پی ٹی آئی کیخلاف کیس کو آئندہ فارن فنڈنگ نہ لکھا جائے چیف الیکشن کمشنر
پارٹی اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ آئی تو واپس کر دی گئی، پی ٹی آئی وکیل
PARIS:
چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کو آئندہ فارن فنڈنگ نہ لکھنے کی ہدایت کردی۔
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراض کیا کہ کاز لسٹ میں آج بھی فارن فنڈنگ لکھا ہوتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے عملے کو ہدایت کی کہ آئندہ کیس کو فارن فنڈنگ نہ لکھا جائے۔
وکیل انور منصور نے دلائل دیے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 لاگو ہوگا، جس کے تحت فارن فنڈنگ میں غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں، جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی سے بھی فنڈز لینے پر ممانعت ہے، فارن فنڈڈ جماعت کیخلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے۔
انور منصور نے کہا کہ 2020 میں قانون میں ڈونرز کی تفصیلات کو لازمی قرار دیا گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ کو قبول نہیں کرتے، پارٹی اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ آئی بھی ہے تو واپس کر دی گئی، ایجنٹ اگر معاہدے سے ہٹ کر فنڈنگ لیتا ہے تو اسکی ذمہ داری پارٹی پر نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ اکبر بابر ایس بابر نے اپنے الزامات کے شواہد دینے تھے، اسکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا اکبر بابر کی دستاویزات قابل تصدیق نہیں، دستاویزات مسترد ہونے کے بعد اکبر بابر کا کیس سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے مزید کہا کہ یہ نہیں کہوں گا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے بددیانتی کی ہے، کمیٹی کو شاید اکاؤنٹس کی سمجھ ہی نہیں آئی، تمام حقائق سامنے آ چکے لہذا اب الیکشن کمیشن اکبر بابر کی شکایت خارج کرے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے دلائل مکمل کر لئے۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ دو سے تین دن میں جواب الجواب مکمل کر لوں گا۔ الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت 20 جون پیر تک ملتوی کر دی۔
چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کو آئندہ فارن فنڈنگ نہ لکھنے کی ہدایت کردی۔
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراض کیا کہ کاز لسٹ میں آج بھی فارن فنڈنگ لکھا ہوتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے عملے کو ہدایت کی کہ آئندہ کیس کو فارن فنڈنگ نہ لکھا جائے۔
وکیل انور منصور نے دلائل دیے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 لاگو ہوگا، جس کے تحت فارن فنڈنگ میں غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں، جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی سے بھی فنڈز لینے پر ممانعت ہے، فارن فنڈڈ جماعت کیخلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے۔
انور منصور نے کہا کہ 2020 میں قانون میں ڈونرز کی تفصیلات کو لازمی قرار دیا گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ کو قبول نہیں کرتے، پارٹی اکاؤنٹس میں ممنوعہ فنڈنگ آئی بھی ہے تو واپس کر دی گئی، ایجنٹ اگر معاہدے سے ہٹ کر فنڈنگ لیتا ہے تو اسکی ذمہ داری پارٹی پر نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ اکبر بابر ایس بابر نے اپنے الزامات کے شواہد دینے تھے، اسکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا اکبر بابر کی دستاویزات قابل تصدیق نہیں، دستاویزات مسترد ہونے کے بعد اکبر بابر کا کیس سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے مزید کہا کہ یہ نہیں کہوں گا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے بددیانتی کی ہے، کمیٹی کو شاید اکاؤنٹس کی سمجھ ہی نہیں آئی، تمام حقائق سامنے آ چکے لہذا اب الیکشن کمیشن اکبر بابر کی شکایت خارج کرے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے دلائل مکمل کر لئے۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ دو سے تین دن میں جواب الجواب مکمل کر لوں گا۔ الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت 20 جون پیر تک ملتوی کر دی۔