تضاد در تضاد
بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں افراتفری اور عدم استحکام میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں افراتفری اور عدم استحکام میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، جوں جوں سرمایہ داری کا معاشی اور سیاسی زوال شدت اختیارکرتا جا رہا ہے اور حکمران طبقے کی اس زوال پر قابو پانے کی نااہلیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے توں توں اس نظام کی رجعتی یلغار بھی مشتعل ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ برس بھی انسانیت ایک طرف تو بھوک اور غربت سے بلکتی رہی تو دوسری طرف بدامنی اور خوف و ہراس کی چکی میں پستی رہی۔ 2011 کی عرب بہار (جوکہ انقلاب کا پہلا ریلا تھا) کے بعد جہاں حکمراں طبقات کے پاؤں تلے سے زمین سرکنا شروع ہوگئی تھی وہیں ان تحریکوں میں وقتی شکست اور ٹھہراؤ کی کیفیت کی وجہ سے مایوسی اور جمود نے پھر عوامی شعور میں جڑیں پکڑنا شروع کردیں اور ایسے موقع پر بنیاد پرستی ہمیشہ کی طرح محنت کش عوام کے خلاف حکمراں طبقات کے ہاتھوں میں درمیانی طبقے کی پراگندگی اور بے صبری کے ذریعے آلہ کار بن گئی۔
بنیاد پرستی اور سامراجیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ یہ کبھی علی الاعلان یاریاں لگاتے ہیں تو کبھی دشمنی کے لبادے میں ایک دوسرے کی راہوں کے کانٹے صاف کرنے کے تاریخی فریضے پورے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی ہمیں یہ دونوں کیفیات اور بسا اوقات ان کے امتزاج کے عملی نمونے دیکھنے میں ملے خاص طور پر گزشتہ برس شام میں بھاری خانہ جنگی میں (جس میں میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان زندگی کی بازی ہار چکے ہیں) امریکا اور القاعدہ پھر اتحادی بن کر نظر آئے۔ مگر دوسری طرف افغانستان اور پاکستان میں بظاہر صورتحال کافی مختلف دکھائی دے رہی ہے جہاں تمام کاوشوں کے باوجود معاملات حل ہونے کی بجائے اور بھی پیچیدہ اور متضاد نتائج کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کو اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے باہمی دست و گریباں ریاستی دھڑوں کی جنونیت کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں اس سامراجی یلغار، مذہبی تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے بارے میں حکمران طبقات کے اپنے اعداد و شمار میں شدید ابہام اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
نیو امریکی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2004 سے لے کر 2013 تک 366 امریکی ڈرون حملوں میں 2725 لوگ مارے جاچکے ہیں جب کہ 2013 میں داخلی بدامنی کے دوران 1717 حملوں میں کل 5379 افراد جان سے جاتے رہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کو ایک عشرے سے زائد بیت چکا ہے مگر امریکا عراق کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ وہاں سے اور کچھ بھی حاصل نہیں کرپایا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو جب عراق میں فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر درجنوں افراد بے رحمی سے قتل نہ کیے جاتے ہوں۔ سنجیدہ سامراجی نمایندہ رابرٹ گیٹس کہتا ہے کہ فوجی بجٹ میں کٹوتیاں بھی کی جا رہی ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگی اخراجات کم سے کم کیے جائیں۔ اگر کوئی بھی شخص امریکا کو مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک میں فوجی مداخلت کا مشورہ دیتا ہے تو اسے درست نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ امریکا کی اسی داخلی کمزوری کے باعث ایک طرف روس دوبارہ مشرق وسطیٰ میں اپنے پاؤں مضبوط کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکا کے علاقائی اتحادیوں کے مابین اختلافات بھڑک اٹھے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے معاملے پر امریکی حکمران طبقات اور سی آئی اے شدید پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس خطے میں سوویت یونین کے خلاف جو کھلواڑ امریکا نے خود شروع کیا اور ان کا حامی حامد کرزئی تجویز کردہ معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ عشروں میں حامد کرزئی امریکا سے سالانہ 10 ارب ڈالر کی امداد وصول کرتا رہا ہے۔ اب اسے جاری رکھنا امریکا کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا دوبارہ معتدل طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ افغانستان کے بہت سے گروہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہیروئن کی اسمگلنگ کے ذریعے ہی اسلحہ خریدتے ہیں۔ دنیا میں پوست کی کھپت کا تقریباً 92 فیصد افغانستان میں کاشت کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈرگز اینڈ کرائم آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں افغانستان میں افیون کی کاشت کا رقبہ 2011 کی نسبت 18 فیصد اضافے کے ساتھ 154000 ہیکڑ تک پہنچ چکا ہے۔ طالبان کی مرکزیت کے بکھر جانے میں بھی اسی منڈی کے مسلسل بڑھتے ہوئے حجم نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔کچھ مذہبی رہنماؤں کی ''اسلامی انقلاب'' کی فلم بھی اب بوسیدہ ہوچکی اور لوگ اس کی یکسانیت سے لبریز بے معنی گفتگو سے اکتا چکے ہیں۔ اس کی بیروزگاری الاؤنس کے مطالبے اور نجکاری کی مخالفت جیسے ریڈیکل نعروں کے ذریعے مقبولیت حاصل کرنے کی کوششیں بھی بے سود ثابت ہوں گی۔ دوسری طرف مذہبی جماعتوں پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ تمام مذہبی پارٹیاں پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہوئی ہیں اور ان کے اندر داخلی تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
گزشتہ دو برس کے انتخابات میں بھی ان کو شکست کا سامنا ہے۔ مصر اور بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات سے کسی حد تک انھیں سیاسی ہلڑ کرنے کے مواقعے میسر آئے ہیں مگر وہ ان سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے سیاسی بحران پر نکتہ نظر نے انھیں اخلاقی طور پر زبوں حالی کا شکار کردیا ہے۔ اب ان کے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ مگر یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہے گی۔ دوسری جانب روشن خیالی کے نام پر سودا بازی کا کھلواڑ جاری رہے گا۔ ان متعصب دانشوروں کی رائے سے آزاد محنت کش طبقہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اہم اسباق سیکھ رہا ہے۔ طبقاتی کشمکش ماند ضرور پڑی ہے ختم نہیں ہوئی۔ وہ جلد یا بدیر سیاسی افق پر نمودار ہوگی اور بالکل تبدیل شدہ اخلاقیات، نفسیات اور ثقافت میں یہ تمام مذہبی اور نسلی تعصبات ایسے غائب ہوں گے جیسے کہ یہ کبھی تھے ہی نہیں۔ جب سرمایہ داری اور نجی ملکیت کا خاتمہ ہوکر ایک امداد باہمی کا محبت بھرا اور انسانی دوستی کا معاشرہ قائم ہوگا۔
بنیاد پرستی اور سامراجیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ یہ کبھی علی الاعلان یاریاں لگاتے ہیں تو کبھی دشمنی کے لبادے میں ایک دوسرے کی راہوں کے کانٹے صاف کرنے کے تاریخی فریضے پورے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی ہمیں یہ دونوں کیفیات اور بسا اوقات ان کے امتزاج کے عملی نمونے دیکھنے میں ملے خاص طور پر گزشتہ برس شام میں بھاری خانہ جنگی میں (جس میں میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان زندگی کی بازی ہار چکے ہیں) امریکا اور القاعدہ پھر اتحادی بن کر نظر آئے۔ مگر دوسری طرف افغانستان اور پاکستان میں بظاہر صورتحال کافی مختلف دکھائی دے رہی ہے جہاں تمام کاوشوں کے باوجود معاملات حل ہونے کی بجائے اور بھی پیچیدہ اور متضاد نتائج کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کو اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے باہمی دست و گریباں ریاستی دھڑوں کی جنونیت کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں اس سامراجی یلغار، مذہبی تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے بارے میں حکمران طبقات کے اپنے اعداد و شمار میں شدید ابہام اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
نیو امریکی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2004 سے لے کر 2013 تک 366 امریکی ڈرون حملوں میں 2725 لوگ مارے جاچکے ہیں جب کہ 2013 میں داخلی بدامنی کے دوران 1717 حملوں میں کل 5379 افراد جان سے جاتے رہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کو ایک عشرے سے زائد بیت چکا ہے مگر امریکا عراق کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ وہاں سے اور کچھ بھی حاصل نہیں کرپایا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو جب عراق میں فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر درجنوں افراد بے رحمی سے قتل نہ کیے جاتے ہوں۔ سنجیدہ سامراجی نمایندہ رابرٹ گیٹس کہتا ہے کہ فوجی بجٹ میں کٹوتیاں بھی کی جا رہی ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگی اخراجات کم سے کم کیے جائیں۔ اگر کوئی بھی شخص امریکا کو مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک میں فوجی مداخلت کا مشورہ دیتا ہے تو اسے درست نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ امریکا کی اسی داخلی کمزوری کے باعث ایک طرف روس دوبارہ مشرق وسطیٰ میں اپنے پاؤں مضبوط کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکا کے علاقائی اتحادیوں کے مابین اختلافات بھڑک اٹھے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے معاملے پر امریکی حکمران طبقات اور سی آئی اے شدید پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس خطے میں سوویت یونین کے خلاف جو کھلواڑ امریکا نے خود شروع کیا اور ان کا حامی حامد کرزئی تجویز کردہ معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ عشروں میں حامد کرزئی امریکا سے سالانہ 10 ارب ڈالر کی امداد وصول کرتا رہا ہے۔ اب اسے جاری رکھنا امریکا کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا دوبارہ معتدل طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ افغانستان کے بہت سے گروہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہیروئن کی اسمگلنگ کے ذریعے ہی اسلحہ خریدتے ہیں۔ دنیا میں پوست کی کھپت کا تقریباً 92 فیصد افغانستان میں کاشت کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈرگز اینڈ کرائم آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں افغانستان میں افیون کی کاشت کا رقبہ 2011 کی نسبت 18 فیصد اضافے کے ساتھ 154000 ہیکڑ تک پہنچ چکا ہے۔ طالبان کی مرکزیت کے بکھر جانے میں بھی اسی منڈی کے مسلسل بڑھتے ہوئے حجم نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔کچھ مذہبی رہنماؤں کی ''اسلامی انقلاب'' کی فلم بھی اب بوسیدہ ہوچکی اور لوگ اس کی یکسانیت سے لبریز بے معنی گفتگو سے اکتا چکے ہیں۔ اس کی بیروزگاری الاؤنس کے مطالبے اور نجکاری کی مخالفت جیسے ریڈیکل نعروں کے ذریعے مقبولیت حاصل کرنے کی کوششیں بھی بے سود ثابت ہوں گی۔ دوسری طرف مذہبی جماعتوں پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ تمام مذہبی پارٹیاں پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہوئی ہیں اور ان کے اندر داخلی تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
گزشتہ دو برس کے انتخابات میں بھی ان کو شکست کا سامنا ہے۔ مصر اور بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات سے کسی حد تک انھیں سیاسی ہلڑ کرنے کے مواقعے میسر آئے ہیں مگر وہ ان سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے سیاسی بحران پر نکتہ نظر نے انھیں اخلاقی طور پر زبوں حالی کا شکار کردیا ہے۔ اب ان کے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ مگر یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہے گی۔ دوسری جانب روشن خیالی کے نام پر سودا بازی کا کھلواڑ جاری رہے گا۔ ان متعصب دانشوروں کی رائے سے آزاد محنت کش طبقہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اہم اسباق سیکھ رہا ہے۔ طبقاتی کشمکش ماند ضرور پڑی ہے ختم نہیں ہوئی۔ وہ جلد یا بدیر سیاسی افق پر نمودار ہوگی اور بالکل تبدیل شدہ اخلاقیات، نفسیات اور ثقافت میں یہ تمام مذہبی اور نسلی تعصبات ایسے غائب ہوں گے جیسے کہ یہ کبھی تھے ہی نہیں۔ جب سرمایہ داری اور نجی ملکیت کا خاتمہ ہوکر ایک امداد باہمی کا محبت بھرا اور انسانی دوستی کا معاشرہ قائم ہوگا۔