گنبد اور مینار
سلطان احمد مسجد جسے اس کے اندرون حصے کے نیلگوں رنگ کی وجہ سے بلیو مسجد بھی کہتے ہیں
ذکر ہو گزشتہ دنوں استنبول کی دس روزہ سیاحت کا اور یاد نہ آئیں وہاں کی مساجد کے دور سے نظر آتے مینار یہ تو ممکن ہی نہیں کیونکہ دوران سفر کہیں دور تو کہیں نزدیک ہر موڑ پر ان کی موجودگی جو اس سطح مرتفع شہر کی خصوصیت ہے۔ یہ مینار راستوں اور منزلوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں خصوصاً نوواردوں کے ضمن میں۔ سلاطین عثمانیہ نے اپنے طویل عہد حکمرانی میں انیس (19) عام عمارتوں کو اپنے ماہر آرکی ٹیکٹوں کی مدد سے مساجد میں تبدیل کیا جب کہ انتالیس (39) شاندار مسجدیں تعمیر کروائیں۔ سن 2007ء کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس وقت استنبول میں 2944 مساجد تھیں اور یہ شہر عثمانیہ ایمپائر کا دارالحکومت رہا تھا۔
مساجد کی مزید تفصیل سے پہلے ذکر ہو جائے آیا صوفیہ یا ہاجیہ صوفیہ نامی عمارت کا۔ اس کی تعمیر چرچ کی حیثیت سے 360ء میں شروع ہوئی لیکن اس پر باقاعدہ کام 415ء میں ہونے لگا۔ زلزلے سے متاثر ہونے کی وجہ سے تعمیر میں خلل ہوا لیکن پھر سن 537ء میں شہنشاہ جسٹینین کے عہد میں اس کی تکمیل ہوئی۔ یہ کلیسا مسیحی دور بلکہ صدی کا سب سے عالیشان چرچ تھا۔ اس کا افتتاح تو ہو گیا تھا لیکن ہر لحاظ سے یہ چرچ 578ء میں یعنی افتتاح کے عرصہ بعد مکمل ہوا۔ شہنشاہ نے اپنی سلطنت کے دور دراز علاقوں سے اس کے لیے میٹریل اکٹھا کیا۔ اس کے کالم آرٹیمیس کے چرچ سے، بڑے اور بھاری پتھر مصر سے۔ سبز سنگ مرمر شام سے لائے گئے۔ دس ہزار سے زیادہ کاریگروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اس زمانے کا یہ چرچ ایک نادر شاہکار تھا۔ اس کی یہ حیثیت صدیوں تک قائم رہی۔
سن 1453ء میں عثمانیہ سلطان مہمت نے یہ علاقہ فتح کیا تو اس چرچ کی وسعت اور شوکت دیکھ کر متاثر ہوا اور اس کو مسجد کی شکل دینا شروع کر دی۔ اس میں موجود کلیسا کی کئی اشکال اتار دیں یا تبدیل کر دیں۔ کرسچن دنیا کے لیے یہ صورت حال تکلیف دہ تھی۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو مصطفیٰ کمال پاشا نے بکھرتے ہوئے ترکی کو سنبھالا اور غیرملکی قبضہ بھی ختم کیا۔ ہاجیہ صوفیہ چرچ جس کا استعمال اب مسجد کے طور پر ہو رہا تھا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ اتاترک نے محسوس کیا کہ جو عمارت بطور چرچ بنی اور صدیوں تک عیسائیوں کی عبادت گاہ رہی اسے میوزیم بنا دینا صائب اقدام ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب آیا صوفیہ 1935ء سے میوزیم کا درجہ پا کر ہر مذہب و ملت کے لیے کھول دی گئی ہے۔ اس کا ایک حصہ مسجد کی شکل میں موجود ہے تو دوسری طرف عیسائی لٹریچر اور اشیاء کا اسٹال بھی قائم ہے۔ وہ ہال کمرہ بھی محفوظ ہے جہاں عیسائی بادشاہ حلف لیا کرتے تھے۔
استنبول کی پہاڑیوں پر بنی مساجد جن کے ڈیزائن یکتا ہیں ان کے طویل و بلند مینار اور گنبد شہر کے ہر موڑ سے دور و نزدیک دیکھے جا سکتے ہیں اور ان کا نظارہ دل و نگاہ کی شگفتگی کا باعث بنتا ہے۔ ان مساجد میں اذان، نماز اور خطبے کے بعد لاؤڈ اسپیکر بند کر دیے جاتے ہیں تا کہ دوسروں کی عبادت وغیرہ میں خلل نہ پڑے۔ مسجدیں صاف ستھری، گرم و سرد پانی ہر وقت موجود اور وضو و طہارت کے حصے نہایت پاکیزہ رکھے جاتے ہیں جہاں خوشبو چاہے نہ ہو ناگوار بو اور گندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یوں تو استنبول کی ہر مسجد عبادت کی جگہ ہونے کے علاوہ آرٹ اور آرکیٹکچر کا شاہکار ہے لیکن یہاں صرف دو مساجد کا ذکر مناسب رہے گا۔ سلیمانیہ مسجد کی تعمیر سولہویں صدی میں عثمانیہ سلطان جسے تاریخ کی کتب میں Suleman the Magnificient کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے عہد حکومت میں ہوئی۔ اس کا معمار اور ڈیزائنر اس وقت کا مشہور آرکیٹکٹ Sinan تھا۔ یہ مسجد ایک پہاڑی پر کھڑی ہے۔ یہ استنبول کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کی تعمیر میں سات سال کا عرصہ لگا۔ یہ مسجد جو گرینڈ بازار کے قرب میں ہے اس میں لائبریری، مدرسہ، اسپتال، مستحقین کے لیے کچن اور حمام کی سہولیات ہیں۔ اس کی اندرونی اور بیرونی کورٹس اور چار بلند و بالا مینار ہیں۔ دو میناروں کی بلندی 74-74 میٹر اور دو کی بلندی 56-56 میٹر ہے۔ میناروں پر چڑھنے کے لیے گھومتی سیڑھیاں اور ہر مینار کی بالکونیاں ہیں۔ مسجد میں تین اطراف سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔ مسجد میں داخل ہوں تو اس کے بلند Dome کو نظریں اٹھا کر دیکھئے اور مبہوت ہو کر دیکھتے ہی رہ جایئے کیونکہ Dome کی چھت نقش و نگار سے مزین ہے اور حیران کن پچی کاری کا نمونہ ہے۔
سلطان احمد مسجد جسے اس کے اندرون حصے کے نیلگوں رنگ کی وجہ سے بلیو مسجد بھی کہتے ہیں ہاجیہ صوفیہ کے سامنے واقع ہے۔ اس مسجد کو مہمت آغا آرکیٹکٹ نے ڈیزائن کیا۔ مسجد تمام لازمی حصے رکھتی ہے جیسے رہائش گاہ، مستحقین کے لیے کچن، لائبریری، مدرسہ، نزدیکی بازار جہاں سے مسجد کے ضروری اخراجات نکل آئیں۔ سلطان احمد جس کی وفات تعمیر مسجد (1609-1616ء) کے اگلے ہی سال 1617ء میں ہوئی، مسجد کے پہلو میں ایک شاندار مقبرے میں مدفون ہے۔
مسجد میں داخلے کے باہر سنگ مرمر کا کورٹ یارڈ ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں اور کئی گنبد ہیں۔ کورٹ یارڈ کے اندر درمیان میں وضو کے لیے گولائی میں ٹونٹیاں اور بیٹھنے کی جگہ ہے۔ استنبول کی یہ اکلوتی مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں اور ان میناروں کی 16 بالکونیاں ہیں۔ مسجد کے میناروں اور گنبدوں کے بالائی حصوں پر سیسے کی تہیں چڑھی ہیں۔ مسجد میں تین اطراف سے داخلہ ہو سکتا ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ جیومیٹری کے اصول پر تعمیر کیا گیا ہے۔ فرش 21 ہزار ٹائلوں سے بنایا گیا ہے۔ مسجد کی 260 کھڑکیاں Stained Glass کی بنئی ہوئی ہیں جن پر قرآنی آیات خوبصورتی سے کندہ کی گئی ہیں۔ بڑے 34 میٹر بلند گنبد کے اردگرد چھوٹے گنبد ہیں۔ امام مسجد کے لیے سنگ مرمر کی بنی محراب ہے۔ مسجد کے ایک کونے میں چبوترہ ہے جہاں سلطان خلوت میں عبادت و ذکر الٰہی کیا کرتے تھے۔ نمازیوں کے لیے پولیتھین کے لفافے ہیں جن میں وہ جوتے ڈال کر ریکس میں رکھ سکتے ہیں۔ مسجد کا اندرونی بالائی حصہ انتہائی ماہرین آرٹسٹوں کی رنگین قلمکاری و پچی کاری کا شاہکار ہے۔ نگاہیں بلند کر کے اسے دیکھنا شروع کریں تو پھر وہاں سے نظریں ہٹانے کو دل نہ چاہے۔
سلطانیہ مسجد اور بلیو مسجد کا یہ ذکر نامکمل ہے۔ ان کی عظمت و خوبصورتی وسعت کا بیان الفاظ میں مشکل ہے۔ یہ اور بہت سی دوسری مساجد دیکھنے، ان میں گھومنے اور سجدے میں گرے ہوئے کو اپنے خالق سے ملانے کا جو کام کرتی ہیں ان کے سامنے قلم بے بس ہے۔
مساجد کی مزید تفصیل سے پہلے ذکر ہو جائے آیا صوفیہ یا ہاجیہ صوفیہ نامی عمارت کا۔ اس کی تعمیر چرچ کی حیثیت سے 360ء میں شروع ہوئی لیکن اس پر باقاعدہ کام 415ء میں ہونے لگا۔ زلزلے سے متاثر ہونے کی وجہ سے تعمیر میں خلل ہوا لیکن پھر سن 537ء میں شہنشاہ جسٹینین کے عہد میں اس کی تکمیل ہوئی۔ یہ کلیسا مسیحی دور بلکہ صدی کا سب سے عالیشان چرچ تھا۔ اس کا افتتاح تو ہو گیا تھا لیکن ہر لحاظ سے یہ چرچ 578ء میں یعنی افتتاح کے عرصہ بعد مکمل ہوا۔ شہنشاہ نے اپنی سلطنت کے دور دراز علاقوں سے اس کے لیے میٹریل اکٹھا کیا۔ اس کے کالم آرٹیمیس کے چرچ سے، بڑے اور بھاری پتھر مصر سے۔ سبز سنگ مرمر شام سے لائے گئے۔ دس ہزار سے زیادہ کاریگروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اس زمانے کا یہ چرچ ایک نادر شاہکار تھا۔ اس کی یہ حیثیت صدیوں تک قائم رہی۔
سن 1453ء میں عثمانیہ سلطان مہمت نے یہ علاقہ فتح کیا تو اس چرچ کی وسعت اور شوکت دیکھ کر متاثر ہوا اور اس کو مسجد کی شکل دینا شروع کر دی۔ اس میں موجود کلیسا کی کئی اشکال اتار دیں یا تبدیل کر دیں۔ کرسچن دنیا کے لیے یہ صورت حال تکلیف دہ تھی۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو مصطفیٰ کمال پاشا نے بکھرتے ہوئے ترکی کو سنبھالا اور غیرملکی قبضہ بھی ختم کیا۔ ہاجیہ صوفیہ چرچ جس کا استعمال اب مسجد کے طور پر ہو رہا تھا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ اتاترک نے محسوس کیا کہ جو عمارت بطور چرچ بنی اور صدیوں تک عیسائیوں کی عبادت گاہ رہی اسے میوزیم بنا دینا صائب اقدام ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب آیا صوفیہ 1935ء سے میوزیم کا درجہ پا کر ہر مذہب و ملت کے لیے کھول دی گئی ہے۔ اس کا ایک حصہ مسجد کی شکل میں موجود ہے تو دوسری طرف عیسائی لٹریچر اور اشیاء کا اسٹال بھی قائم ہے۔ وہ ہال کمرہ بھی محفوظ ہے جہاں عیسائی بادشاہ حلف لیا کرتے تھے۔
استنبول کی پہاڑیوں پر بنی مساجد جن کے ڈیزائن یکتا ہیں ان کے طویل و بلند مینار اور گنبد شہر کے ہر موڑ سے دور و نزدیک دیکھے جا سکتے ہیں اور ان کا نظارہ دل و نگاہ کی شگفتگی کا باعث بنتا ہے۔ ان مساجد میں اذان، نماز اور خطبے کے بعد لاؤڈ اسپیکر بند کر دیے جاتے ہیں تا کہ دوسروں کی عبادت وغیرہ میں خلل نہ پڑے۔ مسجدیں صاف ستھری، گرم و سرد پانی ہر وقت موجود اور وضو و طہارت کے حصے نہایت پاکیزہ رکھے جاتے ہیں جہاں خوشبو چاہے نہ ہو ناگوار بو اور گندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یوں تو استنبول کی ہر مسجد عبادت کی جگہ ہونے کے علاوہ آرٹ اور آرکیٹکچر کا شاہکار ہے لیکن یہاں صرف دو مساجد کا ذکر مناسب رہے گا۔ سلیمانیہ مسجد کی تعمیر سولہویں صدی میں عثمانیہ سلطان جسے تاریخ کی کتب میں Suleman the Magnificient کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے عہد حکومت میں ہوئی۔ اس کا معمار اور ڈیزائنر اس وقت کا مشہور آرکیٹکٹ Sinan تھا۔ یہ مسجد ایک پہاڑی پر کھڑی ہے۔ یہ استنبول کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کی تعمیر میں سات سال کا عرصہ لگا۔ یہ مسجد جو گرینڈ بازار کے قرب میں ہے اس میں لائبریری، مدرسہ، اسپتال، مستحقین کے لیے کچن اور حمام کی سہولیات ہیں۔ اس کی اندرونی اور بیرونی کورٹس اور چار بلند و بالا مینار ہیں۔ دو میناروں کی بلندی 74-74 میٹر اور دو کی بلندی 56-56 میٹر ہے۔ میناروں پر چڑھنے کے لیے گھومتی سیڑھیاں اور ہر مینار کی بالکونیاں ہیں۔ مسجد میں تین اطراف سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔ مسجد میں داخل ہوں تو اس کے بلند Dome کو نظریں اٹھا کر دیکھئے اور مبہوت ہو کر دیکھتے ہی رہ جایئے کیونکہ Dome کی چھت نقش و نگار سے مزین ہے اور حیران کن پچی کاری کا نمونہ ہے۔
سلطان احمد مسجد جسے اس کے اندرون حصے کے نیلگوں رنگ کی وجہ سے بلیو مسجد بھی کہتے ہیں ہاجیہ صوفیہ کے سامنے واقع ہے۔ اس مسجد کو مہمت آغا آرکیٹکٹ نے ڈیزائن کیا۔ مسجد تمام لازمی حصے رکھتی ہے جیسے رہائش گاہ، مستحقین کے لیے کچن، لائبریری، مدرسہ، نزدیکی بازار جہاں سے مسجد کے ضروری اخراجات نکل آئیں۔ سلطان احمد جس کی وفات تعمیر مسجد (1609-1616ء) کے اگلے ہی سال 1617ء میں ہوئی، مسجد کے پہلو میں ایک شاندار مقبرے میں مدفون ہے۔
مسجد میں داخلے کے باہر سنگ مرمر کا کورٹ یارڈ ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں اور کئی گنبد ہیں۔ کورٹ یارڈ کے اندر درمیان میں وضو کے لیے گولائی میں ٹونٹیاں اور بیٹھنے کی جگہ ہے۔ استنبول کی یہ اکلوتی مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں اور ان میناروں کی 16 بالکونیاں ہیں۔ مسجد کے میناروں اور گنبدوں کے بالائی حصوں پر سیسے کی تہیں چڑھی ہیں۔ مسجد میں تین اطراف سے داخلہ ہو سکتا ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ جیومیٹری کے اصول پر تعمیر کیا گیا ہے۔ فرش 21 ہزار ٹائلوں سے بنایا گیا ہے۔ مسجد کی 260 کھڑکیاں Stained Glass کی بنئی ہوئی ہیں جن پر قرآنی آیات خوبصورتی سے کندہ کی گئی ہیں۔ بڑے 34 میٹر بلند گنبد کے اردگرد چھوٹے گنبد ہیں۔ امام مسجد کے لیے سنگ مرمر کی بنی محراب ہے۔ مسجد کے ایک کونے میں چبوترہ ہے جہاں سلطان خلوت میں عبادت و ذکر الٰہی کیا کرتے تھے۔ نمازیوں کے لیے پولیتھین کے لفافے ہیں جن میں وہ جوتے ڈال کر ریکس میں رکھ سکتے ہیں۔ مسجد کا اندرونی بالائی حصہ انتہائی ماہرین آرٹسٹوں کی رنگین قلمکاری و پچی کاری کا شاہکار ہے۔ نگاہیں بلند کر کے اسے دیکھنا شروع کریں تو پھر وہاں سے نظریں ہٹانے کو دل نہ چاہے۔
سلطانیہ مسجد اور بلیو مسجد کا یہ ذکر نامکمل ہے۔ ان کی عظمت و خوبصورتی وسعت کا بیان الفاظ میں مشکل ہے۔ یہ اور بہت سی دوسری مساجد دیکھنے، ان میں گھومنے اور سجدے میں گرے ہوئے کو اپنے خالق سے ملانے کا جو کام کرتی ہیں ان کے سامنے قلم بے بس ہے۔