فکرِ اقبالؒ کی روشنی میں مسجد برائے تعمیرِ کردار
مدینہ مسلمانوں کا دارالحکومت تھا
ISLAMABAD:
دنیا کی پہلی مسجد ''مسجد الحرام'' ہے، جس کے بارے میں ڈاکٹر اقبالؒ نے فرمایا تھا:
دنیا کے بُت کدوں میں، پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
حضور نبی کریمؐ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد جو پہلی مسجد تعمیر کی، اسے مسجدِ نبویؐ کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر دنیا کے بہترین تعمیراتی سامان سے نہیں، کامل تقوی اور ایمان کے ساتھ ہوئی۔ انصار و مہاجرین کے ساتھ سرورِ کائناتؐ خود بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔
اس مسجد سے مسلمانوں نے مکمل نظام حکومت کے انتظامی ذمہ داریوں اور ان کے امور کو بہ حسن و خوبی انجام دہی کے ادارے کا کام لیا۔ ایسا ادارہ، جس میں نماز پڑھتے ہوئے پیشانیوں پر کنکروں کے نشان پڑ جاتے تھے، لیکن جس کی مٹی پر لیٹنے والے وقت کے عظیم سپہ سالار ثابت ہوتے تھے۔ جس میں احکامِ دین کے فروغ کی کوششوں کے ساتھ مملکت سے متعلق تمام فیصلے ہوتے تھے۔
نماز کے وقت صفیں باندھی جاتی تھیں تو یہیں پر دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے صف بندی کے منصوبوں بنتے تھے۔ یہیں بیرونی وفود سے ملاقاتیں ہوتی تھیں اور یہیں سے دیگر سلطنتوں کے شہنشاہوں کو اسلام کی دعوت دی جاتی تھی۔ گویا مدینہ مسلمانوں کا دارالحکومت تھا، جس میں کچی مٹی، کھجور کے تنوں اور پتوں سے بنی ہوئی مسجد نبویؐ مسلمانوں کے لیے مرکز کا کام دے رہی تھی۔
اس مسجد کی آرائش و زیبائش کے لیے مالی وسائل کی ضرورت نہیں پڑی، بل کہ پختگیِ ایمان اور عشقِ رسولؐ ہی اس کے لیے کافی ثابت ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے مساجد کی تعمیر میں اسی قسم کے تعمیراتی سامان کو استعمال کیا، دنیا کے طاقت ور حکم رانوں پر ان کا دبدبہ رہا۔ اس کے برعکس مسجد ضرار کی مثال ضرور دیکھ لینی چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مسجد نام کی عمارت کو محض اس لیے مسمار کرنے کا حکم دے دیا کہ اس کی تعمیر خرابیِ ایمان پر رکھی گئی تھی۔
کلامِ اقبالؒ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مسجد کی شان و شوکت ہی کو پیشِ نظر نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں مسجد کی بنیاد اگر ایمان پر نہیں تو اس سے استحکام و قوتِ ایمان کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ ان کے خیال میں تعمیر مسجد کا خیال عشقِ الٰہی سے مستعار ہونے کے بہ جائے استعمار کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہو تو وہ مسجد خدمتِ اسلام اور تربیتِ مسلمان کے ضمن میں کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتی۔
انہوں نے ایشیا اور یورپ کے متعدد ملکوں کی سیاحت کی تھی اور ان میں بے شمار مساجد کی زیارت بھی کی ہوگی، چناں چہ اقبال نے پیرس کی مسجد کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے اقبال کے نقطہ نظر کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
مِری نگاہ کمالِ ہُنر کو کیا دیکھے!
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ
یہ بُت کدہ اُنہی غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہُوا ہے ویرانہ
آپ نے دیکھا کہ مسجد کی شان و شوکت دیکھ کر اقبال اس سے متاثر نہیں ہوئے، بل کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں پوشیدہ استعماری ارادوں کو بھانپ لیا اور ساہ لوح مسلمانوں کو یورپ کے عزائم سے خبردار کر دیا۔ یہی اقبال یورپ میں مسجد قرطبہ دیکھتے ہیں تو ادبیاتِ عالم میں ایک نہایت عظیم نظم کا اضافہ کر دیتے ہیں۔
اس نظم کی ابتدا وہ سلسلہ روز و شب کی گردان سے کرتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اور اس کا بڑے سے بڑے شاہ کار فنا ہو جائے گا۔ دنیا کی کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اوّل و آخر سب فنا ہے اور ہر نقش مٹ جانے والا ہے، لیکن پھر وہ اچانک ایک چیز کے باقی رہنے کا اعتراف کرتے ہیں:
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
یعنی دنیا کی ہر چیز اور ہر تخلیق کو فنا ہے، مگر وہ نقش باقی رہے گا، جسے کسی مردِ خدا نے ثبت کیا ہو، لیکن وہ مردِ خدا کے ہر عمل کو تسلیم نہیں کرتے، جب تک اس میں عشق کی حدت شامل نہ ہو۔ گویا مردِ خدا کا ہر عمل باقی رہنے و الا نہیں ہوتا، بل کہ مردِ خدا کا صرف وہ عمل فنا سے محفوظ رہتا ہے، جو عشق سے فروغ پاتا ہو۔ اس کی وجہ اقبال نے یہ بتائی کہ چوں کہ عشق اصلِ حیات ہے اور موت اس پر حرام ہے، چناں چہ مردِ خدا کا ہر وہ عمل، جو عشق کی بنیاد پر تکمیل کو پہنچے، اس کا نقش باقی رہ سکتا ہے۔
عشق پر موت کا حرام ہونا اقبال نے یوں واضح کیا ہے کہ دنیا میں دو دریا بہ یک وقت رواں دواں ہیں، ایک وقت اور دوسرا عشق۔ جیسا کہ پانی کا بڑا ریلا چھوٹے ریلے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
اسی طرح بہ قولِ اقبالؒ، عشق کا سیل، وقت کے سیل کو تھام لیتا ہے، چناں چہ زمانے کے روز و شب سے الگ عشق کے روز و شب بھی اپنی جگہ حقیقت رکھتے ہیں، گو ان کی تقویم کے روز و شب اور ماہ و سال کا نظام، تقویم کے معروف نظام سے بہت مختلف ہے۔ عشق کی تقویم کے فہم کی بابت اقبال نے دمِ جبریل، دلِ مصطفیٰؐ، خدا کے رسولؐ اور خدا کے کلام سے دلیل دی ہے اور پھر اسی دلیل کے تحت کہتے ہیں:
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
چوں کہ مردِ خدا بھی اپنے عمل کی بنیاد عشق پر رکھتا ہے اور اس مسجد کی بنیاد بھی عشق پر اٹھائی گئی ہے، اس لیے اقبال کا یہ کہنا بجا ہے:
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
جب دونوں جلیل و جمیل ہیں تو دونوں کے وجود سے یورپ کی سرزمین کو کچھ امتیازات تو حاصل ہونے ہی چاہییں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مردِ خدا کے اس عمل سے ایک طرف ساڑھے سات سو سال تک اندلس مسلمانوں کے زیرِ نگیں رہا۔ پندرہویں صدی کے آخر میں طویل عرصے کو محیط مسلم مملکت کا خاتمہ ہوگیا اور اب اگرچہ اس کی فضا بے اذاں ہے، لیکن دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں۔
اس مسجد کا کردار اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال جیسا عظیم شاعر اس کی شان و شوکت اور عظمت سے متاثر ہو کر مستقبل سے متعلق ایک ایسا منظر دیکھتا ہے، مصلحت کے پیشِ نظر جس کا فوری اظہار نہیں کرتا، بل کہ صرف اتنا کہتے ہوئے اپنی بات واضح کر دیتا ہے:
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اَور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
یہ ساری گفت گُو اپنی جگہ، لیکن آج مغرب میں تو کیا، مشرق میں بھی مسجد کا وہ کردار نظر نہیں آ رہا۔ ایسا خود اقبال کی زندگی میں بھی ہوا۔ مسلمانانِ برعظیم کے فکر و عمل کے دو رُخ ہیں۔ یہ مسلمان جذباتی فضا میں اسلام کی خاطر زندگی تک کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کی سیکڑوں مثالیں پچھلے دو صدیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن جوں ہی احکامِ دین پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے، بے عملی اور تساہل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مسجد شب بھر اس کی بہترین مثال ہے اور اقبال نے اس پر فوری ردِعمل دیتے ہوئے کہہ دیا تھا:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یعنی اقبال تعمیرِ مسجد سے زیادہ یا یوں کہہ سکتے ہیں تعمیرِ مسجد کے ساتھ تعمیرِ کردار کو بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر حرارتِ ایمانی کا فقدان یا کمی مسجد کو اس کے کردار سے محروم کر دیتا ہے، چناں چہ مسجد سے متعلق اقبال کی جملہ منظومات اور اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد کو سنگ و خشت کا مرکب نہیں سمجھتے، بل کہ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کے مرکب سے تعمیر شدہ مسجد ہی مسجدِ نبویؐ کے کردار کی تقلید کر سکتی ہے۔
دہلی میں قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ مسجد قوت الاسلام کو پیشِ نظر رکھ کر اقبال نے مسلم معاشرے میں مسجد کے کردار اور مسلمانوں کے اعمال پر ایک دل سوز نظم لکھی۔ اس نظم میں اقبال مسلمانوں کی طرف سے اپنے کردار کی عدم انجام دہی پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ میرے بے نُور سینے میں اگر لا الٰہ باقی ہے بھی تو مردہ و افسردہ۔ مسجد کا نام قوت الاسلام اور خود مسلمان غلامی کی اُس پستی کو چھو رہا ہے کہ اپنے آقا کے نظروں میں بھی اجنبی بن چکا ہے۔ ایسے میں ان کا یہ کہنا درست ہے:
ہے تِری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز!
بے تب و تابِ دُورں میری صلوٰۃ اور درُود
ہے مِری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود
ضرورت اس امر کی ہے کہ ''مسجد برائے کردار'' کا اصول اپنا لیا جائے اور مسلم معاشرہ اس اصول کی روشنی میں مساجد کے کردار پر کوئی سمجھوتا نہ کرے۔ کسی مسجد کا کسی فرد یا گروہ یا مکتبہ فکر کی ملکیت ہونا بہ جائے خود مسجد کے کردار کو محدود کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے کو اس حوالے سے پھر سے غور و فکر کی ضرورت ہے، تاکہ مملکتِ اسلامیہ کے روشن اور محفوظ مستقبل کے لیے مساجد کے کردار کو پھر سے زندہ کیا جا سکے، چناں چہ مساجد کے معاملے میں نیت ثواب کے ساتھ ''تعمیر کردار'' کی منزل پر پہنچنا ازحد ضروری ہے۔
دنیا کی پہلی مسجد ''مسجد الحرام'' ہے، جس کے بارے میں ڈاکٹر اقبالؒ نے فرمایا تھا:
دنیا کے بُت کدوں میں، پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
حضور نبی کریمؐ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد جو پہلی مسجد تعمیر کی، اسے مسجدِ نبویؐ کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر دنیا کے بہترین تعمیراتی سامان سے نہیں، کامل تقوی اور ایمان کے ساتھ ہوئی۔ انصار و مہاجرین کے ساتھ سرورِ کائناتؐ خود بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔
اس مسجد سے مسلمانوں نے مکمل نظام حکومت کے انتظامی ذمہ داریوں اور ان کے امور کو بہ حسن و خوبی انجام دہی کے ادارے کا کام لیا۔ ایسا ادارہ، جس میں نماز پڑھتے ہوئے پیشانیوں پر کنکروں کے نشان پڑ جاتے تھے، لیکن جس کی مٹی پر لیٹنے والے وقت کے عظیم سپہ سالار ثابت ہوتے تھے۔ جس میں احکامِ دین کے فروغ کی کوششوں کے ساتھ مملکت سے متعلق تمام فیصلے ہوتے تھے۔
نماز کے وقت صفیں باندھی جاتی تھیں تو یہیں پر دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے صف بندی کے منصوبوں بنتے تھے۔ یہیں بیرونی وفود سے ملاقاتیں ہوتی تھیں اور یہیں سے دیگر سلطنتوں کے شہنشاہوں کو اسلام کی دعوت دی جاتی تھی۔ گویا مدینہ مسلمانوں کا دارالحکومت تھا، جس میں کچی مٹی، کھجور کے تنوں اور پتوں سے بنی ہوئی مسجد نبویؐ مسلمانوں کے لیے مرکز کا کام دے رہی تھی۔
اس مسجد کی آرائش و زیبائش کے لیے مالی وسائل کی ضرورت نہیں پڑی، بل کہ پختگیِ ایمان اور عشقِ رسولؐ ہی اس کے لیے کافی ثابت ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے مساجد کی تعمیر میں اسی قسم کے تعمیراتی سامان کو استعمال کیا، دنیا کے طاقت ور حکم رانوں پر ان کا دبدبہ رہا۔ اس کے برعکس مسجد ضرار کی مثال ضرور دیکھ لینی چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مسجد نام کی عمارت کو محض اس لیے مسمار کرنے کا حکم دے دیا کہ اس کی تعمیر خرابیِ ایمان پر رکھی گئی تھی۔
کلامِ اقبالؒ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مسجد کی شان و شوکت ہی کو پیشِ نظر نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں مسجد کی بنیاد اگر ایمان پر نہیں تو اس سے استحکام و قوتِ ایمان کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ ان کے خیال میں تعمیر مسجد کا خیال عشقِ الٰہی سے مستعار ہونے کے بہ جائے استعمار کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہو تو وہ مسجد خدمتِ اسلام اور تربیتِ مسلمان کے ضمن میں کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتی۔
انہوں نے ایشیا اور یورپ کے متعدد ملکوں کی سیاحت کی تھی اور ان میں بے شمار مساجد کی زیارت بھی کی ہوگی، چناں چہ اقبال نے پیرس کی مسجد کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے اقبال کے نقطہ نظر کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
مِری نگاہ کمالِ ہُنر کو کیا دیکھے!
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ
یہ بُت کدہ اُنہی غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہُوا ہے ویرانہ
آپ نے دیکھا کہ مسجد کی شان و شوکت دیکھ کر اقبال اس سے متاثر نہیں ہوئے، بل کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں پوشیدہ استعماری ارادوں کو بھانپ لیا اور ساہ لوح مسلمانوں کو یورپ کے عزائم سے خبردار کر دیا۔ یہی اقبال یورپ میں مسجد قرطبہ دیکھتے ہیں تو ادبیاتِ عالم میں ایک نہایت عظیم نظم کا اضافہ کر دیتے ہیں۔
اس نظم کی ابتدا وہ سلسلہ روز و شب کی گردان سے کرتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اور اس کا بڑے سے بڑے شاہ کار فنا ہو جائے گا۔ دنیا کی کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اوّل و آخر سب فنا ہے اور ہر نقش مٹ جانے والا ہے، لیکن پھر وہ اچانک ایک چیز کے باقی رہنے کا اعتراف کرتے ہیں:
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
یعنی دنیا کی ہر چیز اور ہر تخلیق کو فنا ہے، مگر وہ نقش باقی رہے گا، جسے کسی مردِ خدا نے ثبت کیا ہو، لیکن وہ مردِ خدا کے ہر عمل کو تسلیم نہیں کرتے، جب تک اس میں عشق کی حدت شامل نہ ہو۔ گویا مردِ خدا کا ہر عمل باقی رہنے و الا نہیں ہوتا، بل کہ مردِ خدا کا صرف وہ عمل فنا سے محفوظ رہتا ہے، جو عشق سے فروغ پاتا ہو۔ اس کی وجہ اقبال نے یہ بتائی کہ چوں کہ عشق اصلِ حیات ہے اور موت اس پر حرام ہے، چناں چہ مردِ خدا کا ہر وہ عمل، جو عشق کی بنیاد پر تکمیل کو پہنچے، اس کا نقش باقی رہ سکتا ہے۔
عشق پر موت کا حرام ہونا اقبال نے یوں واضح کیا ہے کہ دنیا میں دو دریا بہ یک وقت رواں دواں ہیں، ایک وقت اور دوسرا عشق۔ جیسا کہ پانی کا بڑا ریلا چھوٹے ریلے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
اسی طرح بہ قولِ اقبالؒ، عشق کا سیل، وقت کے سیل کو تھام لیتا ہے، چناں چہ زمانے کے روز و شب سے الگ عشق کے روز و شب بھی اپنی جگہ حقیقت رکھتے ہیں، گو ان کی تقویم کے روز و شب اور ماہ و سال کا نظام، تقویم کے معروف نظام سے بہت مختلف ہے۔ عشق کی تقویم کے فہم کی بابت اقبال نے دمِ جبریل، دلِ مصطفیٰؐ، خدا کے رسولؐ اور خدا کے کلام سے دلیل دی ہے اور پھر اسی دلیل کے تحت کہتے ہیں:
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
چوں کہ مردِ خدا بھی اپنے عمل کی بنیاد عشق پر رکھتا ہے اور اس مسجد کی بنیاد بھی عشق پر اٹھائی گئی ہے، اس لیے اقبال کا یہ کہنا بجا ہے:
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
جب دونوں جلیل و جمیل ہیں تو دونوں کے وجود سے یورپ کی سرزمین کو کچھ امتیازات تو حاصل ہونے ہی چاہییں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مردِ خدا کے اس عمل سے ایک طرف ساڑھے سات سو سال تک اندلس مسلمانوں کے زیرِ نگیں رہا۔ پندرہویں صدی کے آخر میں طویل عرصے کو محیط مسلم مملکت کا خاتمہ ہوگیا اور اب اگرچہ اس کی فضا بے اذاں ہے، لیکن دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں۔
اس مسجد کا کردار اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال جیسا عظیم شاعر اس کی شان و شوکت اور عظمت سے متاثر ہو کر مستقبل سے متعلق ایک ایسا منظر دیکھتا ہے، مصلحت کے پیشِ نظر جس کا فوری اظہار نہیں کرتا، بل کہ صرف اتنا کہتے ہوئے اپنی بات واضح کر دیتا ہے:
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اَور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
یہ ساری گفت گُو اپنی جگہ، لیکن آج مغرب میں تو کیا، مشرق میں بھی مسجد کا وہ کردار نظر نہیں آ رہا۔ ایسا خود اقبال کی زندگی میں بھی ہوا۔ مسلمانانِ برعظیم کے فکر و عمل کے دو رُخ ہیں۔ یہ مسلمان جذباتی فضا میں اسلام کی خاطر زندگی تک کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کی سیکڑوں مثالیں پچھلے دو صدیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن جوں ہی احکامِ دین پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے، بے عملی اور تساہل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مسجد شب بھر اس کی بہترین مثال ہے اور اقبال نے اس پر فوری ردِعمل دیتے ہوئے کہہ دیا تھا:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یعنی اقبال تعمیرِ مسجد سے زیادہ یا یوں کہہ سکتے ہیں تعمیرِ مسجد کے ساتھ تعمیرِ کردار کو بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر حرارتِ ایمانی کا فقدان یا کمی مسجد کو اس کے کردار سے محروم کر دیتا ہے، چناں چہ مسجد سے متعلق اقبال کی جملہ منظومات اور اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد کو سنگ و خشت کا مرکب نہیں سمجھتے، بل کہ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کے مرکب سے تعمیر شدہ مسجد ہی مسجدِ نبویؐ کے کردار کی تقلید کر سکتی ہے۔
دہلی میں قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ مسجد قوت الاسلام کو پیشِ نظر رکھ کر اقبال نے مسلم معاشرے میں مسجد کے کردار اور مسلمانوں کے اعمال پر ایک دل سوز نظم لکھی۔ اس نظم میں اقبال مسلمانوں کی طرف سے اپنے کردار کی عدم انجام دہی پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ میرے بے نُور سینے میں اگر لا الٰہ باقی ہے بھی تو مردہ و افسردہ۔ مسجد کا نام قوت الاسلام اور خود مسلمان غلامی کی اُس پستی کو چھو رہا ہے کہ اپنے آقا کے نظروں میں بھی اجنبی بن چکا ہے۔ ایسے میں ان کا یہ کہنا درست ہے:
ہے تِری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز!
بے تب و تابِ دُورں میری صلوٰۃ اور درُود
ہے مِری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود
ضرورت اس امر کی ہے کہ ''مسجد برائے کردار'' کا اصول اپنا لیا جائے اور مسلم معاشرہ اس اصول کی روشنی میں مساجد کے کردار پر کوئی سمجھوتا نہ کرے۔ کسی مسجد کا کسی فرد یا گروہ یا مکتبہ فکر کی ملکیت ہونا بہ جائے خود مسجد کے کردار کو محدود کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے کو اس حوالے سے پھر سے غور و فکر کی ضرورت ہے، تاکہ مملکتِ اسلامیہ کے روشن اور محفوظ مستقبل کے لیے مساجد کے کردار کو پھر سے زندہ کیا جا سکے، چناں چہ مساجد کے معاملے میں نیت ثواب کے ساتھ ''تعمیر کردار'' کی منزل پر پہنچنا ازحد ضروری ہے۔