کس بات نے سونے نہ دیا
بے خوابی سے زیادہ سنگین اس سے متعلق پریشانی ہے
یہ درست ہے کہ نیند کی کمی یا بے خوابی ایک جان لیوا اذیت ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ناممکن ہے کہ پوری دنیا بہت سے ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جو ہزاروں طریقے یا تدبیر اختیار کرنے کے بعد بھی اس مرض پر قابو نہ پاسکے۔ بلکہ دن بہ دن بے خوابی کی تکلیف وکوفت بڑھنے سے مزید بیماریوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔ اور تیزی سے گرتی صحت ان کی موت کی وجہ بن جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا کیا جائے؟ جنہیں اپناکر اس تکلیف دہ اذیت سے چھٹکارا حاصل ہوجائے؟
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو اس مرض سے نجات دلانے سے زیادہ ضروری، انھیں بے خوابی سے متعلق پریشانی سے بچانا اور پرسکون رکھنا ہے، اور اپنے اس وقت کو کارآمد بنانا ہے جس وقت سب نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے اس طریقۂ علاج کے ذریعے بے خوابی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔
نیند اور اس کی مقدار: نیند آرام کی ایک حالت اور عادت ہے جو اگر معمول کے مطابق اور معیاری نہ لی جائے تو اس کی کمی سے دن بھر کی فکریں اور پریشانیاں سر اٹھاتی ہیں۔ انسان کے دماغ اور جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جسمانی و دماغی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور گھریلو اور معاشرتی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
نیند کا دورانیہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے، کسی کو پرسکون و توانا رہنے کے لیے زیادہ نیند چاہیے ہوتی ہے تو کوئی مناسب نیند لینے پر ہی ہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ مقدار سے زیادہ اہم نیند کا معیار ہے۔ نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کی عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، اسکول جانے والے6 سے 13 سال کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، 14 سے 17 سال کے نوجوانوں کو 8 سے10 گھنٹے، جب کہ 26 سے 64 سال کے افراد کو7 سے 9 گھنٹے، اور 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو7 سے8 گھنٹے سونا چاہیے۔
مقدار سے زیادہ اہم معیاری نیند ہے: اگرچہ پُرسکون اور معیاری نیند کا دورانیہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جسم کو چاق و چوبند، تروتازہ اور پورا دن ری چارج رکھتا ہے۔ ایسی نیند کی بہ نسبت جس میں انسان کے اعصاب پر معمول کی فکریں و پریشانیاں چھائی رہیں۔ ایسا شخص نیند کی مقدار بھلے پوری کرلے، لیکن تازگی سے محروم جسم اور اعصاب تھکاوٹ کا شکار رہے گا۔
عموماً وہ لوگ جو نفسیاتی الجھنیں، گھریلو اور دفتری مسائل، اور کئی قسم کے دیگر وہمات سے دن بھر گِھرے رہتے ہیں، یہاں تک کہ رات کو بھی جب بستر پر سونے کے لیے جاتے ہیں، تو انھیں اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ نتیجاً خواب میں بھی یہی سب دہراتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پُرسکون نیند کی عدم موجودگی انہیں کئی گھنٹے سونے کے بعد بھی چِڑچڑا اور تھکن زدہ رکھتی ہے۔
نیند کے دوران جسمانی ہارمون جسمانی شکست و ریخت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔
سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کام سب سے زیادہ رات 10 بجے سے 2 بجے کے درمیان ہوتا ہے، اگر اس دوران نیند پوری کرلی جائے تو ممکن ہے نیند کا دورانیہ مکمل کرنے کی ضرورت نہ بھی پڑے اس کے بعد بھی جسم اور دماغ صحت مند رہ سکتا ہے، لیکن جو لوگ اس دوران جاگتے رہتے ہیں ان کی جسمانی تعمیر کا یہ کام نہیں ہوپاتا، ایسے افراد تھکے ہوئے، سارا دن سُستی و غنودگی میں رہتے ہیں اور اعصابی وجسمانی عارضوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
بے خوابی کی وجوہات
منفی سوچ: منفی نظریے کے حامل افراد جلد یابدیر اپنی منفی سوچ کی بدولت ذہنی دباؤ، (ڈپریشن) پریشانی (انزائٹی) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور تحقیق کے مطابق یہی مرض زیادہ تر نیند کی کمی کا سبب بنتا ہے، اور نیند کی عدم موجودگی سے تنگ آکر خیالات کا سلسلہ اور طول پکڑتا ہے، اور کئی لاتعداد بیماریاں خود وجود میں آجاتی ہیں۔ دل کا مرض، فشار خون اور مُٹاپا ان میں سرفہرست ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق نیند کی کمی کی وجہ سے بھی انسان کے دماغ میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں، جب کہ بینگمٹن یونیورسٹی کی ایک پروفیسرمیریڈتھ کولز کے مطابق "منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے۔"
اور ذہن اگر سکون میں نہ ہو تو پرسکون نیند آخر کیوں کر آسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بیماری، تکلیف کے باعث بھی نیند کا دورانیہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ اور نیند کی کمی کے باعث ذہن خود منفی خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے خیالات پر کام کرکے منفی سوچوں سے انہیں نجات دلاکر بے خوابی جیسے مرض پر قابو پانا ممکن ہوسکتا ہے۔
بے خوابی سے متعلق پریشانی: جو شخص معمولی معمولی مسئلوں پر پریشان ہو، جذبات پر قابو اور اپنا امن و سکون برقرار رکھنا نہ جانتا ہو، بہت سی بیماریاں اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ لوگ بے خوابی کو صحت کا دشمن سمجھتے ہیں جب کہ انسان کی صحت کو جس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ اس کی پریشان رہنے کی مسلسل عادت ہے۔
تحقیق: عصرحاضر کے کسی دوسرے شخص کی نسبت ڈاکٹر سنتھائل نئیل کلیٹ مین پروفیسر شکاگو یونیورسٹی نے نیند پر سب سے زیادہ تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ نیند کے معاملات پر عالمی سطح کے ماہر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "میں نے آج تک کسی شخص کو بے خوابی سے مرتے نہیں دیکھا۔" یقیناً ایک شخص بے خوابی کے متعلق پریشان رہ کر اپنی قوت حیات گھٹا سکتا ہے اور جراثیم کے قبضے میں آسکتا ہے، پریشانی نقصان پہنچاتی ہے، خود بے خوابی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
ڈاکٹر کلیٹ مین مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ "جو لوگ بے خوابی کے متعلق پریشان رہتے ہیں وہ عام طور پر اپنے اندازے سے کہیں زیادہ سوتے ہیں۔"
حوالہ کتاب :"پریشان ہونا چھوڑیے، جینا شروع کیجیے۔"
یعنی دوسرے دن ان کے چہرے پر طاری شکن اور ان کا اعصابی وجسمانی تھکن سے چور وجود ان کی بے خوابی کی عادت کے مرہون منت نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ ان کی فکریں ہیں جسے وہ رات بھر اپنے اعصاب پر طاری رکھتے ہیں اور پرسکون نیند سے محروم رہ جاتے ہیں۔
وہ لوگ ۔۔۔بے خوابی جن کا کچھ نہ بگاڑ پائی: بین الاقوامی شہرت کا مالک اور نام ور وکیل سموئیل انٹرمیئر جب کالج میں داخل ہوا تو وہ اپنی بے خوابی کے متعلق بہت پریشان تھا۔ اسے کسی طرح بھی جب صحت حاصل نہ ہوسکی تو اس نے اپنی بیماری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ پریشان، رنجیدہ، متفکر اور بے چین رہنے کے بجائے وہ جاگتے ہوئے 'مطالعہ کرنے" کو اپنی ترجیحات بنا بیٹھا۔ اور مطالعہ نئے خیالات کی لگاتار آمد کی وجہ بنا۔ یہ مطالعہ بڑھتے بڑھتے اس کی شخصیت کو ایک نیا رخ دے گیا۔ جماعت میں وہ اعزاز پانے لگا اور کالج آف دی سٹی آف نیویارک کا ایک یگانہ روزگار طالب علم بن گیا۔ اگرچہ وکالت شروع کرنے کے بعد بھی اس کی بے خوابی کی شکایت دور نہ ہوئی، لیکن وہ اس سے پریشان نہ ہوا، باوجود یہ کہ اسے بہت تھوڑی نیند آتی تھی، لیکن اس کی صحت برقرار رہی۔ وہ سخت محنت کرتا، اتنی زیادہ کہ جس وقت سب سو رہے ہوتے وہ کام میں مصروف رہتا۔
1931 میں اسے ایک مقدمے کی پیروی کرنے کے عوض 10 لاکھ ڈالر دیے گئے اور غالباً تاریخ عالم میں کسی وکیل کو آج تک اتنا معاوضہ نہیں مل سکا۔ تاہم بے خوابی کی شکایت سے اسے کبھی چھٹکارا نہ مل سکا، لیکن اس نے اپنی کم نیند کے مسائل کو بخوشی قبول کرلیا، اور اس کے مضر اثرات اپنی صحت پرنہ پڑنے دیے۔ وہ اکیاسی برس زندہ رہا۔
ایک حادثہ جس نے نیند چھین لی: پہلی جنگ عظیم کے دوران ہنگری کے ایک فوجی سیاہی پال گرن کے دماغ کے سامنے والے گوشے پر گولی لگی۔ اس کا زخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن ہمیشہ کے لیے اس کی نیند اڑ گئی، ڈاکٹروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انہوں نے خواب آور دوائیں استعمال کیں، عمل تنویم بھی آزمایا گیا لیکن پال گرن بالکل نہ سو سکا، بلکہ اسے اونگھ تک بھی نہ محسوس ہوئی۔ ڈاکٹروں نے یہ قیاس کیا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا، لیکن پال گرن نے یہ غلط ثابت کردیا کئی سالوں تک اس کی صحت اچھی رہی، نیند تو اسے بالکل نہیں آتی تھی لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آرام کر لیا کرتا تھا، اسے ملازمت بھی مل گئی، اس حادثے کو قبول کرکے وہ اپنی زندگی جینے لگا۔
بے خوابی اور اس سے متعلق پریشانی سے بچاؤ کے طریقے
مسائل قبول کرلیں: ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر مسئلوں کو قبول نہ کیا جائے، اور دن رات اس کی فکریں ذہن پر طاری رکھی جائے تو مزید شکوک و شہبات جنم لیتے ہیں۔ مسئلے اپنی جگہ رہتے ہیں، لیکن اس سے متعلق پریشانی جڑ پکڑتی ہیں۔ لیکن اگر جوں ہی مسئلے کو فوری قبول کرلیا جائے تو اگلی باری حل کی جانب اقدامات کی کوششوں کی طرف خود بخود آجاتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس اسے حل کرنے کے لیے مکمل توانائی، ہمت اور طاقت کا مضبوط نظام موجود ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مثبت ذہنی رویہ ہے۔ پریشان ہونے کی حالت میں جس کا توازن بگڑ سکتا ہے، جس کے باعث کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بجائے مسائل کم ہونے کے ان کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
اپنے اعصاب کو پرسکون رکھیں: نئے خواب دیکھیں، نئے مقصد بنائیں، اپنے اوقات پلان کریں، فرسودہ اور تنگ خیالات سے اپنے ذہن کو خلاصی دے کر انھیں مثبت تصورات سے سجائیں۔ ایسے تمام کام جو آپ کی روح اور آپ کے ذہن کے لیے تسکین کا باعث ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنائیں، کیوںکہ بیمار عصبی نظام پُرسکون نیند سے محروم کردیتا ہے۔ انسان اور اس میں موجود پورا نظام اس وقت ہی عمدہ کارکردگی کے قابل ہوتا ہے۔ جب وہ پرسکون رہے، کشمکش، الجھن، خوف اور پریشانی جسمانی نظام اور اس کے فعال کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
اپنے جسم کو تھکائیں: ایسی تمام سرگرمیاں اپنائیں جو جسمانی تھکن کا باعث ہوں، کیوںکہ تھکن کے بعد نیند کا آنا فطری عمل ہے۔ اور ورزش جسم کو تھکاتی ہے۔ کئی دن کی مسلسل مشق بے خوابی سے چھٹکارا دلاسکتی ہے۔
ورزش کریں: اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی صحت کی بقاء کے لیے ورزش کا اہم کردار ہے۔ یہ انتہائی ضروری چیز ہے، اور بے خوابی کا ایک علاج ورزش ہے، جو اس مرض کے شکار لوگوں کو لازماً تجویز کیا جاتا ہے۔ عموماً بہت سے مسائل ورزش نہ کرنے سے وقوع پذیر آتے ہیں، اور اس طریقۂ علاج سے بہت سے لوگ مختلف بیماریوں سے شفایاب ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ورزش کے دوران جسم کے تمام سیلز ایکٹیو ہوجاتے ہیں اور تھکن کے بعد باعث پُرسکون نیند آتی ہے۔ ورزش ڈپریشن اور اینزائٹی جیسے مرض سے بھی نجات دلانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔
پریشان نہ ہوں، وقت کا استعمال کریں۔۔۔۔۔۔
یہ بات یہ طے ہے کہ بے خوابی سے متعلق پریشانی، سے انسان کو پر سکون نیند کبھی نہیں سکتی، ہاں لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے، لہذا سب سے پہلے تو نیند کے متعلق پریشان نہ ہوں، اور آپ کی نیند کا جو بھی دورانیہ ہے اسے قبول کرلیں، ایسا کرکے ہی پریشانی سے نجات ممکن ہے، اور پریشان ہوئے بغیر رات کو، مخصوص نیند کے اوقات میں اپنے جسم اور ذہن کو آنکھیں بند کر کے آرام پہنچائیں، خوبصورت خیالات دہرائیں، اور جب کافی وقت بیت جانے کے بعد نیند نہ آئے تو اپنے اس وقت کو جس وقت سب سو رہے ہوں، اپنی مرضی پسند اور شوق کے کاموں میں استعمال میں لائیں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ آپ وہ پا رہے ہیں، جس سے دوسرے محروم ہیں۔ بس یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر یقیناً بے خوابی سے متعلق پریشانی اور اس کے نقصانات سے اپنے صحت کو بچایا جا سکتا ہے۔ اور ایک بھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو اس مرض سے نجات دلانے سے زیادہ ضروری، انھیں بے خوابی سے متعلق پریشانی سے بچانا اور پرسکون رکھنا ہے، اور اپنے اس وقت کو کارآمد بنانا ہے جس وقت سب نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے اس طریقۂ علاج کے ذریعے بے خوابی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔
نیند اور اس کی مقدار: نیند آرام کی ایک حالت اور عادت ہے جو اگر معمول کے مطابق اور معیاری نہ لی جائے تو اس کی کمی سے دن بھر کی فکریں اور پریشانیاں سر اٹھاتی ہیں۔ انسان کے دماغ اور جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جسمانی و دماغی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور گھریلو اور معاشرتی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
نیند کا دورانیہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے، کسی کو پرسکون و توانا رہنے کے لیے زیادہ نیند چاہیے ہوتی ہے تو کوئی مناسب نیند لینے پر ہی ہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ مقدار سے زیادہ اہم نیند کا معیار ہے۔ نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کی عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، اسکول جانے والے6 سے 13 سال کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، 14 سے 17 سال کے نوجوانوں کو 8 سے10 گھنٹے، جب کہ 26 سے 64 سال کے افراد کو7 سے 9 گھنٹے، اور 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو7 سے8 گھنٹے سونا چاہیے۔
مقدار سے زیادہ اہم معیاری نیند ہے: اگرچہ پُرسکون اور معیاری نیند کا دورانیہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جسم کو چاق و چوبند، تروتازہ اور پورا دن ری چارج رکھتا ہے۔ ایسی نیند کی بہ نسبت جس میں انسان کے اعصاب پر معمول کی فکریں و پریشانیاں چھائی رہیں۔ ایسا شخص نیند کی مقدار بھلے پوری کرلے، لیکن تازگی سے محروم جسم اور اعصاب تھکاوٹ کا شکار رہے گا۔
عموماً وہ لوگ جو نفسیاتی الجھنیں، گھریلو اور دفتری مسائل، اور کئی قسم کے دیگر وہمات سے دن بھر گِھرے رہتے ہیں، یہاں تک کہ رات کو بھی جب بستر پر سونے کے لیے جاتے ہیں، تو انھیں اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ نتیجاً خواب میں بھی یہی سب دہراتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پُرسکون نیند کی عدم موجودگی انہیں کئی گھنٹے سونے کے بعد بھی چِڑچڑا اور تھکن زدہ رکھتی ہے۔
نیند کے دوران جسمانی ہارمون جسمانی شکست و ریخت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔
سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کام سب سے زیادہ رات 10 بجے سے 2 بجے کے درمیان ہوتا ہے، اگر اس دوران نیند پوری کرلی جائے تو ممکن ہے نیند کا دورانیہ مکمل کرنے کی ضرورت نہ بھی پڑے اس کے بعد بھی جسم اور دماغ صحت مند رہ سکتا ہے، لیکن جو لوگ اس دوران جاگتے رہتے ہیں ان کی جسمانی تعمیر کا یہ کام نہیں ہوپاتا، ایسے افراد تھکے ہوئے، سارا دن سُستی و غنودگی میں رہتے ہیں اور اعصابی وجسمانی عارضوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
بے خوابی کی وجوہات
منفی سوچ: منفی نظریے کے حامل افراد جلد یابدیر اپنی منفی سوچ کی بدولت ذہنی دباؤ، (ڈپریشن) پریشانی (انزائٹی) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور تحقیق کے مطابق یہی مرض زیادہ تر نیند کی کمی کا سبب بنتا ہے، اور نیند کی عدم موجودگی سے تنگ آکر خیالات کا سلسلہ اور طول پکڑتا ہے، اور کئی لاتعداد بیماریاں خود وجود میں آجاتی ہیں۔ دل کا مرض، فشار خون اور مُٹاپا ان میں سرفہرست ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق نیند کی کمی کی وجہ سے بھی انسان کے دماغ میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں، جب کہ بینگمٹن یونیورسٹی کی ایک پروفیسرمیریڈتھ کولز کے مطابق "منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے۔"
اور ذہن اگر سکون میں نہ ہو تو پرسکون نیند آخر کیوں کر آسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بیماری، تکلیف کے باعث بھی نیند کا دورانیہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ اور نیند کی کمی کے باعث ذہن خود منفی خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے خیالات پر کام کرکے منفی سوچوں سے انہیں نجات دلاکر بے خوابی جیسے مرض پر قابو پانا ممکن ہوسکتا ہے۔
بے خوابی سے متعلق پریشانی: جو شخص معمولی معمولی مسئلوں پر پریشان ہو، جذبات پر قابو اور اپنا امن و سکون برقرار رکھنا نہ جانتا ہو، بہت سی بیماریاں اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ لوگ بے خوابی کو صحت کا دشمن سمجھتے ہیں جب کہ انسان کی صحت کو جس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ اس کی پریشان رہنے کی مسلسل عادت ہے۔
تحقیق: عصرحاضر کے کسی دوسرے شخص کی نسبت ڈاکٹر سنتھائل نئیل کلیٹ مین پروفیسر شکاگو یونیورسٹی نے نیند پر سب سے زیادہ تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ نیند کے معاملات پر عالمی سطح کے ماہر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "میں نے آج تک کسی شخص کو بے خوابی سے مرتے نہیں دیکھا۔" یقیناً ایک شخص بے خوابی کے متعلق پریشان رہ کر اپنی قوت حیات گھٹا سکتا ہے اور جراثیم کے قبضے میں آسکتا ہے، پریشانی نقصان پہنچاتی ہے، خود بے خوابی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
ڈاکٹر کلیٹ مین مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ "جو لوگ بے خوابی کے متعلق پریشان رہتے ہیں وہ عام طور پر اپنے اندازے سے کہیں زیادہ سوتے ہیں۔"
حوالہ کتاب :"پریشان ہونا چھوڑیے، جینا شروع کیجیے۔"
یعنی دوسرے دن ان کے چہرے پر طاری شکن اور ان کا اعصابی وجسمانی تھکن سے چور وجود ان کی بے خوابی کی عادت کے مرہون منت نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ ان کی فکریں ہیں جسے وہ رات بھر اپنے اعصاب پر طاری رکھتے ہیں اور پرسکون نیند سے محروم رہ جاتے ہیں۔
وہ لوگ ۔۔۔بے خوابی جن کا کچھ نہ بگاڑ پائی: بین الاقوامی شہرت کا مالک اور نام ور وکیل سموئیل انٹرمیئر جب کالج میں داخل ہوا تو وہ اپنی بے خوابی کے متعلق بہت پریشان تھا۔ اسے کسی طرح بھی جب صحت حاصل نہ ہوسکی تو اس نے اپنی بیماری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ پریشان، رنجیدہ، متفکر اور بے چین رہنے کے بجائے وہ جاگتے ہوئے 'مطالعہ کرنے" کو اپنی ترجیحات بنا بیٹھا۔ اور مطالعہ نئے خیالات کی لگاتار آمد کی وجہ بنا۔ یہ مطالعہ بڑھتے بڑھتے اس کی شخصیت کو ایک نیا رخ دے گیا۔ جماعت میں وہ اعزاز پانے لگا اور کالج آف دی سٹی آف نیویارک کا ایک یگانہ روزگار طالب علم بن گیا۔ اگرچہ وکالت شروع کرنے کے بعد بھی اس کی بے خوابی کی شکایت دور نہ ہوئی، لیکن وہ اس سے پریشان نہ ہوا، باوجود یہ کہ اسے بہت تھوڑی نیند آتی تھی، لیکن اس کی صحت برقرار رہی۔ وہ سخت محنت کرتا، اتنی زیادہ کہ جس وقت سب سو رہے ہوتے وہ کام میں مصروف رہتا۔
1931 میں اسے ایک مقدمے کی پیروی کرنے کے عوض 10 لاکھ ڈالر دیے گئے اور غالباً تاریخ عالم میں کسی وکیل کو آج تک اتنا معاوضہ نہیں مل سکا۔ تاہم بے خوابی کی شکایت سے اسے کبھی چھٹکارا نہ مل سکا، لیکن اس نے اپنی کم نیند کے مسائل کو بخوشی قبول کرلیا، اور اس کے مضر اثرات اپنی صحت پرنہ پڑنے دیے۔ وہ اکیاسی برس زندہ رہا۔
ایک حادثہ جس نے نیند چھین لی: پہلی جنگ عظیم کے دوران ہنگری کے ایک فوجی سیاہی پال گرن کے دماغ کے سامنے والے گوشے پر گولی لگی۔ اس کا زخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن ہمیشہ کے لیے اس کی نیند اڑ گئی، ڈاکٹروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انہوں نے خواب آور دوائیں استعمال کیں، عمل تنویم بھی آزمایا گیا لیکن پال گرن بالکل نہ سو سکا، بلکہ اسے اونگھ تک بھی نہ محسوس ہوئی۔ ڈاکٹروں نے یہ قیاس کیا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا، لیکن پال گرن نے یہ غلط ثابت کردیا کئی سالوں تک اس کی صحت اچھی رہی، نیند تو اسے بالکل نہیں آتی تھی لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آرام کر لیا کرتا تھا، اسے ملازمت بھی مل گئی، اس حادثے کو قبول کرکے وہ اپنی زندگی جینے لگا۔
بے خوابی اور اس سے متعلق پریشانی سے بچاؤ کے طریقے
مسائل قبول کرلیں: ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر مسئلوں کو قبول نہ کیا جائے، اور دن رات اس کی فکریں ذہن پر طاری رکھی جائے تو مزید شکوک و شہبات جنم لیتے ہیں۔ مسئلے اپنی جگہ رہتے ہیں، لیکن اس سے متعلق پریشانی جڑ پکڑتی ہیں۔ لیکن اگر جوں ہی مسئلے کو فوری قبول کرلیا جائے تو اگلی باری حل کی جانب اقدامات کی کوششوں کی طرف خود بخود آجاتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس اسے حل کرنے کے لیے مکمل توانائی، ہمت اور طاقت کا مضبوط نظام موجود ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مثبت ذہنی رویہ ہے۔ پریشان ہونے کی حالت میں جس کا توازن بگڑ سکتا ہے، جس کے باعث کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بجائے مسائل کم ہونے کے ان کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
اپنے اعصاب کو پرسکون رکھیں: نئے خواب دیکھیں، نئے مقصد بنائیں، اپنے اوقات پلان کریں، فرسودہ اور تنگ خیالات سے اپنے ذہن کو خلاصی دے کر انھیں مثبت تصورات سے سجائیں۔ ایسے تمام کام جو آپ کی روح اور آپ کے ذہن کے لیے تسکین کا باعث ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنائیں، کیوںکہ بیمار عصبی نظام پُرسکون نیند سے محروم کردیتا ہے۔ انسان اور اس میں موجود پورا نظام اس وقت ہی عمدہ کارکردگی کے قابل ہوتا ہے۔ جب وہ پرسکون رہے، کشمکش، الجھن، خوف اور پریشانی جسمانی نظام اور اس کے فعال کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
اپنے جسم کو تھکائیں: ایسی تمام سرگرمیاں اپنائیں جو جسمانی تھکن کا باعث ہوں، کیوںکہ تھکن کے بعد نیند کا آنا فطری عمل ہے۔ اور ورزش جسم کو تھکاتی ہے۔ کئی دن کی مسلسل مشق بے خوابی سے چھٹکارا دلاسکتی ہے۔
ورزش کریں: اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی صحت کی بقاء کے لیے ورزش کا اہم کردار ہے۔ یہ انتہائی ضروری چیز ہے، اور بے خوابی کا ایک علاج ورزش ہے، جو اس مرض کے شکار لوگوں کو لازماً تجویز کیا جاتا ہے۔ عموماً بہت سے مسائل ورزش نہ کرنے سے وقوع پذیر آتے ہیں، اور اس طریقۂ علاج سے بہت سے لوگ مختلف بیماریوں سے شفایاب ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ورزش کے دوران جسم کے تمام سیلز ایکٹیو ہوجاتے ہیں اور تھکن کے بعد باعث پُرسکون نیند آتی ہے۔ ورزش ڈپریشن اور اینزائٹی جیسے مرض سے بھی نجات دلانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔
پریشان نہ ہوں، وقت کا استعمال کریں۔۔۔۔۔۔
یہ بات یہ طے ہے کہ بے خوابی سے متعلق پریشانی، سے انسان کو پر سکون نیند کبھی نہیں سکتی، ہاں لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے، لہذا سب سے پہلے تو نیند کے متعلق پریشان نہ ہوں، اور آپ کی نیند کا جو بھی دورانیہ ہے اسے قبول کرلیں، ایسا کرکے ہی پریشانی سے نجات ممکن ہے، اور پریشان ہوئے بغیر رات کو، مخصوص نیند کے اوقات میں اپنے جسم اور ذہن کو آنکھیں بند کر کے آرام پہنچائیں، خوبصورت خیالات دہرائیں، اور جب کافی وقت بیت جانے کے بعد نیند نہ آئے تو اپنے اس وقت کو جس وقت سب سو رہے ہوں، اپنی مرضی پسند اور شوق کے کاموں میں استعمال میں لائیں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ آپ وہ پا رہے ہیں، جس سے دوسرے محروم ہیں۔ بس یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر یقیناً بے خوابی سے متعلق پریشانی اور اس کے نقصانات سے اپنے صحت کو بچایا جا سکتا ہے۔ اور ایک بھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے۔