ایلوویرا نہایت مفید اثرات کا حامل پودا

ہندوستان ، مصر ، یونان ، میکسیکو ، چین اور جاپان کے قدیم ادوار میں بھی ایلوویرا کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں

ہندوستان ، مصر ، یونان ، میکسیکو ، چین اور جاپان کے قدیم ادوار میں بھی ایلوویرا کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

کراچی:
ایلوویرا کانٹے دار پودا ہے جو ہزاروں سالوں سے ، مختلف تہذیبوں میں اپنے مختلف فوائد کے لئے مشہور ہے۔

سائنسی ادب میں بھی اس پودے کو ایلوبارباڈینسس کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے پتوں میں پارباسی جیل ہے جو 96 فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس جیل میں وٹامن اے ، بی ، سی ۔ ای اور پروٹین موجود ہوتی ہے اور پروٹین میں 18 ضروری امینو ایسڈز ، دیگر نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں۔ اس پودے میں موجود جیل جسے ایلولیٹیکس کہا جاتا ہے ،کو کھایا بھی جاتا ہے اور لگایا بھی جاتا ہے۔

ایلوویرا کے پودے سے قبض کشا ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ یہ جلد کیلئے بہت مفید ہے۔ اس میں اینٹی آکسیڈینٹ اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات موجود ہیں ۔ ایلوجیل میں پولی فینول ہوتے ہیں جو طاقتور اینٹی آکسیڈ نٹس ہیں ۔ یہ نقصان دہ بیکٹیریا کی افزائش کوروکنے میں مدد دیتے ہیں جو انسانوں میں انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سوزش میں بھی مفید ہے۔1959ء میں ریاست ہائے متحدہ میں ایلو ویرا کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کی منظوری دی گئی تھی ۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایلو ویرا سے تیار شدہ ادویات کومختلف بیماریوں کے علاج کے لئے مفید قرار دیا ہے۔ ایلو ویرا کو کئی قدیم تہذیبوں میں بطور دوا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ قدیم ہندوستان ، مصر ، یونان ، میکسیکو ، چین اور جاپان میں اس کے استعمال کے شواہد موجود ہیں ۔ مصری ملکہ نیفرٹیٹی اور قلوپطرہ اسے باقاعدہ اپنے حسن کی حفاظت کے لیے استعمال کرتی رہیں ۔

تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ سکندر اعظم اور کرسٹوفر کولمبس کے زخمی فوجیوں اور ساتھیوں کا بھی اس سے علاج کیا جاتا تھا کیونکہ یہ جراثیم کش ہوتا ہے۔ قدیم یونانیطبی کتاب De materia medica dioscorides میں بھی ایلو ویرا کا تذکرہ ملتا ہے۔ 1930کی دہائی میں ایک اہم تب موڑ آیا جب ایلوویرا کو تابکاری اثرات سے متاثرہ جلد کی سوزش کا علاج قرار دیا گیا۔

مسوڑھوں کی بیماریوں میں بھی ایلوویراکا استعمال نہایت مفید ہے ۔ یہ دانتوں پر پلگ اوربیکٹیریا بائیو لگنے نہیں دیتا اس لئے اسے ماؤتھ واش میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ یہ منہ میں چھالے نہیں بننے دیتا ۔ منہ کے السر میں اس کا استعمال بھی مفید ہے ۔


اسے خواتین کے میک اپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ جراثیم کش ہوتا ہے۔ یہ جلد کو اندر سے خشک نہیں ہونے دیتا اور جلد کے خلیات کودوبارہ بننے میں مدد دیتا ہے ۔اس میں موجود75 میکرواور مائیکرو نیو نیوٹرینٹس جلدکو صحت مند رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں موجود سیلیسیلک ایسڈ فینولز اور سلفر فنگس بیکٹیریا کی افزائش کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ جلد کی نمی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ایلوویرا جھریوں ، ایکنی داغ دھبوں ، سن برن کومعدوم کرتا ہے اس میں قدرتی طور پر موئسچرائزنگ اور اینٹی ایجنگ خصوصیات موجود ہیں جو جلد کو جوان رکھتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ استعمال جلد کو نمی بخشتا ہے اور اس کا سوکھا پن دور کرتا ہے۔

ایلو ویرا جیل وٹامن ای سے بھرپور ہوتی ہے، اس سے جلد پر ٹھنڈا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے آنکھوں کے گرد ایلو ویرا جیل کا استعمال آنکھوں کی بیماریوں اوران کے گرد سیاہ حلقوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اسے روزانہ رات کو سونے سے پہلے آنکھوں کے گرد لگانا چاہیے۔ ایگزیما اور چنبل کی صورت میں یہ متاثرہ جلد سے سوکھا پن ختم کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ ایلو ویرا جیل میں ایسے مادے ہوتے ہیں جو جلد کی لچک کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔

اس کے استعمال سے چہرے پر جھریاں نہیں پڑتیں اور جلد توانا رہتی ہے۔ ایلوویرا جیل ان تکلیف دہ زخموں کا علاج کرتی ہے جوہونٹوں کے اطراف میں بنتے ہیں۔اس کے علاوہ پلکوں کے بالوں کو گھنا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو نرم اور چمکدار بناتی ہے، یہ ان کی لمبائی میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

ایلو ویرا جیل کا ایک چھوٹا چمچ، تھوڑا سا ارنڈی کا تیل اور وٹامن ای کے دو کیپسول اچھی طرح مکس کر کے رکھ لیں، اس مرکب کو دو ہفتوں تک روزانہ سونے سے پہلے پلکوں پر لگانے سے لمبائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور بارہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے ایلو ویرا جیل کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ لہسن اور پیاز سے الرجی رکھنے والوں کو بھی ایلو ویرا جیل استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بھی سرجری سے قبل بھی ایلو ویرا جیل کے استعمال سے بچنا ضروری ہے۔

اٹلی کی نیپلز یونی ورسٹی یونیورسٹی کی تحقیق اور جریدہ ریڈی ایشن آنکو لوجی اور ڈاکٹرز کے مطابق چھاتی کے کینسر میں استعمال ہونے والی ادویات میں بھی ایلوویرا کا استعمال کیا جاتا ہے ، اس سے تیار شدہ کریمز کو چھاتی کے کینسر میں مفید قرار دیا گیا ۔

اب اتنے فوائد کے بعد پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ نرسری سے گملے سمیت ایک ایلو ویرا کا پودا لائیں ، گھر میں کے لان میں اگائیں ، اس سے استفادہ کریں اور مہنگی بیوٹی کریمز کو خیرباد کہہ دیں۔ یہ مہنگی بیوٹی کریمیں آپ کے حسن کو دوبالا کرنے کے بجائے اسے تباہ کرتی ہیں۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ فطری علاج پر انحصار کریں۔
Load Next Story