نیب ترمیمی بل ایکٹ 2022ء کی شکل اختیار کرگیا
وفاقی صوبائی کابینہ، کونسلز، اسٹیٹ بینک کے فیصلے اور ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگئے
GWADAR:
نیب ترمیمی بل، ایکٹ 2022ء کی شکل اختیار کرگیا، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے نیب ترمیمی ایکٹ کا گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایکٹ میں چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا، ڈپٹی چیئرمین نیب کا تقرر صدر کے بجائے اب وفاقی حکومت کرے گی۔
نیب ترمیمی ایکٹ کے مطابق نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا اور 45 روز میں مکمل ہوجائے گا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائےگا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
ایکٹ کے مطابق ٹیکس، وفاقی صوبائی کابینہ، کونسلز، اسٹیٹ بینک کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگئے ہیں۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے، مالی فائدہ لینے کے ثبوت کے بغیر طریقہ کار کی خرابی پر نیب کارروائی نہیں ہوگی، وفاقی اور صوبائی ٹیکس معاملات بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔
نیب ترمیمی بل کے مطابق وفاقی، صوبائی قوانین کے تحت بنی ریگولیٹری باڈیز کے کیسز پر نیب کا اختیار ختم ہوگیا۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
نیب قانون میں محض گمان پر ملزم کو سزا کی شق 14 ختم کردی گئی۔ چیئرمین نیب ملزم کے فرار ہونے یا شہادتیں ضائع کرنے کے ٹھوس شواہد پر وارنٹ جاری کرسکیں گے۔
نیب افسران پر انکوائری یا انویسٹی گیشن کی تفصیل عام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، عام کرنے کی صورت میں نیب افسر کو ایک سال قید، دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔
ایکٹ کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی، مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی، گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا، جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔
یہ پڑھیں : صدر مملکت نے نیب ترمیمی بل بھی بغیر دستخط واپس کردیا
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل پر دستخط سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا یہ بل لوٹ مار کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے، میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ اس بل پر دستخط کروں، جانتا ہوں کہ دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل ایکٹ کی شکل اختیار کرلے گا۔
نیب ترمیمی بل، ایکٹ 2022ء کی شکل اختیار کرگیا، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے نیب ترمیمی ایکٹ کا گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایکٹ میں چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا، ڈپٹی چیئرمین نیب کا تقرر صدر کے بجائے اب وفاقی حکومت کرے گی۔
نیب ترمیمی ایکٹ کے مطابق نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا اور 45 روز میں مکمل ہوجائے گا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائےگا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
ایکٹ کے مطابق ٹیکس، وفاقی صوبائی کابینہ، کونسلز، اسٹیٹ بینک کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگئے ہیں۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے، مالی فائدہ لینے کے ثبوت کے بغیر طریقہ کار کی خرابی پر نیب کارروائی نہیں ہوگی، وفاقی اور صوبائی ٹیکس معاملات بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔
نیب ترمیمی بل کے مطابق وفاقی، صوبائی قوانین کے تحت بنی ریگولیٹری باڈیز کے کیسز پر نیب کا اختیار ختم ہوگیا۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
نیب قانون میں محض گمان پر ملزم کو سزا کی شق 14 ختم کردی گئی۔ چیئرمین نیب ملزم کے فرار ہونے یا شہادتیں ضائع کرنے کے ٹھوس شواہد پر وارنٹ جاری کرسکیں گے۔
نیب افسران پر انکوائری یا انویسٹی گیشن کی تفصیل عام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، عام کرنے کی صورت میں نیب افسر کو ایک سال قید، دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔
ایکٹ کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی، مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی، گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا، جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔
یہ پڑھیں : صدر مملکت نے نیب ترمیمی بل بھی بغیر دستخط واپس کردیا
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل پر دستخط سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا یہ بل لوٹ مار کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے، میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ اس بل پر دستخط کروں، جانتا ہوں کہ دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل ایکٹ کی شکل اختیار کرلے گا۔