صنف نازک کسی سے کم نہیں

حقوق نسواں پر آج بھی انسان کی سوچ پس ماندہ

حقوق نسواں پر آج بھی انسان کی سوچ پس ماندہ۔

شاخ گل کی مانند نازک، وجود پر ڈھیروں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے، ماتھے پر شکن نہیں، خاندان بھر کی فلاح و بہبود میں مصروف آج کی صنف نازک کسی بھی لحاظ سے کم تر نہیں۔ جہاں وہ باہر کے معاملات میںمستعد رہتی ہے، وہیں گھر میں خود سے وابستہ مختلف رشتوں کی محبت میں گم نظر آتی ہے۔ عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی غرض ہر روپ میں پورے معاشرے میں اپنے وجود کا اجالا بکھیرتی پھرتی ہے۔


ایک ماں کی تربیت ہی ہمیں تاب ناک مستقبل مہیا کرسکتی ہے۔ کہنے کو زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے، اس کے باوجود اب ابھی ایسے گھرانے موجود ہیں، جنہوں نے فرسودہ رسومات کا جال اپنے اوپر تانا ہوا ہے۔ سماج میں اب بھی عورت کو کم تر سمجھنے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ لڑکیوں کو منحوس گردانا جاتا ہے۔۔۔ بیٹی کی پیدائش پر سوگ منایا جاتا ہے۔۔۔ ان کی زندگی کے فیصلے ان کی رضا مندی جانے بغیر کر دیے جاتے ہیں۔ کہیں انہیں ادلے بدلے کی شادیوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ کہیں اسے دشمنی معاف کرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن سے شادی، کاروکاری اور چولہے پھٹنے کے پر اسرار واقعات میں صرف مرد ہی نہیں، بلکہ بہت سی خواتین بھی شریک ظلم ہوتی ہیں۔

آج کی ترقی ایسی کہ انسان بغیر پائلٹ جہاز بھی اڑا سکتا ہے، لیکن جب عورت کے حق کی بات آجائے، تو اس کا ذہن وہیں صدیوں پیچھے بھٹکنے لگتا ہے۔ درحقیقت ہمارا معاشرہ آج بھی صنف نازک کو اس کا جائز مقام دینے میں پس وپیش کا شکار ہے۔ اس میں کافی حد تک عورت کو بھی دوش ہے، کیوں کہ بہت بڑے پیمانے پر وہ خود بھی اپنی ہی صنف کی دشمن ہے۔ جب تک اسے یہ احساس نہیں ہوگا کہ وہ خود صنفی امتیاز برتنے کا سبب بن رہی ہے، حالات درست نہیں ہوں گے۔ صنفی تفریق کے خلاف اس کے اتحاد سے یقیناً معاشرے میں اس سے دُہرے سلوک کا سلسلہ بند ہوگا۔
Load Next Story