ریڈیو نئے دور کا آغاز
بچپن میں ریڈیو ہی سنتے آئے ہیں، اس لیے اب بھی جب ریڈیو سنتے ہیں تو اس میں وہی کشش اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے
بچپن میں ریڈیو ہی سنتے آئے ہیں، اس لیے اب بھی جب ریڈیو سنتے ہیں تو اس میں وہی کشش اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے مگر اس میں جو نئی صورت میں آزادی اور تبدیلی آئی ہے اس پر سننے والوں کو کافی تحفظات ہیں جسے آگے چل کر بحث میں شامل بھی کریں گے اور اس کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے مشورہ بھی دیں گے۔
ہمارے گھر میں میرے والد جب ریڈیو لے آئے تو اس کا سائز کافی بڑا تھا اور اس کی باڈی مضبوط پلاسٹک کی بنی ہوئی تھی۔ جسے چلانے کے لیے ہم نے ایک فٹ کی بیٹری خریدی جس پر کالی بلی کا نشان چھپا ہوا تھا۔ بیٹری کو ریڈیو سے ملانے کے لیے جو تار تھا اس کے ایک سرے کو زمین میں دبانا تھا کیوں کہ ریڈیو چلانے کے لیے ارتھ دینا تھا۔ اب زمین کو کھود کر لوہے کی تار ڈالی، پھر زمین میں نمک ڈالا یا پھر کبھی کوئلہ کوٹ کر ڈالتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس گرامو فون بھی تھا جسے ہم چلاتے اور اپنی پسند کے گانے سنتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو سیٹ میں جدت آئی اور اس کا سائز بھی کم ہوا۔ اب ہم چند بیٹری کے چھوٹے سیل ڈالتے تھے جس میں ارتھ نہیں ڈالنا پڑتا تھا مگر اس میں ایریئل کا استعمال کرتے تھے۔ لوگوں کے پاس ریڈیو سینما کے بعد ایک بڑا انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اب سائز اتنا چھوٹا ہوتا گیا کہ آپ اسے ہر جگہ لے جاکر کہیں بھی سن سکتے تھے مگر گھروں میں اکثر اب بجلی پر ریڈیو سنا جاتا تھا۔ ریڈیو کے سننے کا مزا صبح سویرے اور پھر رات کو 9بجے زیادہ آتا تھا۔
صبح سویرے اذان کے ساتھ کسان ہل اور بیل کے ساتھ ریڈیو بھی لے جاتا تھا۔ وہ اپنا کام بھی کرتا تھا اور ریڈیو بھی سنتا تھا جس میں اس کا کام سہل ہوجاتا تھا اور وقت آرام کے ساتھ گزر جاتا تھا۔ جن کے پاس ریڈیو نہیں ہوتا تھا وہ شام کو اوطاق (بیٹھک) میں اکٹھے ہوکر مختلف پروگرام سنتے تھے جس میں ان کی پسند کا پروگرام ''کچہری'' ہوتا تھا۔ جو ریڈیو پاکستان سے صالح محمد شاہ پیش کرتے تھے جس میں ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ زراعت پر پروگرام پیش کیاجا تا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں بھٹائی شاہ عبداللطیف کی شاعری، استاد منظورعلی خان، استاد محمد ابراہیم، استاد محمد جمن،سنگھار علی سلیم ، مائی بھاگی اور دوسرے گلوکاروں کے گیت پیش کیے جاتے تھے۔
صبح سویرے ہمارے گھر میں ریڈیو سیلون، پھر ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور شام کو ریڈیو آکاش وانی، ریڈیو ایران زاہدان پھر رات کو بی بی سی کی اردو سروس وغیرہ سنتے تھے۔ میں اس کے علاوہ وائس آف امریکا ریڈیو ڈوئچے ویلے بھی سنتا تھا۔ لاڑکانہ شہر میں لوگ جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتے تھے تو وہ گھر کے باہر گلی میں ریڈیو لے کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر اپنی پسند کے گانے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے سنتے تھے۔ اس وقت موسیقی سننے کا رجحان زیادہ تھا اور سیاسی خبریں لوگ کم سنتے تھے مگر جب 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑی گئیں تو اس وقت محلے کے سارے لوگ ایک جگہ بیٹھ کر خبریں سنتے تھے۔
ریڈیو میں خاص طور پر ہندوستانی گانے زیادہ سنے جاتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی اور حیدرآباد بھی سنا جاتا تھا۔ اس وقت ریڈیو سیلون، ریڈیو ایران زاہدان، بی بی سی اور ریڈیو آکاش وانی زیادہ مقبول تھے۔اناؤنسر امین سیانی کا طوطی بولتا تھا، جب گرمی کا موسم آتا تھا تو لوگ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر رائس کینال کے کنارے یا پھر پارکوں میں جاکر ریڈیو سنتے تھے۔ اگر کوئی دوست حج پر سعودی عرب جاتا تھا تو اس کو فرمائش کی جاتی تھی کہ وہ ان کے لیے چھوٹا تھری بینڈ ریڈیو جو جاپان کا بنا ہوتا تھا لے آئے۔ کیوں کہ شروع میں تو ریڈیو ایک بینڈ کے بھی تھے لوگ اکثر ریڈیو پر فرمائشی پروگرام میں اپنا نام پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھیج کر اپنی پسند کا گانا سنتے تھے اور اپنا نام سن کر بڑے خوش ہوتے اور فخر کرتے تھے، اس کے علاوہ ریڈیو پر کچھ انعامی پروگرام بھی شروع کردیے گئے جس میں حصہ لینے والوں کے انعامات بھی نکلتے تھے۔
ریڈیو پاکستان کراچی، پھر حیدرآباد، پھر خیرپور، پھر لاڑکانہ قائم ہوئے جس کے ذریعے نیا ٹیلنٹ سامنے آیا کیوںکہ ان کو اپنے ہی شہر میں یا اس کے قریب موقع ملا۔ ان ریڈیو اسٹیشن سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ سندھی موسیقی نے ترقی کی۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ جلال چانڈیو کا ہے جس کا گانے کا انداز اور اسٹائل گاؤں کے لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ اب لوگ ہندوستانی گانوں کے ساتھ پاکستانی گانوں میں سندھی فنکاروں کو زیادہ سننے لگے۔ کراچی، حیدرآباد اور خیرپور ریڈیو Stations میڈیم ویو کی وجہ سے دور دور تک پروگرام سنائی دیتے تھے اور خاص طور پر رات کے وقت اور لوگ کھانا کھانے کے بعد گھر میں بیٹھ کر ریڈیو کے پروگرام سنتے تھے اور ریڈیو کا سحر اس وقت ٹوٹنا شروع ہوا جب ملک کے اندر ٹی وی آگیا اور پھر اس کے بعد وی سی آر کا جنم ہوا۔ اس وقت جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی تو ریڈیو کی طرف سے لوگوں نے منہ موڑ لیا جس میں حکومت کی بھی عدم دل چسپی شامل ہے۔ ریڈیو پاکستان جس کا 100کلو واٹ ٹرانسمیٹر خراب ہونے کے بعد ان کی مرمت یا پھر تبدیلی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس صورتحال کے بعد FMریڈیو کی ابتدا ہوئی جو بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے چھوٹے شہروں تک پہنچ گیا۔ اب دوبارہ لوگ کار چلاتے ہوئے، بس میں سفر کرتے ہوئے شہر میں دفتر جاتے یا لوٹتے ہوئے ایف ایم ریڈیو سننے لگے۔ ایف ایم میں ایک جدت آگئی اور پھر اس میں اتنا خرچہ بھی نہیں آتا ہے، کئی جگہ پر چھوٹے ٹرانسمیٹر لگاکر ایک کمرے میں ایف ایم ریڈیو چل رہے ہیں جن کی کامیابی میں موبائل فون کا بھی بڑا ہاتھ ہے کیوں کہ آپ اپنی پسند کے گانے سننے، اپنا پیغام دینے اور علاقے کے حالات کو جاننے میں آسانی پاتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس میں اناؤنسر بنے ہوئے ہیں جو اتنی روانی سے پروگرام پیش کرتے ہیں کہ آپ ریڈیو سے الگ ہونے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ بڑھ رہی ہے کیونکہ مختلف پروڈکٹس کی تشہیر کی جاتی ہے جو کمپنی کو بھی سستی پڑتی ہے۔ اس کی مقبولیت سے متاثر ہوکر ریڈیو پاکستان نے بھی ایف ایم سروس شروع کردی ہے۔
مگر ریڈیو پاکستان اور ایف ایم پرائیویٹ میں یہ فرق ضرور ہے کہ ریڈیو پاکستان میں اخلاقیات کلچر، مذہب اور حب الوطنی کو مد نظر رکھا جاتا تھا اور وہ آزادی اظہار کے نام پر بنائی ہوئی حدیں نہیں پار کرتے ہیں جب کہ ایف ایم پرائیویٹ پر صرف زیادہ تر ہندی فلموں کے گانے پیش ہوتے ہیں اور بولنے میں کوئی پابندی نہیں ہے جو آتا ہے بول جاتے ہیں۔ ان کے پروگرامز میں فون کے ذریعے یا پھر ایس ایم ایس کے ذریعے جو بات ہوتی ہے وہ نئی نسل کو واضح پیغام نہیں دیتی۔ کیا ہماری موسیقی، ہمارے فنکار، ہمارا فن ہندوستان سے کم ہے کہ پرائیویٹ چینلز اور پرائیویٹ ایف ایم صرف ہندوستانی فلموں اور ان کے فنکاروں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔
حکومت نہ جانے کہاں ہے ۔ وہ ان چیزوں کا نوٹس لے تاکہ ہماری ثقافت، ہمارے ہیروز، ہماری تعلیم، مذہب، موسیقی، فنکار اور حب الوطنی کے نقش نئی نسل کے ذہن میں بیٹھ جائیں ۔ ریڈیو تعلیم دینے کا ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی ابھرتی ہوئی نسل کا Mindset اپنی طرف سیٹ کریں ۔ کچھ ایف ایم ریڈیو ٹریفک کے بارے میں فوری خبر دیتے رہتے ہیں اور فوک موسیقی کو بھی اہمیت دیتے ہیں تاکہ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں رہنے والے مختلف زبان بولنے والے بھی اپنی موسیقی سے محظوظ ہوسکیں۔ اس سلسلے میں میری رائے ہے کہ لوگوں کے لیے ٹریفک قوانین، اخلاقی اہمیت، درخت لگانے کی اہمیت، آلودگی ، کھیلوں اور صحت کی اہمیت وغیرہ کے بارے میں چھوٹے چھوٹے پیغام بناکر چلائیں۔ اس کے علاوہ اپنے مذہب اور وطن کے ساتھ محبت کے بارے میں بار بار چھوٹے پروگرام مرتب کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو آپس میں قریب لانے اور ان میں محبت، اخوت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے علماء کے پیغامات سنائے جائیں۔
اس پلیٹ فارم سے حکومت سے التماس ہے کہ ریڈیو پاکستان کے لیے میڈیم سروس کو وسعت دینے کے لیے 100 کے وی کے ٹرانسفارمر لگائے جائیں تاکہ جس طرح امریکا، ہندوستان اور دوسرے ممالک اپنا نظریہ ہم تک پہنچاتے ہیں ہم بھی اپنی شناخت، کلچر، مذہب اور حب الوطنی کو وہاں تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ایف ایم پرائیویٹ ریڈیو سروسز کو اپنا ملک، اپنا کلچر اور اپنے نوجوانوں کے لیے ایسے پروگرام بنائیں جس سے ہم ان سے اور زیادہ پیار کریں کیوں کہ ہماری شناخت یہی ہے جسے ہم اپنی نئی نسل میں ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے گھر میں میرے والد جب ریڈیو لے آئے تو اس کا سائز کافی بڑا تھا اور اس کی باڈی مضبوط پلاسٹک کی بنی ہوئی تھی۔ جسے چلانے کے لیے ہم نے ایک فٹ کی بیٹری خریدی جس پر کالی بلی کا نشان چھپا ہوا تھا۔ بیٹری کو ریڈیو سے ملانے کے لیے جو تار تھا اس کے ایک سرے کو زمین میں دبانا تھا کیوں کہ ریڈیو چلانے کے لیے ارتھ دینا تھا۔ اب زمین کو کھود کر لوہے کی تار ڈالی، پھر زمین میں نمک ڈالا یا پھر کبھی کوئلہ کوٹ کر ڈالتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس گرامو فون بھی تھا جسے ہم چلاتے اور اپنی پسند کے گانے سنتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو سیٹ میں جدت آئی اور اس کا سائز بھی کم ہوا۔ اب ہم چند بیٹری کے چھوٹے سیل ڈالتے تھے جس میں ارتھ نہیں ڈالنا پڑتا تھا مگر اس میں ایریئل کا استعمال کرتے تھے۔ لوگوں کے پاس ریڈیو سینما کے بعد ایک بڑا انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اب سائز اتنا چھوٹا ہوتا گیا کہ آپ اسے ہر جگہ لے جاکر کہیں بھی سن سکتے تھے مگر گھروں میں اکثر اب بجلی پر ریڈیو سنا جاتا تھا۔ ریڈیو کے سننے کا مزا صبح سویرے اور پھر رات کو 9بجے زیادہ آتا تھا۔
صبح سویرے اذان کے ساتھ کسان ہل اور بیل کے ساتھ ریڈیو بھی لے جاتا تھا۔ وہ اپنا کام بھی کرتا تھا اور ریڈیو بھی سنتا تھا جس میں اس کا کام سہل ہوجاتا تھا اور وقت آرام کے ساتھ گزر جاتا تھا۔ جن کے پاس ریڈیو نہیں ہوتا تھا وہ شام کو اوطاق (بیٹھک) میں اکٹھے ہوکر مختلف پروگرام سنتے تھے جس میں ان کی پسند کا پروگرام ''کچہری'' ہوتا تھا۔ جو ریڈیو پاکستان سے صالح محمد شاہ پیش کرتے تھے جس میں ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ زراعت پر پروگرام پیش کیاجا تا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں بھٹائی شاہ عبداللطیف کی شاعری، استاد منظورعلی خان، استاد محمد ابراہیم، استاد محمد جمن،سنگھار علی سلیم ، مائی بھاگی اور دوسرے گلوکاروں کے گیت پیش کیے جاتے تھے۔
صبح سویرے ہمارے گھر میں ریڈیو سیلون، پھر ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور شام کو ریڈیو آکاش وانی، ریڈیو ایران زاہدان پھر رات کو بی بی سی کی اردو سروس وغیرہ سنتے تھے۔ میں اس کے علاوہ وائس آف امریکا ریڈیو ڈوئچے ویلے بھی سنتا تھا۔ لاڑکانہ شہر میں لوگ جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتے تھے تو وہ گھر کے باہر گلی میں ریڈیو لے کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر اپنی پسند کے گانے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے سنتے تھے۔ اس وقت موسیقی سننے کا رجحان زیادہ تھا اور سیاسی خبریں لوگ کم سنتے تھے مگر جب 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑی گئیں تو اس وقت محلے کے سارے لوگ ایک جگہ بیٹھ کر خبریں سنتے تھے۔
ریڈیو میں خاص طور پر ہندوستانی گانے زیادہ سنے جاتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی اور حیدرآباد بھی سنا جاتا تھا۔ اس وقت ریڈیو سیلون، ریڈیو ایران زاہدان، بی بی سی اور ریڈیو آکاش وانی زیادہ مقبول تھے۔اناؤنسر امین سیانی کا طوطی بولتا تھا، جب گرمی کا موسم آتا تھا تو لوگ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر رائس کینال کے کنارے یا پھر پارکوں میں جاکر ریڈیو سنتے تھے۔ اگر کوئی دوست حج پر سعودی عرب جاتا تھا تو اس کو فرمائش کی جاتی تھی کہ وہ ان کے لیے چھوٹا تھری بینڈ ریڈیو جو جاپان کا بنا ہوتا تھا لے آئے۔ کیوں کہ شروع میں تو ریڈیو ایک بینڈ کے بھی تھے لوگ اکثر ریڈیو پر فرمائشی پروگرام میں اپنا نام پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھیج کر اپنی پسند کا گانا سنتے تھے اور اپنا نام سن کر بڑے خوش ہوتے اور فخر کرتے تھے، اس کے علاوہ ریڈیو پر کچھ انعامی پروگرام بھی شروع کردیے گئے جس میں حصہ لینے والوں کے انعامات بھی نکلتے تھے۔
ریڈیو پاکستان کراچی، پھر حیدرآباد، پھر خیرپور، پھر لاڑکانہ قائم ہوئے جس کے ذریعے نیا ٹیلنٹ سامنے آیا کیوںکہ ان کو اپنے ہی شہر میں یا اس کے قریب موقع ملا۔ ان ریڈیو اسٹیشن سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ سندھی موسیقی نے ترقی کی۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ جلال چانڈیو کا ہے جس کا گانے کا انداز اور اسٹائل گاؤں کے لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ اب لوگ ہندوستانی گانوں کے ساتھ پاکستانی گانوں میں سندھی فنکاروں کو زیادہ سننے لگے۔ کراچی، حیدرآباد اور خیرپور ریڈیو Stations میڈیم ویو کی وجہ سے دور دور تک پروگرام سنائی دیتے تھے اور خاص طور پر رات کے وقت اور لوگ کھانا کھانے کے بعد گھر میں بیٹھ کر ریڈیو کے پروگرام سنتے تھے اور ریڈیو کا سحر اس وقت ٹوٹنا شروع ہوا جب ملک کے اندر ٹی وی آگیا اور پھر اس کے بعد وی سی آر کا جنم ہوا۔ اس وقت جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی تو ریڈیو کی طرف سے لوگوں نے منہ موڑ لیا جس میں حکومت کی بھی عدم دل چسپی شامل ہے۔ ریڈیو پاکستان جس کا 100کلو واٹ ٹرانسمیٹر خراب ہونے کے بعد ان کی مرمت یا پھر تبدیلی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس صورتحال کے بعد FMریڈیو کی ابتدا ہوئی جو بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے چھوٹے شہروں تک پہنچ گیا۔ اب دوبارہ لوگ کار چلاتے ہوئے، بس میں سفر کرتے ہوئے شہر میں دفتر جاتے یا لوٹتے ہوئے ایف ایم ریڈیو سننے لگے۔ ایف ایم میں ایک جدت آگئی اور پھر اس میں اتنا خرچہ بھی نہیں آتا ہے، کئی جگہ پر چھوٹے ٹرانسمیٹر لگاکر ایک کمرے میں ایف ایم ریڈیو چل رہے ہیں جن کی کامیابی میں موبائل فون کا بھی بڑا ہاتھ ہے کیوں کہ آپ اپنی پسند کے گانے سننے، اپنا پیغام دینے اور علاقے کے حالات کو جاننے میں آسانی پاتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس میں اناؤنسر بنے ہوئے ہیں جو اتنی روانی سے پروگرام پیش کرتے ہیں کہ آپ ریڈیو سے الگ ہونے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ان کا خرچہ کم اور آمدنی زیادہ بڑھ رہی ہے کیونکہ مختلف پروڈکٹس کی تشہیر کی جاتی ہے جو کمپنی کو بھی سستی پڑتی ہے۔ اس کی مقبولیت سے متاثر ہوکر ریڈیو پاکستان نے بھی ایف ایم سروس شروع کردی ہے۔
مگر ریڈیو پاکستان اور ایف ایم پرائیویٹ میں یہ فرق ضرور ہے کہ ریڈیو پاکستان میں اخلاقیات کلچر، مذہب اور حب الوطنی کو مد نظر رکھا جاتا تھا اور وہ آزادی اظہار کے نام پر بنائی ہوئی حدیں نہیں پار کرتے ہیں جب کہ ایف ایم پرائیویٹ پر صرف زیادہ تر ہندی فلموں کے گانے پیش ہوتے ہیں اور بولنے میں کوئی پابندی نہیں ہے جو آتا ہے بول جاتے ہیں۔ ان کے پروگرامز میں فون کے ذریعے یا پھر ایس ایم ایس کے ذریعے جو بات ہوتی ہے وہ نئی نسل کو واضح پیغام نہیں دیتی۔ کیا ہماری موسیقی، ہمارے فنکار، ہمارا فن ہندوستان سے کم ہے کہ پرائیویٹ چینلز اور پرائیویٹ ایف ایم صرف ہندوستانی فلموں اور ان کے فنکاروں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔
حکومت نہ جانے کہاں ہے ۔ وہ ان چیزوں کا نوٹس لے تاکہ ہماری ثقافت، ہمارے ہیروز، ہماری تعلیم، مذہب، موسیقی، فنکار اور حب الوطنی کے نقش نئی نسل کے ذہن میں بیٹھ جائیں ۔ ریڈیو تعلیم دینے کا ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی ابھرتی ہوئی نسل کا Mindset اپنی طرف سیٹ کریں ۔ کچھ ایف ایم ریڈیو ٹریفک کے بارے میں فوری خبر دیتے رہتے ہیں اور فوک موسیقی کو بھی اہمیت دیتے ہیں تاکہ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں رہنے والے مختلف زبان بولنے والے بھی اپنی موسیقی سے محظوظ ہوسکیں۔ اس سلسلے میں میری رائے ہے کہ لوگوں کے لیے ٹریفک قوانین، اخلاقی اہمیت، درخت لگانے کی اہمیت، آلودگی ، کھیلوں اور صحت کی اہمیت وغیرہ کے بارے میں چھوٹے چھوٹے پیغام بناکر چلائیں۔ اس کے علاوہ اپنے مذہب اور وطن کے ساتھ محبت کے بارے میں بار بار چھوٹے پروگرام مرتب کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو آپس میں قریب لانے اور ان میں محبت، اخوت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے علماء کے پیغامات سنائے جائیں۔
اس پلیٹ فارم سے حکومت سے التماس ہے کہ ریڈیو پاکستان کے لیے میڈیم سروس کو وسعت دینے کے لیے 100 کے وی کے ٹرانسفارمر لگائے جائیں تاکہ جس طرح امریکا، ہندوستان اور دوسرے ممالک اپنا نظریہ ہم تک پہنچاتے ہیں ہم بھی اپنی شناخت، کلچر، مذہب اور حب الوطنی کو وہاں تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ایف ایم پرائیویٹ ریڈیو سروسز کو اپنا ملک، اپنا کلچر اور اپنے نوجوانوں کے لیے ایسے پروگرام بنائیں جس سے ہم ان سے اور زیادہ پیار کریں کیوں کہ ہماری شناخت یہی ہے جسے ہم اپنی نئی نسل میں ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔