توانائی کے منصوبے

آج سے 20 سال قبل بھی اگر درست سمت میں قدم اٹھالیے جاتے تو آج توانائی کا بحران اتنی شدت کے ساتھ سامنے نہیں آتا

توانائی کے بحران نے قوم کو شدید کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث روزمرہ زندگی کے معمولات شدید متاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج سے 20 سال قبل بھی اگر درست سمت میں قدم اٹھالیے جاتے تو آج توانائی کا بحران اتنی شدت کے ساتھ سامنے نہیں آتا۔ 1994 سے پاکستان میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ لگا دیے گئے تھے۔ اس وقت ماہرین اس بات پر سراپا احتجاج بنے رہے کہ مہنگی بجلی پیدا ہونے کے باعث اب کسی طور پر پیداواری لاگت میں اضافے کو کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران دنیا بھر کی حکومتیں اس بات کی بھرپور کوششیں کرتی رہیں کہ کسی طور پر ان کے ملکوں میں بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوتی رہے۔ جس کے لیے ڈیمزکی تعمیر پر توجہ دی جاتی رہی ہے اور سستی سے سستی بجلی پیدا کرکے صنعتوں کو بجلی فراہم کی جاتی رہی ہے۔ جس کے باعث صنعتی پیداوار کی لاگت بھی کم ہوتی رہی اس کے علاوہ صارفین کو بھی بجلی کم قیمت پر مہیا کی جاتی رہی۔ لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل ہی برعکس رہا۔ پن بجلی کی پیداوار کا تناسب کم ہوتا رہا اور فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کے باعث بجلی کی لاگت بھی بڑھتی چلی گئی۔ اگر ایک عشرہ قبل بھی بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرلیا جاتا تو اس انتخاب کے باعث صحیح قسم کی منصوبہ بندی کرلی جاتی تو آج کم لاگت کی بجلی کا حصول ممکن تھا۔

موجودہ حکومت جسے توانائی بحران ورثے میں ملا ہے ،وزیر اعظم نے حکومت ملنے کے فوری بعد اپنا پہلا دورہ چین کا کیا اور چین سے توانائی کے منصوبوں پر بات کی۔ پاکستان جس میں ایشیا کا پاورہاؤس بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ توانائی کے بحران سے ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب بھی شدید متاثر ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی چین کا کئی مرتبہ دورہ کرچکے ہیں۔ چین نے چند دن قبل پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کے لیے 30 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔توانائی کے منصوبوں میں شمسی توانائی، پانی و بجلی کے پیداواری منصوبے بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف چند روز قبل ہی ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کو توانائی کے منصوبوں کے لیے تین ارب ڈالر سے زائد قرض کی فراہمی پر آمادگی ظاہرکی ہے۔ یہ منصوبے توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور نئے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پاکستان کو 2014 سے 2016 تک ہر سال ایک ارب 6 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا۔ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کی بہتری اور بحالی کے لیے سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک رپورٹ میں اس بات پر توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کو توانائی بحران کے باعث سالانہ 46 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور گزشتہ 5 برسوں میں 2 کھرب 30 ارب روپے کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اپنی سمت کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو شمسی توانائی پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ گزشتہ چند برسوں سے دنیا میں شمسی توانائی کے شعبے نے زبردست ترقی کی۔ شمسی توانائی سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان کو شمسی توانائی کے شعبے میں جرمنی سے تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ کیونکہ جرمنی میں اس شعبے میں زبردست ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ جرمنی شمسی پینلز کی پیداواری لاگت میں کمی لے کر آرہا ہے جس کے باعث اس شعبے سے بجلی کی پیداوار کی قیمت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2007 میں تیز دھوپ والے ملکوں میں شمسی توانائی سے حاصل کردہ بجلی تقریباً 30 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ تھی، جو اب نصف ہوکر رہ گئی ہے۔ 2020 تک اس میں مزید کمی ہوکر 6 یا 7 سینٹ رہ جائے گی۔ تھرپارکر میں جرمنی کے تعاون سے 3000 شمسی توانائی کے پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ جن سے 25 ہزار افراد استفادہ کر رہے ہیں اور ان گھرانوں کو پہلی مرتبہ بجلی دستیاب ہوئی ہے۔


حال ہی میں چین کی معاونت کے ساتھ توانائی کے 16 منصوبوں پر کام کرنے کا عندیہ دیا گیا اس سلسلے میں معاہدہ بھی طے پاچکا ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے 20 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ جس پر چین اور چینی سرمایہ کار 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ان میں سے بعض منصوبے تین تا 5 سال کی مدت میں مکمل کیے جائیں گے۔ ان میں ہائیڈل پاور کے تین منصوبے ہیں۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے 6 منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ منصوبے جوکہ گڈانی میں لگائے جا رہے ہیں فوری طور پر ان میں درآمدی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔ پورٹ قاسم میں بھی 660 میگاواٹ بجلی کے حصول کے لیے پلانٹ لگایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے اضلاع شیخوپورہ، ساہیوال اور جھنگ میں بھی بجلی کے پیداواری پلانٹ نصب کیے جائیں گے۔ اس سے قبل نندی پور پاور پراجیکٹ چین کے تعاون سے تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل میں میاں شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی اور بھرپور توجہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان میں ان دنوں گیس اور تیل کی تلاش کے لیے بھی لائسنسوں کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک تیل اور گیس کی تلاش کا کام تیزی سے جاری تھا۔ لیکن بعد میں اس کام میں تیزی برقرار نہ رہ سکی۔ اگر شروع سے ہی درست سمت کا تعین کرتے ہوئے تیل اور گیس کے مزید نئے کنوئیں کھودے جاتے اور یہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا تو ایسی صورت میں امید تھی کہ پاکستان کم ازکم اپنی تیل کی ضروریات کا بیشتر حصہ ملکی وسائل سے ہی حاصل کرلیتا۔ لیکن یہاں پر بعض عناصر اپنے مفادات کی خاطر درآمدی تیل پر انحصار کیے رہے۔ جس سے ایک طرف درآمدی تیل کی قیمت بھی بڑھتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی تیل کی درآمد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور تیل کے درآمدی بل میں اضافے نے ملک کو زبردست تجارتی خسارے سے دوچار کیے رکھا۔ ملک میں تجارتی خسارے میں اسی وقت کمی ہوسکتی ہے جب درآمدی تیل کی جگہ ملکی ذرایع سے حاصل کردہ تیل کی مقدار میں زبردست اضافہ ہو۔

31 جنوری 2014 کو تھر سے کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ 2016 تک اس منصوبے کی تکمیل سے بجلی حاصل کی جائے گی۔ اس کے بعد کول پاور پراجیکٹ کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کچھ کول پاور پراجیکٹ تھر میں لگائے جائیں گے جب کہ بتایا جاتا ہے کہ کچھ کول پاور پراجیکٹ کیٹی بندر میں بھی لگائے جائیں گے۔ اس سے یقینا اس علاقے کی حالت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے علاقے کے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور یہ علاقہ ترقی یافتہ شکل اختیار کرجائے گا۔ سندھ میں ہائیڈل پاور پراجیکٹس ، ونڈ انرجی اور سولر پاور پراجیکٹس پر بھی تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ نوری آباد میں 50-50 میگاواٹ کے 2 پاور پلانٹس جلد تکمیلی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں اس کے علاوہ بڑی نہروں پر بھی پاور پراجیکٹس لگا کر بجلی کے حصول کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔

ادھر پاکستان اور دبئی کی ایک کمپنی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔ جس کے تحت کوئلے سے چلنے والے دو پلانٹس جس میں سے ایک کی پیداواری استعداد 660 میگاواٹ ہوگی یعنی کل میگاواٹ بجلی کے حصول کے لیے پلانٹس لگائے جا رہے ہیں۔ مذکورہ کمپنی پاکستان میں اس سلسلے میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ حکومت کی ان تمام تر کوششوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بجلی کے حصول کے لیے زیادہ توجہ اور سنجیدگی سے کام کا آغاز کرچکی ہے۔ اگرچہ اسے درست سمت پر چلائے رکھنا یہ بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ یا پراجیکٹ اسی وقت قابل عمل اور مفید ثابت ہوں گے جب ان سے پیداوار جو حاصل کی جائے گی وہ سستی بجلی ہوگی اور اس سے ملک میں بجلی کی ضروریات بھی پوری کی جاسکیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت تکمیل تک ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور سستی بجلی کا حصول ممکن ہے یا نئے الیکشن میں ایک دفعہ پھر توانائی کا بحران ہی زیر بحث آئے گا۔
Load Next Story