مہنگائی پر احتجاج کیوں نہیں ہوا
حکومت نے تو عوام کا جینا دوبھر کر ہی دیا ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا
ISLAMABAD:
پٹرول کی قیمت میں 24.03 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 59.16 روپے، کیروسین آئل میں 29.49 روپے، لائٹ ڈیزل آئل میں 29.16 روپے اضافے کے بعد امید یہی تھی کہ اگلی صبح سڑکیں بلاک ہوں گی، عوام احتجاج کی راہ پر ہوں گے۔ مگر انتہائی مضبوط ترین اپوزیشن یعنی پاکستان تحریک انصاف (حقیقی اپوزیشن، راجہ ریاض والی نہیں) کی طرف سے چُپ کا روزہ ابھی تک نہیں ٹوٹا اور عوامی احتجاج صرف باتوں کی حد تک قائم ہے۔
لوگ عوامی ٹرانسپورٹ، ہوٹل، چائے خانوں، تھڑوں اور چوراہوں پر تو لعن طعن کررہے ہیں لیکن پُراثر احتجاج سے وہ بھی کوسوں دور ہیں۔ گلی میں دیکھا، وہاں بھی خاموشی۔ محلے میں دیکھا، وہاں بھی خاموشی۔ مرکزی شاہراہ پر بھی ٹریفک معمول کی طرح رواں دواں۔ گاؤں، محلے، شہر بھی معمول کے مطابق زندگی کے آثار لیے ہوئے۔ اور پٹرول کی بڑھنے والی قیمتوں کا اثر ایسا محسوس ہوا کہ کسی پر ہوا ہی نہیں۔
پاکستانی عوام کا مزاج آپ نے دیکھنا ہو تو محلے میں کسی ایک سیاسی گروہ کا جھنڈا لگا کر دیکھ لیجیے آپ کو لگ پتا جائے گا۔ (گروہ اس لیے کہ جماعتیں بہرحال کسی قدر نظم و ضبط کے تحت چلتی ہیں، لیکن پاکستانی سیاسی جماعتیں بطور مجموعی ہارس ٹریڈنگ کے علاوہ کسی حوالے سے بھی اپنی پہچان نہیں رکھتیں)۔ دوسرے دن ہی مخالف فریق اپنے مکان پر جھنڈا، اپنی فکر کے مطابق، گاڑھ دے گا۔ اور یہی روش آپ کچھ دن مزید جاری رکھیے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ جائے گی۔ اور مزید بات بڑھنے کی صورت میں سڑکیں بھی بلاک ہوں گی اور ٹریفک بھی جام ہوگا۔
اسی طرح سیاسی لیڈر کال دے دیتا ہے تو عوام اسلام آباد کی شاہراہوں پر آنسو گیس کے شیل تک کھا لیتے ہیں۔ بسا اوقات دھکم پیل میں پل سے گر کر اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی فکر کے نام لیواؤں کا بطور مجموعی رویہ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ وہ کسی بھی طرح کے عوامی مسئلے پر احتجاج تو دور کسی مذمتی بیان تک کے روادار نہیں ہوتے۔ کسی کا ناحق خون بہہ جائے، کوئی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر نہر میں چھلانگ لگا دے، کسی ادارے کی غفلت کی وجہ سے کسی کی جان چلی جائے، کسی مزدور کی کل کمائی جل جائے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ ہاں لیکن جیسے ہی کوئی سیاسی رہنما اپنے مفادات پر پڑتی ہوئی ضرب کے تناظر میں عوامی احتجاج کی کال دے گا تو عوام ایسے بھاگے آئیں گے کہ خدا کی پناہ۔
لیڈر بھی عوامی رویوں کو خوب کیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی جذباتیں تقریروں میں لفظوں کے تیر کمان سے اُسی صورت میں باہر آئیں گے جب ان کے مفادات پر ضرب لگی ہو یا سیاسی مفادات حاصل کرنا مقصود ہو۔ بصورت دیگر ان کی نیند عوامی حقوق پر بہرحال نہیں ٹوٹتی۔
اس مہنگائی کے طوفان کے دوران امید تو یہی تھی کہ حکومت نے تو عوام کا جینا دوبھر کر ہی دیا ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے کوئی تو لائحہ عمل سامنے آئے گا کہ حکومت کو مہنگائی بڑھانے سے روکا جاسکے۔ کوئی تو ایسا منظرنامہ سامنے آئے گا جس سے مجبور ہوکر عوام دشمن حکومت، عوام دوست اپوزیشن کے مطالبات کو قبول کرتے ہوئے عوام کےلیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوئی سبیل نکالے گی۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف اُمیدیں دم توڑتی جارہی ہیں بلکہ اپوزیشن کے رویے سے بھی مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ سبزی مارکیٹ میں حالیہ مہنگائی کی لہر کے بعد قیمتوں میں دو سو فیصد اضافہ یقینی طور پر اپوزیشن کو ہلانے کےلیے کافی نہیں ہے کیوں کہ ان کے کچن کون سا تیس ہزار ماہانہ تنخواہ پر چلتے ہیں۔ عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کئی گنا اضافہ بھی بھلا اپوزیشن کو کہاں ہلا سکتا ہے کہ انہوں نے کون سا عوامی گاڑیوں میں سفر کرنا ہے۔ ان کےلیے تو ہیلی کاپٹر اور لینڈ کروزرز تیار رہتی ہیں، جن میں پٹرول یا ڈیزل کہاں سے آتا ہے یہ ہمارے رہنماؤں کو پتا بھی نہیں ہوگا۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ کرسیٔ اقتدار سے عشق سب کو ہے لیکن حقیقی اپوزیشن کے کردار سے وفا کسی کو گوارا نہیں۔ اپنے مفادات کا دفاع کرنا ہر سیاسی لیڈر کا پیدائشی حق ہے، لیکن عوامی مفادات کے تحفظ کےلیے آواز بلند کرنا ان کےلیے شجرِ ممنوع کی طرح ہے۔ اقتدار چھن جائے تو عوام کو سڑکوں پر رول دو لیکن عوام مشکل کا شکار ہوں تو ٹھنڈے اے سی زدہ کمرے چھوڑنا گوارا نہ ہوں۔ ہاتھ اپنے گریباں تک پہنچے تو عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کردیا جائے لیکن زک عوام کو پہنچے تو بات صرف بیانات تک محدود رہے۔ خود کو ڈرون کیمرہ تک چھو جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جائے، غریب بھوک سے موت کو گلے لگا لے تو جوں تک نہ رینگے۔
موجودہ حکومت یقینی طور پر عوام کو نہ صرف ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ وہ اپنے دعوؤں کے برعکس ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بھی تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور سچائی یہی ہے کہ غریب کا اگر یہی حال کرنا تھا تو یہ کام تو عمران خان بھی کر رہے تھے، آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر حالات کچھ اور ہیں تو عوام کو سچائی بتائیے۔ دوسری جانب عمران خان اینڈ کمپنی کو بھی عوامی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا کہ واقعی اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ وہ کرکے نہیں گئے تھے، تو یہ خاموشی کیوں؟ ایک ایسے موقع پر جب کہ وہ اپنی پارٹی میں نئی جان ڈال سکتے ہیں مہنگائی کے خلاف احتجاج سے، تو گریزاں کیوں ہیں؟ کیا ہے جس کی پردہ داری ہے؟
حکومت اپنا وقار کھو چکی ہے اور اپوزیشن اپنی قدر ختم کرتی جارہی ہے۔ گھڑی کی سوئیاں دونوں جانب چل رہی ہیں۔ جو عوامی رویوں کو پہچانتے ہوئے اپنا لے گا وہی حقیقی معنوں میں اگلے انتخابات کا فاتح ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پٹرول کی قیمت میں 24.03 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 59.16 روپے، کیروسین آئل میں 29.49 روپے، لائٹ ڈیزل آئل میں 29.16 روپے اضافے کے بعد امید یہی تھی کہ اگلی صبح سڑکیں بلاک ہوں گی، عوام احتجاج کی راہ پر ہوں گے۔ مگر انتہائی مضبوط ترین اپوزیشن یعنی پاکستان تحریک انصاف (حقیقی اپوزیشن، راجہ ریاض والی نہیں) کی طرف سے چُپ کا روزہ ابھی تک نہیں ٹوٹا اور عوامی احتجاج صرف باتوں کی حد تک قائم ہے۔
لوگ عوامی ٹرانسپورٹ، ہوٹل، چائے خانوں، تھڑوں اور چوراہوں پر تو لعن طعن کررہے ہیں لیکن پُراثر احتجاج سے وہ بھی کوسوں دور ہیں۔ گلی میں دیکھا، وہاں بھی خاموشی۔ محلے میں دیکھا، وہاں بھی خاموشی۔ مرکزی شاہراہ پر بھی ٹریفک معمول کی طرح رواں دواں۔ گاؤں، محلے، شہر بھی معمول کے مطابق زندگی کے آثار لیے ہوئے۔ اور پٹرول کی بڑھنے والی قیمتوں کا اثر ایسا محسوس ہوا کہ کسی پر ہوا ہی نہیں۔
پاکستانی عوام کا مزاج آپ نے دیکھنا ہو تو محلے میں کسی ایک سیاسی گروہ کا جھنڈا لگا کر دیکھ لیجیے آپ کو لگ پتا جائے گا۔ (گروہ اس لیے کہ جماعتیں بہرحال کسی قدر نظم و ضبط کے تحت چلتی ہیں، لیکن پاکستانی سیاسی جماعتیں بطور مجموعی ہارس ٹریڈنگ کے علاوہ کسی حوالے سے بھی اپنی پہچان نہیں رکھتیں)۔ دوسرے دن ہی مخالف فریق اپنے مکان پر جھنڈا، اپنی فکر کے مطابق، گاڑھ دے گا۔ اور یہی روش آپ کچھ دن مزید جاری رکھیے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ جائے گی۔ اور مزید بات بڑھنے کی صورت میں سڑکیں بھی بلاک ہوں گی اور ٹریفک بھی جام ہوگا۔
اسی طرح سیاسی لیڈر کال دے دیتا ہے تو عوام اسلام آباد کی شاہراہوں پر آنسو گیس کے شیل تک کھا لیتے ہیں۔ بسا اوقات دھکم پیل میں پل سے گر کر اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی فکر کے نام لیواؤں کا بطور مجموعی رویہ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ وہ کسی بھی طرح کے عوامی مسئلے پر احتجاج تو دور کسی مذمتی بیان تک کے روادار نہیں ہوتے۔ کسی کا ناحق خون بہہ جائے، کوئی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر نہر میں چھلانگ لگا دے، کسی ادارے کی غفلت کی وجہ سے کسی کی جان چلی جائے، کسی مزدور کی کل کمائی جل جائے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ ہاں لیکن جیسے ہی کوئی سیاسی رہنما اپنے مفادات پر پڑتی ہوئی ضرب کے تناظر میں عوامی احتجاج کی کال دے گا تو عوام ایسے بھاگے آئیں گے کہ خدا کی پناہ۔
لیڈر بھی عوامی رویوں کو خوب کیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کی جذباتیں تقریروں میں لفظوں کے تیر کمان سے اُسی صورت میں باہر آئیں گے جب ان کے مفادات پر ضرب لگی ہو یا سیاسی مفادات حاصل کرنا مقصود ہو۔ بصورت دیگر ان کی نیند عوامی حقوق پر بہرحال نہیں ٹوٹتی۔
اس مہنگائی کے طوفان کے دوران امید تو یہی تھی کہ حکومت نے تو عوام کا جینا دوبھر کر ہی دیا ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے کوئی تو لائحہ عمل سامنے آئے گا کہ حکومت کو مہنگائی بڑھانے سے روکا جاسکے۔ کوئی تو ایسا منظرنامہ سامنے آئے گا جس سے مجبور ہوکر عوام دشمن حکومت، عوام دوست اپوزیشن کے مطالبات کو قبول کرتے ہوئے عوام کےلیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوئی سبیل نکالے گی۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف اُمیدیں دم توڑتی جارہی ہیں بلکہ اپوزیشن کے رویے سے بھی مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ سبزی مارکیٹ میں حالیہ مہنگائی کی لہر کے بعد قیمتوں میں دو سو فیصد اضافہ یقینی طور پر اپوزیشن کو ہلانے کےلیے کافی نہیں ہے کیوں کہ ان کے کچن کون سا تیس ہزار ماہانہ تنخواہ پر چلتے ہیں۔ عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کئی گنا اضافہ بھی بھلا اپوزیشن کو کہاں ہلا سکتا ہے کہ انہوں نے کون سا عوامی گاڑیوں میں سفر کرنا ہے۔ ان کےلیے تو ہیلی کاپٹر اور لینڈ کروزرز تیار رہتی ہیں، جن میں پٹرول یا ڈیزل کہاں سے آتا ہے یہ ہمارے رہنماؤں کو پتا بھی نہیں ہوگا۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ کرسیٔ اقتدار سے عشق سب کو ہے لیکن حقیقی اپوزیشن کے کردار سے وفا کسی کو گوارا نہیں۔ اپنے مفادات کا دفاع کرنا ہر سیاسی لیڈر کا پیدائشی حق ہے، لیکن عوامی مفادات کے تحفظ کےلیے آواز بلند کرنا ان کےلیے شجرِ ممنوع کی طرح ہے۔ اقتدار چھن جائے تو عوام کو سڑکوں پر رول دو لیکن عوام مشکل کا شکار ہوں تو ٹھنڈے اے سی زدہ کمرے چھوڑنا گوارا نہ ہوں۔ ہاتھ اپنے گریباں تک پہنچے تو عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کردیا جائے لیکن زک عوام کو پہنچے تو بات صرف بیانات تک محدود رہے۔ خود کو ڈرون کیمرہ تک چھو جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جائے، غریب بھوک سے موت کو گلے لگا لے تو جوں تک نہ رینگے۔
موجودہ حکومت یقینی طور پر عوام کو نہ صرف ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ وہ اپنے دعوؤں کے برعکس ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بھی تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور سچائی یہی ہے کہ غریب کا اگر یہی حال کرنا تھا تو یہ کام تو عمران خان بھی کر رہے تھے، آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر حالات کچھ اور ہیں تو عوام کو سچائی بتائیے۔ دوسری جانب عمران خان اینڈ کمپنی کو بھی عوامی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا کہ واقعی اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ وہ کرکے نہیں گئے تھے، تو یہ خاموشی کیوں؟ ایک ایسے موقع پر جب کہ وہ اپنی پارٹی میں نئی جان ڈال سکتے ہیں مہنگائی کے خلاف احتجاج سے، تو گریزاں کیوں ہیں؟ کیا ہے جس کی پردہ داری ہے؟
حکومت اپنا وقار کھو چکی ہے اور اپوزیشن اپنی قدر ختم کرتی جارہی ہے۔ گھڑی کی سوئیاں دونوں جانب چل رہی ہیں۔ جو عوامی رویوں کو پہچانتے ہوئے اپنا لے گا وہی حقیقی معنوں میں اگلے انتخابات کا فاتح ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔