نئی حکومت کس کی ہوگی
خان صاحب کو اپنے اُوپرکچھ ضرورت سے زیادہ ہی اعتماد ہے اسی لیے وہ کسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پرکسی طرح بھی راضی نہیں ہوتے
یہ بات موجودہ سیاسی حالات اورمنظر نامے سے واضح ہوچکی ہے کہ اس سال نئے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔عمران خان صاحب کتنا ہی زور لگالیں، لانگ مارچ اور دھرنابھی دے لیں لیکن انتخابات اس سال تو کم از کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔اگلے برس ہونگے ۔خان صاحب کو دوماہ پہلے اپنی معزولی کے بعد جو عوامی پذیرائی ملی تھی،لگتا ہے اس میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اگلے الیکشن میں حکومت بنا سکیں گے۔25 مئی کو لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کا جو پروگرام بنایا تھا وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ بیس لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا خواب اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی نامکمل رہ گیا۔ 26 مئی کو صبح وہ جب جناح ایونیو پہنچے تو پتاچلاکہ عوام تو عوام اُن کے اپنے کارکن بھی گھر جاکے سو چکے ہیں۔لہٰذا اُن کے پاس اُس دھرنے کو ملتوی کرنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ خود اُن کی طبیعت اورمزاج بھی دھرنوں میں رات دن گذارنے جیسا نہیں ہے۔
وہ 2014 کے دھرنے میں بھی رات بنی گالہ جاکے آرام سے سوجایاکرتے تھے۔ دوسرے دن دس بارہ بجے نہادھوکے اورناشتہ وغیرہ کرکے ڈی چوک کے کنٹینر پر چڑھ کے دونوں ہاتھوں سے فتح کانشان بنایاکرتے تھے۔ساری دوپہر اورشام اسی طرح گذار کراور پھررات کو ایک جوشیلی تقریر کرکے امپائر کی طرف سے انگلی اُٹھائے جانے کی نئی تاریخ دیکر اپنے عوام کی آس واُمید کو قائم رکھنے کی کوششیں کیاکرتے تھے۔اُن کے اس6 12دنوں کے دھرنے میں رات دن گذارنے والوں میں اُن کے اپنی پارٹی کے لوگ تو شاید کم ہی ہوتے تھے۔
یہ تو محترم علامہ طاہرالقادری کے مدرسوں کے لوگ تھے جو تین مہینے تک وہاں صبر سے بیٹھے رہے۔ورنہ یہ دھرنا تو دودن سے زیادہ چلنے والا نہیں تھا۔دھرنادینا صرف مذہبی پارٹیوں کا حوصلہ ہے ۔ سیاسی پارٹی کے کارکنوں میں یہ حوصلہ اورجذبہ ہرگزنہیں ہوتا۔صرف مذہبی جماعتوں کے لوگ ہی اپنا گھر بار چھوڑکے دس دس اور بیس بائیس دنوں تک سڑکوں پر بسیرا کرسکتے ہیں۔
خان صاحب کو اپنے اُوپرکچھ ضرورت سے زیادہ ہی اعتماد ہے اسی لیے وہ کسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پرکسی طرح بھی راضی نہیں ہوتے۔ اُن کا خیال ہے اُن کے جلسوں میں شرکت کرنے والے سبھی لوگ اُن کے جانثار اورپکے وفادار ہیں۔جب کہ انھیں پتاہوناچاہیے کہ امیر اورماڈرن گھرانوں کے لوگ جو جوق در جوق اُن کے جلسوں میں دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے لیڈر کی خاطر جسمانی و جانی تکالیف برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔وہ نہ آنسو گیس کا سامنا کرسکتے ہیں اورنہ پولیس کے لاٹھی چارج کا۔ وہ 126دن تو کیا دودن بھی دھرنادیکر سڑکوں پر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری بار اپنے مجوزہ لانگ مارچ کی تاریخ بھی نہیںدے پارہے ہیں۔
رفتہ رفتہ ان پر زمینی حقائق عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہوسکتاہے کہ اگلاالیکشن وہ جیت نہ پائیں۔ اسی لیے وہ اپنی متوقع ہار کو کسی اور پیرائے میں بیان کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں،وہ الیکشن کے بعد ایک بار پھر دھاندلی کاشور ڈالنے والے ہیں یاپھر 2014 کی طرح غیبی امداد نہ ملنے کے سبب پارلیمنٹ میں اپنا اپوزیشن والاکردار اداکرنے پرکچھ کچھ راضی و رضامند بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں پاکستان پیپلز پارٹی ہی واحد سیاسی جماعت ہے جواگلاالیکشن جیت کروفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میںفی الحال نظر آرہی ہے۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اصل کردار بھی پاکستان پیپلزپارٹی ہی کا تھا۔ باقی دیگر جماعتوں میں تویہ دم خم تھاہی نہیں کہ وہ مختلف الخیال پارٹیوں کوساتھ ملاکے یہ کام سرانجام دے پائیں۔اسلام آباد میں سندھ ہاؤس کی سرگرمیاں ہی اس عدم اعتماد کے تحریک کی کامیابی کاسبب بنیں۔ ایم کیوایم ، بلوچستان عوامی پارٹی ، اختر مینگل اوربہت سے دوسرے لوگوں کو ساتھ ملانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ آصف علی زرداری کی ذہانت اورمفاہمتی سیاست کاکرشمہ ہے کہ وہ ہر کسی کو اپنے ساتھ ملالیتے ہیں۔
اُن کی اس سیاسی ہنر مندی کودیکھتے ہوئے یہ کہنا بعید ازقیاس بھی نہیں ہے کہ اگلی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوگی۔اول تو کسی بھی پارٹی کو مکمل مینڈیٹ نہیں ملنے والا۔ نئی حکومت ایک HUNG پارلیمنٹ کے مرہون منت ہوگی۔اس میں کسی بھی پارٹی کوواضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔لہٰذایہ کہناکہ کوئی ایک سیاسی پارٹی تن تنہااکیلے وفاق میں حکومت بنالے گی درست اورحقیقت پرمبنی معلوم نہیںہوتا۔ ہمارے یہاں بہت سے سیاسی پارٹیاں علاقائی اور صوبائی مقبولیت کی حامل ہیں۔کسی ایک کوبھی سارے پاکستان سے مینڈیٹ ملنامشکل دکھائی دیتا ہے، لیکن اتناضرور کہاجاسکتاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت میں یہ قابلیت اورصلاحیت موجود ہے کہ وہ الیکشن کے نتائج کااعلان ہوجانے کے بعد حکمرانی کاہما اپنے سرسجانے کاکام بڑی چابکدستی اور ہنرمندی سے کرسکتی ہے۔
ہم آنے والی نئی حکومت پیپلزپارٹی کی دیکھ رہے ہیں اوراس حکومت میں مسلم لیگ نون ، جے یوآئی ، اے این پی، مسلم لیگ( ق) سمیت بہت سی علاقائی جماعتیں بھی ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ آصف علی زرداری میں سب کوساتھ ملاکے چلنے کاہنرکوٹ کوٹ کربھرا ہوا ہے،وہ یاروں کے یار بھی ہیں ۔وہ سیاسی فراخدلی اورسخاوت کے بھی بہت بڑے ماہر ہیں۔ موجودہ سیاسی سیٹ اپ انھی کاتیارکردہ ہے ۔ جس میں وہ اپنے ازلی حریف مسلم لیگ نون کے صدر کوحکومت کی قیادت سونپ کرخودان کے ماتحت کام کرنے پر بھی راضی ہوگئے ۔ اُن کی دوراندیشی اورسیاسی بصیرت کوکوئی مات نہیں دے سکتا۔وہ آج کا نہیں کل کاسوچتے ہیں۔ اُن کی نظریں اگلے انتخابات پرہیں۔
وہ یہ عارضی حکمرانی چھوڑکرمکمل پانچ سالہ حکمرانی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے فرزندارجمند بلاول زرداری کو بھی اسی دن کے لیے پالاپوسہ ہے۔ بلاول زرداری کو نانا کی طرز پروزیرخارجہ بنانا بھی اُن کی اسی حکمت عملی کاحصہ ہے۔ہم اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے لیے نمبر گیم پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔پیپلزپارٹی میں بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں۔ ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں کودہرانے کے بجائے اس بار ایک صاف ستھری اورکرپشن سے پاک حکومت دینے میں ضرور کامیاب ہونگے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اگلے الیکشن میں حکومت بنا سکیں گے۔25 مئی کو لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کا جو پروگرام بنایا تھا وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ بیس لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا خواب اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی نامکمل رہ گیا۔ 26 مئی کو صبح وہ جب جناح ایونیو پہنچے تو پتاچلاکہ عوام تو عوام اُن کے اپنے کارکن بھی گھر جاکے سو چکے ہیں۔لہٰذا اُن کے پاس اُس دھرنے کو ملتوی کرنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ خود اُن کی طبیعت اورمزاج بھی دھرنوں میں رات دن گذارنے جیسا نہیں ہے۔
وہ 2014 کے دھرنے میں بھی رات بنی گالہ جاکے آرام سے سوجایاکرتے تھے۔ دوسرے دن دس بارہ بجے نہادھوکے اورناشتہ وغیرہ کرکے ڈی چوک کے کنٹینر پر چڑھ کے دونوں ہاتھوں سے فتح کانشان بنایاکرتے تھے۔ساری دوپہر اورشام اسی طرح گذار کراور پھررات کو ایک جوشیلی تقریر کرکے امپائر کی طرف سے انگلی اُٹھائے جانے کی نئی تاریخ دیکر اپنے عوام کی آس واُمید کو قائم رکھنے کی کوششیں کیاکرتے تھے۔اُن کے اس6 12دنوں کے دھرنے میں رات دن گذارنے والوں میں اُن کے اپنی پارٹی کے لوگ تو شاید کم ہی ہوتے تھے۔
یہ تو محترم علامہ طاہرالقادری کے مدرسوں کے لوگ تھے جو تین مہینے تک وہاں صبر سے بیٹھے رہے۔ورنہ یہ دھرنا تو دودن سے زیادہ چلنے والا نہیں تھا۔دھرنادینا صرف مذہبی پارٹیوں کا حوصلہ ہے ۔ سیاسی پارٹی کے کارکنوں میں یہ حوصلہ اورجذبہ ہرگزنہیں ہوتا۔صرف مذہبی جماعتوں کے لوگ ہی اپنا گھر بار چھوڑکے دس دس اور بیس بائیس دنوں تک سڑکوں پر بسیرا کرسکتے ہیں۔
خان صاحب کو اپنے اُوپرکچھ ضرورت سے زیادہ ہی اعتماد ہے اسی لیے وہ کسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پرکسی طرح بھی راضی نہیں ہوتے۔ اُن کا خیال ہے اُن کے جلسوں میں شرکت کرنے والے سبھی لوگ اُن کے جانثار اورپکے وفادار ہیں۔جب کہ انھیں پتاہوناچاہیے کہ امیر اورماڈرن گھرانوں کے لوگ جو جوق در جوق اُن کے جلسوں میں دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے لیڈر کی خاطر جسمانی و جانی تکالیف برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔وہ نہ آنسو گیس کا سامنا کرسکتے ہیں اورنہ پولیس کے لاٹھی چارج کا۔ وہ 126دن تو کیا دودن بھی دھرنادیکر سڑکوں پر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری بار اپنے مجوزہ لانگ مارچ کی تاریخ بھی نہیںدے پارہے ہیں۔
رفتہ رفتہ ان پر زمینی حقائق عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہوسکتاہے کہ اگلاالیکشن وہ جیت نہ پائیں۔ اسی لیے وہ اپنی متوقع ہار کو کسی اور پیرائے میں بیان کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں،وہ الیکشن کے بعد ایک بار پھر دھاندلی کاشور ڈالنے والے ہیں یاپھر 2014 کی طرح غیبی امداد نہ ملنے کے سبب پارلیمنٹ میں اپنا اپوزیشن والاکردار اداکرنے پرکچھ کچھ راضی و رضامند بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں پاکستان پیپلز پارٹی ہی واحد سیاسی جماعت ہے جواگلاالیکشن جیت کروفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میںفی الحال نظر آرہی ہے۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اصل کردار بھی پاکستان پیپلزپارٹی ہی کا تھا۔ باقی دیگر جماعتوں میں تویہ دم خم تھاہی نہیں کہ وہ مختلف الخیال پارٹیوں کوساتھ ملاکے یہ کام سرانجام دے پائیں۔اسلام آباد میں سندھ ہاؤس کی سرگرمیاں ہی اس عدم اعتماد کے تحریک کی کامیابی کاسبب بنیں۔ ایم کیوایم ، بلوچستان عوامی پارٹی ، اختر مینگل اوربہت سے دوسرے لوگوں کو ساتھ ملانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ آصف علی زرداری کی ذہانت اورمفاہمتی سیاست کاکرشمہ ہے کہ وہ ہر کسی کو اپنے ساتھ ملالیتے ہیں۔
اُن کی اس سیاسی ہنر مندی کودیکھتے ہوئے یہ کہنا بعید ازقیاس بھی نہیں ہے کہ اگلی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوگی۔اول تو کسی بھی پارٹی کو مکمل مینڈیٹ نہیں ملنے والا۔ نئی حکومت ایک HUNG پارلیمنٹ کے مرہون منت ہوگی۔اس میں کسی بھی پارٹی کوواضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔لہٰذایہ کہناکہ کوئی ایک سیاسی پارٹی تن تنہااکیلے وفاق میں حکومت بنالے گی درست اورحقیقت پرمبنی معلوم نہیںہوتا۔ ہمارے یہاں بہت سے سیاسی پارٹیاں علاقائی اور صوبائی مقبولیت کی حامل ہیں۔کسی ایک کوبھی سارے پاکستان سے مینڈیٹ ملنامشکل دکھائی دیتا ہے، لیکن اتناضرور کہاجاسکتاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت میں یہ قابلیت اورصلاحیت موجود ہے کہ وہ الیکشن کے نتائج کااعلان ہوجانے کے بعد حکمرانی کاہما اپنے سرسجانے کاکام بڑی چابکدستی اور ہنرمندی سے کرسکتی ہے۔
ہم آنے والی نئی حکومت پیپلزپارٹی کی دیکھ رہے ہیں اوراس حکومت میں مسلم لیگ نون ، جے یوآئی ، اے این پی، مسلم لیگ( ق) سمیت بہت سی علاقائی جماعتیں بھی ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ آصف علی زرداری میں سب کوساتھ ملاکے چلنے کاہنرکوٹ کوٹ کربھرا ہوا ہے،وہ یاروں کے یار بھی ہیں ۔وہ سیاسی فراخدلی اورسخاوت کے بھی بہت بڑے ماہر ہیں۔ موجودہ سیاسی سیٹ اپ انھی کاتیارکردہ ہے ۔ جس میں وہ اپنے ازلی حریف مسلم لیگ نون کے صدر کوحکومت کی قیادت سونپ کرخودان کے ماتحت کام کرنے پر بھی راضی ہوگئے ۔ اُن کی دوراندیشی اورسیاسی بصیرت کوکوئی مات نہیں دے سکتا۔وہ آج کا نہیں کل کاسوچتے ہیں۔ اُن کی نظریں اگلے انتخابات پرہیں۔
وہ یہ عارضی حکمرانی چھوڑکرمکمل پانچ سالہ حکمرانی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے فرزندارجمند بلاول زرداری کو بھی اسی دن کے لیے پالاپوسہ ہے۔ بلاول زرداری کو نانا کی طرز پروزیرخارجہ بنانا بھی اُن کی اسی حکمت عملی کاحصہ ہے۔ہم اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے لیے نمبر گیم پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔پیپلزپارٹی میں بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں۔ ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں کودہرانے کے بجائے اس بار ایک صاف ستھری اورکرپشن سے پاک حکومت دینے میں ضرور کامیاب ہونگے۔