ہمارا سچ کافکا کے سچ سے مختلف ہے
کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے
ISLAMABAD:
فرانز کافکا 1915 میں اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے ''حقیقتاً ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے سمجھتا ہو، لیکن اگر کوئی شخص آپ کے متعلق ایسا فہم رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی عورت، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ہر جانب اعتماد سے قدم بڑھا سکتے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو خدا مل گیا۔'' کافکا نے شادی نہیں کی ۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا ، جب اسے ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ '' اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھوگئی ہے'' کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
کافکا نے بچی سے کہا کہ ''وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔'' اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس گڑیا نے لکھا تھا خط میں لکھا تھا کہ ''میری دوست رو مت! میں دنیا گھومنے جا چکی ہوں اور میں تمہیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی۔'' یوں ایک کہانی کی ابتداء ہوئی جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔
بچی سے ملاقاتوں کے دوران کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتا جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اسے دلی سکون ملتا۔ بالاخر ایک دن کافکا نے اس بچی کوایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ ''اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے برلن واپس آگئی ہے۔'' بچی نے کہا کہ ''یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔'' کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا جس میں گڑیا نے لکھا تھا کہ ''دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں۔'' چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔ ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔
کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی تو ایک دن گڑیا کو الٹتے پلٹتے اسے اس کے اندر سے کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا ''ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو ایک دن گم ہوجائے گی لیکن بالاخر تمہیں کسی اور شکل و صورت میں ہی سہی لیکن محبت ضرور ملے گی۔'' یہ کافکا کا سچ ہے جو سچ ہوگا لیکن ہمارا سچ یہ ہے کہ ہم سے جو چیزکھو جاتی ہے، وہ ہمیں دوبارہ کبھی واپس نہیں ملتی۔ کسی اور شکل وصورت میں بھی نہیں۔
آج بھی ہم خوشیوں، سکون، خوشحالی، ترقی، کامیابی، اختیار، حقوق کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، انھیں جگہ جگہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ، لیکن خالی ہاتھ کے سوا اورکچھ ہاتھ آتا ہی نہیں ہے ، محنت کر کر کے تھک چکے ہیں ،کام کرتے کرتے عمر پوری ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیٹ بھر کے روٹی تک نصیب نہیں ہوتی ہے ، محبت ، خوشیاں ، سکون ، راحتیں ، لذتیں تو دور بہت دورکی باتیں ہیں ہم سے تو معصوم سی چھوٹی چھوٹی خواہشات تک روٹھی ہوئی ہیں۔ وعدوں ، آسروں ، امیدوں پر زندگی تمام ہورہی ہے۔ ہم سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ کسی کے پاس ہمارے لیے سوچنے تک کا وقت نہیں ہے۔
ہم دھتکارے ہوئے ذلتوں کے مارے انسان ہیں۔ ہم نے طاقتوروں ، اختیار والوں کے پاس اپنے لیے نفرت ہی دیکھی ہے۔ ہمارے سماج کے خوشحال اور با اختیار طاقتور ، لوگ نجانے کونسے ایسے کام کر رہے ہیں ، کونسی ایسی عبادتیں کر رہے ہیں کہ زندگی کی تمام راحتیں ، خوشیاں ، سکون ، محبتیں، لذتیں ان کے گھروں کی لونڈی بنی ہوئی ہیں۔
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر ہم سے کون سے ایسے گناہ سرزد ہوگئے ہیں کہ خدا برسوں سے ہم سے ناراض ہے۔ نہ ہماری دعائیں سنتا ہے اور نہ ہی ہماری عبادتیں قبول کر رہا ہے۔ ہر انسان کی زندگی اتنی پر اسرار ، مہم جو ضرور ہوتی ہے کہ اس پر ایک ناول لکھا جاسکے یا پھر فلم بنائی جاسکے۔ امریکی مصنف Winston Groomنے اسی سوچ کے ساتھ 1986 میں ایوارڈ یافتہ اپنا سوانحی ناول Forrest Gumpلکھا۔ ناول کی کہانی ایک عام شخص کی زندگی کے گرد چلتی ہے۔
اس کا نام Forrest Gumpتھا ، ایک محبت کرنے والا اور ہر موڑ پہ سر پرائز دینے والا لڑکا جو بچپن ہی سے عجیب تھا۔ بچپن میں اپنی ٹانگوں پر چلنے سے بھی قاصر تھا ، پھر قدرت نے صحت دی تو بھاگتے بھاگتے کھلاڑی بن گیا۔
یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کا ہیرو بنا اور پھر ٹیبل ٹینس کا عالمی کھلاڑی بن کر سب کو حیران کردیا۔ امریکا کی گلیوں سے نکل کر ویت نام جنگ کا سپاہی بنا رہا پھر اس کے بعد NASA میں کام کرنے لگا اورما ہر فلکیات میں ڈھل گیا اور پھر آخر میں ایک بہت بڑا کاروباری تاجر بن گیا۔ اس سب سفر میں اس کے اندر وہی چھوٹا بچہ ہمیشہ موجود رہا جو اسکول میں اپنی ہم مکتب لڑکی جینی سے محبت کرتا تھا وہ ہی بچہ زندگی کے ہر موڑ اور تغیر پر ایک حیرت کی نظر مارتا چلتا رہا۔
چہرے پر معصوم مسکراہٹ سجا کر Forrest Gump اپنے نام پر لکھے اس ناول میں اپنی کہانی ہمیں خود سناتا ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ اور امریکا کی فضاؤں میں اس نے40 بر س کیسے گذار ے ؟ ایک بچے کا محبت بھرا دل جو اس کا ساتھ بڑا نہ ہوا وہ ماں کی باتیں جو اسکول جاتے سنتا تھا ، بوڑھا ہوکر بھی دہراتا رہا۔ 1994میں پیر ا ماؤنٹ پکچرز نے اس ناول پر اسی نام پر فلم بنائی جس نے 6 آسکر ایوارڈ لیے اور اب پیرا ماؤنٹ پکچرز نے ہندوستان میںAamir Khan Productions کے ساتھ مل کر اس فلم کا آفیشل ری میک تیارکیا ہے۔
فلم کا نام '' لال سنگھ چڈا '' رکھا گیا ہے آج پاکستانی سماج میں کروڑوں انسان "Forrest Gump" بن چکے ہیں بس ان کے نام مختلف ہیں لیکن وہ "Forrest Gump" کی طرح خوشحال ، کامیاب نہیں ہوئے ، لیکن ایک بات ان میں اور "Forrest Gump" میں مشترکہ ہے کہ وہ سب آج بھی اپنی ماں کی باتیں یاد کرتے رہتے ہیں ۔
زندگی کے سارے سفر میں ان کے اندر وہ ہی چھوٹا بچہ آج بھی موجود ہے جو ان کے ساتھ کبھی بڑا نہیں ہوا وہ آج بھی اپنی ماؤں کی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ان کی ماؤں کی باتوں کی یادیں محفوظ پناہ گاہ ہیں جہاں وہ زندگی کی دی گئی تلخیاں ، اذیتیں بھول جاتے ہیں اور وہ اپنی ماؤں کو بھول بھی کیسے سکتے ہیں۔ ایک وہ ہی تو واحد ہستی تھی جو ان سے بے لوث اور سچی محبت کیا کرتی تھی ، بعد میں تو انھوں نے اپنے لیے صرف اور صرف نفرتوں کی فصلیں کاٹی ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویلز یل کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کردیا تھا۔ Auschwitz کے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہوچکا تھا۔ ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف
قیدی نمبرA7713 تھا اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا '' آخرکیوں ، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا ، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تو اس وقت کہاں تھا جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو دار پر لٹکا دیا تھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلادیا تھا۔ وہ سترہ برس کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا۔
اس نے کہا '' تم سب جوگذرے جارہے ہو،کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگرکہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی۔'' ایلی ویلزیل تمہارے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں تمہارے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ، ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے نئی لغت ایجاد کرنی ہوگی۔
فرانز کافکا 1915 میں اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے ''حقیقتاً ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے سمجھتا ہو، لیکن اگر کوئی شخص آپ کے متعلق ایسا فہم رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی عورت، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ہر جانب اعتماد سے قدم بڑھا سکتے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو خدا مل گیا۔'' کافکا نے شادی نہیں کی ۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا ، جب اسے ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ '' اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھوگئی ہے'' کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
کافکا نے بچی سے کہا کہ ''وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔'' اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس گڑیا نے لکھا تھا خط میں لکھا تھا کہ ''میری دوست رو مت! میں دنیا گھومنے جا چکی ہوں اور میں تمہیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی۔'' یوں ایک کہانی کی ابتداء ہوئی جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔
بچی سے ملاقاتوں کے دوران کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتا جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اسے دلی سکون ملتا۔ بالاخر ایک دن کافکا نے اس بچی کوایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ ''اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے برلن واپس آگئی ہے۔'' بچی نے کہا کہ ''یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔'' کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا جس میں گڑیا نے لکھا تھا کہ ''دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں۔'' چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔ ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔
کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی تو ایک دن گڑیا کو الٹتے پلٹتے اسے اس کے اندر سے کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا ''ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو ایک دن گم ہوجائے گی لیکن بالاخر تمہیں کسی اور شکل و صورت میں ہی سہی لیکن محبت ضرور ملے گی۔'' یہ کافکا کا سچ ہے جو سچ ہوگا لیکن ہمارا سچ یہ ہے کہ ہم سے جو چیزکھو جاتی ہے، وہ ہمیں دوبارہ کبھی واپس نہیں ملتی۔ کسی اور شکل وصورت میں بھی نہیں۔
آج بھی ہم خوشیوں، سکون، خوشحالی، ترقی، کامیابی، اختیار، حقوق کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، انھیں جگہ جگہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ، لیکن خالی ہاتھ کے سوا اورکچھ ہاتھ آتا ہی نہیں ہے ، محنت کر کر کے تھک چکے ہیں ،کام کرتے کرتے عمر پوری ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیٹ بھر کے روٹی تک نصیب نہیں ہوتی ہے ، محبت ، خوشیاں ، سکون ، راحتیں ، لذتیں تو دور بہت دورکی باتیں ہیں ہم سے تو معصوم سی چھوٹی چھوٹی خواہشات تک روٹھی ہوئی ہیں۔ وعدوں ، آسروں ، امیدوں پر زندگی تمام ہورہی ہے۔ ہم سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ کسی کے پاس ہمارے لیے سوچنے تک کا وقت نہیں ہے۔
ہم دھتکارے ہوئے ذلتوں کے مارے انسان ہیں۔ ہم نے طاقتوروں ، اختیار والوں کے پاس اپنے لیے نفرت ہی دیکھی ہے۔ ہمارے سماج کے خوشحال اور با اختیار طاقتور ، لوگ نجانے کونسے ایسے کام کر رہے ہیں ، کونسی ایسی عبادتیں کر رہے ہیں کہ زندگی کی تمام راحتیں ، خوشیاں ، سکون ، محبتیں، لذتیں ان کے گھروں کی لونڈی بنی ہوئی ہیں۔
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر ہم سے کون سے ایسے گناہ سرزد ہوگئے ہیں کہ خدا برسوں سے ہم سے ناراض ہے۔ نہ ہماری دعائیں سنتا ہے اور نہ ہی ہماری عبادتیں قبول کر رہا ہے۔ ہر انسان کی زندگی اتنی پر اسرار ، مہم جو ضرور ہوتی ہے کہ اس پر ایک ناول لکھا جاسکے یا پھر فلم بنائی جاسکے۔ امریکی مصنف Winston Groomنے اسی سوچ کے ساتھ 1986 میں ایوارڈ یافتہ اپنا سوانحی ناول Forrest Gumpلکھا۔ ناول کی کہانی ایک عام شخص کی زندگی کے گرد چلتی ہے۔
اس کا نام Forrest Gumpتھا ، ایک محبت کرنے والا اور ہر موڑ پہ سر پرائز دینے والا لڑکا جو بچپن ہی سے عجیب تھا۔ بچپن میں اپنی ٹانگوں پر چلنے سے بھی قاصر تھا ، پھر قدرت نے صحت دی تو بھاگتے بھاگتے کھلاڑی بن گیا۔
یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کا ہیرو بنا اور پھر ٹیبل ٹینس کا عالمی کھلاڑی بن کر سب کو حیران کردیا۔ امریکا کی گلیوں سے نکل کر ویت نام جنگ کا سپاہی بنا رہا پھر اس کے بعد NASA میں کام کرنے لگا اورما ہر فلکیات میں ڈھل گیا اور پھر آخر میں ایک بہت بڑا کاروباری تاجر بن گیا۔ اس سب سفر میں اس کے اندر وہی چھوٹا بچہ ہمیشہ موجود رہا جو اسکول میں اپنی ہم مکتب لڑکی جینی سے محبت کرتا تھا وہ ہی بچہ زندگی کے ہر موڑ اور تغیر پر ایک حیرت کی نظر مارتا چلتا رہا۔
چہرے پر معصوم مسکراہٹ سجا کر Forrest Gump اپنے نام پر لکھے اس ناول میں اپنی کہانی ہمیں خود سناتا ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ اور امریکا کی فضاؤں میں اس نے40 بر س کیسے گذار ے ؟ ایک بچے کا محبت بھرا دل جو اس کا ساتھ بڑا نہ ہوا وہ ماں کی باتیں جو اسکول جاتے سنتا تھا ، بوڑھا ہوکر بھی دہراتا رہا۔ 1994میں پیر ا ماؤنٹ پکچرز نے اس ناول پر اسی نام پر فلم بنائی جس نے 6 آسکر ایوارڈ لیے اور اب پیرا ماؤنٹ پکچرز نے ہندوستان میںAamir Khan Productions کے ساتھ مل کر اس فلم کا آفیشل ری میک تیارکیا ہے۔
فلم کا نام '' لال سنگھ چڈا '' رکھا گیا ہے آج پاکستانی سماج میں کروڑوں انسان "Forrest Gump" بن چکے ہیں بس ان کے نام مختلف ہیں لیکن وہ "Forrest Gump" کی طرح خوشحال ، کامیاب نہیں ہوئے ، لیکن ایک بات ان میں اور "Forrest Gump" میں مشترکہ ہے کہ وہ سب آج بھی اپنی ماں کی باتیں یاد کرتے رہتے ہیں ۔
زندگی کے سارے سفر میں ان کے اندر وہ ہی چھوٹا بچہ آج بھی موجود ہے جو ان کے ساتھ کبھی بڑا نہیں ہوا وہ آج بھی اپنی ماؤں کی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ان کی ماؤں کی باتوں کی یادیں محفوظ پناہ گاہ ہیں جہاں وہ زندگی کی دی گئی تلخیاں ، اذیتیں بھول جاتے ہیں اور وہ اپنی ماؤں کو بھول بھی کیسے سکتے ہیں۔ ایک وہ ہی تو واحد ہستی تھی جو ان سے بے لوث اور سچی محبت کیا کرتی تھی ، بعد میں تو انھوں نے اپنے لیے صرف اور صرف نفرتوں کی فصلیں کاٹی ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویلز یل کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کردیا تھا۔ Auschwitz کے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہوچکا تھا۔ ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف
قیدی نمبرA7713 تھا اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا '' آخرکیوں ، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا ، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تو اس وقت کہاں تھا جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو دار پر لٹکا دیا تھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلادیا تھا۔ وہ سترہ برس کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا۔
اس نے کہا '' تم سب جوگذرے جارہے ہو،کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگرکہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی۔'' ایلی ویلزیل تمہارے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں تمہارے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ، ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے نئی لغت ایجاد کرنی ہوگی۔