مقصد صرف ڈراکے رکھنا ہے
ہم جب تک اُن کی پابندیوں کے خوف کے چنگل سے نہیں نکل جاتے وہ ہمیں یونہی ڈراتے اوردھمکاتے رہیں گے
ہم پہلے بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہمارے جیسے ملکوں کو کچھ عالمی طاقتیں مختلف بہانوں سے ڈرا اوردھماکاکے رکھناچاہتی ہیں،کبھی CTBT معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے ، کبھی کم عمر بچوں سے مشقت لینے کے حوالے سے اور کبھی FATF کے ذریعے گرے لسٹ میں رکھنے کے طریقوں سے۔ 2008 ء میں پہلے بار پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیالیکن صرف دوسال بعد ہی واپس وائٹ لسٹ میں رکھ لیاگیا۔
پھر 2012 ایک بار پھر اچانک گرے لسٹ میں ڈال دیاگیا۔یہ عرصہ بھی بہت زیادہ طویل نہ تھا، لیکن 2018 میں تیسری بار گرے لسٹ میں ڈالے جانے کادورانیہ خاصہ طویل ہوتاچلاگیا۔ابھی بھی صرف وعدہ کیا گیاہے کہ اکتوبر میں FATF کے اعلیٰ سطح کے وفد کے دورے کے بعد پاکستان کو واپس وائٹ لسٹ میں ڈال دیاجائے گا۔کہنے کو ہم نے اُن کی سب کی سب شرائط من وعن نہ صرف تسلیم کرلی ہیں بلکہ اُن پرایک اچھے فرمانبرداربچے کی طرح ان پرمکمل عمل درآمد بھی کردیاہے۔
یہ سچ ہے کہ اُن کی ساری شرائط پرعمل درآمد اُس عمران خان صاحب کی سابقہ حکومت نے کیاتھا جو آج غیر ملکی غلامی سے آزادی کانہ صرف نعرہ بلند کیے ہوئے ہے اورجو موجودہ حکومت کو ایک غلام حکومت کاطعنہ بھی صبح وشام بڑی شدومد سے دیاکرتی ہے۔27 مارچ تک وہ حکومت عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور اُن کی نظروں میں خود کو اچھااور مقدم ثابت کرنے میں رات دن جتی ہوئی تھی آج اچانک غلامی سے چھٹکارے کی دعوے دار بن چکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گرے لسٹ سے نکالے جانے کی خبروں پر وہ اس بات کاکریڈٹ بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنے نام کر رہی ہے کہ اُسی نے FATF کی تمام کی تمام 34 شرائط پر عمل کرتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ وہ یہ کریڈٹ لیتے ہوئے بھول جاتی ہے کہ وہ توآج کل اپنی قوم کو غلامی سے نکالنے کی سیاست کررہی ہے ۔پھر 27 سے 34 تک کی اضافی اور ڈومور والی شرائط پر عمل کرتے ہوئے کیااُسے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی اس محتاجی اور غلامی پر ندامت محسوس نہیں ہوئی۔ چلیں اس وقت نہیں ہوئی لیکن آج تو اس کاکریڈٹ لیتے ہوئے قوم سے اپنی اس تابعداری اورغلامی پرکم ازکم معافی تو مانگنی چاہیے تھی ۔
سوال یہ ہے کہ گرے لسٹ میں ڈالے جانے کے مقاصد کیاتھے اوراس سے نکالے جانے کی وجوہات کیاہیں۔ دہشت گردوں سے تعاون اوراُن کی مالی معاونت کاالزام کوئی نیا نہیں ہے۔1981 سے یہ کام جاری ہے جب یہ کام دنیاپرراج کرنے والی تمام عالمی طاقتوں کی نظروں میں جائزاورمقدس سمجھاجاتا تھاکیونکہ ہم اس وقت افغانستان میں روس کی جارحیت کے خلاف مغربی طاقتوں کے آلہ کاربن کر صف آراء تھے۔
ہم بحیثیت ایک قوم کے ہمیشہ ایسی ہی پابندیوں کے خطرات سے دوچار ہوتے رہیں گے جب تک خود کو معاشی اوراقتصادی طور پرخود کفیل اورمضبوط بنا نہیں لیتے۔رہ گیاسوال کہ وہ مرحلہ کب آئیگاتو اس کاجواب اگلے دس بیس برسوںتک تو دکھائی نہیں دیتا۔ہمیں آزاد ہوئے تقریباً پچھتر برس ہونے کو آئے ہیں مگر ہم معاشی طور پرآج بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں جہاں ہم 1948 میں تھے۔ 75 سالہ اس طویل دور میں جب کبھی بھی ہم ایک مضبوط قوم کے طور پرترقی وخوشحالی کی منازل طے کرنے لگے کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما کردیاجاتاہے کہ ہم دھڑام سے دس سال پیچھے کردیے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو ہم سے آزاد ہوئے 51 سال ہی گذرے ہیں لیکن اس کی معیشت آج ہم سے بہتر کیوں ہے۔
صرف یہی ایک سوال ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لیے کافی ہوناچاہیے۔ایران اورکوریاکئی سالوں سے FATF کی بلیک لسٹ میں پڑے ہوئے ہیں لیکن کیاانھوں نے ہمت ہارکے خود کو عالمی طاقتوں کے رحم وکرم پرڈال دیاہے۔جب بلیک لسٹ میں ہونااُن کے لیے کوئی مشکل پیدانہ کرسکااوروہ معاشی طور پرکنگال اوردیوالیہ نہیں ہوگئے تو ہم پھرکیوں اس انجانے خوف سے پریشان ہوئے جاتے ہیں۔
ایران تمام پابندیوں کے باوجود معاشی واقتصادی طور پرہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ہمارے جیسے کئی کمزور اورغلام ملک اِن عالمی پابندیوں کی وجہ سے اس سے تیل بھی نہیں خرید پاتے لیکن اس کی صحت پراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس نے اِن پابندیوں سے نکلنے کے لیے کسی کی کوئی منت سماجت بھی نہیں کی۔ہمیں کم ازکم ایران سے ہی سبق حاصل کرلینا چاہیے۔گرے لسٹ سے نکل جانے پر ہمارے دن خود بخودکیسے سنور جائیں گے اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ہم جب تک ایک خود دار اور غیرت مند قوم کے طور پرمصمم ارادوں اورعزم و حوصلوںکے ساتھ خود کو اس قابل نہیں بنالیتے کہ دنیاکی کوئی طاقت ہمیں اِن پابندیوں کاخوف دلاکے ہمیں اپناغلام اور تابع نہیں بناسکتی، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گااورخوف اورڈرکی یہ تلوار ہمیشہ یونہی ہمارے سروں تو لٹکتی رہے گی۔ ہمیں اپنے دلوں سے اس خوف کومٹاناہوگا۔
گرے لسٹ میں ڈالنااورنکالنااُن کی اپنی ترجیحات اورمفادات کے مطابق ہواکرتا ہے۔ مشرف حکومت میں ہمیںپتھروں کے دور میں واپس بھیجے جانے کاخوف بھی کچھ ایسے مقاصد کے تحت دلایاگیا تھا۔ منی لانڈرنگ اورTTP سے بات چیت توآج بھی جاری ہے،لیکن FATF مطمئن ہے کہ ایساکچھ نہیں ہے۔لگتاہے اُن کی ترجیحات اب بدل چکی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اُن کی مرضی ومنشاء کے ساتھ کیے جارہے ہیں اسی لیے انھیں اب اس پر کوئی اعتراضات یاتحفظات بھی نہیں ہیں۔
ہم جب تک اُن کی پابندیوں کے خوف کے چنگل سے نہیں نکل جاتے وہ ہمیں یونہی ڈراتے اوردھمکاتے رہیں گے۔ وہ ہمیں کبھی بھی بلیک لسٹ میں بھی نہیں ڈالیں گے ، کیونکہ جب گرے لسٹ میںرکھنے سے ہی اُن کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں تو پھربلاوجہ بلیک لسٹ میںڈال کروہ ہمیں ایران اورکوریا کی طرح خود مختار اورخود کفیل بنانا کیوں چاہیں گے۔ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم اُن طرف سے لگائی جانے والی فرضی پابندیوں کے خوف سے پریشان اور ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔
جس دن ہم اس خوف اورڈر سے باہر نکل جائیں گے اُس دن سے ہماری آزادی اورخود مختاری کا سورج طلوع ہوجائے گا۔ دوسری بات یاد رکھیے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے یہاںسیاسی استحکام کبھی بھی ممکن نہیں ہوپایا ہے۔
چین ، ایران ، کوریا اوردیگر ممالک کی ترقی و خوشحالی کاراز بھی یہی ہے ، وہاں سیاسی نظام کاایک تسلسل قائم ہے، جب کہ ہمارے یہاں اکھاڑپچھاڑ کا سلسلہ کبھی بھی سیاسی استحکام قائم ہونے نہیں دیتا۔معاشی پالیسیوں کاتسلسل قائم نہیں رہتا۔ ایسے میں جب یہاں اپنے لوگ ہی سرمایہ کاری سے ڈرتے ہوں توکوئی غیرملکی سرمایہ کار یہاں پیسہ کیوںلگائے گا۔ہم جب تک یہ بات اچھی طرح سمجھ نہیں لیتے ہمارے یہاں خوشحالی نہیں آسکتی۔ بصورت دیگر آج جو حالات ہیں اگلے دس سال بعد بھی ہم ایسے حالات سے دوچار ہورہے ہونگے۔
پھر 2012 ایک بار پھر اچانک گرے لسٹ میں ڈال دیاگیا۔یہ عرصہ بھی بہت زیادہ طویل نہ تھا، لیکن 2018 میں تیسری بار گرے لسٹ میں ڈالے جانے کادورانیہ خاصہ طویل ہوتاچلاگیا۔ابھی بھی صرف وعدہ کیا گیاہے کہ اکتوبر میں FATF کے اعلیٰ سطح کے وفد کے دورے کے بعد پاکستان کو واپس وائٹ لسٹ میں ڈال دیاجائے گا۔کہنے کو ہم نے اُن کی سب کی سب شرائط من وعن نہ صرف تسلیم کرلی ہیں بلکہ اُن پرایک اچھے فرمانبرداربچے کی طرح ان پرمکمل عمل درآمد بھی کردیاہے۔
یہ سچ ہے کہ اُن کی ساری شرائط پرعمل درآمد اُس عمران خان صاحب کی سابقہ حکومت نے کیاتھا جو آج غیر ملکی غلامی سے آزادی کانہ صرف نعرہ بلند کیے ہوئے ہے اورجو موجودہ حکومت کو ایک غلام حکومت کاطعنہ بھی صبح وشام بڑی شدومد سے دیاکرتی ہے۔27 مارچ تک وہ حکومت عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور اُن کی نظروں میں خود کو اچھااور مقدم ثابت کرنے میں رات دن جتی ہوئی تھی آج اچانک غلامی سے چھٹکارے کی دعوے دار بن چکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گرے لسٹ سے نکالے جانے کی خبروں پر وہ اس بات کاکریڈٹ بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنے نام کر رہی ہے کہ اُسی نے FATF کی تمام کی تمام 34 شرائط پر عمل کرتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ وہ یہ کریڈٹ لیتے ہوئے بھول جاتی ہے کہ وہ توآج کل اپنی قوم کو غلامی سے نکالنے کی سیاست کررہی ہے ۔پھر 27 سے 34 تک کی اضافی اور ڈومور والی شرائط پر عمل کرتے ہوئے کیااُسے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی اس محتاجی اور غلامی پر ندامت محسوس نہیں ہوئی۔ چلیں اس وقت نہیں ہوئی لیکن آج تو اس کاکریڈٹ لیتے ہوئے قوم سے اپنی اس تابعداری اورغلامی پرکم ازکم معافی تو مانگنی چاہیے تھی ۔
سوال یہ ہے کہ گرے لسٹ میں ڈالے جانے کے مقاصد کیاتھے اوراس سے نکالے جانے کی وجوہات کیاہیں۔ دہشت گردوں سے تعاون اوراُن کی مالی معاونت کاالزام کوئی نیا نہیں ہے۔1981 سے یہ کام جاری ہے جب یہ کام دنیاپرراج کرنے والی تمام عالمی طاقتوں کی نظروں میں جائزاورمقدس سمجھاجاتا تھاکیونکہ ہم اس وقت افغانستان میں روس کی جارحیت کے خلاف مغربی طاقتوں کے آلہ کاربن کر صف آراء تھے۔
ہم بحیثیت ایک قوم کے ہمیشہ ایسی ہی پابندیوں کے خطرات سے دوچار ہوتے رہیں گے جب تک خود کو معاشی اوراقتصادی طور پرخود کفیل اورمضبوط بنا نہیں لیتے۔رہ گیاسوال کہ وہ مرحلہ کب آئیگاتو اس کاجواب اگلے دس بیس برسوںتک تو دکھائی نہیں دیتا۔ہمیں آزاد ہوئے تقریباً پچھتر برس ہونے کو آئے ہیں مگر ہم معاشی طور پرآج بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں جہاں ہم 1948 میں تھے۔ 75 سالہ اس طویل دور میں جب کبھی بھی ہم ایک مضبوط قوم کے طور پرترقی وخوشحالی کی منازل طے کرنے لگے کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما کردیاجاتاہے کہ ہم دھڑام سے دس سال پیچھے کردیے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو ہم سے آزاد ہوئے 51 سال ہی گذرے ہیں لیکن اس کی معیشت آج ہم سے بہتر کیوں ہے۔
صرف یہی ایک سوال ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لیے کافی ہوناچاہیے۔ایران اورکوریاکئی سالوں سے FATF کی بلیک لسٹ میں پڑے ہوئے ہیں لیکن کیاانھوں نے ہمت ہارکے خود کو عالمی طاقتوں کے رحم وکرم پرڈال دیاہے۔جب بلیک لسٹ میں ہونااُن کے لیے کوئی مشکل پیدانہ کرسکااوروہ معاشی طور پرکنگال اوردیوالیہ نہیں ہوگئے تو ہم پھرکیوں اس انجانے خوف سے پریشان ہوئے جاتے ہیں۔
ایران تمام پابندیوں کے باوجود معاشی واقتصادی طور پرہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ہمارے جیسے کئی کمزور اورغلام ملک اِن عالمی پابندیوں کی وجہ سے اس سے تیل بھی نہیں خرید پاتے لیکن اس کی صحت پراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس نے اِن پابندیوں سے نکلنے کے لیے کسی کی کوئی منت سماجت بھی نہیں کی۔ہمیں کم ازکم ایران سے ہی سبق حاصل کرلینا چاہیے۔گرے لسٹ سے نکل جانے پر ہمارے دن خود بخودکیسے سنور جائیں گے اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ہم جب تک ایک خود دار اور غیرت مند قوم کے طور پرمصمم ارادوں اورعزم و حوصلوںکے ساتھ خود کو اس قابل نہیں بنالیتے کہ دنیاکی کوئی طاقت ہمیں اِن پابندیوں کاخوف دلاکے ہمیں اپناغلام اور تابع نہیں بناسکتی، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گااورخوف اورڈرکی یہ تلوار ہمیشہ یونہی ہمارے سروں تو لٹکتی رہے گی۔ ہمیں اپنے دلوں سے اس خوف کومٹاناہوگا۔
گرے لسٹ میں ڈالنااورنکالنااُن کی اپنی ترجیحات اورمفادات کے مطابق ہواکرتا ہے۔ مشرف حکومت میں ہمیںپتھروں کے دور میں واپس بھیجے جانے کاخوف بھی کچھ ایسے مقاصد کے تحت دلایاگیا تھا۔ منی لانڈرنگ اورTTP سے بات چیت توآج بھی جاری ہے،لیکن FATF مطمئن ہے کہ ایساکچھ نہیں ہے۔لگتاہے اُن کی ترجیحات اب بدل چکی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اُن کی مرضی ومنشاء کے ساتھ کیے جارہے ہیں اسی لیے انھیں اب اس پر کوئی اعتراضات یاتحفظات بھی نہیں ہیں۔
ہم جب تک اُن کی پابندیوں کے خوف کے چنگل سے نہیں نکل جاتے وہ ہمیں یونہی ڈراتے اوردھمکاتے رہیں گے۔ وہ ہمیں کبھی بھی بلیک لسٹ میں بھی نہیں ڈالیں گے ، کیونکہ جب گرے لسٹ میںرکھنے سے ہی اُن کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں تو پھربلاوجہ بلیک لسٹ میںڈال کروہ ہمیں ایران اورکوریا کی طرح خود مختار اورخود کفیل بنانا کیوں چاہیں گے۔ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم اُن طرف سے لگائی جانے والی فرضی پابندیوں کے خوف سے پریشان اور ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔
جس دن ہم اس خوف اورڈر سے باہر نکل جائیں گے اُس دن سے ہماری آزادی اورخود مختاری کا سورج طلوع ہوجائے گا۔ دوسری بات یاد رکھیے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے یہاںسیاسی استحکام کبھی بھی ممکن نہیں ہوپایا ہے۔
چین ، ایران ، کوریا اوردیگر ممالک کی ترقی و خوشحالی کاراز بھی یہی ہے ، وہاں سیاسی نظام کاایک تسلسل قائم ہے، جب کہ ہمارے یہاں اکھاڑپچھاڑ کا سلسلہ کبھی بھی سیاسی استحکام قائم ہونے نہیں دیتا۔معاشی پالیسیوں کاتسلسل قائم نہیں رہتا۔ ایسے میں جب یہاں اپنے لوگ ہی سرمایہ کاری سے ڈرتے ہوں توکوئی غیرملکی سرمایہ کار یہاں پیسہ کیوںلگائے گا۔ہم جب تک یہ بات اچھی طرح سمجھ نہیں لیتے ہمارے یہاں خوشحالی نہیں آسکتی۔ بصورت دیگر آج جو حالات ہیں اگلے دس سال بعد بھی ہم ایسے حالات سے دوچار ہورہے ہونگے۔