صحافی نے ایسی کیا بات کر دی جس سے ادارے ڈر گئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے کو ایک موقع اور دے رہے ہیں عدالت کو مطمئن کریں
صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف کیسز پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ صحافی سمیع ابراہیم نے ایسی کیا بات کردی کہ جس سے ادارے ڈر گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کے حکم میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی، عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے کو ایک موقع اور دے رہے ہیں عدالت کو مطمئن کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اب کس بنیاد پر انکے کے خلاف کارروائی کی گئی؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے لیے کہا وہ دو نمبری کر رہا ہے، اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں تو سیاسی لیڈرز بھی روز کہہ رہے ہوتے ہیں، کیا ان تمام سیاسی لیڈرز کیخلاف بھی کارروائی کریں گے؟ کئی پروگرام عدالت کیخلاف ہوئے کیا ہم کارروائی شروع کر دیں؟ کیا محض بیانات سے کوئی اداروں یا پبلک آفس ہولڈرز پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟ لوگ تو روزانہ سوشل میڈیا پر بات کرتے ہیں کیا روز کارروائی کریں گے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نہ کوئی ادارہ، نہ پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ کسی کی بات سے ڈرے، مان لیا سمیع ابراہیم نے اداروں کا احترام نہیں کیا مگر یہ بتائیں جرم کیسے بنتا ہے؟ ابھی تک ایف آئی اے مطمئن نہیں کرسکی کہ سمیع ابراہیم کا جرم کیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت اداروں کا احترام کرتی ہے، عدالت چاہتی ہے ادارے اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہ کر کریں، سمیع ابراہیم نے ایسی کیا بات کر دی کہ جس سے ادارے ڈر گئے، کیا کوئی پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ انکی ویڈیو سے ڈر گئے؟ لوگ اس عدالت سے متعلق روزانہ بہت باتیں کرتے ہیں، آپ نے اور کتنے لوگوں کیخلاف کارروائی شروع کی، کوئی ادارہ اتنا کمزور نہیں کہ ان کی باتوں سے ڈر جائے، ان کے کہنے سے کسی کی ریپوٹیشن نہیں خراب ہوتی۔
ثاقب بشیر صدر اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے عدالت میں کہا کہ کل کی ٹویٹس دیکھ لیں کہ اس عدالت سے متعلق کیا باتیں ہوئیں، ایف آئی اے کو بس صحافی نظر آتے؟ اس طرح اٹھانے لگے تو ایف آئی اے کو آدھا پاکستان اٹھانا پڑے گا۔
عدالت کا ایف آئی اے حکام سے مکالمے میں عدالت نے کہا کہ اب ایف آئی اے کا اپنا امتحان ہے کہ عدالت کو مطمئن کرے کہ سمیع ابراہیم نے کیا جرم کیا ہے، ادارے اپنے کردار سے عزت کماتے ہیں، اداروں کو آپ کی ایف آئی آر کی ضرورت نہیں، اس عدالت کو مطمئن کریں یہ جرم کیسے بنتا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو جواب کے لیے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کے حکم میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی، عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے کو ایک موقع اور دے رہے ہیں عدالت کو مطمئن کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اب کس بنیاد پر انکے کے خلاف کارروائی کی گئی؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے لیے کہا وہ دو نمبری کر رہا ہے، اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں تو سیاسی لیڈرز بھی روز کہہ رہے ہوتے ہیں، کیا ان تمام سیاسی لیڈرز کیخلاف بھی کارروائی کریں گے؟ کئی پروگرام عدالت کیخلاف ہوئے کیا ہم کارروائی شروع کر دیں؟ کیا محض بیانات سے کوئی اداروں یا پبلک آفس ہولڈرز پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟ لوگ تو روزانہ سوشل میڈیا پر بات کرتے ہیں کیا روز کارروائی کریں گے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نہ کوئی ادارہ، نہ پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ کسی کی بات سے ڈرے، مان لیا سمیع ابراہیم نے اداروں کا احترام نہیں کیا مگر یہ بتائیں جرم کیسے بنتا ہے؟ ابھی تک ایف آئی اے مطمئن نہیں کرسکی کہ سمیع ابراہیم کا جرم کیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت اداروں کا احترام کرتی ہے، عدالت چاہتی ہے ادارے اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہ کر کریں، سمیع ابراہیم نے ایسی کیا بات کر دی کہ جس سے ادارے ڈر گئے، کیا کوئی پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ انکی ویڈیو سے ڈر گئے؟ لوگ اس عدالت سے متعلق روزانہ بہت باتیں کرتے ہیں، آپ نے اور کتنے لوگوں کیخلاف کارروائی شروع کی، کوئی ادارہ اتنا کمزور نہیں کہ ان کی باتوں سے ڈر جائے، ان کے کہنے سے کسی کی ریپوٹیشن نہیں خراب ہوتی۔
ثاقب بشیر صدر اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے عدالت میں کہا کہ کل کی ٹویٹس دیکھ لیں کہ اس عدالت سے متعلق کیا باتیں ہوئیں، ایف آئی اے کو بس صحافی نظر آتے؟ اس طرح اٹھانے لگے تو ایف آئی اے کو آدھا پاکستان اٹھانا پڑے گا۔
عدالت کا ایف آئی اے حکام سے مکالمے میں عدالت نے کہا کہ اب ایف آئی اے کا اپنا امتحان ہے کہ عدالت کو مطمئن کرے کہ سمیع ابراہیم نے کیا جرم کیا ہے، ادارے اپنے کردار سے عزت کماتے ہیں، اداروں کو آپ کی ایف آئی آر کی ضرورت نہیں، اس عدالت کو مطمئن کریں یہ جرم کیسے بنتا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو جواب کے لیے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔