اکابرین کے فرمودات

کوئی بھی نظریہ،کوئی بھی عقیدہ اعتدال کی حدوں کوکراس کر کے انتہا کی حدوں میں داخل ہوتا ہے توخوداپنےلیےزہرقاتل بن جاتاہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہر قوم اپنے سیاسی اور مذہبی اکابرین کا بے حد احترام کرتی ہے اور ان کے فرمودات، ان کے اصولوں اور نظریات کو اپنی زندگی کے لیے مشعل راہ بنا لیتی ہے لیکن اس حوالے سے دو باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ہر دور کے اپنے تقاضے، اپنا ماحول ہوتا ہے۔ دوسری اس حوالے سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کیا قومیں اپنے اکابرین کے صدیوں پہلے کے فرمودات، اصولوں، ضابطوں کو دور حاضر کے مطابق ڈھالنے اور اپ ڈیٹ کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں؟

ان دو افکار کو دنیا میں رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے نام سے جانا جاتاہے۔ دنیا میں یونانی مفکرین کے نظریات کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے یونان میں افلاطون اور ارسطو اور چین میں کنفیوشس اپنے دور کے ایسے مفکرین تھے جن کے نظریات کو اخلاقی آسمان کے چاند اور سورج جیسی اہمیت حاصل تھی لیکن ایسے اکابرین کے بعض اصول فرمودات دور حاضر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ اکابرین دوربین اور سیاسی بصیرت کے حامل نہ تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے جو کچھ سوچا جو اصول وضع کیے، وہ اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تو تھے لیکن کیا یہ فرمودات، یہ اصول آج کے حالات، آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں؟

اسی طرح عیسائی مذہب کی تعلیمات میں ہے کہ ''اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو اس کے آگے دوسرا گال پیش کر دو'' لیکن عملی زندگی میں کیا کوئی ایسا عیسائی نظر آتا ہے جو طمانچہ کھا کر اپنا دوسرا گال پیش کرتا ہو؟ آج مسلم دنیا خصوصاً افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں جو بے چینی اور انتشار نظر آ رہا ہے اس کی اصل وجہ ماضی اور حال کے تضادات ہی ہیں۔ ایک طبقہ فکر وہ ہے جو اپنے اکابرین کے فرمودات، اور ضابطوں کو حرف آخر سمجھتا ہے اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کسی تبدیلی کو عقائد و نظریات کی نہ صرف خلاف ورزی بلکہ مداخلت سمجھتا ہے۔ دوسرا طبقۂ فکر وہ ہے جو اپنے عقائد و نظریات کو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کو عقائد و نظریات کی ترقی اور بر تری سمجھتا ہے، آج ہم مسلم ممالک میں جو خونریزی دیکھ رہے ہیں وہ عقائد و نظریات کا وہ تضاد ہے ۔

پاکستان میں یہ تضاد محمد علی جناح کے فرمودات اور اصولوں کی تاویل و تشریح کی جنگ میں بدل گیا ہے ایک موقف یہ ہے کہ جناح اس ملک کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ دوسرے طبقہ فکر کا موقف یہ ہے کہ بابائے قوم اس ملک کو ترقی پسند فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے تھیوکریٹک ریاست نہیں۔ اس حوالے سے یہ طبقہ فکر خود جناح صاحب کی عملی زندگی کو مثال بنا کر پیش کرتا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں طبقہ فکر جناح صاحب کی بعض تقاریر کو اپنے اپنے موقف کی حمایت میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی عقیدہ اعتدال کی حدوں کو کراس کر کے انتہا کی حدوں میں داخل ہوتا ہے تو خود اپنے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے، جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنے ملک اور ارد گرد پھیلی ہوئی مذہبی انتہا پسندی میں دیکھ رہے ہیں۔اس جدوجہد کو معاشرتی قبولیت اس لیے حاصل ہے کہ یہ جدوجہد ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری اصولوں کے مطابق پر امن طریقوں سے کی جا رہی ہے۔ لیکن اس جد و جہد کو بلا امتیاز مذہب ملت ایک ایسی خونریزی میں بدل دیا گیا ہے جس کا شکار خود مسلمان ہو رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند ہر قوم، ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھار ت میں بھی مذہبی انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں۔ بی جے پی،راشٹریہ، سیوک سنگھ، بجرنگ دَل جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کی انتہا پسندی کا رخ مذہبی حریفوں کی طرف ہے۔ یعنی ان کی انتہا پسندی عموماً مسلمانوں کے خلاف ہے وہ ہندوؤں کے خلاف نہیں لیکن مذہبی انتہا پسندی کی تاریخ میں ہماری مذہبی انتہا پسندی اس لیے منفرد اور ہولناک ہے کہ اس کا رخ خود مسلمانوں کی طرف ہے۔ مندر گرجا ہی اس کی زد میں نہیں بلکہ مسجد، امام بار گاہ، صوفیوں کے مقبرے حتیٰ کہ بچوں کے اسکول بھی اس کی زد میں ہیں، اب تک 50 ہزار پاکستانی اور مسلمان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، خود مسلمانوں کو جس وحشیانہ انداز میں یہ لوگ قتل کر رہے ہیں ایسا وحشیانہ قتل عام مذہبی جنگوں کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرے مذاہب کے خلاف بھی بعض مخصوص حالات میں جنگ جائز سمجھی جاتی ہے جسے جہاد کا نام دیا جاتا ہے لیکن جو جنگ آج لڑی جا رہی ہے جو جہاد آج کیا جا رہا ہے وہ خود مسلمانوں کے خلاف ہے خودکش حملے، بارودی گاڑیاں، بجری سیمنٹ کے بم، بموں اور دھماکوں میں انتہائی خوفناک نقصانات پہنچانے والے نٹ بولٹ، کیل، کانٹوں کا استعمال کس مقصد میں جنگ یا جہاد میں ہو رہا ہے؟ کیا اس دہشتگردی کا کوئی تعلق شریعت سے ہے۔؟

کیا یہ قتل عام سیاسی اور مذہبی اکابرین کی تعلیمات سے کوئی مطابقت رکھتا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے اعتدال پسند رہنما ایک طرف تو اس دہشت و بربریت کی مذمت بھی کرتے ہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو انسان ماننے سے انکار بھی کرتے ہیں تو دوسری طرف انھیں اپنا دینی بھائی کہتے ہوئے ان کے خلاف حکومت کے دفاعی اقدامات کی بھی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ یہ تضادات اگرچہ افراد اور جماعتوں کے درمیان ہیں لیکن ان کے اثرات پورے معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام سے بہتر جہاد کی باریکیوں، جہاد کی شرائط وغیرہ کو کون سمجھ سکتا ہے۔ یہی علمائے کرام جہاد کی مشروطیت کو پس پشت ڈال کر یہ ایک عجیب فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ ''ہمارے مسائل کا حل جہاد ہے یا ہم اس لیے تباہیوں کے کنارے کھڑے ہیں کہ ہم نے جہاد کا راستہ ترک کر دیا ہے۔''

جناح دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد ایک تفکر سے پاکستان کے مستقبل کو دیکھ رہے تھے اور اسی پس منظر میں انھوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ یہ نیا ملک 25 سال میں ٹوٹ جائے گا اور واقعی ٹوٹ گیا۔ یہ دونوں اکابرین اپنی اپنی فکر میں بہت مخلص تھے لیکن فرق صرف فوری اور درست نتائج کا تھا۔ جناح صاحب نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا۔ یہ ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا، ایسے مسائل میں محض اکابرین کے فرمودات کے حوالے کافی نہیں ہوتے بلکہ ایسے مسائل کو آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق اجتماعی دانش کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے انتہا پسند حضرات چور کی سزا میں ہاتھ کاٹنا، زانی کو سنگسار کرنا تو لازمی قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اسلام نے حالات کو مد نظر رکھنے کا بھی کہا ہے۔غلامی ہی لے لیں۔ انھیں آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ ہے وہ فرق جو مذہبی عناصر سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس طرز فکر نے ہمیں ایک طرف ساری دنیا میں اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف ہماری ترقی کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر بحث کرنے سے ڈرنے کے بجائے ان پر کھل کر بحث ہونی چاہیے کیوں کہ اس طرح ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں ورنہ وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔
Load Next Story