غیرملکی قرض اور اس کے سُود کی ادائیگی پر ٹیکس وصولی
ایف بی آر غیرملکی قرضوں پر سُود پر انتہائی بلند شرح سے ٹیکس وصول کررہا ہے، وزارت اقتصادی امور
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے غیرملکیوں سے ملنے والے قرض ( گرانٹس) کے علاوہ اس قرض پر انھیں (غیرملکیوں کو) ادا کیے جانے والے سود پر بھی ٹیکس وصول کررہا ہے۔
وزارت اقتصادی امور کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے اس قدم کے سنگین نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ایف بی آر کے اس قدم کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت سینیٹر مانڈوی والا کررہے تھے۔ اجلاس بجٹ پر شق بہ شق بحث کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
وزارت اقتصادی امور کے ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ برطانیہ، جرمنی، امریکا، ڈنمارک اور جاپان نے پاکستانی حکام کے ساتھ ٹیکسیشن کے معاملات اٹھائے ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری نے یہ بتاکر کمیٹی کو حیران کردیا کہ ایف بی آر غیرملکی قرضوں پر دیے جانے والے سود پر انتہائی بلند شرح سے ٹیکس وصول کررہا ہے اور اس سلسلے میں ایف بی آر نے قرض اور اس پر دیے جانے والے سود کو ٹیکس مستثنیٰ قرار دینے کی ان ( وزارت اقتصادی امور) کی تجاویز رد کردی ہیں۔
کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ پارلیمان میں لانے کے بجائے حکومتی سطح پر حل کیا جائے۔ تاہم ایڈیشنل سیکریٹری کاکہنا تھا کہ ایف بی آر ان کی تجاویز پر کان نہیں دھر رہا۔ ایڈیشنل سیکٹری کی جانب سے کمیٹی میں جمع کرائے ایک کاغذ کے مطابق پاکستان جیسے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملک میں ایف بی آر کے اس قدم کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، اور وزارت خزانہ اور ایف بی آر کو یہ ایشو حل کرنا چاہیے۔
وزارت اقتصادی امور کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے اس قدم کے سنگین نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ایف بی آر کے اس قدم کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت سینیٹر مانڈوی والا کررہے تھے۔ اجلاس بجٹ پر شق بہ شق بحث کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
وزارت اقتصادی امور کے ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ برطانیہ، جرمنی، امریکا، ڈنمارک اور جاپان نے پاکستانی حکام کے ساتھ ٹیکسیشن کے معاملات اٹھائے ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری نے یہ بتاکر کمیٹی کو حیران کردیا کہ ایف بی آر غیرملکی قرضوں پر دیے جانے والے سود پر انتہائی بلند شرح سے ٹیکس وصول کررہا ہے اور اس سلسلے میں ایف بی آر نے قرض اور اس پر دیے جانے والے سود کو ٹیکس مستثنیٰ قرار دینے کی ان ( وزارت اقتصادی امور) کی تجاویز رد کردی ہیں۔
کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ پارلیمان میں لانے کے بجائے حکومتی سطح پر حل کیا جائے۔ تاہم ایڈیشنل سیکریٹری کاکہنا تھا کہ ایف بی آر ان کی تجاویز پر کان نہیں دھر رہا۔ ایڈیشنل سیکٹری کی جانب سے کمیٹی میں جمع کرائے ایک کاغذ کے مطابق پاکستان جیسے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملک میں ایف بی آر کے اس قدم کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، اور وزارت خزانہ اور ایف بی آر کو یہ ایشو حل کرنا چاہیے۔