بطورِ مسلم ہمیں سوچنا ہوگا
ہم پیدائشی جنتی ہیں تو ہم کیونکر پیچھے رہ سکتے ہیں
کراچی:
دنیا میں ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری سماجی، مالی، اقتصادی ، حفاظتی ، معاشرتی حیثیت کیا ہے؟ ہم نے ترقی کے کتنے اور کون سے مدارج طے کیے ہیں؟ کیا ہم اس دور کی جدت کے ساتھ ہیں؟ کیا ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایجادات کی ہیں؟ کیا ہم ارتقا کے لازوال عمل کا حصہ ہیں، کیا ہم سوچتے، سمجھتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں کہ جو حکم ہمیں اللہ کی طرف سے ملا، اس پر عمل کیا یا ہم ماضی میں کچھ ایسے الجھ گئے ہیں کہ اس سے باہر نکلتے ہی نہیں ، ماضی درخشاں ہی سہی لیکن اگر وہ مستقبل اور حال میں آگے بڑھنے کی ترغیب کے لیے ہو تو جائز ہے ، بہتر ہے لیکن اگر اُسے زندگی کا حاصل قرار دے کر ، وہیں تک محدود ہوجائیں تو یہ زہرِ قاتل بھی ہے یہ پھر آپ کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے محدود کردے گا ، جیسے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
تھے تو آباء تہمارے تو مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
بلاشبہ 1300صدی عیسوی تک مسلم علماء ، مفکر ، دانشور ، ادیب ، خطیب سائنسدان ، علمِ کیمیاء کے ماہر اپنی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے ، ان کی تحریر کردہ کتب ایسی لاجواب سائنس تسلیم کی گئیں ، جسے اہلِ یورپ نے 1600صدی عیسوی تک اپنی یونیورسٹیز میں لازمی subject قرار دیا وہ آپ ہی کو پڑھتے اور پڑھاتے رہے ، وہ مسلم حکماء کی تحقیق سے متاثر رہے اور یہی وہ دور تھا جب دنیا پر اسلام کی حکمرانی رہی ، مسلمان حاکم رہے۔
جابر بن حیان ، بو علی سینا ، البیرونی ، ابن الحاشم جیسے نامور ماہرِ ریاضی داں ، مورخ آج بھی دنیائے سائنس میں تعلیم کا حصہ ہیں ، لیکن پھر رفتہ رفتہ ہم زوال پذیری کی جانب گامزن ہونے لگے، ہمارے حکمران، عوام سستی، کاہلی اورعیاشی کی طرف مائل ہونے لگے، غور و فکر کی الٰہی دعوت کو فراموش کر دیا ، ہم شارٹ کٹ کے عادی ہونے لگے ، ہم نے خود ہی قرار دے دیا کہ ماضی کی جنگی اور سائنسی فتوحات ہی ہمیں مستقبل کا حکمران بھی بنائے رکھیں گی اور کیونکہ ہم نبی پاک ﷺ کی امت ہیں تو اللہ ہم پر غیب سے مہربان رہے گا وہ کبھی ہمیں ہارنے ہی نہیں دے گا۔
ہم پیدائشی جنتی ہیں تو ہم کیونکر پیچھے رہ سکتے ہیں کیونکر وہ اقوام جنھیں ہم مشرک قرار دیتے ہیں ہم سے آگے نکل سکتی ہیں؟ آخر ہم ماضی کے حکمران بھی تو رہے ہیں تب اللہ نے غیب سے ہماری مدد کی تھی تو آیندہ وہ ہمیں تنہا کیوں چھوڑے گا ؟ بس ہم حاکم رہیں گے اور وہ محکوم ، یہ تھے وہ خیالات جو برسہا برس تک ہمارے دل و دماغ پر چھائے رہے اور ہم نے ایسے ہی فاسق و فاجر تواہمات پر اپنا سب کچھ قربان کردیا کیونکہ ہم اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ اللہ فطرت کا خدا ہے اور اس کی ہر الہامی کتاب کا موضوع فطرت ہے۔ اس کی ہر تخلیق فطری اُصولوں پر مبنی ہے ، اس کی کائنات میں سب کچھ عین فطرت ہے۔
تب وہ کیسے غیر فطری عمل کا ساتھ دے سکتا ہے اس نے جو وعدے اپنی الہامی کتب میں کیے ہیں کیونکر وہ ان کے خلاف جائے گا وہ تو منصف ہے ، عادل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت واضح پیغام ہے اہل ِ اسلام کے لیے کہ وہ فطرت کا رب ہے ، اگرچہ اسلام اس کا پسندیدہ دین ہے اور اسی دین میں انسانوں کی فلاح اور نجات ہے لیکن دنیا جس کی تخلیق ہی فطرت پر کی گئی ہے اس کی زندگی میں آپ کو اپنے ہر عمل میں ہر قدم پر natureکوfollowکرنا ہوگا۔
آج دنیا بھرکے مسلمانوں کو سوچنا ہوگا ، ازسرِ نو اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم وہ واحد قوم ہیں ، جو ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اور ہماری اور سب انسانوں کی کتاب قرآن کریم میں اللہ نے ہر مقام پر ہمیں فطری احکامات دیے ہیں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس کا موضوع انسان نہ ہو جس میں انسانیت کی بات نہ ہو۔قرآن کائنات کا فکر و فلسفہ ہے ، کرۂ ارض کی شاعری ہے ، زندگی کا ردھم ہے، کاش کوئی اسے پڑھنے کے بعد سمجھنے والا ہو ، تو وہ جان لے گا کہ قرآن ایک زندہ روح ہے جو اپنے ہر قاری سے گفتگو کرتا ہے ، آج ہمیں بطورِ مسلمان سوچنا ہوگا کہ ہماری پستی کی وجہ کیا ہے۔
ہم فاتح قوم تھے تو اس کی وجہ کیا تھی ، آج مفتوح ہیں تو وجہ کیا ہے؟ حالانکہ ہمارے پاس حضورﷺ کی احادیثِ مبارکہ اور سیرت پاک ہیں جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں لیکن مطالعہ شرط ہے، دیکھیے یہ کائنات اللہ نے یونہی نہیں بنائی ، اس کا ایک ایک جزو قابلِ غور ہے اور ازروئے قرآن غور و فکر عبادت ہے۔ اللہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی کائنات کوکھوجیں اس کی نت نئی پرتیں خود پر وا کریں ایسی ایجادات کریں جس سے ہم دنیا کے حکمران ہوں اور تمام انسانوں کو کلمۂ توحید کی دعوت دیں۔ ہم نے جو بوسیدہ اور پسماندہ خول اپنے گرد و پیش قائم کیا ہوا ہے۔
اسے توڑکر ایک نئے آسمان تلے آئیں اور دیکھیں کہ آج کے انسان نے کس قدر ترقی کر لی ہے وہ چاند اور مریخ پر آباد ہونے کی جانب سفر کررہا ہے۔ ہم جب عملی طور پرکچھ نہیں کر پاتے تو یورپ ، امریکا اور ترقی یافتہ دنیا کوگالیاں دینا شروع کردیتے ہیں ، ان سے بھی دل نہیں بھرتا تو انھیں بد دعائیں دیتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ کہتے سنتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پنکھے ، اے سی ،گاڑی ، موٹر سائیکل ، حتٰی کہ سوئی تک جو استعمال کر رہے ہوتے ہیں ، وہ ان ہی کی ایجاد کردہ ہیں جس موبائل سے ہزاروں میل دور اپنے کسی عزیز سے گھنٹوں بات کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی انھی کفارکا ایجاد کیا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آج بھی ایسے بہت سے مسلم ممالک ہیں ، جنھیں اللہ تعالیٰ نے تیل کی نعمت سے اور بہت سی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن وہ بھی عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں بھی تعلیم برائے نام ہے، تحقیق و ترقی نہ ہونے کے برابر ہے ، بس تیل بیچ کر ہی گزارا کر رہے ہیں ، یہانتک کہ وہ ممالک اپنے ملک کی شہریت تک مسلمانوں کو نہیں دیتے کوئی چلا جائے تو اس سے جی بھر کے بیگار لے لیتے ہیں لیکن اُسے آباد نہیں کرتے اور ستم یہ ہے کہ یہ کام بھی یہی کفار کرتے ہیںکہ وہ اپنے ممالک کی nationalityمسلمانوں کو دیتے ہیں اگر وہ سمجھیں کہ مذکورہ شخص ایماندار ہے۔
جفا کش ہے اور ان کے ملک کے لیے سود مند ہے لہٰذا آج دنیا کے بہترین انجینئرز، ڈاکٹرز امریکا ، یورپ ، چین ، جاپان وغیرہ میں آباد ہیں اور وہ خود بھی ترقی کر رہے ہیں اور ان ممالک کے لیے اپنی بہترین خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ دوستو ہمیں سوچنا ہوگا، بہت سوچنا ہوگا اور صرف فطرت کا انتخاب کرنا ہوگا صرف یہ جاننا ہوگا کہ فطرت ہم مسلمانوں سے کیا چاہتی ہے؟
دنیا میں ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری سماجی، مالی، اقتصادی ، حفاظتی ، معاشرتی حیثیت کیا ہے؟ ہم نے ترقی کے کتنے اور کون سے مدارج طے کیے ہیں؟ کیا ہم اس دور کی جدت کے ساتھ ہیں؟ کیا ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایجادات کی ہیں؟ کیا ہم ارتقا کے لازوال عمل کا حصہ ہیں، کیا ہم سوچتے، سمجھتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں کہ جو حکم ہمیں اللہ کی طرف سے ملا، اس پر عمل کیا یا ہم ماضی میں کچھ ایسے الجھ گئے ہیں کہ اس سے باہر نکلتے ہی نہیں ، ماضی درخشاں ہی سہی لیکن اگر وہ مستقبل اور حال میں آگے بڑھنے کی ترغیب کے لیے ہو تو جائز ہے ، بہتر ہے لیکن اگر اُسے زندگی کا حاصل قرار دے کر ، وہیں تک محدود ہوجائیں تو یہ زہرِ قاتل بھی ہے یہ پھر آپ کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے محدود کردے گا ، جیسے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
تھے تو آباء تہمارے تو مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
بلاشبہ 1300صدی عیسوی تک مسلم علماء ، مفکر ، دانشور ، ادیب ، خطیب سائنسدان ، علمِ کیمیاء کے ماہر اپنی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے ، ان کی تحریر کردہ کتب ایسی لاجواب سائنس تسلیم کی گئیں ، جسے اہلِ یورپ نے 1600صدی عیسوی تک اپنی یونیورسٹیز میں لازمی subject قرار دیا وہ آپ ہی کو پڑھتے اور پڑھاتے رہے ، وہ مسلم حکماء کی تحقیق سے متاثر رہے اور یہی وہ دور تھا جب دنیا پر اسلام کی حکمرانی رہی ، مسلمان حاکم رہے۔
جابر بن حیان ، بو علی سینا ، البیرونی ، ابن الحاشم جیسے نامور ماہرِ ریاضی داں ، مورخ آج بھی دنیائے سائنس میں تعلیم کا حصہ ہیں ، لیکن پھر رفتہ رفتہ ہم زوال پذیری کی جانب گامزن ہونے لگے، ہمارے حکمران، عوام سستی، کاہلی اورعیاشی کی طرف مائل ہونے لگے، غور و فکر کی الٰہی دعوت کو فراموش کر دیا ، ہم شارٹ کٹ کے عادی ہونے لگے ، ہم نے خود ہی قرار دے دیا کہ ماضی کی جنگی اور سائنسی فتوحات ہی ہمیں مستقبل کا حکمران بھی بنائے رکھیں گی اور کیونکہ ہم نبی پاک ﷺ کی امت ہیں تو اللہ ہم پر غیب سے مہربان رہے گا وہ کبھی ہمیں ہارنے ہی نہیں دے گا۔
ہم پیدائشی جنتی ہیں تو ہم کیونکر پیچھے رہ سکتے ہیں کیونکر وہ اقوام جنھیں ہم مشرک قرار دیتے ہیں ہم سے آگے نکل سکتی ہیں؟ آخر ہم ماضی کے حکمران بھی تو رہے ہیں تب اللہ نے غیب سے ہماری مدد کی تھی تو آیندہ وہ ہمیں تنہا کیوں چھوڑے گا ؟ بس ہم حاکم رہیں گے اور وہ محکوم ، یہ تھے وہ خیالات جو برسہا برس تک ہمارے دل و دماغ پر چھائے رہے اور ہم نے ایسے ہی فاسق و فاجر تواہمات پر اپنا سب کچھ قربان کردیا کیونکہ ہم اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ اللہ فطرت کا خدا ہے اور اس کی ہر الہامی کتاب کا موضوع فطرت ہے۔ اس کی ہر تخلیق فطری اُصولوں پر مبنی ہے ، اس کی کائنات میں سب کچھ عین فطرت ہے۔
تب وہ کیسے غیر فطری عمل کا ساتھ دے سکتا ہے اس نے جو وعدے اپنی الہامی کتب میں کیے ہیں کیونکر وہ ان کے خلاف جائے گا وہ تو منصف ہے ، عادل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت واضح پیغام ہے اہل ِ اسلام کے لیے کہ وہ فطرت کا رب ہے ، اگرچہ اسلام اس کا پسندیدہ دین ہے اور اسی دین میں انسانوں کی فلاح اور نجات ہے لیکن دنیا جس کی تخلیق ہی فطرت پر کی گئی ہے اس کی زندگی میں آپ کو اپنے ہر عمل میں ہر قدم پر natureکوfollowکرنا ہوگا۔
آج دنیا بھرکے مسلمانوں کو سوچنا ہوگا ، ازسرِ نو اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم وہ واحد قوم ہیں ، جو ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اور ہماری اور سب انسانوں کی کتاب قرآن کریم میں اللہ نے ہر مقام پر ہمیں فطری احکامات دیے ہیں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس کا موضوع انسان نہ ہو جس میں انسانیت کی بات نہ ہو۔قرآن کائنات کا فکر و فلسفہ ہے ، کرۂ ارض کی شاعری ہے ، زندگی کا ردھم ہے، کاش کوئی اسے پڑھنے کے بعد سمجھنے والا ہو ، تو وہ جان لے گا کہ قرآن ایک زندہ روح ہے جو اپنے ہر قاری سے گفتگو کرتا ہے ، آج ہمیں بطورِ مسلمان سوچنا ہوگا کہ ہماری پستی کی وجہ کیا ہے۔
ہم فاتح قوم تھے تو اس کی وجہ کیا تھی ، آج مفتوح ہیں تو وجہ کیا ہے؟ حالانکہ ہمارے پاس حضورﷺ کی احادیثِ مبارکہ اور سیرت پاک ہیں جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں لیکن مطالعہ شرط ہے، دیکھیے یہ کائنات اللہ نے یونہی نہیں بنائی ، اس کا ایک ایک جزو قابلِ غور ہے اور ازروئے قرآن غور و فکر عبادت ہے۔ اللہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی کائنات کوکھوجیں اس کی نت نئی پرتیں خود پر وا کریں ایسی ایجادات کریں جس سے ہم دنیا کے حکمران ہوں اور تمام انسانوں کو کلمۂ توحید کی دعوت دیں۔ ہم نے جو بوسیدہ اور پسماندہ خول اپنے گرد و پیش قائم کیا ہوا ہے۔
اسے توڑکر ایک نئے آسمان تلے آئیں اور دیکھیں کہ آج کے انسان نے کس قدر ترقی کر لی ہے وہ چاند اور مریخ پر آباد ہونے کی جانب سفر کررہا ہے۔ ہم جب عملی طور پرکچھ نہیں کر پاتے تو یورپ ، امریکا اور ترقی یافتہ دنیا کوگالیاں دینا شروع کردیتے ہیں ، ان سے بھی دل نہیں بھرتا تو انھیں بد دعائیں دیتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ کہتے سنتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پنکھے ، اے سی ،گاڑی ، موٹر سائیکل ، حتٰی کہ سوئی تک جو استعمال کر رہے ہوتے ہیں ، وہ ان ہی کی ایجاد کردہ ہیں جس موبائل سے ہزاروں میل دور اپنے کسی عزیز سے گھنٹوں بات کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی انھی کفارکا ایجاد کیا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آج بھی ایسے بہت سے مسلم ممالک ہیں ، جنھیں اللہ تعالیٰ نے تیل کی نعمت سے اور بہت سی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن وہ بھی عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں بھی تعلیم برائے نام ہے، تحقیق و ترقی نہ ہونے کے برابر ہے ، بس تیل بیچ کر ہی گزارا کر رہے ہیں ، یہانتک کہ وہ ممالک اپنے ملک کی شہریت تک مسلمانوں کو نہیں دیتے کوئی چلا جائے تو اس سے جی بھر کے بیگار لے لیتے ہیں لیکن اُسے آباد نہیں کرتے اور ستم یہ ہے کہ یہ کام بھی یہی کفار کرتے ہیںکہ وہ اپنے ممالک کی nationalityمسلمانوں کو دیتے ہیں اگر وہ سمجھیں کہ مذکورہ شخص ایماندار ہے۔
جفا کش ہے اور ان کے ملک کے لیے سود مند ہے لہٰذا آج دنیا کے بہترین انجینئرز، ڈاکٹرز امریکا ، یورپ ، چین ، جاپان وغیرہ میں آباد ہیں اور وہ خود بھی ترقی کر رہے ہیں اور ان ممالک کے لیے اپنی بہترین خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ دوستو ہمیں سوچنا ہوگا، بہت سوچنا ہوگا اور صرف فطرت کا انتخاب کرنا ہوگا صرف یہ جاننا ہوگا کہ فطرت ہم مسلمانوں سے کیا چاہتی ہے؟