شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت منظور ہونے کا فیصلہ

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت تو کنفرم ہو گئی ہے

msuherwardy@gmail.com

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت تو کنفرم ہو گئی ہے۔ لیکن ضمانت کی منظوری کا یہ حکم نامہ پڑھتے ہوئے مجھے عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر بہت یاد آرہے ہیں۔ ان کی گھنٹوں پر محیط وہ پریس کانفرنس جس میں وہ بڑے یقین کے ساتھ عمران خان کے مخالفین پر کرپشن کے الزام لگاتے تھے۔

ان کے ٹوئٹس جس میں وہ پاکستان میں احتساب کے سب سے بڑے ٹھیکیدار بنے نظر آتے تھے۔ سیاسی مخالفین کے لیے ان کے چہرے سے جھلکتی حقارت سب کچھ بہت یاد آتا ہے۔ ان کے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد وہ ایسے بھاگے ہیں کہ نظر ہی نہیں آرہے۔ کل تک دوسروں کو بھاگنے کا طعنہ دینے والے شہزاد اکبر پتہ نہیں خود کیوں بھاگ گئے ۔ حالانکہ ان پر تو کوئی کیس بھی نہیں ہے۔ وہ تو کیس بننے سے پہلے ہی بھاگ گئے ہیں۔ اب شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عدالت سے ضمانت منظور ہونے پر ان میں پریس کانفرنس کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔ ہمت کی کیا بات ہے کسی کو معلوم ہی نہیں وہ کہاں ہیں۔

بہر حال عمران خان اور ان کے حامیوں کے جانب سے ملک میں مسلسل ایسا ماحول بنایا گیا جس میں یہ رائے عامہ ہموار کی گئی کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں سزا پکی ہے۔ فرد جرم کو ایسے پیش کیا گیا جیسے یہ فرد جرم نہیں سزا ہے۔ عام آدمی کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ فرد جرم ہی سزا ہوتی ہے۔ حالانکہ فرد جرم کسی بھی ٹرائل کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔

اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جس پر فرد جرم عائد ہوگی اس کو سزا بھی ہو جائے گی۔ لیکن فرد جرم فرد جرم کا ایسا راگ گایا گیا کہ عام آدمی کو یقین آجائے کہ بس سزا ہونے لگی ہے۔ حالانکہ ابھی تو ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا ۔ بہر حال یہ سیاست ہے اور کہتے ہیں سیاست بے رحم ہوتی ہے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت منظور کرنے کے حکم میں جج صاحب نے لکھا ہے کہ ایف آئی اے کے چالان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے خلاف کک بیک ،کرپشن اور رشوت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جج صاحب نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ایک بھی گواہ نے دونوں پر کرپشن اور رشوت لینے کا کوئی الزام نہیں لگایا ہے اور نہ ہی ایف آئی اے کے چالان میں ایسا کوئی الزام ہے۔جب کرپشن، کک بیک اور رشوت کا کوئی الزام نہیں تو کیس کیا ہے۔ کیا یہ کیس صرف میڈیا ٹرائل کے لیے بنایا گیا تھا۔


محترم جج صاحب نے 22 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ا یف آئی اے نے 14نومبر2020کو یہ ایف آئی آر درج کی تھی۔ جب کہ چالان گیارہ ماہ بعد 12دسمبر 2021کو جمع کرایا گیا۔ فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ اس مقدمہ کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ جب درج کیا گیا تب شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی جیل میں تھے۔ لیکن ایف آئی اے مقدمہ درج کرنے کے بعد پانچ ماہ تک مکمل خاموش رہی ۔ اس بات کا انتظار کیا گیا کہ پہلے شہباز شریف اور حمزہ شہباز رہا ہو جائیں اور پھر انھیں دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے اس مقدمہ کو استعمال کیا جائے ورنہ جب دونوں جیل میں تھے تو ایف آئی اے ان سے روزانہ جیل میں تفتیش کر سکتی تھی۔ انھیں اپنی تحویل میں بھی لے سکتی تھی۔

کون نہیں جانتا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز عمران خان کی احتساب والی بندوق کے نشانے میں سب سے آگے تھے۔ اسی لیے دونوں کو لمبے عرصہ کے لیے جیل میں رکھا گیا۔ شہباز شریف کو نیب نے ہی دو دفعہ گرفتار کیا جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔

چالان میں شہبازشریف پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ایک سیاستدان نے پارٹی ٹکٹ کے لیے شہباز شریف کو 14ملین روپے رشوت دی۔ لیکن چالان میں نہ تو سیاستدان کا نام ہے اور نہ ہی اس کا کوئی بیان ہے۔ بس ایک کہانی لکھی گئی ہے جس کے ساتھ کوئی ثبوت نہیں لگائے گئے۔ جج صاحب نے فیصلہ میں حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے اس سیاستدان کی شناخت بھی نہیں ظاہر کی گئی ۔ اور نہ ہی یہ پیسے دینے کا کوئی ثبوت بھی موجود ہے۔ ویسے اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں ہے، ایسی کہانیاں صرف پریس کانفرنس میں لہرانے اور بیان کرنے کے لیے چالان میں لکھی جاتی رہی ہیں۔ تا کہ بار بار بیان کی جا سکیں۔

ہم سب کو یہ بھی یاد ہے کہ مشتاق چینی والے کا کتنا شور تھا۔ اس کے انکشافات پر کتنی پریس کانفرنسیں ہوئی تھیں لیکن اب جج صاحب کے فیصلے سے معلوم ہوا کہ ایسے کوئی ثبوت چالان میں موجود ہی نہیں ہیں۔ خفیہ کھاتوں کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ساری کہانی فرضی ہی نکلی ہے۔ یہ کیس بھی الف لیلہ کہا نی کی طرح ہی ہے۔ پہلی ایف آئی آر میں پچیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا، پھر اس رقم کو کم کر کے سولہ ارب کیا گیا۔ اب چالان میں صرف 670ملین روپے کی بات درج ہے جب کہ کسی بھی گواہ نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر براہ راست کوئی الزام نہیں لگایا ہے۔ رمضان شوگر مل کے حوالے سے شہباز شریف کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، ان میں کسی کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔

یہ فیصلہ کافی تفصیلی ہے جس میں ہر پہلو سے ایف آئی اے کے چالان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ ضمانت کا فیصلہ ہے، اس کے بعد ابھی ٹرائل ہونا باقی ہے۔ لیکن چالان اور تفتیش کی حقیقت سب کے سامنے آگئی ہے۔ تا ہم جو میڈیا ٹرائل ہوا ہے اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ابھی جب فردجرم عائد ہوگی تو شور مچایا جائے گا کہ فرد جرم عائد ہو گئی ہے۔حا لانکہ ہمارا نظام انصاف ایسا ہے کہ اس میں جھوٹے مقدمات میں بھی فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ فرد جرم عائد ہو نے کے بعد ہی آپ کیس سے بری ہو سکتے ہیں۔ روزانہ عدالتوں میں سیکڑوں لوگ باعزت بری ہوتے ہیں سب پر پہلے فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے۔
Load Next Story