نظریہء ارتقا اور تخلیق انسان
لے مارک نے زرافے کی اگلی لمبی ٹانگوں اور بہت لمبی گردن کی مثال دی
PESHAWAR:
گزشتہ کالم میں یہ دیکھا گیا کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ سب سے پہلا زندگی کا حامل سنگل Cell بیکٹیریا بن جانے کے بعد زمین پر موجود آبی ذخائر ان سنگل سیل جانداروں سے بھر گئے۔
سنگل سیل بیکٹیریا Cell Division کے عمل کے ذریعے اپنے آپ کو بڑے اور پیچیدہ سالموں میں تبدیل کرنے لگے۔ کروڑوں برسوں پر محیط ارتقا کے ایک مرحلے پر زمین اس بات کے لیے تیار ہو گئی کہ یہ ﷲ کی شاہکار مخلوق انسان کو خوش آمدید کہہ سکے۔ زمین پر ارتقا کے حوالے سے اب تک جو نظریات پیش کیے گئے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں۔
لے مارک کی تھیوری۔اس تھیوری کے مطابق جاندار اشیاء کو جب نئی ضروریات اور نئے ماحول کا سامنا ہوتا ہے تو وہ نئی ضروریات کو پورا کرنے اور نئے ماحول سے ایڈجسٹ ہونے کے لیے نئی صلاحیتوں کا اکتساب کرتے ہیں۔ ان کے جسم کے کسی حصے کا استعمال بڑھ جاتا ہے،کسی کا گھٹ جاتا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ استعمال ہی ہونا بند ہو جائے۔ اس عمل کو استعمال اور غیر استعمال Use and Disuseکا نام دیا گیا۔
لے مارک نے زرافے کی اگلی لمبی ٹانگوں اور بہت لمبی گردن کی مثال دی۔ ایک ایسے موقعے پر جب شدید سوکھا پڑا اور زمین پر چارہ ناپید ہونے لگا تواس وقت زمین پر پائے جانے والے اکثر جاندار ختم ہو گئے لیکن زرافے کی جسمانی ساخت کی وجہ سے اپنی اگلی ٹانگوں کو زیادہ سے زیادہ اوپر کھینچ کر اور گردن کو لمبا کر کے درختوں کے پتے کھانے کی کوشش کی۔
اس جد و جہد سے وقت کے بہتے دھارے میں اس کی ٹانگیں اور گردن بہت لمبی ہوگئی۔ یوں زرافے کی نسل نے اپنے آپ کو نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنا لیا۔ اسی طرح غیر استعمال کی وجہ سے سانپ ٹانگوں سے محروم ہوگیا۔
ڈارون تھیوری آف نیچرل سیلیکشن۔ڈارون نے بتایا کہ زمین پر پائی جانے والی جاندار اشیا میں سے اکثریت کی آبادی جیومیٹریکل طریقے سے بڑھتی ہے لیکن خوراک کی پیداوار یوں تیزی سے نہیں بڑھتی۔ جاندار اشیا کو خوراک کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرنا پڑتاہے۔
وہ جاندار جو اپنی خوراک کا بہترین بندوبست کرتے ہیں اور ماحول سے بہترین مطابقت پیدا کرتے ہیں، ان ہی کی نسل آگے چلتی ہے ۔ تھیوری کے مطابق نیچر صرف انھی انواعSpecies کو باقی رکھنے کے لیے چنتی ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو کرFittestثابت ہوتے ہیں، اسی لیے اس تھیوری کو نیچرل سیلیکشن تھیوری کہتے ہیں۔
میوٹیشنMutationتھیوری۔اس تھیوری کو ہوگو ڈی ویریز نے پیش کیا۔اس نظریے کے مطابق جاندار اشیا میں Variationایک مسلسل عمل سے نہیں بلکہ بالکل اچانک آتی ہے۔میوٹیشن یا اچانک تبدیلی عام طور پر کروموسومز کی تعداد یا لوکیشن میں تبدیلی سے آتی ہے۔
فرض کریں اگر کسی specie یعنی نوع میں کروموسومز کی عمومی تعداد چودہ ہوتی ہے تو اچانک کروموسومز کی تعداد بڑھ جائے گی یا گھٹ جائے گی یا پیٹرن میں تبدیلی یعنی Gene drift سے اچانک تبدیلی آ جاتی ہے ۔
ماڈرن،نیو ڈارون یا سنتھیٹک، Modern,New Darwn or Synthitic تھیوری۔یہ کوئی بالکل نئی تھیوری نہیں بلکہ اس تھیوری نے پہلے سے موجود سارے ارتقائی نطریات سے استفادہ کر کے ایک جامع تھیوری پیش کی۔لے مارک کے استعمال اور غیر استعمال اورکسبی صلاحیتوں acquired charactersکے حصول سے استفادہ کیا گیا۔ ڈارون نے اپنی تھیوری میں میوٹیشن کی جانب اشارہ کیا تھا لیکن وہ اس پر سیرحاصل بحث کرنے کے بجائے اس کو چھُو کر آگے بڑھ گیا۔ ماڈرن تھیوری میں جینGene کی Variation کو تبدیلی میں بڑا کردار سمجھا گیا۔
اسی طرح ڈارون کی نیچرل سیلیشن کو بھی ماڈرن تھیوری میں خاصی جگہ ملی یوں یہ بتایا گیا کہ ارتقاء صرف ان ہی انواع کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے ماحول سے بہترین مطابقت پیدا کر لیں ورنہ مٹنے اور ختم ہو جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ماڈرن تھیوری کے مطابق نیچر جن انواع کو آگے بڑھنے کے لیے منتخب کرتی ہے ان کے اندر ری پروڈیوس Reproduce کرنے اور ایک عمدہ نوع کی ضمانت دینے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
زمین پر ﷲ کے تخلیقی شاہکار یعنی انسان کی تخلیق کے بارے میں سورۃ السجدہ کی آیات 7اور 8 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا کہ ہم نے انسان کے خلق کی ابتدا چپکنے والی مٹی (Clay)سے کی۔پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے۔سورۃ مومن کی آیت 67 میں ارشاد ہوا کہ وہی ﷲ ہے جس نے انسان کو پہلے مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد مادہ منویہ سے۔سورۃ اعراف کی آیت 10 میں فرمایا کہ ہم نے تمھاری تخلیق کی،پھر تمھاری صورت بنائی۔
اسی طرح سورۃ حجر کی آیات28,29 میں کہا اور تصور کرو اُس وقت کا کہ تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کر لوں تو،سورۃ رحمٰن میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو ٹھیکری جیسے سوکھے ہوئے گارے سے بنایا۔ سورۃ دہر کی پہلی ہی آیت میں فرمایا کہ کیا انسان پر ایک لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت نہیں گزرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔
سورۃ انفطار میں فرمایا ﷲ نے تمھیں پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب کیا اور جس صورت میں چاہا جوڑ کر تیار کر لیا۔ سورۃ التین میں فرمایا کہ ہم نے یقیناً انسان کو احسنِ تقویم Best of the mold بنایا۔ سورۃ الصٰفٰت میں طینِ لازب یعنی ایسی مٹی جو گوندھی جانے کے بعد اچھی طرح چپکنے والی بن جائے اُس مٹی سے انسان کو پیدا کیا۔
قرآنِ کریم کی درج بالا آیات کو نگاہ میں رکھیں تو ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو بھُربھری مٹی کے بجائے خالص ترین چپکنے والی مٹی Clay سے بنایا گیا، ایسی مٹی بنتی ہی پانی کی مدد سے ہے۔ پچھلے آٹھ دس ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہApe، چمپنزی، گوریلا یا بندر ارتقا کر کے انسان بن گیا ہو۔ دس ہزار سالوں میں گھوڑا، گھوڑا ہی رہا ہے اس طرح کوئی دوسرا جانور ارتقا کے مراحل طے کر کے اپنی نوع تبدیل نہیں کر پایا۔ افریقہ،ایشا اور خاص کر یوکرین سے ملنے والی لاکھوں سال پرانی انسانی کھوپڑیاں شاہد ہیں کہ انسان ہمیشہ سے ان ہی خد وخال کا حامل homosapien انسان ہی رہا ہے البتہ انسان کے اندر خدا کی روح پھونکے جانے سے قبل اس کاحیوانی وجود کئی مراحل سے گزرا ہے۔
گزشتہ کالم میں یہ دیکھا گیا کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ سب سے پہلا زندگی کا حامل سنگل Cell بیکٹیریا بن جانے کے بعد زمین پر موجود آبی ذخائر ان سنگل سیل جانداروں سے بھر گئے۔
سنگل سیل بیکٹیریا Cell Division کے عمل کے ذریعے اپنے آپ کو بڑے اور پیچیدہ سالموں میں تبدیل کرنے لگے۔ کروڑوں برسوں پر محیط ارتقا کے ایک مرحلے پر زمین اس بات کے لیے تیار ہو گئی کہ یہ ﷲ کی شاہکار مخلوق انسان کو خوش آمدید کہہ سکے۔ زمین پر ارتقا کے حوالے سے اب تک جو نظریات پیش کیے گئے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں۔
لے مارک کی تھیوری۔اس تھیوری کے مطابق جاندار اشیاء کو جب نئی ضروریات اور نئے ماحول کا سامنا ہوتا ہے تو وہ نئی ضروریات کو پورا کرنے اور نئے ماحول سے ایڈجسٹ ہونے کے لیے نئی صلاحیتوں کا اکتساب کرتے ہیں۔ ان کے جسم کے کسی حصے کا استعمال بڑھ جاتا ہے،کسی کا گھٹ جاتا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ استعمال ہی ہونا بند ہو جائے۔ اس عمل کو استعمال اور غیر استعمال Use and Disuseکا نام دیا گیا۔
لے مارک نے زرافے کی اگلی لمبی ٹانگوں اور بہت لمبی گردن کی مثال دی۔ ایک ایسے موقعے پر جب شدید سوکھا پڑا اور زمین پر چارہ ناپید ہونے لگا تواس وقت زمین پر پائے جانے والے اکثر جاندار ختم ہو گئے لیکن زرافے کی جسمانی ساخت کی وجہ سے اپنی اگلی ٹانگوں کو زیادہ سے زیادہ اوپر کھینچ کر اور گردن کو لمبا کر کے درختوں کے پتے کھانے کی کوشش کی۔
اس جد و جہد سے وقت کے بہتے دھارے میں اس کی ٹانگیں اور گردن بہت لمبی ہوگئی۔ یوں زرافے کی نسل نے اپنے آپ کو نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنا لیا۔ اسی طرح غیر استعمال کی وجہ سے سانپ ٹانگوں سے محروم ہوگیا۔
ڈارون تھیوری آف نیچرل سیلیکشن۔ڈارون نے بتایا کہ زمین پر پائی جانے والی جاندار اشیا میں سے اکثریت کی آبادی جیومیٹریکل طریقے سے بڑھتی ہے لیکن خوراک کی پیداوار یوں تیزی سے نہیں بڑھتی۔ جاندار اشیا کو خوراک کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرنا پڑتاہے۔
وہ جاندار جو اپنی خوراک کا بہترین بندوبست کرتے ہیں اور ماحول سے بہترین مطابقت پیدا کرتے ہیں، ان ہی کی نسل آگے چلتی ہے ۔ تھیوری کے مطابق نیچر صرف انھی انواعSpecies کو باقی رکھنے کے لیے چنتی ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو کرFittestثابت ہوتے ہیں، اسی لیے اس تھیوری کو نیچرل سیلیکشن تھیوری کہتے ہیں۔
میوٹیشنMutationتھیوری۔اس تھیوری کو ہوگو ڈی ویریز نے پیش کیا۔اس نظریے کے مطابق جاندار اشیا میں Variationایک مسلسل عمل سے نہیں بلکہ بالکل اچانک آتی ہے۔میوٹیشن یا اچانک تبدیلی عام طور پر کروموسومز کی تعداد یا لوکیشن میں تبدیلی سے آتی ہے۔
فرض کریں اگر کسی specie یعنی نوع میں کروموسومز کی عمومی تعداد چودہ ہوتی ہے تو اچانک کروموسومز کی تعداد بڑھ جائے گی یا گھٹ جائے گی یا پیٹرن میں تبدیلی یعنی Gene drift سے اچانک تبدیلی آ جاتی ہے ۔
ماڈرن،نیو ڈارون یا سنتھیٹک، Modern,New Darwn or Synthitic تھیوری۔یہ کوئی بالکل نئی تھیوری نہیں بلکہ اس تھیوری نے پہلے سے موجود سارے ارتقائی نطریات سے استفادہ کر کے ایک جامع تھیوری پیش کی۔لے مارک کے استعمال اور غیر استعمال اورکسبی صلاحیتوں acquired charactersکے حصول سے استفادہ کیا گیا۔ ڈارون نے اپنی تھیوری میں میوٹیشن کی جانب اشارہ کیا تھا لیکن وہ اس پر سیرحاصل بحث کرنے کے بجائے اس کو چھُو کر آگے بڑھ گیا۔ ماڈرن تھیوری میں جینGene کی Variation کو تبدیلی میں بڑا کردار سمجھا گیا۔
اسی طرح ڈارون کی نیچرل سیلیشن کو بھی ماڈرن تھیوری میں خاصی جگہ ملی یوں یہ بتایا گیا کہ ارتقاء صرف ان ہی انواع کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے ماحول سے بہترین مطابقت پیدا کر لیں ورنہ مٹنے اور ختم ہو جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ماڈرن تھیوری کے مطابق نیچر جن انواع کو آگے بڑھنے کے لیے منتخب کرتی ہے ان کے اندر ری پروڈیوس Reproduce کرنے اور ایک عمدہ نوع کی ضمانت دینے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
زمین پر ﷲ کے تخلیقی شاہکار یعنی انسان کی تخلیق کے بارے میں سورۃ السجدہ کی آیات 7اور 8 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا کہ ہم نے انسان کے خلق کی ابتدا چپکنے والی مٹی (Clay)سے کی۔پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے۔سورۃ مومن کی آیت 67 میں ارشاد ہوا کہ وہی ﷲ ہے جس نے انسان کو پہلے مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد مادہ منویہ سے۔سورۃ اعراف کی آیت 10 میں فرمایا کہ ہم نے تمھاری تخلیق کی،پھر تمھاری صورت بنائی۔
اسی طرح سورۃ حجر کی آیات28,29 میں کہا اور تصور کرو اُس وقت کا کہ تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کر لوں تو،سورۃ رحمٰن میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو ٹھیکری جیسے سوکھے ہوئے گارے سے بنایا۔ سورۃ دہر کی پہلی ہی آیت میں فرمایا کہ کیا انسان پر ایک لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت نہیں گزرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔
سورۃ انفطار میں فرمایا ﷲ نے تمھیں پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب کیا اور جس صورت میں چاہا جوڑ کر تیار کر لیا۔ سورۃ التین میں فرمایا کہ ہم نے یقیناً انسان کو احسنِ تقویم Best of the mold بنایا۔ سورۃ الصٰفٰت میں طینِ لازب یعنی ایسی مٹی جو گوندھی جانے کے بعد اچھی طرح چپکنے والی بن جائے اُس مٹی سے انسان کو پیدا کیا۔
قرآنِ کریم کی درج بالا آیات کو نگاہ میں رکھیں تو ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو بھُربھری مٹی کے بجائے خالص ترین چپکنے والی مٹی Clay سے بنایا گیا، ایسی مٹی بنتی ہی پانی کی مدد سے ہے۔ پچھلے آٹھ دس ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہApe، چمپنزی، گوریلا یا بندر ارتقا کر کے انسان بن گیا ہو۔ دس ہزار سالوں میں گھوڑا، گھوڑا ہی رہا ہے اس طرح کوئی دوسرا جانور ارتقا کے مراحل طے کر کے اپنی نوع تبدیل نہیں کر پایا۔ افریقہ،ایشا اور خاص کر یوکرین سے ملنے والی لاکھوں سال پرانی انسانی کھوپڑیاں شاہد ہیں کہ انسان ہمیشہ سے ان ہی خد وخال کا حامل homosapien انسان ہی رہا ہے البتہ انسان کے اندر خدا کی روح پھونکے جانے سے قبل اس کاحیوانی وجود کئی مراحل سے گزرا ہے۔