سماج جنگل کیسے بنتے ہیں
آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے
قبل از مسیح قبرص کے بادشاہ کری سس نے سولن کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور پھر بیش قیمت لباس اور ہیرے جواہرات سے لد پھند کر شاہانہ کروفر کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔
سولن آیا، کری سس کو دیکھا اور اس کے جاہ و حشم اور دولت و ثروت کی کوئی پروا نہ کی۔ کری سس کو امید تھی کہ سولن اس کی شان و شوکت اور اس کے ذوق کی تعریف کرے گا ، لیکن ادھر سے مایوس ہوکر اس نے حکم دیا کہ سولن کو اس کے خزانے دکھائے جائیں اور جب اس کے بعد بھی سولن نے اس کی دولت کی کوئی پروا نہ کی تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے سولن سے پوچھا کہ ''دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت کونسا آدمی ہے؟'' اسے امید تھی کہ سولن اس کا نام لے گا، لیکن سولن نے کہا ''میرے ملک میں ٹیلس نامی ایک شخص بہت خوش قسمت تھا کیونکہ وہ نیک تھا اور صاحب نصاب تھا، اچھے بچوں کا باپ تھا اور اس نے اپنے ملک کے لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں جان دے دی'' پھر کری سس نے پوچھا کہ ''اس کے بعد دوسرا کون زیادہ خوش قسمت ہے'' تو سولن نے جواب دیا کہ ''دوسرے نمبر پر وہ دو بھائی آتے ہیں جنھوں نے اپنی ماں کی خدمت میں جان دے دی۔''
اب کری سس سے اور برداشت نہ ہوسکا اور وہ پھٹ پڑا ''کیا تم ہم کو اس فہرست میں کبھی شامل نہ کرو گے'' اس پر سولن نے کہا ''اے بادشاہ ہم صرف ان ہی کو خوش قسمت کہتے ہیں جن کی زندگی کے آخری لمحے تک خوش قسمتی ان کے ہمر کاب رہی ہو، ہم انھیں خوش قسمت نہیں کہتے جن کی زندگی کی دوڑ ابھی ختم نہ ہوئی ہو، کیونکہ انسانی زندگی کو ایک صورت پر قرار نہیں ہوتا اور تغیر و تبدل اس کے لیے مستلزم ہے، یہ جواب سن کر کری سس نے سولن کے خلاف بڑی نفرت اور حقارت کا اظہار کیا، لیکن جب شہنشاہ سائرس نے اس کے ملک کو فتح کرلیا، اسے گرفتار کر لیا اور زندہ جلا دینے کا حکم دے دیا تو کری سس کو سولن کی بات یاد آئی جب وہ چتا پر بیٹھا تو اس نے ایک دردناک نعرہ مارا ''ہائے سولن۔''
جب انسان زندگی میں کامیابی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہا ہوتا ہے تو اسے زندگی کی تمام سچائیاں، حقیقتیں، ایمانداری، خلوص، محبت ، وفا ، انکساری ، تحمل ، برداشت بے معنی لگنے لگتی ہیں بوجھ لگنے لگتی ہیں تو پھر وہ انھیں اوپر سے ایک ایک کرکے پھینکنا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ انھیں Extra bade سمجھنے لگتا ہے جو اس کے خیال میں اور اوپر جانے میں رکاوٹیں بن رہی ہیں کیونکہ اس وقت وہ صرف جیت کا گھوڑا ہوتا ہے۔
اسے اس وقت صرف جیت چاہیے ہوتی ہے ہر صورت میں ہر قیمت پر صرف جیت، کیونکہ اس وقت وہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے جو تمام انسانی جذبات و احساسات سے عاری اور خالی ہوتا ہے اور پھر مکمل کامیابی سے صرف ایک زینہ پہلے وہ اپنے آپ کے لیے 99 والا سانپ بن جاتا ہے اور جیسے ہی وہ لڑھکتا ہوا زیرو پر پہنچتا ہے تو پھر وہ ہی درد ناک نعرہ مارتا ہے ''ہائے سولن ۔''
روم کی عظمت کا ترجمان مشہور خطیب ، فلسفی ، محقق، سیاست دان ، منتظم اور وکیل سسرو کے بارے میں فرانس کے مشہور مصنف والٹیر نے لکھا تھا ''اس سے زیادہ حق پرستانہ ، عقل مندانہ اور نافعانہ تحریر کسی نے نہیں لکھی۔ تعلیم و تربیت اور اخلاق و تہذیب کا سبق دینے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سسرو کے پیش کیے ہوئے اعلیٰ کردار کے نمونے اپنے تلامذہ کے سامنے رکھیں ورنہ وہ محض نیم حکیم کہلائیں گے۔'' سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے ''یوں تو اخلاقی فلسفے کا ہر لفظ بامعنی اور ثمر آور ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ بار آور حصہ وہ ہے جو اخلاقی ذمے داریوں اور فرائض سے متعلق ہے جو آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے اخلاقی فلسفے کی تعلیم ناگزیر ہے۔
سسرو نے تین سوالوں کے ذریعے اخلاقی فرائض کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ (1) کیا ہمارا عمل اخلاقی طور پر حق ہے یا باطل ؟ (2) کیا یہ فائدے مند ہے یا نقصان دہ؟ (3) جب حق اور ذاتی مفاد میں بظاہر تصادم ہو رہا ہے تو ان میں سے کسے ترک اور کسے اختیارکیاجائے ؟ وہ کہتا ہے کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے۔
ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کرکے دوسروں کی خد مت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے اخلاقی کوتاہی ، دکھ درد، عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائدے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل و زہر خوانی ، جعل و فریب ، سر قہ و غبن، استحصال ظہورمیں آتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے ذہنی ضلالت اورروحانی انحطاط سے۔ معصوم انسان بلک اور سسک رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے سماج کے 22 کروڑ انسانوں میں سے کوئی ایک انسان کیا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہمارا سماج ایسے سماج سے مختلف ہے؟ کیا ہم سب ایک غلیظ ، بدبو دار ، گندگیوں سے بھرے سماج میں اپنی اپنی زندگیاں رگڑ رگڑ کر نہیں گذار رہے ہیں ؟ کیا آج ہمارے سماج کے 90 فیصد انسان نفسیاتی مریض نہیں بن چکے ہیں ؟ عظیم فرانسیسی سارتر بتاتا ہے کہ اس کی والدہ خدا سے ایک ہی دعا مانگا کرتی تھی کہ خدا مجھے سکون دے۔
آج سیکڑوں سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں ایک نہیں بلکہ 22 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگے جارہے ہیں کہ خدا ہمیں سکون دے ۔ پوپ گریگوری اول نے 590ء میں سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ (1) ہوس (2) بیسار خوری (3) لالچ (4) کاہلی(5) شدید غصہ (6) حسد (7) تکبر ہلاک کر رہے ہیں۔ انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پالے تو یہ شاید بھرپور اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے ۔ گاندھی نے پوپ گریگوری اول کے سات گناہوں کی فہرست سے متاثر ہوکر 1925 میں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کی۔ ان کا کہنا تھا جب تک کوئی سماج ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ سماج اس وقت تک سماج نہیں بنتا۔ گاندھی کے بقول (1) اصولوں کے بغیر سیاست گنا ہ ہے (2) کا م کے بغیر دولت گناہ ہے۔ (3) ضمیرکے بغیر خوشی گناہ ہے۔ (4) کردارکے بغیر علم گنا ہ ہے۔ (5) اخلاقیات کے بغیر تجارت گنا ہ ہے۔
(6) انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے۔ (7)انصاف کے بغیر قانون گناہ ہے ، ہمارے تمام دکھوں کے پیچھے یہ ہی سات گناہ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ہمارے سماج کو ان ہی گناہوں نے مکمل لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے گناہگار بظاہر آپ کو نارمل انسان نظر آئیں گے لیکن اصل میں یہ سب کے سب مریض ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنا علاج کرتے اور اپنی تکلیفوں کو اور بڑھاتے اور پیچیدہ بتاتے چلے آرہے ہیں یہ سب کے سب ہر وقت اپنے ناسور چاٹتے رہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ انھیں کب ان عذابوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔
سولن آیا، کری سس کو دیکھا اور اس کے جاہ و حشم اور دولت و ثروت کی کوئی پروا نہ کی۔ کری سس کو امید تھی کہ سولن اس کی شان و شوکت اور اس کے ذوق کی تعریف کرے گا ، لیکن ادھر سے مایوس ہوکر اس نے حکم دیا کہ سولن کو اس کے خزانے دکھائے جائیں اور جب اس کے بعد بھی سولن نے اس کی دولت کی کوئی پروا نہ کی تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے سولن سے پوچھا کہ ''دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت کونسا آدمی ہے؟'' اسے امید تھی کہ سولن اس کا نام لے گا، لیکن سولن نے کہا ''میرے ملک میں ٹیلس نامی ایک شخص بہت خوش قسمت تھا کیونکہ وہ نیک تھا اور صاحب نصاب تھا، اچھے بچوں کا باپ تھا اور اس نے اپنے ملک کے لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں جان دے دی'' پھر کری سس نے پوچھا کہ ''اس کے بعد دوسرا کون زیادہ خوش قسمت ہے'' تو سولن نے جواب دیا کہ ''دوسرے نمبر پر وہ دو بھائی آتے ہیں جنھوں نے اپنی ماں کی خدمت میں جان دے دی۔''
اب کری سس سے اور برداشت نہ ہوسکا اور وہ پھٹ پڑا ''کیا تم ہم کو اس فہرست میں کبھی شامل نہ کرو گے'' اس پر سولن نے کہا ''اے بادشاہ ہم صرف ان ہی کو خوش قسمت کہتے ہیں جن کی زندگی کے آخری لمحے تک خوش قسمتی ان کے ہمر کاب رہی ہو، ہم انھیں خوش قسمت نہیں کہتے جن کی زندگی کی دوڑ ابھی ختم نہ ہوئی ہو، کیونکہ انسانی زندگی کو ایک صورت پر قرار نہیں ہوتا اور تغیر و تبدل اس کے لیے مستلزم ہے، یہ جواب سن کر کری سس نے سولن کے خلاف بڑی نفرت اور حقارت کا اظہار کیا، لیکن جب شہنشاہ سائرس نے اس کے ملک کو فتح کرلیا، اسے گرفتار کر لیا اور زندہ جلا دینے کا حکم دے دیا تو کری سس کو سولن کی بات یاد آئی جب وہ چتا پر بیٹھا تو اس نے ایک دردناک نعرہ مارا ''ہائے سولن۔''
جب انسان زندگی میں کامیابی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہا ہوتا ہے تو اسے زندگی کی تمام سچائیاں، حقیقتیں، ایمانداری، خلوص، محبت ، وفا ، انکساری ، تحمل ، برداشت بے معنی لگنے لگتی ہیں بوجھ لگنے لگتی ہیں تو پھر وہ انھیں اوپر سے ایک ایک کرکے پھینکنا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ انھیں Extra bade سمجھنے لگتا ہے جو اس کے خیال میں اور اوپر جانے میں رکاوٹیں بن رہی ہیں کیونکہ اس وقت وہ صرف جیت کا گھوڑا ہوتا ہے۔
اسے اس وقت صرف جیت چاہیے ہوتی ہے ہر صورت میں ہر قیمت پر صرف جیت، کیونکہ اس وقت وہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے جو تمام انسانی جذبات و احساسات سے عاری اور خالی ہوتا ہے اور پھر مکمل کامیابی سے صرف ایک زینہ پہلے وہ اپنے آپ کے لیے 99 والا سانپ بن جاتا ہے اور جیسے ہی وہ لڑھکتا ہوا زیرو پر پہنچتا ہے تو پھر وہ ہی درد ناک نعرہ مارتا ہے ''ہائے سولن ۔''
روم کی عظمت کا ترجمان مشہور خطیب ، فلسفی ، محقق، سیاست دان ، منتظم اور وکیل سسرو کے بارے میں فرانس کے مشہور مصنف والٹیر نے لکھا تھا ''اس سے زیادہ حق پرستانہ ، عقل مندانہ اور نافعانہ تحریر کسی نے نہیں لکھی۔ تعلیم و تربیت اور اخلاق و تہذیب کا سبق دینے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سسرو کے پیش کیے ہوئے اعلیٰ کردار کے نمونے اپنے تلامذہ کے سامنے رکھیں ورنہ وہ محض نیم حکیم کہلائیں گے۔'' سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے ''یوں تو اخلاقی فلسفے کا ہر لفظ بامعنی اور ثمر آور ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ بار آور حصہ وہ ہے جو اخلاقی ذمے داریوں اور فرائض سے متعلق ہے جو آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے اخلاقی فلسفے کی تعلیم ناگزیر ہے۔
سسرو نے تین سوالوں کے ذریعے اخلاقی فرائض کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ (1) کیا ہمارا عمل اخلاقی طور پر حق ہے یا باطل ؟ (2) کیا یہ فائدے مند ہے یا نقصان دہ؟ (3) جب حق اور ذاتی مفاد میں بظاہر تصادم ہو رہا ہے تو ان میں سے کسے ترک اور کسے اختیارکیاجائے ؟ وہ کہتا ہے کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے۔
ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کرکے دوسروں کی خد مت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے اخلاقی کوتاہی ، دکھ درد، عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائدے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل و زہر خوانی ، جعل و فریب ، سر قہ و غبن، استحصال ظہورمیں آتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے ذہنی ضلالت اورروحانی انحطاط سے۔ معصوم انسان بلک اور سسک رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے سماج کے 22 کروڑ انسانوں میں سے کوئی ایک انسان کیا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہمارا سماج ایسے سماج سے مختلف ہے؟ کیا ہم سب ایک غلیظ ، بدبو دار ، گندگیوں سے بھرے سماج میں اپنی اپنی زندگیاں رگڑ رگڑ کر نہیں گذار رہے ہیں ؟ کیا آج ہمارے سماج کے 90 فیصد انسان نفسیاتی مریض نہیں بن چکے ہیں ؟ عظیم فرانسیسی سارتر بتاتا ہے کہ اس کی والدہ خدا سے ایک ہی دعا مانگا کرتی تھی کہ خدا مجھے سکون دے۔
آج سیکڑوں سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں ایک نہیں بلکہ 22 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگے جارہے ہیں کہ خدا ہمیں سکون دے ۔ پوپ گریگوری اول نے 590ء میں سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ (1) ہوس (2) بیسار خوری (3) لالچ (4) کاہلی(5) شدید غصہ (6) حسد (7) تکبر ہلاک کر رہے ہیں۔ انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پالے تو یہ شاید بھرپور اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے ۔ گاندھی نے پوپ گریگوری اول کے سات گناہوں کی فہرست سے متاثر ہوکر 1925 میں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کی۔ ان کا کہنا تھا جب تک کوئی سماج ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ سماج اس وقت تک سماج نہیں بنتا۔ گاندھی کے بقول (1) اصولوں کے بغیر سیاست گنا ہ ہے (2) کا م کے بغیر دولت گناہ ہے۔ (3) ضمیرکے بغیر خوشی گناہ ہے۔ (4) کردارکے بغیر علم گنا ہ ہے۔ (5) اخلاقیات کے بغیر تجارت گنا ہ ہے۔
(6) انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے۔ (7)انصاف کے بغیر قانون گناہ ہے ، ہمارے تمام دکھوں کے پیچھے یہ ہی سات گناہ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ہمارے سماج کو ان ہی گناہوں نے مکمل لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے گناہگار بظاہر آپ کو نارمل انسان نظر آئیں گے لیکن اصل میں یہ سب کے سب مریض ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنا علاج کرتے اور اپنی تکلیفوں کو اور بڑھاتے اور پیچیدہ بتاتے چلے آرہے ہیں یہ سب کے سب ہر وقت اپنے ناسور چاٹتے رہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ انھیں کب ان عذابوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔