نوجوان ہیں حیران

نواز شریف اپنے بل بوتے پر وزیر اعظم بنے ہیں اور کسی انسان کے اس عہدے کے لیے محتاج نہیں۔

03332257239@hotmail.com

نوجوان کیوں حیران ہیں اور کس سے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلے ہم نوجوان کی تعریف کرتے ہیں۔ پچیس تیس برس کے لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ پچھلی صدی اور موجودہ صدی کے پندرہ پندرہ برس گزارنے والوں کو نوجوان سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر بزرگ اور ادھیڑ عمر کے لوگ ناراض نہ ہوں تو ہم سوال کے دوسرے حصے کی جانب آجائیں۔ نوجوان کس سے حیران ہیں کا جواب دینے سے قبل تیس سے نوے سال کے لوگوں کو کہا جاسکتا ہے کہ چلیں شباب کا تعلق بے شک دل سے ہوسکتا ہے، یہ بھی مان لیا کہ اٹھارہ سال کا بوڑھا ہوسکتا ہے اور پچاسی سال کا جوان بھی۔ ان تمام باتوں کو ماننے کے باوجود ہم ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو آج منگنی یا شادی کی عمر کے ہیں یا جن کے بچے شیرخوار یا نونہال ہیں۔ نوجوانوں کی تعریف ہوجانے کے بعد اگر ہمیں قارئین اجازت دیں تو یہ بتایا جائے کہ وہ کس سے حیران ہیں؟ وہ حاکم وقت سے حیران ہیں۔ ہم نے اپنے نوجوان بھانجوں، بھتیجوں اور بیٹوں کو اس عہدے کی طاقت کے بارے میں جو کچھ بتایا تھا، شاید اس پر حکمران پورا نہیں اتر رہے۔ جب یہ بات علم میں آگئی کہ نوجوان کون ہیں اور وہ حیران کس سے ہیں تو اب یہ جاننا لازمی ہے کہ وہ حیران کیوں ہیں۔ ہم نے انھیں کہا تھا کہ وزیر اعظم تو کسی بھی ملک کا سپرمین ہوتا ہے۔ ایسا طاقتور شخص جو تم نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ہم نے یہ کیوں کہا تھا اور اب ہمیں اپنے نوجوان رشتے داروں سے کیا شرمندگی ہے؟ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔

اس دلچسپ کہانی کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ نوجوانوں کی پیدائش سے آج تک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔ یوں سمجھیں کہ آج کے نوجوان جب پیدا ہوئے ہوں گے تو وزیر اعظم جونیجو کی حکومت ہوگی۔ جنرل محمد ضیا الحق اور پیر پگارا کی خوشنودی کے سبب وہ وزیر اعظم بنے تھے۔ غیر جماعتی انتخابات اور بظاہر کمزور ہونے کے باوجود جونیجو نے بہتر کردار ادا کیا۔ خیر یہ وہ دور ہوگا جب آج کے نوجوان فیڈر سے دودھ پیتے ہوں گے۔ ضیا نے جونیجو کو برخاست کردیا۔ جماعتی انتخابات ہوئے اور بے نظیر وزیر اعظم بن گئیں۔ نہ مکمل اکثریت تھی اور نہ پنجاب میں حکومت۔ بیس ماہ بعد صدر غلام اسحق خان نے یہ حکومت ختم کردی۔ اب سن 90 میں وہ شخصیت پاکستان کی چیف ایگزیکٹیو بنی جن کا تذکرہ آج ہمارا موضوع ہے۔ دو تہائی اکثریت سے میاں نواز شریف ایک طاقتور وزیر اعظم تھے۔ ہمارے آج کے نوجوان اس وقت پہلی کلاس میں پڑھتے ہوں گے۔

وہ کارٹون دیکھتے ہوں گے اور ان بے چاروں کو پی ٹی وی کے خبرنامے کی کیا خبر ہوگی۔ خیر تین سال حکومت کے بعد بے نظیر برسراقتدار آگئیں۔ وہ پہلے سے طاقتور تھیں لیکن بہت زیادہ نہیں۔ ان کے تین برسوں کے بعد 97 میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ اس وقت ہمارا آج کا نوجوان پرائمری کلاس کا طالب علم ہوگا۔ ممکن ہے اس نے نواز شریف کا نام تو سنا ہو لیکن اب بارہ سال کا بچہ کمزور اور طاقتور وزیر اعظم کو کیا جانے۔ جب دو نوجوان رہنماؤں کو ہٹایا جاتا تو تین مہینے میں انتخابات کروائے جاتے۔ اس دور کے لیے بھی ایک وزیر اعظم ہوتا ہے جسے نگران کہا جاتا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی، بلخ مزاری، معین قریشی اور معراج خالد ان عہدوں پر فائز رہے۔ ہمارا آج کا نوجوان چودہ پندرہ برس کا ہوا تو نواز شریف جلاوطن کردیے گئے۔ بے نظیر پہلے ہی ملک سے باہر تھیں۔


پندرہ سترہ برس کے نوجوان نے اخبار پڑھا تو اسے صدر مشرف کا نام نظر آیا۔ ایک طاقتور صدر اب ہمارا آج کا ہیرو بڑا ہوتا جائے گا اور ہم دیکھیں گے کہ وہ کن لوگوں کو قائد ایوان بنتا دیکھتا ہے۔ سب سے پہلے یہ ٹین ایجر ظفر اللہ جمالی کا نام سنتا ہے۔ ڈیڑھ برس بعد ان کی رخصتی ہوتی ہے تو چالیس دن کے لیے چوہدری شجاعت وزیر اعظم بنتے ہیں۔ جب میرا نوجوان اور آج کے کالم کا ہیرو بیس برس کا ہوتا ہے تو اسے شوکت عزیز جیسا شخص قائد ایوان روپ میں نظر آتے ہیں۔ جب نوجوانوں سے کہا کہ یہ بھی کوئی وزیر اعظم ہے جو ایک بلدیاتی نشست بھی نہیں جیت سکتا۔ مشرف کی چھتری تلے جمالی اور شجاعت کم ازکم اپنے حلقے سے ممبر قومی اسمبلی تو بن سکتے ہیں۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس اور شاندار انگریزی بولتے ہوئے ایک طرف شوکت عزیز تھے تو دوسری طرف ہماری باتیں۔ یہ باتیں نوجوانوں کی سمجھ میں نہیں آئیں۔

وکلا کی تحریک چلی، مشرف کے ساتھ ان کے ساتھی بھی چلے گئے۔ اب ملک کے صدر آصف زرداری تو وزیراعظم یوسف رضاگیلانی تھے۔ ساری طاقت اور پارٹی کی کمان زرداری کے ہاتھوں میں تھی۔ اب ماشا اللہ نوجوان مزید بڑے ہوگئے تھے۔ وہ اخبار بھی پڑھنے لگے تھے اور ٹی وی چینلز پر خبریں اور مباحثے بھی دیکھنے لگے تھے۔ پہلے تو وہ فلموں، ڈراموں اور کھیلوں کے علاوہ کچھ نہ دیکھتے۔ بہت خوشی تب ہوئی جب اپنے کمرے سے نکل کر باہر نکل آیا تو نوجوان بھی وہی چینل دیکھ رہے تھے جو راقم دیکھتا۔ اب محسوس ہوا کہ بڑے اور بچوں کی پسند یکساں ہوتی جا رہی ہے۔ جب ان سے کہا کہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم وہ نہیں جو اصلی اور وڈا وزیر اعظم ہوتا ہے۔ گیلانی کو توہین عدالت کی سزا پر اسمبلی کی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑے اور پی ایم کی کرسی ان کے لیے بچانا ممکن نہ رہا۔ وہ گئے تو پرویز اشرف آگئے۔ اب انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔

وہ گیلانی سے بھی کمزور تھے۔ جب نوجوانوں سے کہا کہ وزیر اعظم تو لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر کا سا ہوتا ہے۔ وہ شخص ہوتا ہے جو ذاتی طور پر ملک کا سب سے مقبول شخص ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی۔ وہ وزیر اعظم کی ٹی وی کوریج اور پروٹوکول سے متاثر تھے۔ وقت آگے بڑھا اور 2013 آگیا۔ میرا نوجوان مزید باشعور ہوگیا تھا کہ اس نے خود لائن میں لگ کر ووٹ دیا تھا۔ پھر جون کا مہینہ آیا تو نواز شریف نے حلف اٹھایا۔ نوجوان بھانجوں، بھتیجوں اور بیٹوں کو بتایا کہ دیکھو یہ ہوتا ہے وزیر اعظم۔ اس کی ذاتی مقبولیت ہوتی ہے اور عوام اس کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ اگر کسی کو ٹکٹ دے تو وہ جیت سکتا ہے اور اپنی پارٹی کے بندے کو اپنے نشان پر الیکشن نہ لڑنے دے تو وہ کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جونیجو کا عہدہ ضیا الحق کی بدولت تھا جب کہ جمالی، شجاعت اور شوکت عزیز کو عہدہ ملا تھا پرویز مشرف کی مہربانی سے۔ گیلانی اور پرویز اشرف پسند تھے آصف زرداری کی۔ یہ سب چاند تھے جو سورج کی روشنی کے محتاج تھے۔ نواز شریف اپنے بل بوتے پر وزیر اعظم بنے ہیں اور کسی انسان کے اس عہدے کے لیے محتاج نہیں۔

نواز شریف جب وزیر اعظم بنے تو کہا کہ نوجوانو! اسے کہتے ہیں وزیر اعظم لیکن وہ کچھ محتاط ہیں ۔ تمام سیاسی پارٹیاں قومی معاملات پر ان کے ساتھ ہیں۔ پچھلی دو مرتبہ کی طرح کوئی ان کی حکومت کے پیچھے نہیں پڑا۔ وہ اسٹیئرنگ سیٹ پر نظر نہیں آرہے بلکہ دفاعی انداز اپنا رہے ہیں۔ معیشت، سیاست، خارجی و داخلی پالیسی کے حوالے سے وہ بھرپور رہنمائی سے گریز کر رہے ہیں۔ جلاوطنی نے انھیں محتاط کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قوم کی ان سے بہت سی امیدیں ہیں۔ وہ کریز سے باہر نکل کر چھکا لگانے سے ڈر رہے ہیں۔ ''کیا'' دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پی رہا ہے۔ امید ہے میاں صاحب جلدان حالات پر قابو پالیںگے لیکن ابھی تو کالم نگار آج کے نوجوانوں سے شرمندہ ہے کہ مقبول عام وزیر اعظم دبنگ نہیں بن رہے اور اس بات پر میرے نوجوان ہیں حیران۔
Load Next Story