نواب خیر بخش مری‘ ایک ترقی پسند سیاستدان
وہ پاکستان کے سیاستدانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جن کی عوام میں عزت تھی
آج معروف سیاستدان نواب خیر بخش مری کا یوم وفات ہے' وہ پاکستان کے سیاستدانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جن کی عوام میں عزت تھی، جو بدعنوان، ریاکار، منافق و مکار نہیں تھے، بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری نئی نسل ان با اصول سیاستدانوں سے ناواقف ہے۔نواب خیر بخش مری کو میں اس لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ بلوچستان کے مری قبیلے کے نواب تھے' بلکہ وہ ایک سیکولراور جمہوری سیاسی قائد تھے 'انھوں نے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ '' سردار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے انگریز سرکار مجھے تعلیم کے لیے کراچی لے آئی۔
مجھے نیول اکیڈمی منوڑہ میں داخل کیا گیا' منوڑہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی' ایک دن کسی بات پر غصہ آیا' سمندرمیں چھلانگ لگائی اورتیر کر کراچی پہنچ گیا ' ساری زندگی بس ایسے ہی خطروں سے کھیلتے رہے ''۔انھوں نے 1973 کے آئین پر دستخط نہیںکیے تھے کیونکہ وہ اس آئین کو مکمل وفاقی نہیں مانتے تھے 'مرتے دم تک بلوچ حقوق اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے 'اس جدوجہد میں ان کے بچے بھی قربان اور جلاوطن ہوگئے 'ذاتی کردار ایسا کہ میں غالباً 1973/74میں کراچی کے بمبینو سینما میں ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں کھڑا تھا ۔اس وقت کی مشہور انگریزی فلم''GUNS OF NAVARONE'' کافی رش لے رہی تھی' پیچھے سے بلوچی زبان میں باتوں کی آواز آئی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا توشکلیں جانی پہچانی لگیں' اچانک یاد آیا کہ یہ تو شیرمحمد مری اور نواب خیر بخش مری کھڑے ہیں۔
دونوں نے قطار میں لگ کر اپنا اپنا ٹکٹ لیا اور سینما ہال کے اندر آگئے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔فلم کے دوران خاموشی رہی،ہاف ٹائم میں دونوں آپس گفتگو کرتے رہے' مجھے اپنا تعارف یا بات کرنی کی ہمت نہیں ہوئی' حالانکہ اس وقت میں بھی نیپ صوبہ سرحد کی صوبائی کونسل کا رکن تھا اور وہ نیپ کے ممبر قومی اسمبلی تھے ' بہرحال قطار میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لینے سے یہ ثابت ہوا کہ وہ عوام کا لیڈر تھا، اسی لیے عوام اس کا جنازہ لے گئے اور اپنی پسند کے مقام پر جنازہ پڑھایا۔بی ایس او کے دوست نے بتایاکہ جب بھی نواب صاحب باہر سے کوئٹہ آتے توریل کا ایک ڈبہ سیاسی اور نظریاتی کتابوں سے بھراہوا اپنے ساتھ ضرور لاتے جو وہ طلباء میں تقسیم کرتے 'قومی اسمبلی اور پھر حید ر آباد جیل میں ان کے کردارسے میں زندگی بھر متاثر رہا لیکن ملاقات صرف ایک دفعہ ہوئی 'اس ملاقات کا حال دلچسپ ہے
دسمبر 1979میں نیشنل پروگریسوپارٹی (NPP) کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں مقرر ہوا تھا'صوبہ سرحد سے میں'سرفراز محمود ایڈوکیٹ' نورت خان آفریدی اور پارٹی کے مرکزی صدر افراسیاب خٹک اس اجلاس میں شرکت کے لیے کوئٹہ آئے تھے 'پنجا ب اورسندھ کے ساتھی بھی آئے تھے۔ بلوچستان کے ساتھیوں میرا خان مندوخیل 'امان بازئی'امان اللہ کانسی اور سیف اللہ سمیت دوسرے ساتھیوں نے مہمان نوازی کی انتہا کردی تھی 'سیاسی زندگی میں کئی دفعہ کراچی 'لاہور اور بلوچستان جانے کا موقعہ ملا ہے لیکن مہمان نوازی میں بلوچستان کے لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں ہے' مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم خیبرپختونخوا والے بھی اتنے مہمان نواز نہیں۔جب ہم کوئٹہ پہنچے تو شام کو باقی دوست کمرے میںگپ شپ لگا رہے تھے اور میں باہر لان میں بیٹھا کوئٹہ کا موسم انجوائے کر رہا تھا۔
اتنے میں گیٹ سے نواب خیر بخش مری اور ان کے پیچھے شیر محمد مری عرف جنرل شیروف داخل ہوئے 'میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا تو انھوں نے افراسیاب خٹک کا پوچھا 'یہ دونوں ولی خان ، عطااﷲ مینگل اور افراسیاب وغیرہ کے ساتھ حیدر آباد جیل سے رہا ہوکر آئے تھے' انھوں نے میرا نام پوچھا تو میں نے اپنا تعارف بھی کرایا، پھر ان کو ڈرائنگ روم میں دوستوںکے پاس لے گیا 'چائے پینے کے بعد سردار صاحب اٹھے اور مجھے کہا کہ آپ سب کل دوپہر میرے مہمان ہوں گے' میں گیارہ بجے تم دوستوں کا انتظار کروں گا۔ انھوں نے اشارے سے پڑوس میں واقع اپنا گھر دکھایا اور چلے گئے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ بی ایس اوکے دوستوں نے اگلے دن بولان میڈیکل کالج میں ہمارے اعزاز میں ایک پروگرام رکھا ہے 'جب میں نے دوستوں سے سردار صاحب کی دعوت کا ذکر کیا تو فیصلہ ہوا کہ افراسیاب خٹک مقامی دوستوں کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پروگرام میں شرکت کریں گے اور سرفراز محمود ایڈوکیٹ'میں اور غالباً نورت خان آفریدی سردار صاحب کے پاس جائیں گے۔
نواب صاحب سے ملاقات کی خوشی میں سرفراز محمود اور میں صبح دس بجے ہی ان کے ڈرائینگ روم میں پہنچ گئے 'وہ وہاں بیٹھے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے' انھوں نے بتایا کہ آپ کو گیارہ بجے کا وقت اس لیے دیا تھا کہ دس بجے ایک کسان کو ملاقات کا ٹائم دیاہے جو میرے علاقے مری بگتی علاقے سے دو دن کا سفر کرکے یہاں پہنچا ہے 'ابھی نواب صاحب بات کر رہے تھے کہ نوکر ایک بوڑھے کسان کو لے آیا ' نواب صاحب صوفے پر بیٹھے تھے 'بوڑھے نے جھک کر ان سے ہاتھ ملایا ، پھر نیچے قالین پر بیٹھ گیا 'تقریباً 20منٹ تک وہ بولتا رہا'نواب صاحب کبھی سر ہلا کر اور کبھی ہوں ہاں کرکے اس کی باتوں کو توجہ سے سنتے رہے ،پھر جب وہ خاموش ہوا تو نواب صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ باتیں کیں'بوڑھے کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آئے، پھر وہ اٹھا اور جھک کر دوبارہ سردار صاحب سے ہاتھ ملایا اور اس کے ہاتھ کو چھوما اور پھر کمرے سے نکل گیا 'اس دوران سرفراز محمود ایڈوکیٹ اور میں خاموش بیٹھے رہے۔
ان کی بلوچی زبان ہمارے پلے نہیں پڑ رہی تھی ۔جب وہ کسان چلا گیا تو نواب صاحب نے ہم سے پوچھا ، آپ بوڑھے کسان کی باتیں سمجھ گئے ہیں ؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا'نواب صاحب نے کہا کہ یہ بوڑھا کہہ رہا تھا کہ'' میں' میری بیوی اور پورا گاؤںآپ کو دعائیں دیتے ہیں کہ وہ آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے 'میری بیوی نے آپ کے لیے چار مرغ' تین کلو شہد'دس کلو دیسی گھی اور دوسرا سامان بھیجا ہے 'ایک مرغ راستے میںکہیں کھو گیا' راستے میں پانچ جگہ سواری تبدیل کی اور کل صبح یہاں پہنچا ہوں 'آپ سے ملاقات کے بعد واپس جاکر قبیلے والوں کو بتاؤں گا کہ نواب صاحب سے ملاقات ہوگئی اور ان کی صحت بالکل ٹھیک ہے کیونکہ وہ لوگ میرا انتظار کررہے ہوںگے''۔ نواب صاحب نے ملازم کو بلاکر اس سے مزید ملاقاتیوں کے بارے میں پوچھا 'اس نے جواب دیا کہ 40/50افراد مہمان خانے میں ان کا انتظار کر رہے ہیں۔
نواب صاحب نے اس سے چائے لانے کے لیے کہا اور کہا کہ یہ لوگ بھی قبیلے سے آئے ہیں'کچھ دودن قبل اور چند تو ہفتہ بھر سے مہمان خانے میں مقیم ہیں 'میں مصروفیات کی وجہ سے ان کو وقت نہ دے سکا'پھر نواب صاحب ہمارے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئے۔ کامریڈسرفراز محمود ہمارے ساتھیوں میں بال کی کھال اتارنے والے مشہور تھے 'انھوں نے سرداری نظام اور اس کی خرابیوں کے بارے میں سوال کیا 'نواب صاحب نے کہا کہ قبیلے کی زیادہ تر زمین نواب یا سردار کی ملکیت ہوتی ہے' اس کے علاوہ چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے بھی زمینوں کے مالک ہوتے ہیں' قبیلے کے عام لوگ وہاں پر کاشت کاری کرتے ہیں'اکثر کا پیشہ گلہ بانی ہوتا ہے 'اچھی زمینوں کو کاشت کرنے والوں سے ہم فصل کا چھٹا حصہ لیتے ہیںجس کو شیشک کہتے ہیں'خراب یا بنجر زمینوں والوں سے ہم کچھ نہیں لیتے۔ہر قبیلے کا اپنا جرگہ (پنچایت) ہوتا ہے۔
قبیلے کی مختلف شاخوں کے چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے اس پنچایت یا جرگے کے رکن ہوتے ہیں' سردار کا انتخاب یہ جرگہ کرتا ہے' سردار دیگر امور میں بھی جرگے سے مشورے کا پابند ہوتا ہے 'سردار کوئی آمر مطلق نہیں ہوتا بلکہ ایک جمہوری طریقہ کار کے مطابق قبیلے کے امور چلاتا ہے 'سردار قبیلے کی انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا ذمے دار ہوتا ہے ' ہر شخص کے دکھ درد میں وہ خود یا اس کا نمایندہ شریک ہوتا ہے' بھٹو صاحب نے جب سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تو چند اخبار نویسوں نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا' میں نے ان سے کہا کہ سرداری نظام قبائلی طرز معاشرت اورمعیشت کا لازمی جزو ہوتا ہے 'جس طرح جاگیرداری نظام میں پنجاب کا چوہدری' صوبہ سرحد کا میاں، خان اور سندھ کا وڈیرہ اس نظام کی عکاسی کرتے ہیں'اسی طرح بلوچستان اور دیگر علاقوں میں رائج قبائلی نظام میں سردار یا نواب اس نظام کی عکاسی کرتا ہے'یہ نظام سرکاری اعلانات سے ختم نہیں ہوسکتا، اس کے خاتمے کے لیے قبائلی و جاگیرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا۔نواب خیر بخش مری اور ہماری دلچسپ گفتگو ابھی جاری ہے۔
مجھے نیول اکیڈمی منوڑہ میں داخل کیا گیا' منوڑہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی' ایک دن کسی بات پر غصہ آیا' سمندرمیں چھلانگ لگائی اورتیر کر کراچی پہنچ گیا ' ساری زندگی بس ایسے ہی خطروں سے کھیلتے رہے ''۔انھوں نے 1973 کے آئین پر دستخط نہیںکیے تھے کیونکہ وہ اس آئین کو مکمل وفاقی نہیں مانتے تھے 'مرتے دم تک بلوچ حقوق اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے 'اس جدوجہد میں ان کے بچے بھی قربان اور جلاوطن ہوگئے 'ذاتی کردار ایسا کہ میں غالباً 1973/74میں کراچی کے بمبینو سینما میں ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں کھڑا تھا ۔اس وقت کی مشہور انگریزی فلم''GUNS OF NAVARONE'' کافی رش لے رہی تھی' پیچھے سے بلوچی زبان میں باتوں کی آواز آئی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا توشکلیں جانی پہچانی لگیں' اچانک یاد آیا کہ یہ تو شیرمحمد مری اور نواب خیر بخش مری کھڑے ہیں۔
دونوں نے قطار میں لگ کر اپنا اپنا ٹکٹ لیا اور سینما ہال کے اندر آگئے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔فلم کے دوران خاموشی رہی،ہاف ٹائم میں دونوں آپس گفتگو کرتے رہے' مجھے اپنا تعارف یا بات کرنی کی ہمت نہیں ہوئی' حالانکہ اس وقت میں بھی نیپ صوبہ سرحد کی صوبائی کونسل کا رکن تھا اور وہ نیپ کے ممبر قومی اسمبلی تھے ' بہرحال قطار میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لینے سے یہ ثابت ہوا کہ وہ عوام کا لیڈر تھا، اسی لیے عوام اس کا جنازہ لے گئے اور اپنی پسند کے مقام پر جنازہ پڑھایا۔بی ایس او کے دوست نے بتایاکہ جب بھی نواب صاحب باہر سے کوئٹہ آتے توریل کا ایک ڈبہ سیاسی اور نظریاتی کتابوں سے بھراہوا اپنے ساتھ ضرور لاتے جو وہ طلباء میں تقسیم کرتے 'قومی اسمبلی اور پھر حید ر آباد جیل میں ان کے کردارسے میں زندگی بھر متاثر رہا لیکن ملاقات صرف ایک دفعہ ہوئی 'اس ملاقات کا حال دلچسپ ہے
دسمبر 1979میں نیشنل پروگریسوپارٹی (NPP) کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں مقرر ہوا تھا'صوبہ سرحد سے میں'سرفراز محمود ایڈوکیٹ' نورت خان آفریدی اور پارٹی کے مرکزی صدر افراسیاب خٹک اس اجلاس میں شرکت کے لیے کوئٹہ آئے تھے 'پنجا ب اورسندھ کے ساتھی بھی آئے تھے۔ بلوچستان کے ساتھیوں میرا خان مندوخیل 'امان بازئی'امان اللہ کانسی اور سیف اللہ سمیت دوسرے ساتھیوں نے مہمان نوازی کی انتہا کردی تھی 'سیاسی زندگی میں کئی دفعہ کراچی 'لاہور اور بلوچستان جانے کا موقعہ ملا ہے لیکن مہمان نوازی میں بلوچستان کے لوگوں سے زیادہ کوئی نہیں ہے' مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم خیبرپختونخوا والے بھی اتنے مہمان نواز نہیں۔جب ہم کوئٹہ پہنچے تو شام کو باقی دوست کمرے میںگپ شپ لگا رہے تھے اور میں باہر لان میں بیٹھا کوئٹہ کا موسم انجوائے کر رہا تھا۔
اتنے میں گیٹ سے نواب خیر بخش مری اور ان کے پیچھے شیر محمد مری عرف جنرل شیروف داخل ہوئے 'میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا تو انھوں نے افراسیاب خٹک کا پوچھا 'یہ دونوں ولی خان ، عطااﷲ مینگل اور افراسیاب وغیرہ کے ساتھ حیدر آباد جیل سے رہا ہوکر آئے تھے' انھوں نے میرا نام پوچھا تو میں نے اپنا تعارف بھی کرایا، پھر ان کو ڈرائنگ روم میں دوستوںکے پاس لے گیا 'چائے پینے کے بعد سردار صاحب اٹھے اور مجھے کہا کہ آپ سب کل دوپہر میرے مہمان ہوں گے' میں گیارہ بجے تم دوستوں کا انتظار کروں گا۔ انھوں نے اشارے سے پڑوس میں واقع اپنا گھر دکھایا اور چلے گئے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ بی ایس اوکے دوستوں نے اگلے دن بولان میڈیکل کالج میں ہمارے اعزاز میں ایک پروگرام رکھا ہے 'جب میں نے دوستوں سے سردار صاحب کی دعوت کا ذکر کیا تو فیصلہ ہوا کہ افراسیاب خٹک مقامی دوستوں کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پروگرام میں شرکت کریں گے اور سرفراز محمود ایڈوکیٹ'میں اور غالباً نورت خان آفریدی سردار صاحب کے پاس جائیں گے۔
نواب صاحب سے ملاقات کی خوشی میں سرفراز محمود اور میں صبح دس بجے ہی ان کے ڈرائینگ روم میں پہنچ گئے 'وہ وہاں بیٹھے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے' انھوں نے بتایا کہ آپ کو گیارہ بجے کا وقت اس لیے دیا تھا کہ دس بجے ایک کسان کو ملاقات کا ٹائم دیاہے جو میرے علاقے مری بگتی علاقے سے دو دن کا سفر کرکے یہاں پہنچا ہے 'ابھی نواب صاحب بات کر رہے تھے کہ نوکر ایک بوڑھے کسان کو لے آیا ' نواب صاحب صوفے پر بیٹھے تھے 'بوڑھے نے جھک کر ان سے ہاتھ ملایا ، پھر نیچے قالین پر بیٹھ گیا 'تقریباً 20منٹ تک وہ بولتا رہا'نواب صاحب کبھی سر ہلا کر اور کبھی ہوں ہاں کرکے اس کی باتوں کو توجہ سے سنتے رہے ،پھر جب وہ خاموش ہوا تو نواب صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ باتیں کیں'بوڑھے کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آئے، پھر وہ اٹھا اور جھک کر دوبارہ سردار صاحب سے ہاتھ ملایا اور اس کے ہاتھ کو چھوما اور پھر کمرے سے نکل گیا 'اس دوران سرفراز محمود ایڈوکیٹ اور میں خاموش بیٹھے رہے۔
ان کی بلوچی زبان ہمارے پلے نہیں پڑ رہی تھی ۔جب وہ کسان چلا گیا تو نواب صاحب نے ہم سے پوچھا ، آپ بوڑھے کسان کی باتیں سمجھ گئے ہیں ؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا'نواب صاحب نے کہا کہ یہ بوڑھا کہہ رہا تھا کہ'' میں' میری بیوی اور پورا گاؤںآپ کو دعائیں دیتے ہیں کہ وہ آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے 'میری بیوی نے آپ کے لیے چار مرغ' تین کلو شہد'دس کلو دیسی گھی اور دوسرا سامان بھیجا ہے 'ایک مرغ راستے میںکہیں کھو گیا' راستے میں پانچ جگہ سواری تبدیل کی اور کل صبح یہاں پہنچا ہوں 'آپ سے ملاقات کے بعد واپس جاکر قبیلے والوں کو بتاؤں گا کہ نواب صاحب سے ملاقات ہوگئی اور ان کی صحت بالکل ٹھیک ہے کیونکہ وہ لوگ میرا انتظار کررہے ہوںگے''۔ نواب صاحب نے ملازم کو بلاکر اس سے مزید ملاقاتیوں کے بارے میں پوچھا 'اس نے جواب دیا کہ 40/50افراد مہمان خانے میں ان کا انتظار کر رہے ہیں۔
نواب صاحب نے اس سے چائے لانے کے لیے کہا اور کہا کہ یہ لوگ بھی قبیلے سے آئے ہیں'کچھ دودن قبل اور چند تو ہفتہ بھر سے مہمان خانے میں مقیم ہیں 'میں مصروفیات کی وجہ سے ان کو وقت نہ دے سکا'پھر نواب صاحب ہمارے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئے۔ کامریڈسرفراز محمود ہمارے ساتھیوں میں بال کی کھال اتارنے والے مشہور تھے 'انھوں نے سرداری نظام اور اس کی خرابیوں کے بارے میں سوال کیا 'نواب صاحب نے کہا کہ قبیلے کی زیادہ تر زمین نواب یا سردار کی ملکیت ہوتی ہے' اس کے علاوہ چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے بھی زمینوں کے مالک ہوتے ہیں' قبیلے کے عام لوگ وہاں پر کاشت کاری کرتے ہیں'اکثر کا پیشہ گلہ بانی ہوتا ہے 'اچھی زمینوں کو کاشت کرنے والوں سے ہم فصل کا چھٹا حصہ لیتے ہیںجس کو شیشک کہتے ہیں'خراب یا بنجر زمینوں والوں سے ہم کچھ نہیں لیتے۔ہر قبیلے کا اپنا جرگہ (پنچایت) ہوتا ہے۔
قبیلے کی مختلف شاخوں کے چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے اس پنچایت یا جرگے کے رکن ہوتے ہیں' سردار کا انتخاب یہ جرگہ کرتا ہے' سردار دیگر امور میں بھی جرگے سے مشورے کا پابند ہوتا ہے 'سردار کوئی آمر مطلق نہیں ہوتا بلکہ ایک جمہوری طریقہ کار کے مطابق قبیلے کے امور چلاتا ہے 'سردار قبیلے کی انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا ذمے دار ہوتا ہے ' ہر شخص کے دکھ درد میں وہ خود یا اس کا نمایندہ شریک ہوتا ہے' بھٹو صاحب نے جب سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تو چند اخبار نویسوں نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا' میں نے ان سے کہا کہ سرداری نظام قبائلی طرز معاشرت اورمعیشت کا لازمی جزو ہوتا ہے 'جس طرح جاگیرداری نظام میں پنجاب کا چوہدری' صوبہ سرحد کا میاں، خان اور سندھ کا وڈیرہ اس نظام کی عکاسی کرتے ہیں'اسی طرح بلوچستان اور دیگر علاقوں میں رائج قبائلی نظام میں سردار یا نواب اس نظام کی عکاسی کرتا ہے'یہ نظام سرکاری اعلانات سے ختم نہیں ہوسکتا، اس کے خاتمے کے لیے قبائلی و جاگیرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا۔نواب خیر بخش مری اور ہماری دلچسپ گفتگو ابھی جاری ہے۔