رسمِ ستم نہ بدلی
خواتین پر تشدد کا سلسلہ کب تھمے گا؟
خواتین پر جبر اور تشدد ہمارے معاشرے کا ایک منہ زور مسئلہ ہے۔ دیہات ہی نہیں شہروں میں بھی خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، بلکہ ان پر بہیمانہ تشدد اور قتل کر دینا بھی روا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خلاف سرگرم ایک نجی تنظیم نے موجودہ صورت حال کے حوالے سے پاکستان کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے تیسرا خطرناک ملک قرار دیاہے۔
پاکستان میں ہرسال ایک ہزار سے زاید خواتین غیرت کے نام پر قتل اور بدترین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بہت سے اپنے اور پرائے ان خواتین کے چہروں کو تیزاب سے بھی جھلسا دیتے ہیں، یوں وہ جیتے جی مر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہاں متاثرین کی مدد کرنے اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صرف لاہور میں آٹھ ماہ کے دوران جنسی تشدد کے 113 مقدمے درج کیے گئے۔ ایچ آر سی پی کے 6 ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق 44 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا، جن میں سے سات زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو گئیں۔ اسی طرح 44 خواتین کو جلایا گیا، جن میں سے 11 خواتین جان سے گئیں۔ 65 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کاروکاری کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ جس میں زیادہ تر شوہر اور بھائی ملوث پائے گئے۔
کاروکاری کے علاوہ جہیز کے مسئلے پر ہمارے ملک میں عورت سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہے۔ لڑکی اگر بھاری بھرکم جہیز نہ لے کر جائے تو اس کی جان تک جا سکتی ہے۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے پاکستان کو فقط افغانستان اور کانگو سے بہتر خیال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال صوبہ پنجاب کے علاقے ساہیوال میں گھر سے باہر نکلنے والی خواتین پر چُھریوں سے حملوں کے واقعات بھی بہت بڑے پیمانے پر پیش آئے۔ پولیس نے تنگ آکر 28 اکتوبر 2013ء کو ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے پر دو لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ ایک ماہ کے دوران چُھریوں سے خواتین کو زخمی کرنے کے 25 واقعات تھانے میں درج کیے گئے۔ ایک متاثرہ خاتون کے مطابق اسے ایک نقاب پوش ملزم نے روک کر پوچھا کہ انہوں نے اکیلے بازار کا رخ کیوں کیا؟ جب انہوں نے اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس نے چُھری سے وار کر کے انہیں زخمی کر دیا۔ نامعلوم ملزمان کی جانب سے خواتین کی کمر، بازو اور کاندھوں پر چھریوں کے وار کیے گئے۔ بہت سی ایسی خواتین بھی نشانہ بنیں، جو اپنے بھائیوں یا شوہر کے ساتھ خریداری کے لیے آئی تھیں، اور وہ پارکنگ میں ان کی واپسی کے منتظر تھے کہ انہیں اکیلا جان کر انہیں چُھریوں سے زخمی کر دیا گیا۔
اکتوبر کے ہی مہینے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 13 سالہ لڑکی کے اغوا کے بعد زندہ دفنانے کا اندوہناک واقعہ سامنے آیا۔ 27 ستمبر 2013ء کو گجرانوالہ میں ایک نالے سے 14 اور 16 سال کی دو لڑکیوں کی گولیوں چھلنی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اسی دن کراچی میں عزیز آباد کی 13 سالہ طالبہ کی لاش سی ویو سے برآمد ہوئی۔ پشاور میں ملزم تاسیر خان نے اپنی بیوی کو جلا کر گھر تین دن تک گھر میں قید رکھا، جس سے اس کی حالت اور بھی خراب ہو گئی۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کے حوالے سے متشددانہ ذہن کس نہج پر جا پہنچا ہے۔
خواتین کے تشدد کے حوالے مختلف حکومتوں نے بھی کئی قوانین بنائے، لیکن اس کے باوجود خواتین پر وحشت ناک تشدد میں کمی نہیں آرہی۔ گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سندھ اسمبلی نے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل متفقہ طور پر منظور کیا، جس کے بعد گھریلو تشدد قابل تعزیر جرم قرار پایا، جس پر ایک ماہ سے لے کر دو سال تک قید کی سزا اور ایک ہزار سے 50 ہزار تک کے جرمانے کی صورت میں سزائیں بھی لاگو کی گئیں۔
سندھ حکومت نے 25 نومبر 2013ء کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن نہایت جوش وخروش سے منایا، ساتھ ہی اس موقع پر 16 روزہ تقریبات بھی منعقد کی گئیں، جو 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر اختتام پذیر ہوئیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن منانے کا آغاز 1981ء سے ہوا۔ 1999ء میں اقوام متحدہ کی سطح پر بھی یہ دن منایا جانے لگا۔ ہمارے ہاں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے سرکاری سطح پر مستقل بنیادوں پر اس طرح کی مہم کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے صنف نازک کے حوالے سے جہالت اور دقیانوسیت پر مبنی غیر انسانی رویوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
پاکستان میں ہرسال ایک ہزار سے زاید خواتین غیرت کے نام پر قتل اور بدترین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بہت سے اپنے اور پرائے ان خواتین کے چہروں کو تیزاب سے بھی جھلسا دیتے ہیں، یوں وہ جیتے جی مر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہاں متاثرین کی مدد کرنے اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صرف لاہور میں آٹھ ماہ کے دوران جنسی تشدد کے 113 مقدمے درج کیے گئے۔ ایچ آر سی پی کے 6 ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق 44 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا، جن میں سے سات زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو گئیں۔ اسی طرح 44 خواتین کو جلایا گیا، جن میں سے 11 خواتین جان سے گئیں۔ 65 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کاروکاری کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ جس میں زیادہ تر شوہر اور بھائی ملوث پائے گئے۔
کاروکاری کے علاوہ جہیز کے مسئلے پر ہمارے ملک میں عورت سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہے۔ لڑکی اگر بھاری بھرکم جہیز نہ لے کر جائے تو اس کی جان تک جا سکتی ہے۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے پاکستان کو فقط افغانستان اور کانگو سے بہتر خیال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال صوبہ پنجاب کے علاقے ساہیوال میں گھر سے باہر نکلنے والی خواتین پر چُھریوں سے حملوں کے واقعات بھی بہت بڑے پیمانے پر پیش آئے۔ پولیس نے تنگ آکر 28 اکتوبر 2013ء کو ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے پر دو لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ ایک ماہ کے دوران چُھریوں سے خواتین کو زخمی کرنے کے 25 واقعات تھانے میں درج کیے گئے۔ ایک متاثرہ خاتون کے مطابق اسے ایک نقاب پوش ملزم نے روک کر پوچھا کہ انہوں نے اکیلے بازار کا رخ کیوں کیا؟ جب انہوں نے اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس نے چُھری سے وار کر کے انہیں زخمی کر دیا۔ نامعلوم ملزمان کی جانب سے خواتین کی کمر، بازو اور کاندھوں پر چھریوں کے وار کیے گئے۔ بہت سی ایسی خواتین بھی نشانہ بنیں، جو اپنے بھائیوں یا شوہر کے ساتھ خریداری کے لیے آئی تھیں، اور وہ پارکنگ میں ان کی واپسی کے منتظر تھے کہ انہیں اکیلا جان کر انہیں چُھریوں سے زخمی کر دیا گیا۔
اکتوبر کے ہی مہینے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 13 سالہ لڑکی کے اغوا کے بعد زندہ دفنانے کا اندوہناک واقعہ سامنے آیا۔ 27 ستمبر 2013ء کو گجرانوالہ میں ایک نالے سے 14 اور 16 سال کی دو لڑکیوں کی گولیوں چھلنی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اسی دن کراچی میں عزیز آباد کی 13 سالہ طالبہ کی لاش سی ویو سے برآمد ہوئی۔ پشاور میں ملزم تاسیر خان نے اپنی بیوی کو جلا کر گھر تین دن تک گھر میں قید رکھا، جس سے اس کی حالت اور بھی خراب ہو گئی۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کے حوالے سے متشددانہ ذہن کس نہج پر جا پہنچا ہے۔
خواتین کے تشدد کے حوالے مختلف حکومتوں نے بھی کئی قوانین بنائے، لیکن اس کے باوجود خواتین پر وحشت ناک تشدد میں کمی نہیں آرہی۔ گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سندھ اسمبلی نے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل متفقہ طور پر منظور کیا، جس کے بعد گھریلو تشدد قابل تعزیر جرم قرار پایا، جس پر ایک ماہ سے لے کر دو سال تک قید کی سزا اور ایک ہزار سے 50 ہزار تک کے جرمانے کی صورت میں سزائیں بھی لاگو کی گئیں۔
سندھ حکومت نے 25 نومبر 2013ء کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن نہایت جوش وخروش سے منایا، ساتھ ہی اس موقع پر 16 روزہ تقریبات بھی منعقد کی گئیں، جو 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر اختتام پذیر ہوئیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن منانے کا آغاز 1981ء سے ہوا۔ 1999ء میں اقوام متحدہ کی سطح پر بھی یہ دن منایا جانے لگا۔ ہمارے ہاں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے سرکاری سطح پر مستقل بنیادوں پر اس طرح کی مہم کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے صنف نازک کے حوالے سے جہالت اور دقیانوسیت پر مبنی غیر انسانی رویوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔