نصابِ تعلیم اور ہماری ضروریات
ہمیں نصاب تعلیم کو قومی امنگوں اور ضروریات کے مطابق کم از کم اپنی قومی زبان میں بنانا ہوگا
گزشتہ سال خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں تعلیمی نصاب کی تجرباتی کتب اسکولوں کو فراہم کی گئیں۔ جو کہ تعلیمی سال 2020 تا 2021 کےلیے مرتب کی گئی تھیں۔ نصابِ تعلیم کو قومی امنگوں کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کےلیے کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس میں خاطرخواہ کوشش کی گئی تھی کہ طلبا کےلیے وہ مطلوبہ مواد شامل کیا جائے جس سے طلبا کو فائدہ ہو۔
تعلیمی سال 2020 تا 2021 میں یہ نصاب نافذ رہا۔ نصابی کتب پر واضح لکھا تھا ٹیسٹ ایڈیشن۔ چونکہ یہ نیا تجرباتی ایڈیشن تھا تو اس کےلیے محکمہ تعلیم نے اسسمنٹ ٹیسٹ کا بھی پروگرام بنایا تھا کہ سال کے آخر میں اسسمنٹ ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ بچوں کی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا یہ نصاب ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ہے یا نہیں۔ مگر چند وجوہ کی بنیاد پر یہ ٹیسٹ نہ لیا جاسکا۔
یہ ایڈیشن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بچوں کی ذہنی استعداد سے بہت اوپر تھا۔ خاص کر پرائمری لیول پر تو نصاب بہت مشکل تھا۔ جس میں جنرل سائنس اور انگریزی زیادہ مشکل تھی، جس میں اکثر اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر اسباق میں کمپاؤنڈ جملوں کا استعمال کیا گیا تھا جو پانچویں، چوتھی اور تیسری جماعت کے بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق نہیں تھے۔ سائنس میں تو پانچویں جماعت میں آٹھویں اور نویں جماعت کی بائیولوجی کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ نصاب کافی عرصے سے بچوں کےلیے مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔
ہر آنے والی حکومت بچوں کے نصاب پر تجربے کرتی ہے، مگر اس نصاب کے مطابق سہولتیں دینے سے قاصر رہتی ہے۔ چونکہ پرائمری لیول پر نہ تو سائنس کی لیب ہوتی ہے اور نہ کوئی اور سہولت تو پانچویں اور چوتھی حتیٰ کہ دوسری ور پہلی جماعت کے جنرل نالج میں ساتویں اور چھٹی جماعت کی تھیوری شامل کرکے صرف بچوں کو یا تو کنفیوز کیا جاسکتا ہے یا اس کو صرف رٹا لگانے والا بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کبھی بھی تعلیمی نصاب بچوں کی ضروریات اور دستیاب وسائل کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا۔ اسکولوں میں بیٹھنے کےلیے ٹاٹ تک نہیں ہوتے مگر ہم نصاب آکسفورڈ اور یورپ و امریکی اسکولوں کا بناتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جنرل سائنس یا جنرل نالج جو کہ دوسری، تیسری، چوتھی یا پانچویں جماعت کےلیے بنائی جاتی ہو وہ انگریزی میں ہو؟ کیا اس کو قومی زبان میں پڑھانا زیادہ مناسب نہ ہوگا؟ اگر سائنس کے تصورات کو بچوں تک منتقل کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کو قومی یا مادری زبان میں منتقل کیا جائے تاکہ بچوں کا دگنا وقت خرچ نہ ہو۔ چونکہ پاکستان میں ستر فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور زیادہ تر والدین اَن پڑھ یا بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کے بچے بھی درمیانی درجہ کے قابلیت والے ہوتے ہیں تو ایسا کرنا ان کو مشکل ترین نصاب کی وجہ سے تعلیم سے مزید دور رکھنے کے مترادف ہے۔
ہمارے اعلیٰ افسران اور عہدیداران اکثر بیرون ملک دوروں اور تعلیمی سیمیناروں میں جو کچھ دیکھتے ہیں تو اس کا اطلاق یہاں بھی کرتے ہیں۔ یہ ان ممالک کا تقابل پاکستان سے کرتے ہیں جن سے ہم تعلیم کےلیے چندہ مانگتے ہیں۔ اگر ہمارے اعلیٰ افسران جرمنی جاکر کسی تعلیمی سیمینار یا کسی ادارے کا دورہ کرکے دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیا چیز پڑھائی جارہی ہے تو وہ پاکستان آکر اسی چیز کو نصاب میں شامل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان اب تک اپنے تعلیمی نصاب کا تعین ہی نہیں کرسکا، نہ اس کو قومی امنگوں کے مطابق بنایا گیا، نہ طلبا کی ذہنی استعداد کے مطابق۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں کے بچے بھی کسی طور پر یورپ یا امریکی بچوں سے کم نہیں مگر یہاں بچوں کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو دوسرے ممالک میں بچوں کو میسر ہوتی ہیں۔ یہاں اکثر دیہات کے بچے 5 ، 10 کلومیٹر پیدل چل کر اسکول پہنچتے ہیں اور پھر وہاں اسکولوں میں نہ ہی بجلی کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی دیگر سہولتوں کا، جس کی وجہ سے بچے گرمی سے بے حال ہوتے ہیں اور سردی میں ٹھٹھرتے ہیں۔ جبکہ دیہات کے اسکولوں میں اکثر پینے کے پانی تک کا بندوبست نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں ہر طرف الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارا ملک زرعی ہے، جبکہ یہاں پر چند زرعی یونیورسٹیاں ہیں اور اس میں بھی اکثر اکنامکس کے طلبا پڑھتے ہیں یا کمپیوٹر سائنس کے طلبا پڑھتے ہیں۔ یہاں پر طلبا بھی زراعت کے متعلق پڑھنا اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں۔ پشاور میں زرعی یونیورسٹی ہے جس میں 80 فیصد طلبا دوسرے شعبوں کے ہیں۔ اگر زرعی یونیورسٹی ہے تو اس میں صرف زراعت کی تعلیم ہونی چاہیے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر کے جی کلاس سے لے کر ایم اے تک کوئی بھی زرعی مضمون شامل نصاب نہیں ہے۔
ہم ان چیزوں کا علم حاصل کررہے ہیں جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً ہائی اسکولوں میں ڈرائنگ ماسٹر ضرور ہوتا ہے مگر اب تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، نہ نصابی کتب میں ڈرائنگ کے متعلق کوئی کتاب شامل ہوتی ہے۔ ایک ورک بک ہوتی ہے جس میں طلبا سارا سال ایک بینگن یا سیب بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب تک وہ بھی نہ سیکھ سکے۔ جب کہ قرأت کے قاری کی بھی ایک پوسٹ ہر ہائی اور مڈل اسکول میں ہوتی ہے، جس نے اب تک بچوں کو کلمہ تک پڑھانا نہیں سکھایا۔ ایک عربک ٹیچر بھی ہوتا ہے جو بچوں کو عربی سکھاتا ہے، مگر ایم اے تک کوئی بھی بچہ عربی نہیں سیکھ پاتا۔ مگر جو اہم شعبہ ہے اس کا نہ کوئی استاد ہے نہ کوئی مضمون۔ ہم ابھی تک کچی جماعت سے لے کر دسویں تک وہی رٹے رٹائے مضامین پڑھتے ہیں، مگر فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ ہم بچوں کو کہتے ہیں پائلٹ بننا ہے، ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے مگر ہم کسی کو بھی زمیندار یا کسان بنانے کی بات نہیں کرتے۔ کسی کو ہنرمند بنانے کی بات نہیں کرتے۔ جس کی ساری وجہ نصاب تعلیم میں ان شعبوں کی عدم شمولیت ہے۔
ہمارا نصاب صرف طوطے پیدا کررہا ہے۔ میٹرک تک ہم نہ انگریزی سیکھ پاتے ہیں نہ اردو۔ بلکہ ان دو کے درمیان ہم کچومر بن جاتے ہیں۔ چونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے مگر یہ کسی علاقے میں علاقائی سطح پر نہیں بولی جاتی تو اس وجہ سے اسکولوں میں انگریزی سے اردو اور پھر اردو سے اپنی مادری زبان میں ترجمہ کرکے بچوں کو سمجھاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہم بیک وقت تین زبانیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کا سب سے اہم مقصد بچوں کو کچھ سکھانا نہیں بلکہ انگریزی سکھانا ہوتا ہے اور بچوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ انگریزی سیکھ سکیں۔ ہم نے انگریزی زبان کو اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے جس کی وجہ سے بعض ذہین طلبا اس وجہ سے تعلیمی زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں کہ وہ انگریزی سیکھنے کی صلاحیت میں کمزور واقع ہوتے ہیں۔
ہمیں نصاب تعلیم کو قومی امنگوں اور ضروریات کے مطابق کم از کم اپنی قومی زبان میں بنانا ہوگا اور انگریزی کو ثانوی حیثیت دینا ہوگی۔ تاکہ ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ پہلے اردو کی پرنٹنگ کا مسئلہ ہوتا ہے مگر اب تو کمپیوٹر نے وہ بھی حل کردیا ہے تو اب ہمیں اپنی دفتری زبان بھی اردو کردینی چاہیے تاکہ انگریزی زبان کی دوڑ کچھ کم ہوسکے۔ مقامی زبانوں کو بھی ترویج دینا ہوگی۔ بلاضرورت مضامین کو خارج کرکے اس کی جگہ زرعی اور تکنیکی مضامین شامل کرنا ہوں گے اور اسکولوں میں بھی تکنیکی سہولیات دینا ضروری ہیں۔ اسکولوں میں کمپیوٹرز اور ساتھ میں پروجیکٹرز لازمی دینے چاہئیں تاکہ نصاب میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے خصوصاً سائنسی مضامین اس کو پروجیکٹرز پر دکھا کر بچوں کو مطمئن کیا جاسکے۔ اور ان کو صرف طوطا نہ بنایا جائے بلکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے۔ صرف کہانیاں سنانے کا دور گزر چکا ہے۔ نصاب کو مربوط کرنا ہوگا۔ سائنس کو انگریزی میں مدغم کریں، معاشرتی علوم کو اردو میں مدغم کریں تاکہ بچوں کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوں اور ان کے بستوں پر بوجھ بھی کم ہو۔ ورنہ ہم ہر سال صرف ڈگری ہولڈرز ہی پیدا کریں گے اور زراعت اور انڈسٹری اَن پڑھ لوگ چلائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تعلیمی سال 2020 تا 2021 میں یہ نصاب نافذ رہا۔ نصابی کتب پر واضح لکھا تھا ٹیسٹ ایڈیشن۔ چونکہ یہ نیا تجرباتی ایڈیشن تھا تو اس کےلیے محکمہ تعلیم نے اسسمنٹ ٹیسٹ کا بھی پروگرام بنایا تھا کہ سال کے آخر میں اسسمنٹ ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ بچوں کی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا یہ نصاب ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ہے یا نہیں۔ مگر چند وجوہ کی بنیاد پر یہ ٹیسٹ نہ لیا جاسکا۔
یہ ایڈیشن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بچوں کی ذہنی استعداد سے بہت اوپر تھا۔ خاص کر پرائمری لیول پر تو نصاب بہت مشکل تھا۔ جس میں جنرل سائنس اور انگریزی زیادہ مشکل تھی، جس میں اکثر اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر اسباق میں کمپاؤنڈ جملوں کا استعمال کیا گیا تھا جو پانچویں، چوتھی اور تیسری جماعت کے بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق نہیں تھے۔ سائنس میں تو پانچویں جماعت میں آٹھویں اور نویں جماعت کی بائیولوجی کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ نصاب کافی عرصے سے بچوں کےلیے مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔
ہر آنے والی حکومت بچوں کے نصاب پر تجربے کرتی ہے، مگر اس نصاب کے مطابق سہولتیں دینے سے قاصر رہتی ہے۔ چونکہ پرائمری لیول پر نہ تو سائنس کی لیب ہوتی ہے اور نہ کوئی اور سہولت تو پانچویں اور چوتھی حتیٰ کہ دوسری ور پہلی جماعت کے جنرل نالج میں ساتویں اور چھٹی جماعت کی تھیوری شامل کرکے صرف بچوں کو یا تو کنفیوز کیا جاسکتا ہے یا اس کو صرف رٹا لگانے والا بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کبھی بھی تعلیمی نصاب بچوں کی ضروریات اور دستیاب وسائل کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا۔ اسکولوں میں بیٹھنے کےلیے ٹاٹ تک نہیں ہوتے مگر ہم نصاب آکسفورڈ اور یورپ و امریکی اسکولوں کا بناتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جنرل سائنس یا جنرل نالج جو کہ دوسری، تیسری، چوتھی یا پانچویں جماعت کےلیے بنائی جاتی ہو وہ انگریزی میں ہو؟ کیا اس کو قومی زبان میں پڑھانا زیادہ مناسب نہ ہوگا؟ اگر سائنس کے تصورات کو بچوں تک منتقل کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کو قومی یا مادری زبان میں منتقل کیا جائے تاکہ بچوں کا دگنا وقت خرچ نہ ہو۔ چونکہ پاکستان میں ستر فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور زیادہ تر والدین اَن پڑھ یا بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کے بچے بھی درمیانی درجہ کے قابلیت والے ہوتے ہیں تو ایسا کرنا ان کو مشکل ترین نصاب کی وجہ سے تعلیم سے مزید دور رکھنے کے مترادف ہے۔
ہمارے اعلیٰ افسران اور عہدیداران اکثر بیرون ملک دوروں اور تعلیمی سیمیناروں میں جو کچھ دیکھتے ہیں تو اس کا اطلاق یہاں بھی کرتے ہیں۔ یہ ان ممالک کا تقابل پاکستان سے کرتے ہیں جن سے ہم تعلیم کےلیے چندہ مانگتے ہیں۔ اگر ہمارے اعلیٰ افسران جرمنی جاکر کسی تعلیمی سیمینار یا کسی ادارے کا دورہ کرکے دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیا چیز پڑھائی جارہی ہے تو وہ پاکستان آکر اسی چیز کو نصاب میں شامل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان اب تک اپنے تعلیمی نصاب کا تعین ہی نہیں کرسکا، نہ اس کو قومی امنگوں کے مطابق بنایا گیا، نہ طلبا کی ذہنی استعداد کے مطابق۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں کے بچے بھی کسی طور پر یورپ یا امریکی بچوں سے کم نہیں مگر یہاں بچوں کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو دوسرے ممالک میں بچوں کو میسر ہوتی ہیں۔ یہاں اکثر دیہات کے بچے 5 ، 10 کلومیٹر پیدل چل کر اسکول پہنچتے ہیں اور پھر وہاں اسکولوں میں نہ ہی بجلی کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی دیگر سہولتوں کا، جس کی وجہ سے بچے گرمی سے بے حال ہوتے ہیں اور سردی میں ٹھٹھرتے ہیں۔ جبکہ دیہات کے اسکولوں میں اکثر پینے کے پانی تک کا بندوبست نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں ہر طرف الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارا ملک زرعی ہے، جبکہ یہاں پر چند زرعی یونیورسٹیاں ہیں اور اس میں بھی اکثر اکنامکس کے طلبا پڑھتے ہیں یا کمپیوٹر سائنس کے طلبا پڑھتے ہیں۔ یہاں پر طلبا بھی زراعت کے متعلق پڑھنا اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں۔ پشاور میں زرعی یونیورسٹی ہے جس میں 80 فیصد طلبا دوسرے شعبوں کے ہیں۔ اگر زرعی یونیورسٹی ہے تو اس میں صرف زراعت کی تعلیم ہونی چاہیے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر کے جی کلاس سے لے کر ایم اے تک کوئی بھی زرعی مضمون شامل نصاب نہیں ہے۔
ہم ان چیزوں کا علم حاصل کررہے ہیں جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً ہائی اسکولوں میں ڈرائنگ ماسٹر ضرور ہوتا ہے مگر اب تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، نہ نصابی کتب میں ڈرائنگ کے متعلق کوئی کتاب شامل ہوتی ہے۔ ایک ورک بک ہوتی ہے جس میں طلبا سارا سال ایک بینگن یا سیب بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب تک وہ بھی نہ سیکھ سکے۔ جب کہ قرأت کے قاری کی بھی ایک پوسٹ ہر ہائی اور مڈل اسکول میں ہوتی ہے، جس نے اب تک بچوں کو کلمہ تک پڑھانا نہیں سکھایا۔ ایک عربک ٹیچر بھی ہوتا ہے جو بچوں کو عربی سکھاتا ہے، مگر ایم اے تک کوئی بھی بچہ عربی نہیں سیکھ پاتا۔ مگر جو اہم شعبہ ہے اس کا نہ کوئی استاد ہے نہ کوئی مضمون۔ ہم ابھی تک کچی جماعت سے لے کر دسویں تک وہی رٹے رٹائے مضامین پڑھتے ہیں، مگر فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ ہم بچوں کو کہتے ہیں پائلٹ بننا ہے، ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے مگر ہم کسی کو بھی زمیندار یا کسان بنانے کی بات نہیں کرتے۔ کسی کو ہنرمند بنانے کی بات نہیں کرتے۔ جس کی ساری وجہ نصاب تعلیم میں ان شعبوں کی عدم شمولیت ہے۔
ہمارا نصاب صرف طوطے پیدا کررہا ہے۔ میٹرک تک ہم نہ انگریزی سیکھ پاتے ہیں نہ اردو۔ بلکہ ان دو کے درمیان ہم کچومر بن جاتے ہیں۔ چونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے مگر یہ کسی علاقے میں علاقائی سطح پر نہیں بولی جاتی تو اس وجہ سے اسکولوں میں انگریزی سے اردو اور پھر اردو سے اپنی مادری زبان میں ترجمہ کرکے بچوں کو سمجھاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہم بیک وقت تین زبانیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کا سب سے اہم مقصد بچوں کو کچھ سکھانا نہیں بلکہ انگریزی سکھانا ہوتا ہے اور بچوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ انگریزی سیکھ سکیں۔ ہم نے انگریزی زبان کو اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے جس کی وجہ سے بعض ذہین طلبا اس وجہ سے تعلیمی زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں کہ وہ انگریزی سیکھنے کی صلاحیت میں کمزور واقع ہوتے ہیں۔
ہمیں نصاب تعلیم کو قومی امنگوں اور ضروریات کے مطابق کم از کم اپنی قومی زبان میں بنانا ہوگا اور انگریزی کو ثانوی حیثیت دینا ہوگی۔ تاکہ ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ پہلے اردو کی پرنٹنگ کا مسئلہ ہوتا ہے مگر اب تو کمپیوٹر نے وہ بھی حل کردیا ہے تو اب ہمیں اپنی دفتری زبان بھی اردو کردینی چاہیے تاکہ انگریزی زبان کی دوڑ کچھ کم ہوسکے۔ مقامی زبانوں کو بھی ترویج دینا ہوگی۔ بلاضرورت مضامین کو خارج کرکے اس کی جگہ زرعی اور تکنیکی مضامین شامل کرنا ہوں گے اور اسکولوں میں بھی تکنیکی سہولیات دینا ضروری ہیں۔ اسکولوں میں کمپیوٹرز اور ساتھ میں پروجیکٹرز لازمی دینے چاہئیں تاکہ نصاب میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے خصوصاً سائنسی مضامین اس کو پروجیکٹرز پر دکھا کر بچوں کو مطمئن کیا جاسکے۔ اور ان کو صرف طوطا نہ بنایا جائے بلکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے۔ صرف کہانیاں سنانے کا دور گزر چکا ہے۔ نصاب کو مربوط کرنا ہوگا۔ سائنس کو انگریزی میں مدغم کریں، معاشرتی علوم کو اردو میں مدغم کریں تاکہ بچوں کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوں اور ان کے بستوں پر بوجھ بھی کم ہو۔ ورنہ ہم ہر سال صرف ڈگری ہولڈرز ہی پیدا کریں گے اور زراعت اور انڈسٹری اَن پڑھ لوگ چلائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔