لوگ اپنا تحفظ خود کر رہے ہیں حکومت کہاں ہے سپریم کورٹ
تحفظ ریاستی ذمے داری ہے، حکومت پہلے کچھ نہیں کرتی، عدالتی حکم پر ہوش آجاتا ہے: جسٹس امیرہانی
RAWALPINDI:
سپریم کورٹ نے ایف سی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے یاکیس آرمی ایکٹ کے تحت فوج کے حوالے کرنے سے متعلق بلوچستان حکومت سے جواب طلب کرلیا جبکہ جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کے جان ومال کاتحفظ ریاست کی ذمے داری ہے مگرحالات یہ ہیں کہ بلوچستان میں لوگ اپنی مددآپ کے تحت ایک دوسرے کا تحفظ کررہے ہیں۔
لاپتہ افراداور بلوچستان کے حالات میں حکومت کی ذمے داری اوربھی بڑھ جاتی ہے۔ حکومت پہلے کچھ نہیں کرتی۔ جیسے ہی عدالت حکم دیتی ہے، اسے ہوش آجاتا ہے۔ حکومت کوکوئی کام اپنی ذمے داری کااحساس کرتے ہوئے بھی کرناہے یانہیں؟ سپریم کورٹ کے جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے بلوچستان بدامنی کیس اورخضدار سے ملنے والی اجتماعی قبروں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاورنے بتایاکہ فوج نے ایف سی اہلکاروں پر آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیاہے لیکن ابھی تک بلوچستان حکومت نے کوئی جواب نہیںدیا۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسن کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے عدالت میں 6افراد کی فہرست پیش کی اورکہاکہ ان افرادکا نام بھی لاپتہ افرادمیں شامل کیاجائے۔ عدالت نے نصراللہ بلوچ کی جانب سے فراہم کی جانے والی فہرست کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کاحکم دیاجبکہ خضدارمیں ملنے والی لاشوں کی تعداد کے حوالے سے نصراللہ بلوچ کوبلوچستان ہائیکورٹ کے کمیشن سے رجوع کرنے کاحکم دیا۔
ڈی جی سی آئی ڈی امتیازشاہ نے عدالت کوبتایا کہ عدالتی حکم کے باوجودایف سی کے اہلکاروں کو ابھی تک سی آئی ڈی کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ عدالت نے ایف سی کے وکیل عرفان قادرکو ہدایت کی کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اوربلوچستان حکومت کے وکیل شاہدحامد سے ملاقات کرکے عدالت کوپیش رفت سے آگاہ کریں۔ آن لائن کے مطابق 2رکنی بینچ نے کہاہے کہ اجتماعی قبروں کے حوالے سے ڈپٹی کمشنرخضدار اور میڈیا رپورٹ میں تضاد ہے۔ میڈیا 25جبکہ ڈی سی خضدار 13 لاشیں ملنے کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ عدالتی کمیشن اس حوالے سے تحقیقات کے لیے 2ماہ کاوقت مانگاہے۔عدالت کمیشن کی تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی اس لیے سماعت 2ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اسدرحمٰن گیلانی نے سپریم کورٹ کوبتایا کہ لاشوں کے ڈی این اے کے جائزے میں 5ماہ تک کاوقت لگ سکتاہے جبکہ ذمے داروںکے تعین کے لیے جوڈیشل انکوائری میں بھی 2ماہ لگیں گے۔
سپریم کورٹ نے ایف سی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے یاکیس آرمی ایکٹ کے تحت فوج کے حوالے کرنے سے متعلق بلوچستان حکومت سے جواب طلب کرلیا جبکہ جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کے جان ومال کاتحفظ ریاست کی ذمے داری ہے مگرحالات یہ ہیں کہ بلوچستان میں لوگ اپنی مددآپ کے تحت ایک دوسرے کا تحفظ کررہے ہیں۔
لاپتہ افراداور بلوچستان کے حالات میں حکومت کی ذمے داری اوربھی بڑھ جاتی ہے۔ حکومت پہلے کچھ نہیں کرتی۔ جیسے ہی عدالت حکم دیتی ہے، اسے ہوش آجاتا ہے۔ حکومت کوکوئی کام اپنی ذمے داری کااحساس کرتے ہوئے بھی کرناہے یانہیں؟ سپریم کورٹ کے جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے بلوچستان بدامنی کیس اورخضدار سے ملنے والی اجتماعی قبروں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاورنے بتایاکہ فوج نے ایف سی اہلکاروں پر آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیاہے لیکن ابھی تک بلوچستان حکومت نے کوئی جواب نہیںدیا۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسن کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے عدالت میں 6افراد کی فہرست پیش کی اورکہاکہ ان افرادکا نام بھی لاپتہ افرادمیں شامل کیاجائے۔ عدالت نے نصراللہ بلوچ کی جانب سے فراہم کی جانے والی فہرست کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کاحکم دیاجبکہ خضدارمیں ملنے والی لاشوں کی تعداد کے حوالے سے نصراللہ بلوچ کوبلوچستان ہائیکورٹ کے کمیشن سے رجوع کرنے کاحکم دیا۔
ڈی جی سی آئی ڈی امتیازشاہ نے عدالت کوبتایا کہ عدالتی حکم کے باوجودایف سی کے اہلکاروں کو ابھی تک سی آئی ڈی کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ عدالت نے ایف سی کے وکیل عرفان قادرکو ہدایت کی کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اوربلوچستان حکومت کے وکیل شاہدحامد سے ملاقات کرکے عدالت کوپیش رفت سے آگاہ کریں۔ آن لائن کے مطابق 2رکنی بینچ نے کہاہے کہ اجتماعی قبروں کے حوالے سے ڈپٹی کمشنرخضدار اور میڈیا رپورٹ میں تضاد ہے۔ میڈیا 25جبکہ ڈی سی خضدار 13 لاشیں ملنے کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ عدالتی کمیشن اس حوالے سے تحقیقات کے لیے 2ماہ کاوقت مانگاہے۔عدالت کمیشن کی تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی اس لیے سماعت 2ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اسدرحمٰن گیلانی نے سپریم کورٹ کوبتایا کہ لاشوں کے ڈی این اے کے جائزے میں 5ماہ تک کاوقت لگ سکتاہے جبکہ ذمے داروںکے تعین کے لیے جوڈیشل انکوائری میں بھی 2ماہ لگیں گے۔