معیشت کے لیے مثبت پیش رفت
پاکستان میں مالیاتی اور معاشی بحران کی شدت جس رفتار سے بڑھ رہی تھی، اب اس میں ٹھہراؤ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں
آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ حکومت کے جو معاملات چل رہے تھے ، اس کے حوالے سے اگلے روز ایک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان تقریباً تمام ایشوز پر اتفاق رائے ہوگیا ہے بلکہ میڈیا کے مطابق معاہدہ طے پا گیا ہے ۔
پاکستان میں مالیاتی اور معاشی بحران کی شدت جس رفتار سے بڑھ رہی تھی، اب اس میں ٹھہراؤ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔پہلے ایف اے ٹی ایف اور اب آئی ایم ایف کے حوالے سے مثبت پیش رفت آنے سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہوگی اور عالمی مالیاتی اداروں کا بھی پاکستان کی حکومت پر اعتماد بڑھے گا، ملک کے اندر بھی بے یقینی میں کمی واقع ہوگی۔ حکومت کو سانس لینے کا موقع گیا ہے۔
بہرحال جن امور پر اتفاق کی اطلاعات ملی ہیں ، ان میں کہا گیا کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے۔ جولائی سے پٹرولیم پر مرحلہ وار لیوی ٹیکس لگانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق یہ لیوی ہر ماہ لگائی جائے گی، جولائی میں10 روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی ، اگست سے 5 روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی اور اسے مارچ2023 تک 50روپے فی لٹر کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت بجٹ کا حجم 9.5 ٹریلین سے بڑھا کر 9.9 ٹریلین روپے کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ بات چیت کے آخری دور کے بعد میٖڈیا کو بتایا کہ آئی ایم ایف مالیاتی اہداف پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مشاورت کرے گا۔ حکومت نے سالانہ 150 ملین روپے کمانے والے افراد اور کمپنیوں پر ایک فیصد انکم سپورٹ لیوی، سالانہ 200 ملین روپے آمدن والوں پر 2 فیصد، 250 ملین روپے سالانہ آمدنی والے افراد پر 3 فیصد اضافی اور 300 ملین روپے سالانہ کمانے والوں پر 4 فیصد اضافی شرح عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں وفاقی بجٹ میں حکومت نے صرف 300 ملین روپے سالانہ سے زائد کمانے والوں کے لیے ریونیو کی شرح 2 فیصد تجویز کی تھی جس سے 38 ارب روپے اضافی حاصل ہونا تھے، علاوہ ازیں حکومت کو آئی ایم ایف کے سالانہ ٹیکس استثنیٰ کی حد کو گزشتہ سال کی 6لاکھ روپے کی سطح پر برقرار رکھنے کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔ بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن مفتاح اسماعیل نے منگل کو آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا اور 6لاکھ سے12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ اب بھی اس شرح کا نصف ہے جو اتنی آمدنی والے لوگ اس وقت ادا کر رہے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے طبقے کے انکم ٹیکس درجوں(سلیبز) میں بھی کافی اضافہ کیا جائیگا۔آئی ایم ایف اب مرکزی بینک کے ساتھ مل کر مقامی اثاثوں کے بجائے نیٹ بیرونی اثاثوں،نیٹ انٹرنیشنل ریزروز اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف کوحتمی شکل دے گا۔
وزیرخزانہ نے امید ظاہرکی ہے کہ اب عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے میمورنڈم فاراکنامک اینڈ فنانشنل پالیسیز (MEFP) پیر تک موصول ہوجائے گا۔اگرچہ یہ براڈ ایگریمنٹ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے ناکافی ہے تاہم اس سے زرمبادلہ کی مارکیٹ میں چارماہ سے پھیلی ہوئی بے یقینی کی کیفیت ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے ملکی کرنسی کوبھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاروںکے اعتماد ختم ہونے سے مہنگائی کی لہر آئی ہوئی تھی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کا سلسلہ رک گیا تاہم خاطر خواہ اضافے دیکھنے میں نہیںآیا۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بڑی وجہ بڑھتا ہوا درآمدی بل اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔11 اپریل کوموجودہ مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 30 روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔
اب بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہونے کی خبر کے بعد روپے کی قدر میں بہتری جو بہتری آئی ہے،اسے مزید بہتر ہونا چاہیے ، کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا ملک کی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ جب اس ہفتے کے آخر تک عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے تو پاکستان کے لیے چین اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کے عبوری ریلیف کے دورانیے میں کتنا مالیاتی نظم وضبط اور کنٹرول قائم کرتی ہے اور اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کس حد تک کمی کرتی ہے۔
پاکستان کی سابق حکومت نے جولائی 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 39 ماہ کے 6ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام پر دستخط کیے تھے لیکن عالمی مالیاتی ادارے نے تقریباً 3 ارب ڈالر کی قسط اس وقت روک دی تھی جب سابق حکومت نے اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ایندھن اور توانائی پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا۔سابق حکومت کے پالیسی سازوں اور اکنامک منیجرز نے آئی ایم ایف کی طے شدہ شرائط سے کیوں انحراف کیا۔
ان وجوہات کا پتہ چلنا چاہیے۔پاکستان میں ایک حکمت عملی کے تحت اپنی ناکامیوں، نااہلیوں اور کم فمی کو چھپانے کے لیے امریکا، یورپ،آئی ایم ایف اور بھارت پر الزامات عائد کرتے چلے آئے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی اپنے رکن ملک کو دیوالیہ کرنا چاہتے ہیں نہ بدحال کرنا ان کا موٹو ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ ہر مالیاتی ادارہ کسی رکن ملک کو سرمایہ قرض دینے کے لیے، اس کی آمدنی اور ساکھ کو سامنے رکھتا ہے، اس کے ماضی کے کنڈکٹ کو دیکھا جاتا، یہ دیکھا جاتاہے کہ قرض لینے والا ملک، اس کی قسط ادا کرنے کی قوت رکھتا ہے یا نہیں۔پاکستان میں کمرشل بنکس بھی انھی اصولوں کو اپناتے ہیں۔
اصل خرابی قرض لینے والے ملکوں کی حکومتوں میں ہوتی ہے۔پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن یہاں صوبائی اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کرنے پر کئی ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو لاکھوں میں تنخواہ بھی ملتی، مفت پرتیعش رہائشگاہ ملتی ہے،مہنگی لگثری اور بلٹ پروف گاڑیاں ملتی ہیں، ڈرائیور ملتاہے، گھریلو ملازمین ملتے ہیں ، ان ملازمین کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے ادا ہوتی ہیں۔
سرکاری پیٹرول ، سرکاری گیس اور ٹیلی فون کی سہولت ملتی ہے اور رعب ، ٹہکا اور کروفر مفت میں ملتاہے۔ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر ہاوسز، وزیراعلیٰ ہاؤسزکے اخراجات کروڑوں روپے میں ہیں۔ارکان اسمبلی کی تنخواہیں،مراعات اور ان کے لیے سرکاری رہائش گاہوں کا خرچ بھی کروڑوں میں ہے۔وزراء ، مشیران اور طرح طرح کے معاونین کے اخراجات الگ ہیں۔
اس قسم کے اخراجات ترقی یافتہ ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی حاصل نہیں ہیں۔پاکستان کی رولنگ اشرافیہ نے سرکاری خزانے کو ذات ملکیت کے نظریے کے تحت استعمال کیاہے۔
زمینیں ، گھر مفت الاٹ کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی شاید پاکستان میں ہی ہیں، ایسے اختیارات بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں ہیں۔ غیرممالک کے سربراہان سے ملنے والے تحائف بھی چند افراد کوڑیوں کے مول خرید کر گھر لے جاتے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف توشہ خانے کے مال کا حساب ہی لگائیں تو مالیت کئی ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔اس قسم کا طرز حکومت نو فاتح حکمرانوں، بادشاہوں یا امییریل دور کے غیرملکی حکمرانوں کا ہوتاہے۔
پاکستان کے وسائل اب رولنگ اشرافیہ کے شاہانہ اور غیرترقیاتی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔پاکستان کے وہ طبقات جو ڈائر یکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتے آرہے ہیں، اب ان کی بھی مالی حالت اس قابل نہیں رہی کہ وہ مزید ٹیکس دے سکیں، دیوار پر لکھے ان حقائق کے باوجود حکمران عوام اور ملک دوست پالیسیاں اپنانے سے گریزاں ہیں۔پاکستان کے عوام ایک نہیں کئی سماجی نظاموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا قبائلی اور نیم قبائلی نظام میں پھنسا ہوا ہے جبکہ پورا بلوچستان سرداری اور قبائلی نظام میں گرفتار ہے،کراچی اور حیدرآباد کے سوا پورا سندھ وڈیراشاہی اور گدی نشینوں کے زیر اثر ہے۔پنجاب میں پوری سرائیکی بیلٹ جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور سیاسی گدی نشینوں کے کنٹرول میں ہے، پورے ملک میں صرف کراچی، حیدر آباد، وسطی و شمالی پنجاب کے شہری علاقے ایسے ہیں، جہاں مڈل کلاس اور کاروباری کلاس موجود ہے اور یہی وہ طبقات ہیں جو ٹیکس ادا کررہے ہیں۔
پاکستان میں مالیاتی اور معاشی بحران کی شدت جس رفتار سے بڑھ رہی تھی، اب اس میں ٹھہراؤ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔پہلے ایف اے ٹی ایف اور اب آئی ایم ایف کے حوالے سے مثبت پیش رفت آنے سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہوگی اور عالمی مالیاتی اداروں کا بھی پاکستان کی حکومت پر اعتماد بڑھے گا، ملک کے اندر بھی بے یقینی میں کمی واقع ہوگی۔ حکومت کو سانس لینے کا موقع گیا ہے۔
بہرحال جن امور پر اتفاق کی اطلاعات ملی ہیں ، ان میں کہا گیا کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے۔ جولائی سے پٹرولیم پر مرحلہ وار لیوی ٹیکس لگانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق یہ لیوی ہر ماہ لگائی جائے گی، جولائی میں10 روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی ، اگست سے 5 روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی اور اسے مارچ2023 تک 50روپے فی لٹر کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت بجٹ کا حجم 9.5 ٹریلین سے بڑھا کر 9.9 ٹریلین روپے کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ بات چیت کے آخری دور کے بعد میٖڈیا کو بتایا کہ آئی ایم ایف مالیاتی اہداف پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مشاورت کرے گا۔ حکومت نے سالانہ 150 ملین روپے کمانے والے افراد اور کمپنیوں پر ایک فیصد انکم سپورٹ لیوی، سالانہ 200 ملین روپے آمدن والوں پر 2 فیصد، 250 ملین روپے سالانہ آمدنی والے افراد پر 3 فیصد اضافی اور 300 ملین روپے سالانہ کمانے والوں پر 4 فیصد اضافی شرح عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں وفاقی بجٹ میں حکومت نے صرف 300 ملین روپے سالانہ سے زائد کمانے والوں کے لیے ریونیو کی شرح 2 فیصد تجویز کی تھی جس سے 38 ارب روپے اضافی حاصل ہونا تھے، علاوہ ازیں حکومت کو آئی ایم ایف کے سالانہ ٹیکس استثنیٰ کی حد کو گزشتہ سال کی 6لاکھ روپے کی سطح پر برقرار رکھنے کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔ بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن مفتاح اسماعیل نے منگل کو آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا اور 6لاکھ سے12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ اب بھی اس شرح کا نصف ہے جو اتنی آمدنی والے لوگ اس وقت ادا کر رہے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے طبقے کے انکم ٹیکس درجوں(سلیبز) میں بھی کافی اضافہ کیا جائیگا۔آئی ایم ایف اب مرکزی بینک کے ساتھ مل کر مقامی اثاثوں کے بجائے نیٹ بیرونی اثاثوں،نیٹ انٹرنیشنل ریزروز اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف کوحتمی شکل دے گا۔
وزیرخزانہ نے امید ظاہرکی ہے کہ اب عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے میمورنڈم فاراکنامک اینڈ فنانشنل پالیسیز (MEFP) پیر تک موصول ہوجائے گا۔اگرچہ یہ براڈ ایگریمنٹ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے ناکافی ہے تاہم اس سے زرمبادلہ کی مارکیٹ میں چارماہ سے پھیلی ہوئی بے یقینی کی کیفیت ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے ملکی کرنسی کوبھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاروںکے اعتماد ختم ہونے سے مہنگائی کی لہر آئی ہوئی تھی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کا سلسلہ رک گیا تاہم خاطر خواہ اضافے دیکھنے میں نہیںآیا۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بڑی وجہ بڑھتا ہوا درآمدی بل اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔11 اپریل کوموجودہ مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 30 روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔
اب بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہونے کی خبر کے بعد روپے کی قدر میں بہتری جو بہتری آئی ہے،اسے مزید بہتر ہونا چاہیے ، کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانا ملک کی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ جب اس ہفتے کے آخر تک عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے تو پاکستان کے لیے چین اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کے عبوری ریلیف کے دورانیے میں کتنا مالیاتی نظم وضبط اور کنٹرول قائم کرتی ہے اور اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کس حد تک کمی کرتی ہے۔
پاکستان کی سابق حکومت نے جولائی 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 39 ماہ کے 6ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام پر دستخط کیے تھے لیکن عالمی مالیاتی ادارے نے تقریباً 3 ارب ڈالر کی قسط اس وقت روک دی تھی جب سابق حکومت نے اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ایندھن اور توانائی پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا۔سابق حکومت کے پالیسی سازوں اور اکنامک منیجرز نے آئی ایم ایف کی طے شدہ شرائط سے کیوں انحراف کیا۔
ان وجوہات کا پتہ چلنا چاہیے۔پاکستان میں ایک حکمت عملی کے تحت اپنی ناکامیوں، نااہلیوں اور کم فمی کو چھپانے کے لیے امریکا، یورپ،آئی ایم ایف اور بھارت پر الزامات عائد کرتے چلے آئے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی اپنے رکن ملک کو دیوالیہ کرنا چاہتے ہیں نہ بدحال کرنا ان کا موٹو ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ ہر مالیاتی ادارہ کسی رکن ملک کو سرمایہ قرض دینے کے لیے، اس کی آمدنی اور ساکھ کو سامنے رکھتا ہے، اس کے ماضی کے کنڈکٹ کو دیکھا جاتا، یہ دیکھا جاتاہے کہ قرض لینے والا ملک، اس کی قسط ادا کرنے کی قوت رکھتا ہے یا نہیں۔پاکستان میں کمرشل بنکس بھی انھی اصولوں کو اپناتے ہیں۔
اصل خرابی قرض لینے والے ملکوں کی حکومتوں میں ہوتی ہے۔پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن یہاں صوبائی اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کرنے پر کئی ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو لاکھوں میں تنخواہ بھی ملتی، مفت پرتیعش رہائشگاہ ملتی ہے،مہنگی لگثری اور بلٹ پروف گاڑیاں ملتی ہیں، ڈرائیور ملتاہے، گھریلو ملازمین ملتے ہیں ، ان ملازمین کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے ادا ہوتی ہیں۔
سرکاری پیٹرول ، سرکاری گیس اور ٹیلی فون کی سہولت ملتی ہے اور رعب ، ٹہکا اور کروفر مفت میں ملتاہے۔ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر ہاوسز، وزیراعلیٰ ہاؤسزکے اخراجات کروڑوں روپے میں ہیں۔ارکان اسمبلی کی تنخواہیں،مراعات اور ان کے لیے سرکاری رہائش گاہوں کا خرچ بھی کروڑوں میں ہے۔وزراء ، مشیران اور طرح طرح کے معاونین کے اخراجات الگ ہیں۔
اس قسم کے اخراجات ترقی یافتہ ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی حاصل نہیں ہیں۔پاکستان کی رولنگ اشرافیہ نے سرکاری خزانے کو ذات ملکیت کے نظریے کے تحت استعمال کیاہے۔
زمینیں ، گھر مفت الاٹ کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی شاید پاکستان میں ہی ہیں، ایسے اختیارات بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں ہیں۔ غیرممالک کے سربراہان سے ملنے والے تحائف بھی چند افراد کوڑیوں کے مول خرید کر گھر لے جاتے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف توشہ خانے کے مال کا حساب ہی لگائیں تو مالیت کئی ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔اس قسم کا طرز حکومت نو فاتح حکمرانوں، بادشاہوں یا امییریل دور کے غیرملکی حکمرانوں کا ہوتاہے۔
پاکستان کے وسائل اب رولنگ اشرافیہ کے شاہانہ اور غیرترقیاتی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔پاکستان کے وہ طبقات جو ڈائر یکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتے آرہے ہیں، اب ان کی بھی مالی حالت اس قابل نہیں رہی کہ وہ مزید ٹیکس دے سکیں، دیوار پر لکھے ان حقائق کے باوجود حکمران عوام اور ملک دوست پالیسیاں اپنانے سے گریزاں ہیں۔پاکستان کے عوام ایک نہیں کئی سماجی نظاموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا قبائلی اور نیم قبائلی نظام میں پھنسا ہوا ہے جبکہ پورا بلوچستان سرداری اور قبائلی نظام میں گرفتار ہے،کراچی اور حیدرآباد کے سوا پورا سندھ وڈیراشاہی اور گدی نشینوں کے زیر اثر ہے۔پنجاب میں پوری سرائیکی بیلٹ جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور سیاسی گدی نشینوں کے کنٹرول میں ہے، پورے ملک میں صرف کراچی، حیدر آباد، وسطی و شمالی پنجاب کے شہری علاقے ایسے ہیں، جہاں مڈل کلاس اور کاروباری کلاس موجود ہے اور یہی وہ طبقات ہیں جو ٹیکس ادا کررہے ہیں۔