بڑی گاڑیاں اور بڑے گھر
حکومت کہہ رہی ہے کہ زیادہ آمدن والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے تو بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں زیادہ آمدن کی پہلی پہچان ہیں
کراچی:
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران میں ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ملک کو چلانے کے لیے حکومت عوام پر ٹیکس کا بو جھ ڈالنے پر مجبور نظر آرہی ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی گیس اور پٹرول پر حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر سبسڈی دی جائے گی تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے اور اگر نہیں دی جاتی تو غریب اور متوسط طبقہ کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ عوام اور ملک میں سے ایک کو ہی بچایا جا سکتا ہے۔ اس لیے مضبوط رائے یہی ہے کہ ملک بچ جائے گا تو عوام کا خیال بعد میں بھی کیا جا سکتاہے اور اگر ملک ہی نہ رہا تو عوام کو بچا کر بھی کیا کریںگے۔ اس لیے ریاست بچاؤ مہم شروع کی گئی ہے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے عوام سے قربانی مانگی جا رہی ہے۔
میں اس بات کا حامی ہوں کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ہر ممکن قربانی دی جانی چاہیے۔ ملک پر ہماری جان مال سب کچھ قربان۔ اس لیے جب ملک بچانے کی بات ہے تو کسی کو بھی کوئی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر یہ نعرہ لگایا جا سکتا ہے کہ پٹرول جتنا بھی مہنگا ہو جائے ہم عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو آج ملک کے لیے ایسا ہی نعرہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا۔ ملک سیاسی وابستگیوں سے آگے ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر پاکستان کی خاطر کوئی سختی برداشت کرنی بھی پڑ رہی ہے تو ہمیں اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ یہ قربانی ملک کے لیے ہو ۔ عوام کی کھال کھینچنے کے لیے ملک کا بہانہ بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ ملک کے لیے ہر قربانی دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی انصاف نہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ سے قربانی مانگی جائے اور امیر کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ بھی کوئی انصاف نہیں کہ جتنی قربانی غریب اور متوسط طبقہ سے مانگی جا رہی ہے اتنی ہی امیروں سے بھی مانگی جائے۔جو جتنا امیر ہے اسے اتنی زیادہ قربانی دینی چاہیے۔قربانی کا بوجھ بھی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ برابر قربانی کوئی انصاف نہیں بلکہ استحصال ہے۔ اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
آپ بجلی کی قیمت کو ہی دیکھ لیں۔ بجلی کی قیمت میں امیر اور غریب کے لیے برابر اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ تین سو یونٹ تو ایک مذاق ہے۔ اب متوسط طبقہ کے لوگ جو مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے ہیںوہ تین سو یونٹ کا فائدہ کبھی بھی نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ ویسے بھی متوسط طبقہ کو کیا گرمیوں میں پنکھے اور اے سی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بجلی کے ریٹ گھر کے سائز اور اس کی مالیت کے حساب سے ہونے چاہیے۔ دس مرلہ سے بڑے گھروں کے لیے علیحدہ سلیب ہونا چاہیے۔ آپ کا جتنا بڑا گھر ہے آپ کے لیے بجلی اتنی ہی مہنگی ہونی چاہیے۔ سوال یونٹ استعمال کرنے کا نہیں۔ سوال بڑے گھر کا ہونا چاہیے۔
یہاں بڑے بڑے گھروں میں دو دو لوگ رہتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ اس لیے بڑے گھروں کے لیے بجلی کے ریٹ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی بڑے گھروں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز کے لیے بھی زیادہ ریٹ ہونا چاہیے۔ امیر اور غریب کو ایک ہی ریٹ پر بجلی کی فراہمی انصاف نہیں استحصال ہے۔امیر اور غریب علاقوں کی لسٹیں بنائی جائیں۔ مہنگے علاقوں کے ریٹ بھی مہنگے ہونے چاہیے۔ لاکھوں اور کر وڑوں روپے کے گھروں کو ایک ریٹ پر بجلی کیسے دی جا سکتی ہے۔ جب مہنگا کرنا مجبوری ہے۔تو امیروں کے لیے زیادہ مہنگی کی جائے۔ یہی انصاف ہے۔
پٹرول کا بھی یہی معاملہ ہے۔ میں چالیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو دو ہزار دینے کے حق میں نہیں۔ حکومت کا ایک ایسا نظام بنانا چاہیے جہاں مہنگی بڑی گاڑیاں مہنگا پٹرول خریدیں۔ موٹر سائیکل کو کم قیمت پر اور چھوٹی گاڑیوں کو درمیانی قیمت پر پٹرول ملنا چاہیے۔ پندرہ سو سی سی سے بڑی گاڑیوں کے لیے پٹرول کی مہنگی قیمت ہونی چاہیے۔ امیر اور غریب کو یکساں قیمت پر پٹرول کیسے دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی تین کروڑ کی گاڑی رکھتا ہے تو اسے مہنگا پٹرول دینا چاہیے۔
ایک دفعہ مہنگی گاڑی دینا کوئی انصاف نہیں۔ آپ کے پاس مہنگی گاڑی ہے آپ روزانہ مہنگا پٹرول خریدیں۔ ایک تو کسی بھی قسم کی سبسڈی پر آپ کا کوئی حق نہیں۔ میں یہ نہیں مانتاکہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ عملی طور پر ممکن نہیں۔ اگر حکومت چاہے تو نظام بنایا جا سکتا ہے۔ موٹر سائیکل کے لیے علیحدہ نظام بنایا جا سکتا۔ علیحدہ علیحدہ پٹرول پمپ مختص کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ون ڈش پر عمل کروایا جا سکتا ہے تو پٹرول کی الگ الگ قیمت پر کیوں نہیں عمل ہو سکتا ہے۔
میرے لیے ملک کے لیے یہ کوئی قربانی نہیں کہ امیر اور غریب کو ایک ہی قیمت پر پٹرول دیا جائے۔ امیروں کو جتنا مہنگا پٹرول دیا جا سکتا ہے دیا جائے۔ تا کہ لوگ چھوٹی گاڑیوں پر آجائیں۔ اگر کوئی پٹرول پمپ والا کرپشن کرے گا تو اس کی سزا مقرر ہو سکتی ہے۔ جیسے بجلی چوری کی سزا ہے۔ ایسے ہی دیگر سزائیں بھی مقرر کی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح گیس بھی امیروں کے لیے مہنگی اور غریبوں اور متوسط طبقہ کے لیے سستی ہونی چاہیے۔ امیر علاقوں کو مہنگی گیس دی جائے۔ ان کے جنریٹر بھی گیس پر چلتے ہیں۔ مہنگی گیس ملے گی تو انھیں غریب کا احساس ہوگا۔ غریب کے لیے سردی میں ایک ہیٹر چلانا مشکل ہے امیروں نے پورا گھر گرم کیا ہوتا ہے۔ اس کی قیمت ہونی چاہیے۔
اگر پاکستان کو واقعی مشکل حالات کا سامنا ہے تو امیروں سے قربانی کیوں نہیں مانگی جا رہی۔ جن کے بینک اکاؤنٹس میں ایک حد سے زیادہ رقم موجود ہے۔ ان سے کہا جائے کہ وہ یہ رقم پاکستان کو دے دیں۔ امیر اپنی آدھی دولت بھی ملک کو دے دیں گے تو کیا ہوگا۔ انھوں نے یہ دولت پاکستان سے ہی کمائی ہے۔ بڑے بڑے گھروں گاڑیوں اوربڑے بینک بیلنس رکھنے والوں سے ملک کے لیے قربانی لی جائے وہ نہ دیں تو ان سے چھین لیا جائے۔ غریب سے اس کا نوالہ چھیننے سے بہتر ہے امیر سے لیا جائے۔ ان سے ملک کے لیے قربانی لی جائے۔ تین سے زائد پلاٹوں کے مالکوں کو بھی کہا جائے ملک کو دیں۔ جب امیر قربانی دے گا تو غریب کو حوصلہ ہوگا۔ ابھی تو یہ رائے ہے کہ بس غریب ہی قربانی دے رہا ہے۔ جو کسی حد تک سچ بھی ہے۔
لیکن یہ کام مشکل ہے ۔ یہ سب لوگ تو اقتدار میں بیٹھے ہیں۔ اسمبلیوں میں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ بڑے سرکاری دفاتر میں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ جہاں فیصلے ہونے ہیں وہاں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔اس لیے فیصلے میرے اور آپ کے خلاف ہی ہوتے ہیں۔ قربانی ہم سے ہی مانگی جاتی ہے۔ قربانی کے لیے صرف لائحہ عمل ہی نہیں بلکہ سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دن آئے گا کہ لوگ ان امیروں سے سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ بہت ڈرایا جاتا ہے کہ ان امیروں کو تنگ کیا گیا تو یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ چھوڑ جائیں۔
ہمارے ملک کے وسائل تو استعمال نہ کریں۔ ہماری بجلی نہ استعمال کریں۔ ہمارا پٹرول نہ استعمال کریں۔ ان کا نہ ہونا بھی نعمت ہی ہوگی۔ ویسے بھی حکومت کہہ رہی ہے کہ زیادہ آمدن والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے تو بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں زیادہ آمدن کی پہلی پہچان ہیں۔ اس لیے ان پر زیادہ ٹیکس ہونا چاہیے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران میں ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ملک کو چلانے کے لیے حکومت عوام پر ٹیکس کا بو جھ ڈالنے پر مجبور نظر آرہی ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی گیس اور پٹرول پر حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر سبسڈی دی جائے گی تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے اور اگر نہیں دی جاتی تو غریب اور متوسط طبقہ کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ عوام اور ملک میں سے ایک کو ہی بچایا جا سکتا ہے۔ اس لیے مضبوط رائے یہی ہے کہ ملک بچ جائے گا تو عوام کا خیال بعد میں بھی کیا جا سکتاہے اور اگر ملک ہی نہ رہا تو عوام کو بچا کر بھی کیا کریںگے۔ اس لیے ریاست بچاؤ مہم شروع کی گئی ہے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے عوام سے قربانی مانگی جا رہی ہے۔
میں اس بات کا حامی ہوں کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ہر ممکن قربانی دی جانی چاہیے۔ ملک پر ہماری جان مال سب کچھ قربان۔ اس لیے جب ملک بچانے کی بات ہے تو کسی کو بھی کوئی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر یہ نعرہ لگایا جا سکتا ہے کہ پٹرول جتنا بھی مہنگا ہو جائے ہم عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو آج ملک کے لیے ایسا ہی نعرہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا۔ ملک سیاسی وابستگیوں سے آگے ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر پاکستان کی خاطر کوئی سختی برداشت کرنی بھی پڑ رہی ہے تو ہمیں اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ یہ قربانی ملک کے لیے ہو ۔ عوام کی کھال کھینچنے کے لیے ملک کا بہانہ بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ ملک کے لیے ہر قربانی دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی انصاف نہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ سے قربانی مانگی جائے اور امیر کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ بھی کوئی انصاف نہیں کہ جتنی قربانی غریب اور متوسط طبقہ سے مانگی جا رہی ہے اتنی ہی امیروں سے بھی مانگی جائے۔جو جتنا امیر ہے اسے اتنی زیادہ قربانی دینی چاہیے۔قربانی کا بوجھ بھی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ برابر قربانی کوئی انصاف نہیں بلکہ استحصال ہے۔ اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
آپ بجلی کی قیمت کو ہی دیکھ لیں۔ بجلی کی قیمت میں امیر اور غریب کے لیے برابر اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ تین سو یونٹ تو ایک مذاق ہے۔ اب متوسط طبقہ کے لوگ جو مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے ہیںوہ تین سو یونٹ کا فائدہ کبھی بھی نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ ویسے بھی متوسط طبقہ کو کیا گرمیوں میں پنکھے اور اے سی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بجلی کے ریٹ گھر کے سائز اور اس کی مالیت کے حساب سے ہونے چاہیے۔ دس مرلہ سے بڑے گھروں کے لیے علیحدہ سلیب ہونا چاہیے۔ آپ کا جتنا بڑا گھر ہے آپ کے لیے بجلی اتنی ہی مہنگی ہونی چاہیے۔ سوال یونٹ استعمال کرنے کا نہیں۔ سوال بڑے گھر کا ہونا چاہیے۔
یہاں بڑے بڑے گھروں میں دو دو لوگ رہتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ اس لیے بڑے گھروں کے لیے بجلی کے ریٹ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی بڑے گھروں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز کے لیے بھی زیادہ ریٹ ہونا چاہیے۔ امیر اور غریب کو ایک ہی ریٹ پر بجلی کی فراہمی انصاف نہیں استحصال ہے۔امیر اور غریب علاقوں کی لسٹیں بنائی جائیں۔ مہنگے علاقوں کے ریٹ بھی مہنگے ہونے چاہیے۔ لاکھوں اور کر وڑوں روپے کے گھروں کو ایک ریٹ پر بجلی کیسے دی جا سکتی ہے۔ جب مہنگا کرنا مجبوری ہے۔تو امیروں کے لیے زیادہ مہنگی کی جائے۔ یہی انصاف ہے۔
پٹرول کا بھی یہی معاملہ ہے۔ میں چالیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو دو ہزار دینے کے حق میں نہیں۔ حکومت کا ایک ایسا نظام بنانا چاہیے جہاں مہنگی بڑی گاڑیاں مہنگا پٹرول خریدیں۔ موٹر سائیکل کو کم قیمت پر اور چھوٹی گاڑیوں کو درمیانی قیمت پر پٹرول ملنا چاہیے۔ پندرہ سو سی سی سے بڑی گاڑیوں کے لیے پٹرول کی مہنگی قیمت ہونی چاہیے۔ امیر اور غریب کو یکساں قیمت پر پٹرول کیسے دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی تین کروڑ کی گاڑی رکھتا ہے تو اسے مہنگا پٹرول دینا چاہیے۔
ایک دفعہ مہنگی گاڑی دینا کوئی انصاف نہیں۔ آپ کے پاس مہنگی گاڑی ہے آپ روزانہ مہنگا پٹرول خریدیں۔ ایک تو کسی بھی قسم کی سبسڈی پر آپ کا کوئی حق نہیں۔ میں یہ نہیں مانتاکہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ عملی طور پر ممکن نہیں۔ اگر حکومت چاہے تو نظام بنایا جا سکتا ہے۔ موٹر سائیکل کے لیے علیحدہ نظام بنایا جا سکتا۔ علیحدہ علیحدہ پٹرول پمپ مختص کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ون ڈش پر عمل کروایا جا سکتا ہے تو پٹرول کی الگ الگ قیمت پر کیوں نہیں عمل ہو سکتا ہے۔
میرے لیے ملک کے لیے یہ کوئی قربانی نہیں کہ امیر اور غریب کو ایک ہی قیمت پر پٹرول دیا جائے۔ امیروں کو جتنا مہنگا پٹرول دیا جا سکتا ہے دیا جائے۔ تا کہ لوگ چھوٹی گاڑیوں پر آجائیں۔ اگر کوئی پٹرول پمپ والا کرپشن کرے گا تو اس کی سزا مقرر ہو سکتی ہے۔ جیسے بجلی چوری کی سزا ہے۔ ایسے ہی دیگر سزائیں بھی مقرر کی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح گیس بھی امیروں کے لیے مہنگی اور غریبوں اور متوسط طبقہ کے لیے سستی ہونی چاہیے۔ امیر علاقوں کو مہنگی گیس دی جائے۔ ان کے جنریٹر بھی گیس پر چلتے ہیں۔ مہنگی گیس ملے گی تو انھیں غریب کا احساس ہوگا۔ غریب کے لیے سردی میں ایک ہیٹر چلانا مشکل ہے امیروں نے پورا گھر گرم کیا ہوتا ہے۔ اس کی قیمت ہونی چاہیے۔
اگر پاکستان کو واقعی مشکل حالات کا سامنا ہے تو امیروں سے قربانی کیوں نہیں مانگی جا رہی۔ جن کے بینک اکاؤنٹس میں ایک حد سے زیادہ رقم موجود ہے۔ ان سے کہا جائے کہ وہ یہ رقم پاکستان کو دے دیں۔ امیر اپنی آدھی دولت بھی ملک کو دے دیں گے تو کیا ہوگا۔ انھوں نے یہ دولت پاکستان سے ہی کمائی ہے۔ بڑے بڑے گھروں گاڑیوں اوربڑے بینک بیلنس رکھنے والوں سے ملک کے لیے قربانی لی جائے وہ نہ دیں تو ان سے چھین لیا جائے۔ غریب سے اس کا نوالہ چھیننے سے بہتر ہے امیر سے لیا جائے۔ ان سے ملک کے لیے قربانی لی جائے۔ تین سے زائد پلاٹوں کے مالکوں کو بھی کہا جائے ملک کو دیں۔ جب امیر قربانی دے گا تو غریب کو حوصلہ ہوگا۔ ابھی تو یہ رائے ہے کہ بس غریب ہی قربانی دے رہا ہے۔ جو کسی حد تک سچ بھی ہے۔
لیکن یہ کام مشکل ہے ۔ یہ سب لوگ تو اقتدار میں بیٹھے ہیں۔ اسمبلیوں میں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ بڑے سرکاری دفاتر میں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ جہاں فیصلے ہونے ہیں وہاں یہ لوگ بیٹھے ہیں۔اس لیے فیصلے میرے اور آپ کے خلاف ہی ہوتے ہیں۔ قربانی ہم سے ہی مانگی جاتی ہے۔ قربانی کے لیے صرف لائحہ عمل ہی نہیں بلکہ سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دن آئے گا کہ لوگ ان امیروں سے سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ بہت ڈرایا جاتا ہے کہ ان امیروں کو تنگ کیا گیا تو یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ چھوڑ جائیں۔
ہمارے ملک کے وسائل تو استعمال نہ کریں۔ ہماری بجلی نہ استعمال کریں۔ ہمارا پٹرول نہ استعمال کریں۔ ان کا نہ ہونا بھی نعمت ہی ہوگی۔ ویسے بھی حکومت کہہ رہی ہے کہ زیادہ آمدن والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے تو بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں زیادہ آمدن کی پہلی پہچان ہیں۔ اس لیے ان پر زیادہ ٹیکس ہونا چاہیے۔