بھارت اور اسرائیل مستقبل کے قاتل

مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بچوں کو تشدد اور غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں

ماہ جون میں بچوں کا دن منایا جاتا ہے ،جس کا آغاز یکم جون 1949 میں ہوا،بچوں کا دن منانے کا سلسلہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ڈیموکریٹک ویمن نے جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوموں کا سوگ منانے اور زندہ بچوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے کیا تھا۔

بدقسمتی سے بچوں کے استحصال میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے،خاص طور پر شورش زدہ علاقوں میں بچے بری طرح متاثر ہوگئے ہیں۔ہالینڈ کے ادارے (MSF) Medicines Sans Frontiers نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فوج کے قبضے میں وادی کشمیر میں بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر منفی تاثر دیکھنے میں آیا۔ ایم ایس ایف کے جائزے کے مطابق مقبوضہ وادی کے بچے خوف کے سائے میں زندہ ہیں،جنگی ماحول اور بنیادی ضروریات سے محرومی نے انھیں ذہنی خلفشار کا شکار بنا دیا ہے،جس کی وجہ سے وہ منشیات کے عادی اور بڑوں کے احترام سے غافل ہو رہے ہیں۔

تناؤ کے ماحول نے انھیں مایوسی اور بددلی کا شکار بنا دیا ہے،جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت اور مستقبل پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک، معصوم بچے اسرائیل اور ہندوستان کی سیکیورٹی فورسز کے وحشیانہ تشدد اور جارحیت کا شکارہیں،جب کہ افغانستان میں بھی بچوں کے حوالے سے صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق جنگی ماحول سے متاثرہ بچوں میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ڈپریشن اور اضطراب سمیت دیگر نفسیاتی شکایات کا عارضہ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام بچوں کے حقوق کے کنونشن میں بیان کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے بچے دنیا کے سب سے بڑے عسکری زون میں رہ رہے ہیں،یہ بچے اپنے استعمال،مارنا یا معذور کرنا، جنسی تشدد، اسکولوں یا اسپتالوں کے خلاف حملے، اغوا سمیت دیگر سنگین مسائل کا شکار ہیں،جس کی وجہ سے ان کی نفسیات براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے زیراہتمام بچوں کے حقوق کا آرٹیکل 37 اے،اس بات کا پابند کرتا ہے کہ کسی بچے کو غیر انسانی روئیے، ذلت آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے،تاہم مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بچوں کو تشدد اور غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کشمیر کے مطابق، سال 2020 میں بچوں میں ذہنی صدمے کے تقریباً 200 کیسز دیکھے ہیں، جس کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں بار بار کریک ڈاؤن، انکاؤنٹر، ٹارچر، حراست اور قتل کے واقعات ہیں۔ بھارتی آرمی اور پولیس کی جانب سے کلسٹر گولہ بارود اور شاٹ گن جیسے ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہزاروں افراد زخمی اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد نابینا ہو چکے ہیں۔بھارتی سامراجیت کے پیش نظر 5 اگست 2020 کو کشمیر کی خودمختاری ختم کی گئی جس کے بعد تقریبا 13,000 بچوں کو مظاہرین ہونے کے شبے میں حراست میں لیا گیا،جن میں سے بہت سے اب بھی قید ہیں۔


برطانوی چیرٹی تنظیم ''سیو دی چلڈرن'' کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وادی کشمیر میں 215,000 یتیم ہیں جن میں سے 37% نے موجودہ تنازعہ میں ایک یا دونوں والدین کو کھو دیا ہے،ہندوستانی فوج کی جانب سے طاقت کے بے تحاشہ استعمال کے سبب پیلٹ اور آنسو گیس کی فائرنگ سے 2019 میں 6 معصوم کشمیری شہید ہوئے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کرکے ہندوستانی فوج نے وادی میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں پر حملے کیے،جس سے بچے مزید ہراساں ہوئے ۔

اقوام متحدہ کے سیکر یٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے مقبوضہ کشمیر میں بچوں کی ہلاکتوں اور تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان پر زور دیا کہ وہ بچوں کے خلاف چھروں کے استعمال کو ختم کرکے ان کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرے،تاہم ہندوستان نے بچوں کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جو کہ مکمل غیر اخلاقی،غیر قانونی اور ناقابل معافی امر ہے۔

کشمیریوں کو نشانہ بنانا انھیں تحفظ فراہم نہ کرنا 1907 کے ہیگ ریگولیشنز، 1949 کے جنیوا کنونشنز اور ان کے اضافی پروٹوکولز اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے تحت جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے ۔قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ عالمی فارمز پر ایک جانب تو کشمیری بچوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے جب کہ دوسری جانب بھارتی فوجی امداد میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اکیڈمک اور اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کی تحقیق کے ایک ہندوستانی نژاد پروفیسر اشوک سوینمن نے کہا کہ بچوں کے قتل، درجنوں اسکولوں، لائبریریوں اور اسپتالوں پر بمباری، پانی کے پلانٹس کی تباہی کو کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟

اسرائیل اور بھارت کی جانب سے بچوں کی ہلاکت معاملے اور قیام امن کو برقرار رکھنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ناکام رہی ہے ،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بچوں کے بنیادی حقوق کی تنظیم کو انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبات کے علاوہ عالمی برادری کو بچوں کے خلاف بھارتی تشدد کو سنگین اور ناقابل برداشت قرار دینا چاہیے ،دوسری جانب افغانستان میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی اور سیاسی صورتحال کے پس منظر میں اگست 2021 میں ایک رپورٹ جاری ہوئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پانچویں رپورٹ ''افغانستان میں بچوں اور مسلح تنازعات''میں سیکڑوں کی تعداد میں ہلاک یا معذور ہونے والے بچوں کے بارے میں ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ ورجینیا گامبا نے کہا کہ افغان تنازعہ کے سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہو رہا ہے،انھیں تشدد سے بچانا چاہیے۔ افغانستان میں بچوں کے خلاف تشدد اب بند ہونا چاہیے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہ اگر زمین پر کوئی جہنم ہے تو وہ غزہ کے بچوں کی زندگی ہے، ستر سال سے زائد کے عرصے میں اسرائیل فلسطینی بچوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ ایک طرف تو بھارت اور اسرائیل بچوں پر تشدد کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے کئی بل منظور ہو چکے ہیں جب کہ کئی پرقانون سازی کی جا رہی ہے۔

پاکستان کا آئین و قانون بچوں کے تحفظ کا نگہبان اور محافظ ہے۔حال ہی میں، خیبر پختونخوا اسمبلی نے صوبائی تحفظ اطفال اور بہبود (ترمیمی) بل، 2022 منظور کیا، جس میں بچوں کے خلاف جرائم کی سزاؤں کو مزید سخت کیا گیا ہے،جن میں جنسی زیادتی، فحش نگاری، اعضا کی تجارت اور اسمگلنگ شامل ہیں، جب کہ سندھ اسمبلی چائلڈ میرج کے خلاف بل منظور کرکے قانون سازی مکمل کرچکی ہے۔
Load Next Story