُن سے مُنکر ہو جاتے ہیں اور اپنے کلام کو صدائے غیب و نوائے سروش تصّور کرنے لگتے ہیں۔ غرض خودبینی، خود پسندی، تعلی و خود نمائی شاعری کا لازمی خاصّہ ہے۔ شاعر عموماً خودپسندی، خود نمائی کے مریض ہوتے ہیں۔
ایسے ہی کوئی جناب تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ فیضی فیاضی کا قصّہ ہے کہ ایک دن اتفاق سے کہیں سعدی کا یہ شعر زبان سے نکل گیا۔ یا کہیں نظر آگیا:
برگ ورختاں سبزورنظر ہوشیار
ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار
شعر کو پڑھا اور مکرر پڑھا۔ غور کیا نکتہ چیں نگاہ میں نہ جچا۔ از معرفت کروگار کی جگہ معرفت کردگار پسند نہ آیا۔ منہ بنایا۔ ناک بھوں چڑھائی۔ مقابلے کا شعر سوچا۔ فکر کی دیر تھی۔ کہ خیال عالم معنی کے عرش پر تھا۔ فوراً شعر ہوا :
ہرگیا ہے کہ از زمین روید
وحدہٰ لاشریک لہ گوید
سمجھے کہ حضرت قدس سے وحی اتری ہے بہت پُھولے بہت اترائے۔ تن کر شعر کو بآواز پڑھا۔ اور بار بار پڑھا اور جُھوم جُھوم کر پڑھا اور اس طرح پڑھا کہ آس پاس کے درودیوار تک سب گونج اٹھے، آپ نے تصّور کرلیا کہ ہر طرف سے صدائے داد تحسین بلند ہوئی ہے، مگر جناب کی تشفی اس سے بھی نہیں ہوئی چاہتے تھے کہ آسمان سے ملائک داد دیں اور ملا اعلیٰ سے سبحان اﷲ اور احسنت کی صدائیں آئیں۔ اسی یقین سے سر اٹھایا کہ داد کی آواز آسمان سے آئے گی ضرور آئے گی۔ اتفاق کی بات آپ کہیں بیٹھے تھے۔ زیر سما اور فضائے آسمانی میں چیلیں اڑ رہی تھیں۔
ادھر سے ان حضرت کا سر نخوت بلند ہوا۔ ادھر سے کسی چیل نے بیٹ کی، وہ پٹ سے ان کے منہ میں پڑی ، بہت جز بز ہوئے بہت بگڑے کہ خیال کیا تھا اور پیش کیا آیا اسی وقت فوراً فرمایا سُخن فہمی عالم بالا معلوم، عالم بالا کی سُخن فہمی معلوم ہوگئی ہم سے پُوچھیے تو خود بینی کی داد خوب ملی۔ ''رو میں روا ہے'' اُردو کی مثل ہے۔ پہلے پہلے کسی مُلّا کی زبان سے نکلی، اور ایسی کوٹھے چڑھی کہ اُردو زبان کی ساری دُنیا میں پھیل گئی۔
قصّہ اس کا یوں ہے کہ کہیں کوئی مُلّاجی رہتے تھے ۔ بہت نیک متقّی پرہیزگار، ہر وقت ہاتھ میں تسبیح، زبان پر قال اﷲ اور قال رسول ۔ محلے میں جہاں رہتے تھے کسی کی مُرغیاں بھی پلی ہوئی تھیں، وہ اکثر مُلاّجی کے گھر میں گھس آتیں، کہیں زمین کُریدتیں، کہیں بیٹ کرتیں، برتنوں اور پانی کے گھڑوں کو خراب کرتیں۔ دال چاول جو کچھ انگنائی میں پاتیں، بکھیرتیں اور کھا جاتیں۔ مُلاّ جی تو دن بھر گھر سے باہر رہتے۔ ان مُرغیوں کا دکھ اٹھانا مُلّانی جی کو، مگر کہاں تک، برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب مُرغیوں سے وہ بہت تنگ آگئیں، تو سوچا ان نامُرادوں کو پکڑ پکڑ کر اور کاٹ کاٹ کر کھانا چاہیے۔
جب کم ہونے لگیں گی، تو ہم سائے آپ بند کر کے رکھیں گے۔ اب جو حسب عادت مُرغیاں دوسرے دن مُلّاجی کے گھر میں آئیں، تو مُلّانی جی نے کپڑا ڈال کر ایک مُرغی کو دبوچ ہی تو لیا اور پھر جھٹ سے اﷲ اکبر کہہ کر اُسے ذبح کر ڈالا، چونچ، پنجے، پَر انگنائی میں گڑھا کھود کر دبائے کہ کوئی دیکھنے نہ پائے اور مرغی کا گوشت بنا، مسالا پیس، جھٹ سے دیگچی پکنے کو چولھے پر چڑھا دی۔
روز مُرغیاں ان کو جلاتی تھیں آج وہ مُرغی بھوننے بیٹھیں تو کلیجہ ٹھنڈا ہوا اور ہنڈیا بڑے اہتمام سے پکی۔ شام کو مُلّاجی گھر میں آئے، تو گھر میں گوشت کی بو باس ہی کچھ اور تھی۔ بیوی سے پوچھا۔ کیوں صاحب آج کیا پکا ہے۔ وہ مسکرا کر بولیں مُرغی یہ سن کر مُلّا جی چونکے اور گھبرا کر بولے ارے کوئی شیخ سدّو کے نام کا تو مُرغا نہیں دے گیا ہے۔ وہ تو حرام اور قطعی حرام ہے۔ بیوی نے کہا۔ ہماری مُرغی بھلا شیخ سدّو کا مُرغا کیوں ہونے لگی ہے۔ کیا میں اتنا بھی نہیں جانتی کہ وہ حرام ہے۔
مُلّاجی: تو پھر یہ مُرغی کہاں سے آئی۔
مُلّانی جی: تو ذرا آہستہ تو بولو۔ محلے کو سر پر کیوں اٹھائے لیتے ہو۔ ہم سائے سُنیں گے۔ اُنھیں کی ایک مُرغی میں نے آج پکڑ لی تھی۔ اُسی کا آج قورمہ پکّا ہے۔
مُلّاجی: ہے ہے۔ توبہ توبہ ، یہ کیا غضب کیا۔ پرایا مال اور پھر ہم سائے کا۔ حرام در حرام، بالکل حرام، یہ تم نے کیا کیا۔ ہم سائے کا بڑا حق ہے۔ تم نے بڑا ستم کیا۔
مُلّانی جی: جی ہاں انہیں کا تو حق ہے۔ وہی ہم سائے ہیں۔ ہم تو ان کے گویا ہم سائے نہیں۔ ہمارا کوئی حق اُن پر کیوں ہونے لگا ہے۔ اُن کا حق ہے کہ اپنی مُرغیاں ہمارے گھر میں چھوڑ جائیں۔ وہ نامُرادیں ہمارا ناک میں دم کر دیں۔ مگر ہم دم نہ ماریں۔
مُلّاجی: تم اپنا دروازہ بند رکھو۔
مُلّانی جی: ہاں ہم اپنا دروازہ بند رکھیں۔ وہ اپنی مُرغیاں بند نہ رکھیں۔ ہمارا دروازہ بند ہی رہنے کے لیے بنا ہے اور ان کی مُرغیاں ہمارے گھر آنے اور ہمیں ستانے کے لیے۔
مُلّاجی: اچھا تم اپنا دروازہ بند نہ رکھو۔ لیکن ان کی مُرغیاں پکڑ کر ان کا قورمہ تو نہ پکائو۔
مُلّانی جی: ہم نے کون سی ان کی دس بیس مُرغیاں پکڑ کر ان کا قورمہ پکا کھایا۔ وہ برسوں ہمارے گھر آئیں اور ہمیں ستاتی تھیں۔ کھرسے، برتن چٹائیاں، چارپائیاں سب خراب اور نجس کرتی تھیں۔ ساری انگنائی میں گڑھے ڈال دیے۔ منوں دال چاول چٹ کرگئیں۔ کیا یہ سب چیزیں ایک دو چار مُرغیوں کے بھی برابر نہیں۔ وہ ہمیں برسوں ستائیں روز ہمارا نقصان کر جائیں، محلے والے بالکل بے گُناہ اور ہم ایک مُرغی پکڑ کر کاٹ لیں، تو گُناہ گار، یہ اچھا انصاف اور خوب مسئلہ ہے۔ اچھا ایسا ہی ہے تو مُرغی نہ کھانا۔ آج چٹنی روٹی ہی سہی۔ ابھی نمک مرچ اور لہسن کی چٹنی پیسے دیتی ہوں۔
مُلّاجی: خوب تم مرغی کا قورمہ کھائو اور ہم چٹنی روٹی، اجی مُرغی پرایا مال ہے۔ تو گھی تو اس میں ہمارے داموں کا پڑا ہے۔ مسالا ہمارا لگا ہے۔ لکڑیاں ہماری جلی ہیں۔ حرام ہیں اس کی بوٹیاں شوربا بنا ہی ہمارے مال کا، وہ ہمارے لیے حلال ہے۔ بس شوربا شوربا ہمیں نکال دو۔ بلکہ انڈیل دو۔ رہی بوٹیاں سو وہ اپنی ستانے والی مرغی کی تم چبائو۔ اب جو مُلّانی جی پیالے میں شوربا انڈیلنے بیٹھیں، تو مُرغی کی بوٹیاں بھی شوربے کے ساتھ ساتھ آنے لگیں۔ مُلّانی جی نے انہیں چمچے سے روکنا چاہا، تو سرخ سرخ بوٹیاں دیکھ کر مُلّا جی کا جی للچایا۔ فرمانے لگے بیوی، جو بوٹی اپنے آپ رو میں آئی ہے، اسے آنے دو۔ رو میں جو آئے، روا ہے۔ یہ سن کر مُلّانی جی کو تو ہنسی آئی اور مُرغی کی بوٹیاں پیالے میں آپڑیں اور مُلّا جی نے شوربا اور بوٹیاں دونوں خوب مزے سے کھائیں اور رو میں روا ہے نے کچھ ایسی قبولیت پائی کہ ایک ضرب المثل ہوگئی۔
صحیح یا جھوٹ یہ مسئلہ تو کسی مُلّا نے اپنے لیے نکالا تھا، لیکن اب بہت سے ناکردہ گناہ بھی اس ضرب المثل کی لیپٹ میں آجاتے ہیں۔
(جنوری 1938ء کے 'ساقی' کا ایک دل چسپ ٹکڑا)
۔۔۔
سب 'رشتے' مطلب پر قائم ہیں!
مرسلہ: عنبر عباسی، کراچی
تم بڑے ہو گے، تو تمھیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمھارا تجربہ بڑھتا جائے گا، یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے۔ تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔ بڑے ہوکر تمھیں معلوم ہوگا زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔
آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے اور روپیا حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔
محبت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ (اگر تم سادہ لوح ہوئے، تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمھارا مذاق اڑائے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے، تو تمھیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔
اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے، تو تمھیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی، تو تمھیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بے وقوف اور فضول خرچ، عمر بھر تمھیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا ہو گے، حتیٰ کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جائو گے۔
یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہوگے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنی اور اور بے سود تھا۔
('حماقتیں' از شفیق الرحمٰن سے چُنا گیا)
''اللہ نہ کرے۔۔۔!''
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
یہ گذشتہ دنوں کی ایک حَبس زدہ سی صبح تھی، ہم دفتر آنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے، تو کالونی کے بس اسٹاپ سے ذرا ہی وَرے، ہمیں 'مبشر کے ابو' پسینے میں شرابور پیدل آتے ہوئے دکھائی دیے۔۔۔ ہم نے انھیں دیکھ کر اپنی رفتار دھیمی کی اور علیک سلیک کی، حال چال پوچھے۔
انھوں نے ہماری بے تکلفی دیکھی، تو کچھ پہچانے نہیں اور ہمارے تعارف کے خواہاں ہوئے، ہم نے بتایا کہ انکل، ہم دراصل مبشر کے ساتھ پڑھتے تھے، تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ارے بھئی، پھر تو تم ہمارے ہی بچے ہو اور جوابی رسمی گفتگو کی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں کالونی آگئے ہیں۔۔۔؟ تو وہ بے ساختہ بولے ''اللہ نہ کرے۔۔۔! میں تو یہاں فلاں چیز لینے آیا تھا۔''
ہمیں یوں محسوس ہوا کہ ہم نے ان سے کسی بہت بری جگہ کا پوچھ لیا۔ ارے بھئی، یہ ''اللہ نہ کرے۔۔۔!'' سے کیا مراد ہے۔ کیا یہاں انسان نہیں رہتے۔۔؟ یا یہاں کے لوگ بہت برے اور خراب ہیں۔۔۔؟ اور کیا آپ ابھی خود 12، 15 برس پہلے تک یہاں نہیں رہتے تھے، بقول آپ کے آپ نے اپنا پورا بچپن اور جوانی یہاں گزار دی۔۔۔ تو اب اپنی ہی جنم بھومی سے ایسی بیزاری اور لاتعلقی چہ معنی دارد۔۔۔؟
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ ہمارا کیسا رویہ ہے کہ ہم زندگی میں جب ایک دو سیڑھی آگے بڑھ جاتے ہیں، فوراً اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اپنے چھوٹے سے گھر، بارش میں ٹپکتی ہوئی چھت، پرانے محلے اور اس کی پتلی گلی تک سبھی کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔ نہ صرف بھول جاتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے 'تبدیل شدہ' ان جذبات کا اظہار اسی جگہ کے مکین کے سامنے ہی کر رہے ہیں۔
ہم نے مبشر کے ابو سے تو کچھ نہ کہا، لیکن دفتر آنے کے بعد دیر تک یہ سوچتے رہے کہ فطرت نے یہ حضرت انسان میں کیسی کیسی 'خوبیاں' رکھ چھوڑی ہیں۔ یہ بہت جلد اپنی اصلیت، اپنی پچھلی زندگی کی کٹھنائیاں، مشکلات اور دشواریاں نہ صرف بھول جاتا ہے، بلکہ پھر اپنی ہی پرانی حیثیت کے لوگوں کے سامنے گردن اکڑائے پھرتا ہے۔
ایسے ہی ایک اور صاحب تھے، جو اب بہت بڑے آدمی تھے، لیکن ان کا بچپن ایک بہت معمولی سے گھر میں گزرا تھا۔ کسی بھی محفل میں جب پرانی باتوں کا ذکر چھڑ جاتا تھا اور بات جب پرانی گلی، اور اُسی چھوٹے سے گھر والے محلے میں پہنچتی تھی، وہ یک دم موضوع پلٹ دیتے تھے۔ جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ انھیں یوں سرِعام اپنے اُس پس ماندہ ماضی کو یاد کرنا اچھا نہیں لگتا، حالاں کہ وہاں موجود سبھی لوگ اس ماضی سے واقف ہوتے تھے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'جب آپ کچھ بن جائیں اور تب بھی نہ صرف اپنے اُن دنوں کا ذکر کریں، کہ جب آپ کچھ بھی نہ تھے، یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔' واقعی، یہ ظرف اور گنجائش بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ ترقی کرنے کے بعد ہم اپنے پچھلے ہم سایوں، پچھلے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی اسی طرح ملیں کہ جیسے ہم پہلے ملتے تھے۔ بلکہ سب کو یہ بھی بتا سکیں کہ ہمارا ماضی بھی یہی تھا۔
ہم ایک درجہ اوپر چڑھتے ہی اپنے آپ کو ایسا طُرّم خان سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے ہم ہمیشہ سے ہی ایسے 'ترقی یافتہ' اور رئیس تھے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں ہے، ہم خود نیچے سے اوپر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم نے چند برسوں پہلے ہی ایک گھر سے دوسرا گھر لیا ہوا ہوتا ہے، ہمیں کرائے کے مکان سے اپنا مکان بنائے ابھی کچھ ہی وقت بیتتا ہے کہ ہم بدل جاتے ہیں اور کوئی اگر اَن جانے میں یہ پوچھ بیٹھے کہ کیا آپ دوبارہ یہاں رہنے لگے ہیں؟ تو آپ ناپسندیگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''اللہ نہ کرے۔۔۔!''
۔۔۔
جو بوٹیاں اپنے آپ آئیں آنے دو۔۔۔
عبدالرحمٰن
سخن فہمی عالم بالا معلوم، یہ مثل بھی فارسی کی ہے، مگر اردو میں بولی جاتی ہے۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ فلاں کی سمجھ بُوجھ کا اندازہ ہوگیا کہ کچھ بھی نہیں۔ یہ محض خیال ہی خیال تھا کہ وہ بڑے دانش مند ہیں۔ عقل و تمیز میں بے بدل ہیں، مگر دھول ہیں۔ پول ہی نِکلا، کہتے ہیں یہ فقرہ ایک شاعر کی زبان سے نِکلا۔ چُست و برمحل تھا۔ ضرب المثل ہوگیا۔۔۔ شعرا اپنے آپ کو تلامیدالرحمٰن کہتے اور سمجھتے آئے ہیں۔ یعنی خدا کے شاگرد۔ اﷲ تعالیٰ سے بے واسطہ غیر فیض پانے والے۔ اسی لیے اُستادوں سے ان کی اکثر نہیں بنتی۔ جلدی ہی ان سے بگڑ بیٹھے۔ یا اُن سے مُنکر ہو جاتے ہیں اور اپنے کلام کو صدائے غیب و نوائے سروش تصّور کرنے لگتے ہیں۔ غرض خودبینی، خود پسندی، تعلی و خود نمائی شاعری کا لازمی خاصّہ ہے۔ شاعر عموماً خودپسندی، خود نمائی کے مریض ہوتے ہیں۔
ایسے ہی کوئی جناب تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ فیضی فیاضی کا قصّہ ہے کہ ایک دن اتفاق سے کہیں سعدی کا یہ شعر زبان سے نکل گیا۔ یا کہیں نظر آگیا:
برگ ورختاں سبزورنظر ہوشیار
ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار
شعر کو پڑھا اور مکرر پڑھا۔ غور کیا نکتہ چیں نگاہ میں نہ جچا۔ از معرفت کروگار کی جگہ معرفت کردگار پسند نہ آیا۔ منہ بنایا۔ ناک بھوں چڑھائی۔ مقابلے کا شعر سوچا۔ فکر کی دیر تھی۔ کہ خیال عالم معنی کے عرش پر تھا۔ فوراً شعر ہوا :
ہرگیا ہے کہ از زمین روید
وحدہٰ لاشریک لہ گوید
سمجھے کہ حضرت قدس سے وحی اتری ہے بہت پُھولے بہت اترائے۔ تن کر شعر کو بآواز پڑھا۔ اور بار بار پڑھا اور جُھوم جُھوم کر پڑھا اور اس طرح پڑھا کہ آس پاس کے درودیوار تک سب گونج اٹھے، آپ نے تصّور کرلیا کہ ہر طرف سے صدائے داد تحسین بلند ہوئی ہے، مگر جناب کی تشفی اس سے بھی نہیں ہوئی چاہتے تھے کہ آسمان سے ملائک داد دیں اور ملا اعلیٰ سے سبحان اﷲ اور احسنت کی صدائیں آئیں۔ اسی یقین سے سر اٹھایا کہ داد کی آواز آسمان سے آئے گی ضرور آئے گی۔ اتفاق کی بات آپ کہیں بیٹھے تھے۔ زیر سما اور فضائے آسمانی میں چیلیں اڑ رہی تھیں۔
ادھر سے ان حضرت کا سر نخوت بلند ہوا۔ ادھر سے کسی چیل نے بیٹ کی، وہ پٹ سے ان کے منہ میں پڑی ، بہت جز بز ہوئے بہت بگڑے کہ خیال کیا تھا اور پیش کیا آیا اسی وقت فوراً فرمایا سُخن فہمی عالم بالا معلوم، عالم بالا کی سُخن فہمی معلوم ہوگئی ہم سے پُوچھیے تو خود بینی کی داد خوب ملی۔ ''رو میں روا ہے'' اُردو کی مثل ہے۔ پہلے پہلے کسی مُلّا کی زبان سے نکلی، اور ایسی کوٹھے چڑھی کہ اُردو زبان کی ساری دُنیا میں پھیل گئی۔
قصّہ اس کا یوں ہے کہ کہیں کوئی مُلّاجی رہتے تھے ۔ بہت نیک متقّی پرہیزگار، ہر وقت ہاتھ میں تسبیح، زبان پر قال اﷲ اور قال رسول ۔ محلے میں جہاں رہتے تھے کسی کی مُرغیاں بھی پلی ہوئی تھیں، وہ اکثر مُلاّجی کے گھر میں گھس آتیں، کہیں زمین کُریدتیں، کہیں بیٹ کرتیں، برتنوں اور پانی کے گھڑوں کو خراب کرتیں۔ دال چاول جو کچھ انگنائی میں پاتیں، بکھیرتیں اور کھا جاتیں۔ مُلاّ جی تو دن بھر گھر سے باہر رہتے۔ ان مُرغیوں کا دکھ اٹھانا مُلّانی جی کو، مگر کہاں تک، برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب مُرغیوں سے وہ بہت تنگ آگئیں، تو سوچا ان نامُرادوں کو پکڑ پکڑ کر اور کاٹ کاٹ کر کھانا چاہیے۔
جب کم ہونے لگیں گی، تو ہم سائے آپ بند کر کے رکھیں گے۔ اب جو حسب عادت مُرغیاں دوسرے دن مُلّاجی کے گھر میں آئیں، تو مُلّانی جی نے کپڑا ڈال کر ایک مُرغی کو دبوچ ہی تو لیا اور پھر جھٹ سے اﷲ اکبر کہہ کر اُسے ذبح کر ڈالا، چونچ، پنجے، پَر انگنائی میں گڑھا کھود کر دبائے کہ کوئی دیکھنے نہ پائے اور مرغی کا گوشت بنا، مسالا پیس، جھٹ سے دیگچی پکنے کو چولھے پر چڑھا دی۔
روز مُرغیاں ان کو جلاتی تھیں آج وہ مُرغی بھوننے بیٹھیں تو کلیجہ ٹھنڈا ہوا اور ہنڈیا بڑے اہتمام سے پکی۔ شام کو مُلّاجی گھر میں آئے، تو گھر میں گوشت کی بو باس ہی کچھ اور تھی۔ بیوی سے پوچھا۔ کیوں صاحب آج کیا پکا ہے۔ وہ مسکرا کر بولیں مُرغی یہ سن کر مُلّا جی چونکے اور گھبرا کر بولے ارے کوئی شیخ سدّو کے نام کا تو مُرغا نہیں دے گیا ہے۔ وہ تو حرام اور قطعی حرام ہے۔ بیوی نے کہا۔ ہماری مُرغی بھلا شیخ سدّو کا مُرغا کیوں ہونے لگی ہے۔ کیا میں اتنا بھی نہیں جانتی کہ وہ حرام ہے۔
مُلّاجی: تو پھر یہ مُرغی کہاں سے آئی۔
مُلّانی جی: تو ذرا آہستہ تو بولو۔ محلے کو سر پر کیوں اٹھائے لیتے ہو۔ ہم سائے سُنیں گے۔ اُنھیں کی ایک مُرغی میں نے آج پکڑ لی تھی۔ اُسی کا آج قورمہ پکّا ہے۔
مُلّاجی: ہے ہے۔ توبہ توبہ ، یہ کیا غضب کیا۔ پرایا مال اور پھر ہم سائے کا۔ حرام در حرام، بالکل حرام، یہ تم نے کیا کیا۔ ہم سائے کا بڑا حق ہے۔ تم نے بڑا ستم کیا۔
مُلّانی جی: جی ہاں انہیں کا تو حق ہے۔ وہی ہم سائے ہیں۔ ہم تو ان کے گویا ہم سائے نہیں۔ ہمارا کوئی حق اُن پر کیوں ہونے لگا ہے۔ اُن کا حق ہے کہ اپنی مُرغیاں ہمارے گھر میں چھوڑ جائیں۔ وہ نامُرادیں ہمارا ناک میں دم کر دیں۔ مگر ہم دم نہ ماریں۔
مُلّاجی: تم اپنا دروازہ بند رکھو۔
مُلّانی جی: ہاں ہم اپنا دروازہ بند رکھیں۔ وہ اپنی مُرغیاں بند نہ رکھیں۔ ہمارا دروازہ بند ہی رہنے کے لیے بنا ہے اور ان کی مُرغیاں ہمارے گھر آنے اور ہمیں ستانے کے لیے۔
مُلّاجی: اچھا تم اپنا دروازہ بند نہ رکھو۔ لیکن ان کی مُرغیاں پکڑ کر ان کا قورمہ تو نہ پکائو۔
مُلّانی جی: ہم نے کون سی ان کی دس بیس مُرغیاں پکڑ کر ان کا قورمہ پکا کھایا۔ وہ برسوں ہمارے گھر آئیں اور ہمیں ستاتی تھیں۔ کھرسے، برتن چٹائیاں، چارپائیاں سب خراب اور نجس کرتی تھیں۔ ساری انگنائی میں گڑھے ڈال دیے۔ منوں دال چاول چٹ کرگئیں۔ کیا یہ سب چیزیں ایک دو چار مُرغیوں کے بھی برابر نہیں۔ وہ ہمیں برسوں ستائیں روز ہمارا نقصان کر جائیں، محلے والے بالکل بے گُناہ اور ہم ایک مُرغی پکڑ کر کاٹ لیں، تو گُناہ گار، یہ اچھا انصاف اور خوب مسئلہ ہے۔ اچھا ایسا ہی ہے تو مُرغی نہ کھانا۔ آج چٹنی روٹی ہی سہی۔ ابھی نمک مرچ اور لہسن کی چٹنی پیسے دیتی ہوں۔
مُلّاجی: خوب تم مرغی کا قورمہ کھائو اور ہم چٹنی روٹی، اجی مُرغی پرایا مال ہے۔ تو گھی تو اس میں ہمارے داموں کا پڑا ہے۔ مسالا ہمارا لگا ہے۔ لکڑیاں ہماری جلی ہیں۔ حرام ہیں اس کی بوٹیاں شوربا بنا ہی ہمارے مال کا، وہ ہمارے لیے حلال ہے۔ بس شوربا شوربا ہمیں نکال دو۔ بلکہ انڈیل دو۔ رہی بوٹیاں سو وہ اپنی ستانے والی مرغی کی تم چبائو۔ اب جو مُلّانی جی پیالے میں شوربا انڈیلنے بیٹھیں، تو مُرغی کی بوٹیاں بھی شوربے کے ساتھ ساتھ آنے لگیں۔ مُلّانی جی نے انہیں چمچے سے روکنا چاہا، تو سرخ سرخ بوٹیاں دیکھ کر مُلّا جی کا جی للچایا۔ فرمانے لگے بیوی، جو بوٹی اپنے آپ رو میں آئی ہے، اسے آنے دو۔ رو میں جو آئے، روا ہے۔ یہ سن کر مُلّانی جی کو تو ہنسی آئی اور مُرغی کی بوٹیاں پیالے میں آپڑیں اور مُلّا جی نے شوربا اور بوٹیاں دونوں خوب مزے سے کھائیں اور رو میں روا ہے نے کچھ ایسی قبولیت پائی کہ ایک ضرب المثل ہوگئی۔
صحیح یا جھوٹ یہ مسئلہ تو کسی مُلّا نے اپنے لیے نکالا تھا، لیکن اب بہت سے ناکردہ گناہ بھی اس ضرب المثل کی لیپٹ میں آجاتے ہیں۔
(جنوری 1938ء کے 'ساقی' کا ایک دل چسپ ٹکڑا)
۔۔۔
سب 'رشتے' مطلب پر قائم ہیں!
مرسلہ: عنبر عباسی، کراچی
تم بڑے ہو گے، تو تمھیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمھارا تجربہ بڑھتا جائے گا، یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے۔ تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔ بڑے ہوکر تمھیں معلوم ہوگا زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔
آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے اور روپیا حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔
محبت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ (اگر تم سادہ لوح ہوئے، تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمھارا مذاق اڑائے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے، تو تمھیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔
اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے، تو تمھیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی، تو تمھیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بے وقوف اور فضول خرچ، عمر بھر تمھیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا ہو گے، حتیٰ کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جائو گے۔
یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہوگے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنی اور اور بے سود تھا۔
('حماقتیں' از شفیق الرحمٰن سے چُنا گیا)