خشک سالی کے خدشات اور ناکافی حکومتی اقدامات
ماہرین نفسیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات انسانوں اور جانوروں کے مزاج پر بھی مرتب ہورہے ہیں
خشک سالی سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ خشک سالی سے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے پانی محفوظ کرنے کے ذرایع میں اضافہ کرکے نمٹا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خشک سالی اور ڈزرٹیفکیشن ایک اہم مسئلہ ہے،پاکستان خشک سالی کا سامنا کرنے والے23 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، 2025 تک خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کر سکتی ہے، یہ پاکستان کو قحط سالی سے بچانے کا وقت ہے جس کے لیے ہمیں کام کرنا ہو گا۔
دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمیٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے ،موسمیاتی تبدیلی نا صرف خشک سالی میں اضافے بلکہ دریائوں میں پانی کی سطح میں چالیس فیصد کمی کا باعث ہے۔ماہرین کے مطابق پانی کا زیاں نہ روکا گیا اور مناسب بارشیں نہ ہوئیں تو غذائی قلت پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی اقدامات نہ کیے تو 2040تک ملک میں پانی ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ گرمی کی لہر نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
حکومت معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات سے مکمل طور پر نمٹ نہیں پائی ہے۔ قدرتی وسائل کا انحطاط، بنجر ہوتی ہوئی زمین، جنگلات کی کٹائی، بغیر منصوبہ بندی کے شہروں میں پھیلاؤ اور زیر زمین پانی کی آلودگی جیسے بہت سے سنگین مسائل ہیں،پاکستان کے کچھ علاقے اس وقت شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ انسان اور دیگر جاندار بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کو بھی بارشوں کی شدید کمی کا سامنا رہتا ہے اور اس باعث یہاں موجود ڈیم، جھیلیں، دریا اورتالاب تقریباً خشک ہو جاتے ہیں اور مقامی افراد کھیتی باڑی و گلہ بانی کے علاوہ دیگر ذرایع معاش کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
رقبے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور معدنیاتی وسائل سے مالا مال ہونے کے با وجود یہاں کے مقامی افراد تعلیم، صحت، اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہیں اور دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ روزگار زراعت یا گلہ بانی ہے۔سندھ میں صحرائے تھر میں خشک سالی کے سبب غذائی قلت کا شکار ہیں ۔نومولود بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی اس لیے رک نہیں پا رہا ہے۔خشک سالی کے اسباب میں، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دینا، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات کا استعمال جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں، شامل ہیں ۔
پاکستان کے دریائوں میں پانی 150 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ملتا ہے،اگر اس کو کل آبادی سے تقسیم کر دیں تو فی کس850مکعب میٹرپانی سالانہ بنتا ہے۔ہمارے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم موجود ہیں مگر وہ صرف ایک مہینے کا پانی یعنی پندرہ سے سترہ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کر سکتے ہیں۔دوسری جانب ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کھیتوں میں کل پانی کا %96 استعمال کرنے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ پانی ضایع کرنے والا ملک ہے،جس کی وجہ سے نہ صرف سردیوں میں فوگ اور اسموگ بنتی ہیں بلکہ سیم اور تھور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے زمین تباہ ہورہی ہیں۔ ملک میں کھیتی باڑی کا زیادہ تر حصہ انڈس بیسن (یعنی دریائے سندھ اور ملحقہ دریائوں کے اطراف) میں ہے جو کہ کل سترہ ملین ہیکٹر بنتا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت آبپاشی کا نظام جدت اختیار کر چکا ہے۔تاہم ہمارے ملک میں اب بھی قدیم نظام موجود ہے،ہم اگر سپرنکلر سسٹم یا ڈرپ اریگیشن سسٹم کو لگانا شروع کر دیں تو اگلے چند سالوں میں ہم اپنی پانی کی کھپت کو با آسانی پچاس فیصد پر لا سکتے ہیں۔سپرنکلر سسٹم فوارے کے ذریع پانی دینا ہے اس طرح بہت سا پانی بچ جاتا ہے۔دوسری طرف ڈرپ اریگیشن میں چھوٹے پائپوں کے ذریعے پودوں کی جڑوں میں پانی دیا جاتا ہے۔
اس طرح بہت ہی کم پانی میں کافی بڑا رقبہ سیراب ہو سکتا ہے۔امریکا میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈرپ اریگیشن کے ذریعے پچھتر سے پچانوے فیصدپانی بچایا جاسکتا ہے۔گویا ہم فرض کر لیں کہ اگر اس کو پورے ملک میں لگا دیا جائے تو موجودہ پانی کے ذخائر جو ایک ماہ کا پانی جمع کر سکتے ہیں وہ کم سے کم چار ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔جب کہ اس کی قیمت کا اندازہ پنجاب ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ نے زیادہ سے زیادہ2 لاکھ روپے فی ایکڑ لگایا ہے۔ڈیم کے مقابلے میں یہ رقم یکمشت لگانے کے بجائے بتدریج لگائی جاسکتی ہے،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس پر خاص توجہ دے۔
پاکستان میں موجود تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور وارسک ڈیم جوپہلے سے موجود ہیں، اس کے علاوہ ڈیڑھ سو کے قریب چھوٹے بڑے آبی ذخائر موجود ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں تربیلا ڈیم کی توسیع اور گومل ڈیم جیسے منصوبے مکمل ہوئے ہیں لیکن اب بھی زیر تعمیر ڈیم جیسے داسو ڈیم جو 1.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرے گا۔اس کی لاگت محض 4.28 ارب ڈالر ہے جو کہ دیگر ڈیموں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس ضمن میں ایک مستقبل کا منصوبہ خاصا اہم ہوسکتا ہے۔
وہ ہے سکردو میں کتزارا ڈیم کا منصوبہ۔یہ ڈیم پینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بن سکتا ہے۔ اس سے پندرہ ہزار میگاواٹ بجلی بھی بنے گی۔اس ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 2016 میں 7 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔صرف اس ایک ڈیم میں ملک کا ساٹھ سے ستر دن کا پانی جمع ہو سکتا ہے۔تاہم ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔پانی کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر انڈس ڈیلٹا میں بسنے والے لوگ ہیں۔ماضی کے اس خوشحال ترین علاقے میں پانی کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ وہاں بسنے والے لاکھوں افراد کا دارومدار اب بھی کھیتی باڑی پر ہی ہے جو کہ پانی کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔
ماہرین نے کہا کہ عالمی موسمی تغیرات کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جن میں موسموں کا غیر معمولی رہنا، خشک سالی، غیر معمولی بارشیں اور برفباری کے معمول اور شدت میںتبدیلی شامل ہیں۔ موسم شدید تر ہورہے ہیں گرمیوں میں گرم ترین اور سردیوں میں موسم سرد ترین ہورہاہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات انسانوں اور جانوروں کے مزاج پر بھی مرتب ہورہے ہیں ان میں قوت برداشت میں کمی اور غصیلے پن میں اضافہ ہورہاہے۔ انسانوں میں چڑچڑا پن بڑھ رہاہے جس سے انسانی تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔ جانوروں کی نسلیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ پودوں کی وہ اقسام اب ختم ہو رہی ہیں جو زیادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتیں۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ حدت میں مسلسل اضافے سے آنیوالی دہائیوں میںکروڑوں افراد کی زندگیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔
کاش! ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے تمام ممکنہ طریقوں کو جنگی بنیادوں پر فروغ دیے جانے کی مہم شروع کردی جاتی۔ بارش کے پانی کو جس کا بیشتر حصہ سمندر میں جاکر ضایع ہوجاتا ہے، ڈیم نہ سہی کم از کم وسیع میدانی اور صحرائی علاقوں میں جھیلیں بناکر محفوظ کیا جاتا۔سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ بڑے پیمانے پر لگائے جاتے۔ زرعی فصلوں کو پانی دینے کے انتہائی کفایت شعاری پر مبنی جدید طریقوں کو ملک بھر میں متعارف کرایا جاتا۔
موسمی تغیرات کی روک تھام کے لیے شجرکاری کی حقیقی اور نتیجہ خیز مہمات چلائی جاتیں، لیکن ہماری عاقبت نا اندیشی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں سیاسی جنگ و جدل ہی سے فرصت نہیں جب کہ ہر نوع کی تباہی و بربادی ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔بحیثیت قوم ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور ملک کو درپیش کوخوفناک چیلنجوں سے متحد ہوکر نمٹنے کے اقدامات شروع نہ کیے تو خدا نخواستہ ہماری قومی سلامتی کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔آیندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے آج کی نسل کو ضرور سوچنا ہوگا اور زمین کا ماحول بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خشک سالی اور ڈزرٹیفکیشن ایک اہم مسئلہ ہے،پاکستان خشک سالی کا سامنا کرنے والے23 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، 2025 تک خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کر سکتی ہے، یہ پاکستان کو قحط سالی سے بچانے کا وقت ہے جس کے لیے ہمیں کام کرنا ہو گا۔
دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمیٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے ،موسمیاتی تبدیلی نا صرف خشک سالی میں اضافے بلکہ دریائوں میں پانی کی سطح میں چالیس فیصد کمی کا باعث ہے۔ماہرین کے مطابق پانی کا زیاں نہ روکا گیا اور مناسب بارشیں نہ ہوئیں تو غذائی قلت پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی اقدامات نہ کیے تو 2040تک ملک میں پانی ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ گرمی کی لہر نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
حکومت معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات سے مکمل طور پر نمٹ نہیں پائی ہے۔ قدرتی وسائل کا انحطاط، بنجر ہوتی ہوئی زمین، جنگلات کی کٹائی، بغیر منصوبہ بندی کے شہروں میں پھیلاؤ اور زیر زمین پانی کی آلودگی جیسے بہت سے سنگین مسائل ہیں،پاکستان کے کچھ علاقے اس وقت شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ انسان اور دیگر جاندار بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کو بھی بارشوں کی شدید کمی کا سامنا رہتا ہے اور اس باعث یہاں موجود ڈیم، جھیلیں، دریا اورتالاب تقریباً خشک ہو جاتے ہیں اور مقامی افراد کھیتی باڑی و گلہ بانی کے علاوہ دیگر ذرایع معاش کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
رقبے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور معدنیاتی وسائل سے مالا مال ہونے کے با وجود یہاں کے مقامی افراد تعلیم، صحت، اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہیں اور دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ روزگار زراعت یا گلہ بانی ہے۔سندھ میں صحرائے تھر میں خشک سالی کے سبب غذائی قلت کا شکار ہیں ۔نومولود بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی اس لیے رک نہیں پا رہا ہے۔خشک سالی کے اسباب میں، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دینا، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات کا استعمال جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں، شامل ہیں ۔
پاکستان کے دریائوں میں پانی 150 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ملتا ہے،اگر اس کو کل آبادی سے تقسیم کر دیں تو فی کس850مکعب میٹرپانی سالانہ بنتا ہے۔ہمارے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم موجود ہیں مگر وہ صرف ایک مہینے کا پانی یعنی پندرہ سے سترہ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کر سکتے ہیں۔دوسری جانب ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کھیتوں میں کل پانی کا %96 استعمال کرنے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ پانی ضایع کرنے والا ملک ہے،جس کی وجہ سے نہ صرف سردیوں میں فوگ اور اسموگ بنتی ہیں بلکہ سیم اور تھور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے زمین تباہ ہورہی ہیں۔ ملک میں کھیتی باڑی کا زیادہ تر حصہ انڈس بیسن (یعنی دریائے سندھ اور ملحقہ دریائوں کے اطراف) میں ہے جو کہ کل سترہ ملین ہیکٹر بنتا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت آبپاشی کا نظام جدت اختیار کر چکا ہے۔تاہم ہمارے ملک میں اب بھی قدیم نظام موجود ہے،ہم اگر سپرنکلر سسٹم یا ڈرپ اریگیشن سسٹم کو لگانا شروع کر دیں تو اگلے چند سالوں میں ہم اپنی پانی کی کھپت کو با آسانی پچاس فیصد پر لا سکتے ہیں۔سپرنکلر سسٹم فوارے کے ذریع پانی دینا ہے اس طرح بہت سا پانی بچ جاتا ہے۔دوسری طرف ڈرپ اریگیشن میں چھوٹے پائپوں کے ذریعے پودوں کی جڑوں میں پانی دیا جاتا ہے۔
اس طرح بہت ہی کم پانی میں کافی بڑا رقبہ سیراب ہو سکتا ہے۔امریکا میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈرپ اریگیشن کے ذریعے پچھتر سے پچانوے فیصدپانی بچایا جاسکتا ہے۔گویا ہم فرض کر لیں کہ اگر اس کو پورے ملک میں لگا دیا جائے تو موجودہ پانی کے ذخائر جو ایک ماہ کا پانی جمع کر سکتے ہیں وہ کم سے کم چار ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔جب کہ اس کی قیمت کا اندازہ پنجاب ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ نے زیادہ سے زیادہ2 لاکھ روپے فی ایکڑ لگایا ہے۔ڈیم کے مقابلے میں یہ رقم یکمشت لگانے کے بجائے بتدریج لگائی جاسکتی ہے،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس پر خاص توجہ دے۔
پاکستان میں موجود تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور وارسک ڈیم جوپہلے سے موجود ہیں، اس کے علاوہ ڈیڑھ سو کے قریب چھوٹے بڑے آبی ذخائر موجود ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں تربیلا ڈیم کی توسیع اور گومل ڈیم جیسے منصوبے مکمل ہوئے ہیں لیکن اب بھی زیر تعمیر ڈیم جیسے داسو ڈیم جو 1.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرے گا۔اس کی لاگت محض 4.28 ارب ڈالر ہے جو کہ دیگر ڈیموں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس ضمن میں ایک مستقبل کا منصوبہ خاصا اہم ہوسکتا ہے۔
وہ ہے سکردو میں کتزارا ڈیم کا منصوبہ۔یہ ڈیم پینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بن سکتا ہے۔ اس سے پندرہ ہزار میگاواٹ بجلی بھی بنے گی۔اس ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 2016 میں 7 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔صرف اس ایک ڈیم میں ملک کا ساٹھ سے ستر دن کا پانی جمع ہو سکتا ہے۔تاہم ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔پانی کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر انڈس ڈیلٹا میں بسنے والے لوگ ہیں۔ماضی کے اس خوشحال ترین علاقے میں پانی کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ وہاں بسنے والے لاکھوں افراد کا دارومدار اب بھی کھیتی باڑی پر ہی ہے جو کہ پانی کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔
ماہرین نے کہا کہ عالمی موسمی تغیرات کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جن میں موسموں کا غیر معمولی رہنا، خشک سالی، غیر معمولی بارشیں اور برفباری کے معمول اور شدت میںتبدیلی شامل ہیں۔ موسم شدید تر ہورہے ہیں گرمیوں میں گرم ترین اور سردیوں میں موسم سرد ترین ہورہاہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات انسانوں اور جانوروں کے مزاج پر بھی مرتب ہورہے ہیں ان میں قوت برداشت میں کمی اور غصیلے پن میں اضافہ ہورہاہے۔ انسانوں میں چڑچڑا پن بڑھ رہاہے جس سے انسانی تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔ جانوروں کی نسلیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ پودوں کی وہ اقسام اب ختم ہو رہی ہیں جو زیادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتیں۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ حدت میں مسلسل اضافے سے آنیوالی دہائیوں میںکروڑوں افراد کی زندگیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔
کاش! ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے تمام ممکنہ طریقوں کو جنگی بنیادوں پر فروغ دیے جانے کی مہم شروع کردی جاتی۔ بارش کے پانی کو جس کا بیشتر حصہ سمندر میں جاکر ضایع ہوجاتا ہے، ڈیم نہ سہی کم از کم وسیع میدانی اور صحرائی علاقوں میں جھیلیں بناکر محفوظ کیا جاتا۔سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ بڑے پیمانے پر لگائے جاتے۔ زرعی فصلوں کو پانی دینے کے انتہائی کفایت شعاری پر مبنی جدید طریقوں کو ملک بھر میں متعارف کرایا جاتا۔
موسمی تغیرات کی روک تھام کے لیے شجرکاری کی حقیقی اور نتیجہ خیز مہمات چلائی جاتیں، لیکن ہماری عاقبت نا اندیشی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں سیاسی جنگ و جدل ہی سے فرصت نہیں جب کہ ہر نوع کی تباہی و بربادی ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔بحیثیت قوم ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور ملک کو درپیش کوخوفناک چیلنجوں سے متحد ہوکر نمٹنے کے اقدامات شروع نہ کیے تو خدا نخواستہ ہماری قومی سلامتی کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔آیندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے آج کی نسل کو ضرور سوچنا ہوگا اور زمین کا ماحول بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔