ایک زریں عہد تمام ہوا آخری حصہ

اردو پڑھنے کا چسکا گوپی چند نارنگ کو یہیں سے پڑا

S_afarooqi@yahoo.com

نارنگ ابھی تیسری جماعت میں تھے کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی، اس وقت بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں حکومت کی طرف سے بے دریغ لٹریچر تقسیم ہوتا تھا اور یہ سارا لٹریچر پشتو اور اردو میں ہوا کرتا تھا۔ اردو پڑھنے کا چسکا گوپی چند نارنگ کو یہیں سے پڑا۔ پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نارنگ لیہ ضلع مظفر گڑھ چلے گئے کیونکہ جس علاقے میں ان کے والد کی ملازمت تھی، وہاں ہائی اسکول نہیں تھے۔

اردو ان کا لازمی مضمون تھا اور سنسکرت اختیاری۔ 1947 میں وہ اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے ساتھ دہلی چلے آئے لیکن ان کے والد وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد 1956 میں دہلی آئے۔ 1952 میں گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور پھر انھوں نے1958 میں یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے بھی دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ''رسائل میں لکھنے کی لت لڑکپن سے پڑ چکی تھی، ابتدا افسانہ نگاری سے ہوئی ، میرا پہلا افسانہ جب کوئٹہ کے ہفتہ وار ''بلوچستان سماچار'' میں شائع ہوا تو اس دن پاؤں زمین سے کچھ اوپر ہی اوپر تھے۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اردو کو ''زبانوں کا تاج محل'' کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ علم کا وہ سورج تھے جن کی روشنی سے ایک زمانہ فیضیاب ہوا۔ اردو ادب ، لسانیات اور علاقائی زبانوں کے سلسلے میں ان کی خدمات سے ایک دنیا واقف ہے۔ ان کے والد دھرم چند نارنگ فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے جن کی پرورش نے گوپی چند نارنگ کو ایک ادب نواز ذہن بخشا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''اردو اور ہندی کا رشتہ ناخن اورگوشت کی مانند ہے''۔

برصغیرکے بٹوارے کے بعد گوپی چند نارنگ ہندوستان منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے دلی میں قیام کیا۔ انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پھر وہیں سے اردو میں ہی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہے جانے لگے۔ اس کے بعد انھوں نے دلی کے سینٹ اسٹیفنزکالج میں اردو پڑھائی جس کے بعد وہ دلی یونیورسٹی میں ہی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔

پروفیسر نارنگ ملک سے باہر دانش گاہوں میں بھی بلائے گئے ، چنانچہ 1960 کی دہائی میں انھوں نے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور پھر 1974 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ہوگئے۔

1986 میں وہ ایک بار پھر دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 2005 میں دہلی یونیورسٹی نے انھیں پروفیسر ایمیرٹس کے اعزاز سے نوازا۔ ادبی ایوارڈ کے علاوہ شاید ہی ایسا کوئی ایوارڈ ہو جو انھیں نہ ملا ہو۔ انھوں نے اردو ، ہندی اور انگریزی میں تقریباً 70 سے زائد کتابیں لکھی ہیں لیکن اردو زبان و ادب سے ان کا رشتہ تمام رشتوں سے بالاتر تھا۔ اردو ان کے رگ و پہ میں سمائی ہوئی تھی۔ اردو کی مقبولیت کے حوالہ سے نارنگ صاحب کا کہنا تھا کہ:

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے


اس زبان میں اس بلا کی کشش ہے کہ یہ ہر کسی پر اپنا جادو چلا دیتی ہے۔نارنگ لکھتے ہیں کہ :

'' اردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے، یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ ہاتھ ہے، جس نے ہمیں گھڑا، بنایا اور سنوارا ہے، یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اردو کو محض ایک زبان کہنا اردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، یہ ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست ، ایک انداز نظر یا جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ بھی ہے۔

اس لیے کہ اردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم بر صغیر کی زبانوں میں نہیں۔'' نارنگ کی پہلی تصنیف ''ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں'' ہے جو پہلی بار 1959 اور دوسری بار 1961 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب پر نارنگ کو 1962 میں ''غالب ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک نارنگ کی درجنوں کتابیں منظرعام پر آ چکی ہیں۔ 2014 میں گوپی چند نارنگ نے '' غالب : معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات'' ایک بے مثال تحقیقی اور تنقیدی کتاب پیش کی۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی پوری زندگی تصنیف و تالیف اور تدریس میں گزری۔ ان کی کتابوں کی تعداد خاصی بڑی ہے جن میں سے چند کے نام ذیل میں درج ہیں۔

ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (1959 اور 1961) ، سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ (1980 اور 1990) ،اردو افسانہ : روایت اور مسائل (1981 اور 1988) ، انیس شناسی (1981)، لغت نویسی کے مسائل (1985) اور ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (1993۔ 2007)

نارنگ کو ادبی خدمات کے لیے ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بین الاقوامی سطح پر بھی کئی ایوارڈ و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ جن میں سے نمایاں اعزازات اس طرح ہیں: صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے '' پدم شری'' کا قومی اعزاز 1990، پدم بھوشن کا قومی اعزاز 2004، صدر پاکستان کی جانب سے اقبال صدی طلائی تمغہ امتیاز 1977، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ(''ساختیات پس ساختیات مغربی شعریات''پر) 1995،غالب ایوارڈ، نئی دہلی 1985،سنت گیانیشور ایوارڈ، مہاراشٹر اردو اکادمی 2004، قطر دوحہ فروغ اردو ادب ایوارڈ 2002،اقبال سمان، مدھیہ پردیش سرکار 2011 اور سابق صدر جمہوریہ پاکستان (آصف علی زر داری) کے ہاتھوں ''ستارہ امتیاز'' 2012 میں دیا گیا۔

گوپی چند نارنگ نے جہاں کتابیں لکھیں وہیں ان پر بھی کتابیں اور دیگر رسائل کے خصوصی شمارے شایع ہوئے۔ نارنگ بھارت کے سب سے بڑے اور اہم ادبی ادارے ''ساہتیہ اکادمی'' کے صدر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں ان کا اقبال اس قدر بلند رہا کہ اعلیٰ ادبی اعزازات کی نامزدگی میں ان کی رائے اہمیت کی حامل ہی نہیں بلکہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بقول اقبال:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

توقع ہے کہ وطن عزیز کے ادبی حلقوں بشمول اکادمی ادبیات پاکستان ، مقتدرہ قومی زبان اردو اور کراچی آرٹس کونسل جیسے ادبی ادارے ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کی یاد میں خصوصی تعزیتی پروگراموں کا اہتمام کریں گے۔
Load Next Story