آبادی میں تیزی سے اضافہ ٹائم بم سے کم نہیں

ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیات کی تباہی کا باعث ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

مسلم ممالک کی آبادی کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ سب ممالک امریکا ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے غلام ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایشیاء ، افریقہ اور دنیا کے دیگر پسماندہ ممالک کی آبادی میں اضافہ انتہائی تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کو کھا جاتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پسماندہ ممالک میں حکومتوں کے پاس اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لیے بہت کم رقم باقی رہ جاتی ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غریب ممالک کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک امریکا، یورپ، جرمنی، برطانیہ، فرانس اسکینڈے نیوین ممالک میں آبادی میں اضافہ کی شرح انتہائی کم ہو گئی ہے۔

بلکہ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کی آبادی صفر بلکہ مائنس ہو چکی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ ترقی خوشحالی اور مضبوط دفاع کی ضمانت ہوتا تو سب سے زیادہ آبادی امریکا اور یورپین ممالک کی ہوتی لیکن انھوں نے سمجھداری سے کام لیا اور دہائیوں پہلے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ چین کی مثال لے لیں اس نے عرصہ پہلے ایک بچہ فی خاندان کا قانون بنایا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے اپنے شہریوں کو سخت سزائیں دیں۔

جب ان کی آبادی کنٹرول میں آ گئی تو کچھ عرصہ پہلے اس قانون میں نرمی کی گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ کسی ملک و قوم گروہ کے لیے آبادی کی کثیر تعداد اس کے دفاع اور بقاء کے لیے فیصلہ کن ہوتی تھی لیکن جدید دور میں یہ نظریہ متروک ہو چکا ہے۔ اب ترقی یافتہ ممالک اپنی آبادی کو محدود رکھ کر اپنے وسائل کا بڑا حصہ اپنے شہریوں کی صحت ، تعلیم ، خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس جدید دور میں صحت مند اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس قوم کے ذریعے ہی دنیا پر غلبہ اور دوسری قوموں کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس معاملے میں ایک دوڑ جاری ہے کہ اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں کیسے دی جائیں۔ اسکینڈے نیوین ممالک اس دوڑ میں فلاحی ریاست قرار پا چکے ہیں۔ جہاں مفت صحت ، تعلیم، انتہائی سستے گھر، بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں جرمنی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپین ممالک بھی پیچھے نہیں۔ وہاں اس نظریے پر عمل کیا جاتا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہر ہر شہری کی پرورش، نگہداشت اور تحفظ ایک ماں کی طرح کرے لیکن وہ ماں بیچاری کیا کرے جس کے بچے بے تحاشہ ہوں۔ وسائل کی کمی اور بے تحاشہ آبادی میں ریاست کا کردار ایک سوتیلی ماں کا سا ہی رہ جاتا ہے۔


نہ روٹی نہ صحت نہ تعلیم۔ ایسی ریاستوں میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل جنم لیتے ہوئے اسے قحط جیسی خوفناک صورتحال سے دوچار کر دیتے ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک اس کی المناک مثال ہیں۔ جہاں کئی ملین آبادی بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ اس پس منظر میں عالمی ادارہ خوراک نے ایک تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس نے خبردار کیا ہے کہ غریب ممالک اس سال سے اور ترقی یافتہ ممالک میں اگلے سال سے خوراک کی قلت شروع ہو سکتی ہے۔ جس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

جس کے آثار ہمیں پاکستان میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ غریب ممالک خاص طور پر اور امیر ممالک بالعموم کو اگلے دو سے تین سال میں قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک طرف قحط تو دوسری طرف تباہ کن مہنگائی، ایک طرف وبائیں دوسری طرف قحط تیسری طرف خوفناک مہنگائی، یا اللہ ہم کن زمانوں میں جی رہے ہیں۔ آفتیں ہی آفتیں ہیں۔ بیک وقت کئی آفتیں ہم پر حملہ آور ہو گئی ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا۔

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین دنیا کی پہلی سوشلسٹ فلاحی ریاست تھی جس نے اپنے کروڑوں شہریوں کو مفت تعلیم ، صحت، بجلی ، گیس سستی رہائش ، روزگار ، بے روزگاری الاؤنس کی سہولتیں دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پورے یورپ میں سرمایہ داری نظام کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ اور یورپین عوام نے سوویت یونین جیسی سہولتوں کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے خوفزدہ ہو کر کہ کہیں پورا یورپ سوشلسٹ نہ ہو جائے کہ سوشلسٹ تحریک کا سب سے بڑا مرکز اس وقت متحدہ جرمنی تھا۔ سوویت یونین کی نقل کرتے ہوئے فلاحی ریاست کا نظام اسکینڈے نیوین ممالک ، جرمنی اور دیگر یورپین ریاستوں میں نافذ کر دیا۔ تو یہ ہے جناب سرمایہ دارانہ نظام میں فلاحی ریاستوں کی حقیقت جو غریب ملکوں کے قدرتی وسائل کے ظالمانہ لوٹ مار کی بنیاد پر قائم ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کا براہ راست اثر ہماری ماحولیات پر پڑتا ہے۔ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیات کی تباہی کا باعث ہے۔ ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آبادی میں اضافہ ٹائم بم کی طرح جانے کب پھٹ کر ہمیں تباہ و برباد کر دے ۔ نہ تو ہم آبادی میں اضافہ روک سکے نہ ماحولیاتی تباہی۔ یہ دونوں ایسی بلائیں ہیں جو آخر کار کسی بھی ملک کو نیست و نابود کر سکتی ہیں۔ اب تو ان سے نمٹنے کا وقت بھی گذر گیا۔ سنگاپور کے وزیر دفاع نے حال ہی میں کہا ہے کہ دنیا کو جنگوں سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے خطرہ ہے۔
Load Next Story