افغان مہاجرین کی آمد اور پاکستان کے مسائل
پاکستان میں اس وقت تین ملین سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14 لاکھ یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے کہا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد کے نئے سلسلے کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق جنوری 2021 سے اب تک 2 لاکھ پچاس ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔
یہ صورتحال ملکی سلامتی کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں اپنے فرائض سے غافل نظر آرہی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جب کہ دوسری جانب غیر ملکی امدادی اداروں نے افغانستان سے منہ موڑ لیا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں وہاں لوگ بے روزگار ہوگئے۔
بدامنی میں اضافے اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے افغانی ہجرت کررہے ہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آخر وہ صرف پاکستان کی طرف ہجرت کیوں کرتے ہیں جب کہ افغانستان کے پڑوس میں دیگر ممالک بھی موجود ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے ہیروئن وکلاشنکوف کلچر کو پاکستان میں فروغ ملا۔ پاک، افغان بارڈر پر خار دار تار لگنے کے باوجود افغان مہاجرین کی آمد نہ رکنا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جو افغان و پاکستانی طالبان کا زبردست حامی ہے، اور ان کے ہر ریاست مخالف عمل کو اسلام کے لبادے میں لپیٹ کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ خدشات کی اصل وجہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور اسی لیے پاکستان، عالمی برادری سے ان کی وطن واپسی یقینی بنانے پر زور دیتا ہے،کیونکہ تسلسل سے ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات نے ہماری سیکیورٹی فورسز کا بہت نقصان کیا ہے، پاکستانی طالبان جو ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں، انھیں بھی باآسانی افغانستان میں پناہ مل جاتی ہے، ان پر افغان طالبان کنٹرول پانے میں ناکام ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سرحدی سیکیورٹی مضبوط کرے، مہاجرین کو دستاویزات جاری کرنے سے پہلے سخت جانچ پڑتال کرے، سِم کارڈ کا باقاعدہ اندراج ہو اور تارکین وطن کے قوانین پر عمل درآمد کراسکے، لیکن ایسا حقیقت میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔
افغانستان میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جہاں ایک بڑی تعداد میں افغانوں نے یورپ، امریکا ،جرمنی اور مڈل ایسٹ کے ممالک کا رخ کیا وہاں ایک بڑی تعداد میں پاکستان بھی پہنچے۔
یہاں آنے والے زیادہ تر افغان شروع میں اپنے رشتے داروں کے ہاں ٹھہرے تھے، جب کہ ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے راستے دیگر ممالک جانے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے تھے۔زیادہ تر افغان باشندے پاک افغان سرحد طورخم، چمن اور دیگر گزرگاہوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ بڑی تعداد میں افغانوں کی آمد کے خدشات کی وجہ سے پاکستان نے کئی روز تک سرحدوں پر نگرانی سخت رکھی۔ تاہم اس دوران علاج معالجے اور مکمل دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی۔
پاکستان میں اس وقت تین ملین سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14 لاکھ یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ جاری کر رکھے ہیں ، جب کہ 10 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر افغان خیبرپختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد اور کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ بعض انتہا پسند افغان جب پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے50 لاکھ افغانوں کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور آج تک کسی نے افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیجنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ سولہ دسمبر2014 کو آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہوا۔
دہشت گردی کے اس بڑے واقعے میں کم وبیش ڈیڑھ سو افراد لقمہ اجل بنے۔ سرحد پار سے منصوبہ بندی کرنے والے اس واقعہ کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لیے اس پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس باڑ کی تنصیب سے اگر ایک طرف دہشت گردوں کی آمد و رفت محدود ہو گئی ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت غیر محفوظ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے پاکستانی اقدامات میں بھر پور تعاون کرتی، لیکن ایسا نہ کیا گیا ہے۔ ہمارا روایتی دشمن بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے اور وہاں کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر افغان دہشت گردوں کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے منظم کرتا رہا ہے۔ بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں نے پاکستان کے شہری علاقوں اور بلوچستان میں سیکڑوں حملے کیے۔
جیسا کہ پاکستان نے گزشتہ سال جاری کی گئی ایک رپورٹ میں تفصیل بتائی کہ بھارت افغانستان میں 66تربیتی کیمپ چلارہا تھا، جہاں پاکستانی طالبان اور بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ بھارتی حمایت سے ان گروہوں نے پاکستان بھر میں ''ٹارگٹ کلنگ'' کی اور ملک کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج، ایک بڑی یونیورسٹی اور بندرگاہی شہر گوادر میں ایک لگژری ہوٹل پر ہائی پروفائل حملے کیے۔
اس کے ساتھ ہی، بھارت نے ایک منظم پروپیگنڈا مہم کے ذریعے پاکستان کی ساکھ کو داغدار کرنے کا کام کیا، جعلی خبروں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مفروضوں پر بیانیے کو پروان چڑھایا۔ ہم نے افغانستان میں امن کے عمل کو آسان بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا، جس کے نتیجے میں ہمیںاندرون ملک دہشت گردی کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا ، لاکھوں افغانوں کی چار دہائیوں سے میزبانی کی اور بھارت جیسے معاملات بگاڑنے والے ملک کی جارحانہ اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کی پالیسی پر عمل کیا۔
افغانستان میںطالبان کی آمد کے باوجود پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ نہیں ہو سکی، حالانکہ توقع تھی کہ کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے سے دونوں برادر ملکوں کے سرحدی مسائل ختم ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلوچستان کے ضلع چمن اور افغان صوبے ننگر ہار کو ملانے والی سرحد پر لگی باڑ اُکھاڑ پھینکی گئی، یہ سب کچھ افغان فورسز کے روپ میں کیا گیا ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان پیداہونے والی قربت و گرمجوشی میں نہ صرف کمی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے بلکہ کشیدگی بھی جنم لے سکتی ہے، اِس حوالے سے پاک افغان اعلیٰ سطح روابط کے باوجود ابھی تک کسی حل پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
سابقہ اشرف غنی حکومت سرحدی باڑ پر اعتراضات کرتی رہی اِس دوران فائرنگ جیسے اشتعال انگیز واقعات بھی ہوئے جن میں جانی نقصان بھی ہوا لیکن دونوں ممالک کی2446 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا عمل چاہے سُست روی سے ہی سہی مگر جاری رہا اب جب باڑ لگانے کاکام محض دس فی صد رہ گیا ہے تو کچھ عناصر رکاوٹیں ڈالنے لگے ہیں حالانکہ باڑ کا مقصدغیرقانونی آمدورفت کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل پرقابو پایاجا سکے لیکن لگتا ہے کہ طالبان کی آمد کے باوجود سرحد کے تعین کا مسئلہ ایک بار پھردونوں ملکوں کی قیادت کو درپیش ہے جس کے لیے دونوں طرف ایسے عناصر کو ناکام بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سرحد کے تعین کا ایک سو اٹھائیس برس قبل حل ہوجانے والا مسئلہ اُٹھا کر دو برادر مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل لانا چاہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے فارن ریلیشنز کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کے تعین سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' یہ انگریزوں کی کھینچی ایک لکیر ہے'' سابق وزیرِ اعظم کی عالمی سطح پر لاپروائی کی آج ملک کو قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
افغانستان خطے میں باہمی تعاون کی مثال بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نئی افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر، امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں نہ صرف انسانی بحران کو ٹال سکتی ہیں، بلکہ افغانیوں کو امن سے رہنے میں مدد دے سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناسکتی ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ یہ نہ صرف ان کی اجتماعی ذمے داری ہے بلکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
یہ صورتحال ملکی سلامتی کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں اپنے فرائض سے غافل نظر آرہی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جب کہ دوسری جانب غیر ملکی امدادی اداروں نے افغانستان سے منہ موڑ لیا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں وہاں لوگ بے روزگار ہوگئے۔
بدامنی میں اضافے اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے افغانی ہجرت کررہے ہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آخر وہ صرف پاکستان کی طرف ہجرت کیوں کرتے ہیں جب کہ افغانستان کے پڑوس میں دیگر ممالک بھی موجود ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے ہیروئن وکلاشنکوف کلچر کو پاکستان میں فروغ ملا۔ پاک، افغان بارڈر پر خار دار تار لگنے کے باوجود افغان مہاجرین کی آمد نہ رکنا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جو افغان و پاکستانی طالبان کا زبردست حامی ہے، اور ان کے ہر ریاست مخالف عمل کو اسلام کے لبادے میں لپیٹ کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موجودہ خدشات کی اصل وجہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور اسی لیے پاکستان، عالمی برادری سے ان کی وطن واپسی یقینی بنانے پر زور دیتا ہے،کیونکہ تسلسل سے ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات نے ہماری سیکیورٹی فورسز کا بہت نقصان کیا ہے، پاکستانی طالبان جو ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں، انھیں بھی باآسانی افغانستان میں پناہ مل جاتی ہے، ان پر افغان طالبان کنٹرول پانے میں ناکام ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سرحدی سیکیورٹی مضبوط کرے، مہاجرین کو دستاویزات جاری کرنے سے پہلے سخت جانچ پڑتال کرے، سِم کارڈ کا باقاعدہ اندراج ہو اور تارکین وطن کے قوانین پر عمل درآمد کراسکے، لیکن ایسا حقیقت میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔
افغانستان میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جہاں ایک بڑی تعداد میں افغانوں نے یورپ، امریکا ،جرمنی اور مڈل ایسٹ کے ممالک کا رخ کیا وہاں ایک بڑی تعداد میں پاکستان بھی پہنچے۔
یہاں آنے والے زیادہ تر افغان شروع میں اپنے رشتے داروں کے ہاں ٹھہرے تھے، جب کہ ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے راستے دیگر ممالک جانے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے تھے۔زیادہ تر افغان باشندے پاک افغان سرحد طورخم، چمن اور دیگر گزرگاہوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ بڑی تعداد میں افغانوں کی آمد کے خدشات کی وجہ سے پاکستان نے کئی روز تک سرحدوں پر نگرانی سخت رکھی۔ تاہم اس دوران علاج معالجے اور مکمل دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی۔
پاکستان میں اس وقت تین ملین سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14 لاکھ یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ جاری کر رکھے ہیں ، جب کہ 10 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر افغان خیبرپختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد اور کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ بعض انتہا پسند افغان جب پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے50 لاکھ افغانوں کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور آج تک کسی نے افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیجنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ سولہ دسمبر2014 کو آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہوا۔
دہشت گردی کے اس بڑے واقعے میں کم وبیش ڈیڑھ سو افراد لقمہ اجل بنے۔ سرحد پار سے منصوبہ بندی کرنے والے اس واقعہ کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لیے اس پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس باڑ کی تنصیب سے اگر ایک طرف دہشت گردوں کی آمد و رفت محدود ہو گئی ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت غیر محفوظ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے پاکستانی اقدامات میں بھر پور تعاون کرتی، لیکن ایسا نہ کیا گیا ہے۔ ہمارا روایتی دشمن بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے اور وہاں کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر افغان دہشت گردوں کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے منظم کرتا رہا ہے۔ بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں نے پاکستان کے شہری علاقوں اور بلوچستان میں سیکڑوں حملے کیے۔
جیسا کہ پاکستان نے گزشتہ سال جاری کی گئی ایک رپورٹ میں تفصیل بتائی کہ بھارت افغانستان میں 66تربیتی کیمپ چلارہا تھا، جہاں پاکستانی طالبان اور بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ بھارتی حمایت سے ان گروہوں نے پاکستان بھر میں ''ٹارگٹ کلنگ'' کی اور ملک کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج، ایک بڑی یونیورسٹی اور بندرگاہی شہر گوادر میں ایک لگژری ہوٹل پر ہائی پروفائل حملے کیے۔
اس کے ساتھ ہی، بھارت نے ایک منظم پروپیگنڈا مہم کے ذریعے پاکستان کی ساکھ کو داغدار کرنے کا کام کیا، جعلی خبروں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مفروضوں پر بیانیے کو پروان چڑھایا۔ ہم نے افغانستان میں امن کے عمل کو آسان بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا، جس کے نتیجے میں ہمیںاندرون ملک دہشت گردی کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا ، لاکھوں افغانوں کی چار دہائیوں سے میزبانی کی اور بھارت جیسے معاملات بگاڑنے والے ملک کی جارحانہ اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کی پالیسی پر عمل کیا۔
افغانستان میںطالبان کی آمد کے باوجود پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ نہیں ہو سکی، حالانکہ توقع تھی کہ کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے سے دونوں برادر ملکوں کے سرحدی مسائل ختم ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلوچستان کے ضلع چمن اور افغان صوبے ننگر ہار کو ملانے والی سرحد پر لگی باڑ اُکھاڑ پھینکی گئی، یہ سب کچھ افغان فورسز کے روپ میں کیا گیا ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگے ہیں جس سے دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان پیداہونے والی قربت و گرمجوشی میں نہ صرف کمی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے بلکہ کشیدگی بھی جنم لے سکتی ہے، اِس حوالے سے پاک افغان اعلیٰ سطح روابط کے باوجود ابھی تک کسی حل پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
سابقہ اشرف غنی حکومت سرحدی باڑ پر اعتراضات کرتی رہی اِس دوران فائرنگ جیسے اشتعال انگیز واقعات بھی ہوئے جن میں جانی نقصان بھی ہوا لیکن دونوں ممالک کی2446 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا عمل چاہے سُست روی سے ہی سہی مگر جاری رہا اب جب باڑ لگانے کاکام محض دس فی صد رہ گیا ہے تو کچھ عناصر رکاوٹیں ڈالنے لگے ہیں حالانکہ باڑ کا مقصدغیرقانونی آمدورفت کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل پرقابو پایاجا سکے لیکن لگتا ہے کہ طالبان کی آمد کے باوجود سرحد کے تعین کا مسئلہ ایک بار پھردونوں ملکوں کی قیادت کو درپیش ہے جس کے لیے دونوں طرف ایسے عناصر کو ناکام بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سرحد کے تعین کا ایک سو اٹھائیس برس قبل حل ہوجانے والا مسئلہ اُٹھا کر دو برادر مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل لانا چاہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے فارن ریلیشنز کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کے تعین سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' یہ انگریزوں کی کھینچی ایک لکیر ہے'' سابق وزیرِ اعظم کی عالمی سطح پر لاپروائی کی آج ملک کو قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
افغانستان خطے میں باہمی تعاون کی مثال بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نئی افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر، امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں نہ صرف انسانی بحران کو ٹال سکتی ہیں، بلکہ افغانیوں کو امن سے رہنے میں مدد دے سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناسکتی ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ یہ نہ صرف ان کی اجتماعی ذمے داری ہے بلکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔