طاعون سے ہونے والی اموات کا صدیوں پُرانا معمہ حل
یہ وباء پہلی بار بحیرہ روم کے علاقے میں 1347 میں مشرق سے آنے والے تجارتی جہازوں کے ذریعے پھیلی
لاہور:
ایک بین الاقوامی سائنس دانوں کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صدیوں پُرانے طاعون سے ہونے والی اموات کا معمہ حل کر لیا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں 14ویں صدی کے وسط میں 60 فی صد لوگوں کی اموات کا سبب بننے والی وباء کا مرکز وسطیٰ ایشیا تھا جو آج کا کرغستان ہے۔
یہ وباء پہلی بار بحیرہ روم کے علاقے میں 1347 میں مشرق سے آنے والے تجارتی جہازوں کے ذریعے پھیلی۔ تاہم اس نئی تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس وباء کا تعلق کرغستان کی اِیسک کُل جھیل کے قریب کے علاقے سے پایا ہے۔
1338 اور 1339 کے درمیان ایک وباء نے وہاں کی ایک مقامی تجارتی برادری کو برباد کر دیا تھا اور وہاں پر اس وقت کے مقبرے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ وہ لوگ کسی نامعلوم وباء سے ہلاک ہوئے تھے۔
تحقیق کے حصے کے طور پر محققین نے 1338 کے ان لوگوں کی قبروں سے ملنے والی باقیات کے ڈی این اے تجزیہ کیا۔ تجزیے میں انہوں نے دیکھا کہ وہ ڈی این اے یرسینیا پیسٹِس بیکٹیریا کی وباء کے تھے۔
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے شریک مصنف فِل سلیوِن کا کہنا تھا کہ بالآخر ہم یہ بتا سکتے ہیں مقبروں میں پائی جانے والی وباء کا سبب طاعون تھا۔
طاعون کا بیکٹریا دنیا بھر میں جنگلی چوہوں میں پایا جاتا ہے، ان چوہوں کو طاعون کا ذخیرہ کہا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق اس وباء کے موجودہ متغیرات اس قدیم متغیر سے بہت ملتے ہیں جو کرغستان، قازقستان اور شمال مغرب چین کے سرحد پر موجود ٹیان شان پہاڑوں کے قریب طاعون کے ذخائر میں پائے گئے ہیں۔
ایک بین الاقوامی سائنس دانوں کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صدیوں پُرانے طاعون سے ہونے والی اموات کا معمہ حل کر لیا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں 14ویں صدی کے وسط میں 60 فی صد لوگوں کی اموات کا سبب بننے والی وباء کا مرکز وسطیٰ ایشیا تھا جو آج کا کرغستان ہے۔
یہ وباء پہلی بار بحیرہ روم کے علاقے میں 1347 میں مشرق سے آنے والے تجارتی جہازوں کے ذریعے پھیلی۔ تاہم اس نئی تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس وباء کا تعلق کرغستان کی اِیسک کُل جھیل کے قریب کے علاقے سے پایا ہے۔
1338 اور 1339 کے درمیان ایک وباء نے وہاں کی ایک مقامی تجارتی برادری کو برباد کر دیا تھا اور وہاں پر اس وقت کے مقبرے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ وہ لوگ کسی نامعلوم وباء سے ہلاک ہوئے تھے۔
تحقیق کے حصے کے طور پر محققین نے 1338 کے ان لوگوں کی قبروں سے ملنے والی باقیات کے ڈی این اے تجزیہ کیا۔ تجزیے میں انہوں نے دیکھا کہ وہ ڈی این اے یرسینیا پیسٹِس بیکٹیریا کی وباء کے تھے۔
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے شریک مصنف فِل سلیوِن کا کہنا تھا کہ بالآخر ہم یہ بتا سکتے ہیں مقبروں میں پائی جانے والی وباء کا سبب طاعون تھا۔
طاعون کا بیکٹریا دنیا بھر میں جنگلی چوہوں میں پایا جاتا ہے، ان چوہوں کو طاعون کا ذخیرہ کہا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق اس وباء کے موجودہ متغیرات اس قدیم متغیر سے بہت ملتے ہیں جو کرغستان، قازقستان اور شمال مغرب چین کے سرحد پر موجود ٹیان شان پہاڑوں کے قریب طاعون کے ذخائر میں پائے گئے ہیں۔