سیاسی جدوجہد میں ہار جیت
کسی ایک نے ہارنا اورکسی دوسرے نے جیتنا ہوتا ہے اور اسے ہی جمہوریت کہا جاتا ہے
سابق وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی جدوجہد میں ہار نہ ماننے کو اہم قرار دے دیا ہے اور اپنے کارکنوں کو ہدایت کردی ہے کہ کارکن تیار رہیں مجھے جیل ہونے پر بھی انھیں آزادی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹنا، جبکہ وکلا سے خطاب میں کہا کہ حکومت مخالف تحریک میں وکلا کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، عرب ممالک کی طرح شدید احتجاج کیا جائے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے جس کے ذمے دار موجودہ حکمران ہیں۔
سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں ہار جیت کا دنیا بھر میں اصول طے ہے کسی ایک نے ہارنا اورکسی دوسرے نے جیتنا ہوتا ہے اور اسے ہی جمہوریت کہا جاتا ہے مگر جمہوریت مسلمہ اصولوں کے تحت ہوتی ہے اور یکطرفہ اور من پسند جمہوریت کوکوئی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے آمریت قرار دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی بنیاد اور نرسری کہا جاتا ہے جہاں مقامی حکومتیں بلدیاتی عہدیداروں سے ہی قائم ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں اور بعد میں مقامی حکومتوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والے میئروں کو ہی ملک کا حکمران بننے کا موقعہ ملتا ہے۔ دنیا میں بے شمار مثالیں ہیں کہ چھوٹے بڑے شہروں کے کامیاب میئر اپنے ملک کے صدر اور وزیر اعظم بنے اور انھوں نے اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد میں ہار جیت کا سامنا کیا۔
وہ کبھی ناکام رہے ، کبھی کامیاب ہوئے اور انھوں نے اپنی ہار کو بھی جیت کی طرح تسلیم کیا اور ہار جیت ان کے مستقبل کی علامت رہی۔سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک کو 1973 میں جو متفقہ آئین ملا تھا وہ اگرچہ برقرار رہے گا ، اس میں ترامیم بھی کی جاسکیں گی اور جمہوریت کی بقا کے لیے آئین کا برقرار رہنا اشد ضروری ہے۔
آئین پر عمل سے ہی جمہوریت قائم رہتی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ضرورت کے تحت آئین میں ترامیم بھی ہوتی رہتی ہیں۔ آئین کو ہر ملک میں جمہوریت کی علامت قرار دیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ آئین متفقہ اور جمہوری ہو اور آئین پر عمل ہی جمہوریت ہے اور آئین کے احترام سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے۔ آئین معطل ہو جائے یا اس کا احترام ختم ہو جائے تو وہاں جمہوریت ختم ہو جاتی ہے یا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ملک کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا تھا جس کی اگلے سال گولڈن جوبلی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جو اگر قائم رہا۔ یہ ملک کا پہلا آئین ہے جو ملک میں 49 سال سے رائج ہے مگر ان 49 سالوں میں دو بار طویل عرصے کی غیر جمہوری حکومتیں بھی رہیں جنھوں نے اس آئین کو اپنی ضرورت کے لیے معطل بھی رکھا اور کبھی استعمال بھی کیا اور جمہوری حکومتوں میں یہ آئین مکمل بحال رہا۔
1973 کے آئین میں ملک کے ہر ادارے کی حدود اور قیود مقرر ہیں مگر بدقسمتی سے دو بڑے طاقتور اداروں نے آئین کو اپنی طاقت کے باعث کنٹرول میں رکھا اور ضرورت کے مطابق ہمیشہ استعمال کیا مگر اچھا یہ ہوا کہ غیر سول ادوار میں بھی آئین مکمل یا اس میں سے کچھ مواد معطل رکھا گیا، آئین کو 1956 کے آئین کے تحت ختم نہیں کیا گیا البتہ پارلیمانی نظام کو صدارتی طور پر ضرور برقرار رکھا اور تمام حکومتوں نے اس میں ترامیم ضرور کیں۔
آئین پر عمل سے کسی کی ہار جیت نہیں ہوتی سیاست اور کھیلوں کا بھی یہی عالمی اصول ہے اور دونوں میں ہار جیت ہوتی ہی ہے۔ پاکستان کو پہلی بار دنیائے کھیل کی عالمی اور مشہور شخصیت عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا۔
ان کی پارلیمانی کامیابی کو اس وقت کی اپوزیشن نے تسلیم نہیں کیا تھا اور دھاندلی قرار دیا تھا جس کے جواب میں ساڑھے تین سال بعد جب عمران خان کو آئین کے مطابق ہٹایا گیا تو انھوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور امریکی سازش قرار دے دیا تھا حالانکہ ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پیش کی گئی تھی اور عمران خان کے بقول انھیں کئی ماہ قبل ہی تحریک پیش کیے جانے کا علم ہو گیا تھا مگر انھیں تحریک کی کامیابی کا یقین نہیں تھا اسی لیے انھوں نے تحریک سے بچنے کی وہ کوشش نہیں کی۔
ماضی میں حکومتوں کے خلاف تین بار تحریک عدم اعتماد آئیں اور دو ناکام اور ایک کامیاب ہوئی جو تسلیم کی گئیں اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تسلیم نہیں کی اور ووٹنگ رکوانے کے لیے اپنے اسپیکروں سے غیر قانونی فیصلے کرائے مگر اپنے ہی اتحادیوں کی علیحدگی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنی مگر عمران خان نے یہ بات بھی اب تک تسلیم نہیں کی کہ ان کی حکومت کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے چھوڑ جانے کے باعث ختم ہوئی ہے۔
عمران خان نواز شریف پر اپنے امپائروں کو ساتھ ملانے کا الزام لگایا کرتے تھے اور اس وقت کی اپوزیشن کا کہنا تھا انھیں بالاتر اقتدار میں لائے تھے جن کے غیر جانبدار ہو جانے سے تحریک کامیاب ہوئی۔ عمران خان اپنی اس سیاسی اور جمہوری ہار کو تسلیم نہیں کر رہے جس سے ملک میں سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے ، اگر کھلاڑی عمران خان اپنی سیاسی شکست کو تسلیم کر لیں تو سیاسی انتشار ختم ہو سکتا ہے۔
سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں ہار جیت کا دنیا بھر میں اصول طے ہے کسی ایک نے ہارنا اورکسی دوسرے نے جیتنا ہوتا ہے اور اسے ہی جمہوریت کہا جاتا ہے مگر جمہوریت مسلمہ اصولوں کے تحت ہوتی ہے اور یکطرفہ اور من پسند جمہوریت کوکوئی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے آمریت قرار دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی بنیاد اور نرسری کہا جاتا ہے جہاں مقامی حکومتیں بلدیاتی عہدیداروں سے ہی قائم ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں اور بعد میں مقامی حکومتوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والے میئروں کو ہی ملک کا حکمران بننے کا موقعہ ملتا ہے۔ دنیا میں بے شمار مثالیں ہیں کہ چھوٹے بڑے شہروں کے کامیاب میئر اپنے ملک کے صدر اور وزیر اعظم بنے اور انھوں نے اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد میں ہار جیت کا سامنا کیا۔
وہ کبھی ناکام رہے ، کبھی کامیاب ہوئے اور انھوں نے اپنی ہار کو بھی جیت کی طرح تسلیم کیا اور ہار جیت ان کے مستقبل کی علامت رہی۔سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک کو 1973 میں جو متفقہ آئین ملا تھا وہ اگرچہ برقرار رہے گا ، اس میں ترامیم بھی کی جاسکیں گی اور جمہوریت کی بقا کے لیے آئین کا برقرار رہنا اشد ضروری ہے۔
آئین پر عمل سے ہی جمہوریت قائم رہتی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ضرورت کے تحت آئین میں ترامیم بھی ہوتی رہتی ہیں۔ آئین کو ہر ملک میں جمہوریت کی علامت قرار دیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ آئین متفقہ اور جمہوری ہو اور آئین پر عمل ہی جمہوریت ہے اور آئین کے احترام سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے۔ آئین معطل ہو جائے یا اس کا احترام ختم ہو جائے تو وہاں جمہوریت ختم ہو جاتی ہے یا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ملک کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا تھا جس کی اگلے سال گولڈن جوبلی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جو اگر قائم رہا۔ یہ ملک کا پہلا آئین ہے جو ملک میں 49 سال سے رائج ہے مگر ان 49 سالوں میں دو بار طویل عرصے کی غیر جمہوری حکومتیں بھی رہیں جنھوں نے اس آئین کو اپنی ضرورت کے لیے معطل بھی رکھا اور کبھی استعمال بھی کیا اور جمہوری حکومتوں میں یہ آئین مکمل بحال رہا۔
1973 کے آئین میں ملک کے ہر ادارے کی حدود اور قیود مقرر ہیں مگر بدقسمتی سے دو بڑے طاقتور اداروں نے آئین کو اپنی طاقت کے باعث کنٹرول میں رکھا اور ضرورت کے مطابق ہمیشہ استعمال کیا مگر اچھا یہ ہوا کہ غیر سول ادوار میں بھی آئین مکمل یا اس میں سے کچھ مواد معطل رکھا گیا، آئین کو 1956 کے آئین کے تحت ختم نہیں کیا گیا البتہ پارلیمانی نظام کو صدارتی طور پر ضرور برقرار رکھا اور تمام حکومتوں نے اس میں ترامیم ضرور کیں۔
آئین پر عمل سے کسی کی ہار جیت نہیں ہوتی سیاست اور کھیلوں کا بھی یہی عالمی اصول ہے اور دونوں میں ہار جیت ہوتی ہی ہے۔ پاکستان کو پہلی بار دنیائے کھیل کی عالمی اور مشہور شخصیت عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا۔
ان کی پارلیمانی کامیابی کو اس وقت کی اپوزیشن نے تسلیم نہیں کیا تھا اور دھاندلی قرار دیا تھا جس کے جواب میں ساڑھے تین سال بعد جب عمران خان کو آئین کے مطابق ہٹایا گیا تو انھوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور امریکی سازش قرار دے دیا تھا حالانکہ ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پیش کی گئی تھی اور عمران خان کے بقول انھیں کئی ماہ قبل ہی تحریک پیش کیے جانے کا علم ہو گیا تھا مگر انھیں تحریک کی کامیابی کا یقین نہیں تھا اسی لیے انھوں نے تحریک سے بچنے کی وہ کوشش نہیں کی۔
ماضی میں حکومتوں کے خلاف تین بار تحریک عدم اعتماد آئیں اور دو ناکام اور ایک کامیاب ہوئی جو تسلیم کی گئیں اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تسلیم نہیں کی اور ووٹنگ رکوانے کے لیے اپنے اسپیکروں سے غیر قانونی فیصلے کرائے مگر اپنے ہی اتحادیوں کی علیحدگی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنی مگر عمران خان نے یہ بات بھی اب تک تسلیم نہیں کی کہ ان کی حکومت کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے چھوڑ جانے کے باعث ختم ہوئی ہے۔
عمران خان نواز شریف پر اپنے امپائروں کو ساتھ ملانے کا الزام لگایا کرتے تھے اور اس وقت کی اپوزیشن کا کہنا تھا انھیں بالاتر اقتدار میں لائے تھے جن کے غیر جانبدار ہو جانے سے تحریک کامیاب ہوئی۔ عمران خان اپنی اس سیاسی اور جمہوری ہار کو تسلیم نہیں کر رہے جس سے ملک میں سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے ، اگر کھلاڑی عمران خان اپنی سیاسی شکست کو تسلیم کر لیں تو سیاسی انتشار ختم ہو سکتا ہے۔