پی آئی بی کالونی کا وائٹ ہال اسکول نصف صدی مکمل
سر مشتاق احمد نے وائٹ ہال اسکول کو اپنی محنت اور جانفشانی سے بہت جلد کراچی کے صف اول کے اسکولوں میں منوا لیا
قیام پاکستان کے فوراً بعد جہاں متعدد شعبوں کی بنیاد ڈالی گئی، وہیں ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں مہاجرین کے بچوں کےلیے اسکولوں کے قیام کی ضرورت کو بھی شدت سے محسوس کیا گیا۔
ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے، جن میں ہنرمند اور مزدور افراد کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل تھے۔ یہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تھے جو ہندوستان کی اعلیٰ درسگاہوں دہلی یونیورسٹی، حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی سمیت دیگر بڑی جامعات سے فارغ التحصیل تھے اور اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کرکے اس نئے وطن پاکستان میں آکر آباد ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر افراد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں قائم ہونے والے مختلف شعبہ جات میں ملازمت کے مواقع حاصل ہوگئے اور یہی افراد آگے چل کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔ لیکن ان ہجرت کرکے آنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں چند افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے اچھی ملازمتوں کے مواقعوں کو نظر انداز کرکے شعبہ تعلیم کو اپنا کر مہاجر خاندان کے بچوں کے حصول تعلیم میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں اسی شعبے سے منسلک ہوکر رہ گئے۔
ان ہی میں ایک نام سر مشتاق احمد کا ہے، جو 1947 میں علیگڑھ سے ہجرت کرکے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آئے اور سندھ کے علاقے ٹنڈو آدم میں آباد ہوگئے۔ انگریزی اور اردو میں ڈبل ایم اے کی ڈگری رکھنے والے اس نوجوان نے بھی کسی اعلیٰ ملازمت کے حصول کو مسترد کرکے ایک چھوٹے سے علاقے میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ 1953 تک جاری رہا۔ بعد ازاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے 1953-1962 تک کراچی کی مختلف درسگاہوں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور 1962 میں کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں وائٹ ہال کے نام سے ایک اسکول کی بنیاد ڈالی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور درس و تدریس میں کئی سال کا تجربہ رکھنے والے سر مشتاق احمد کی جانفشانی اور محنت سے اس اسکول کا نام پورے شہر میں لیا جانے لگا اور بہت جلد ہی وائٹ ہال اسکول کا شمار نہ صرف پی آئی بی کالونی بلکہ کراچی کے صف اوّل کے اسکولوں میں کیا جانے لگا۔
وائٹ ہال اسکول کے قیام کو ابھی صرف دس برس ہی گزرے تھے کہ اسکول کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے دیگر اسکولوں کے ساتھ ساتھ وائٹ ہال اسکول کو بھی نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وائٹ ہال اسکول کے حکومتی تحویل میں لیے جانے کے بعد سر مشتاق احمد اور اہلیہ مسز نجمہ مشتاق نے ایک نئے اسکول شمع وائٹ ہال کا آغاز کیا۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بحیثیت اسکول کے منتظم کا وسیع تجربہ رکھنے والے سر مشتاق احمد نے اس بار بھی اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے بڑی کامیابی سے شمع وائٹ ہال کی باگ ڈور سنبھال لی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نئے اسکول نے بھی بڑی تیزی سے کامیابی کے مراحل طے کرنا شروع کردیے اور ابتدائی چند برسوں میں ہی شمع وائٹ ہال کی گونج پورے شہر میں سنائی دینے لگی۔
اس قابل جوڑے نے نہایت قلیل وقت میں اس نومولود اسکول کو بھی صف اوّل کے اسکولوں میں لاکھڑا کیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف پی آئی بی کے رہنے والے بلکہ دوسرے علاقوں میں رہنے والے بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرانے کی کوشش لگے رہتے تھے۔ اس اسکول میں داخلے صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر دیے جاتے تھے اور اسکول انتظامیہ نے داخلے کے امیدوار بچوں کےلیے نہایت ہی سادہ ٹیسٹ سسٹم متعارف کرایا، جسے پاس کرنے کے بعد بچے اسکول میں داخلے کے اہل قرار پاتے تھے۔ میری بھی یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے بھی اس اسکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہماری دسویں جماعت شمع وائٹ ہال کا سب سے پہلا پاسنگ آؤٹ بیج تھا جو آج سے چالیس سال قبل 1983 میں پاس آؤٹ ہوا تھا۔
جون 2022 کو شمع وائٹ اسکول کے قیام کو پچاس سال مکمل ہوگئے۔ اسکول انتظامیہ اور فارغ التحصیل طلبا اور طالبات کی جانب سے اسکول کی گولڈن جوبلی کی تقریب 19 جون کو کراچی کے ایک بڑے بینکوئٹ ہال میں منعقد کی گئی۔
یہاں قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بتاتے چلیں کہ پی آئی بی کالونی کا مکمل نام پیر الہٰی بخش کالونی ہے جو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دیرینہ دوست اور تحریک پاکستان کے ایک متحرک کارکن سمجھے جاتے تھے۔ سر مشتاق کی دو بیٹیاں شمع اور رومیلہ جبکہ ایک بیٹا رہبر ہے۔ بیٹی شمع بہت چھوٹی عمر میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی اور انہی کے نام پر شمع وائٹ ہال اسکول کا نام رکھا گیا تھا، جبکہ دوسری بیٹی رومیلہ کئی برسوں سے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ امریکا میں مقیم ہیں۔ چند برس قبل سر مشتاق احمد کے انتقال کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے رہبر مشتاق نے اسکول کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔ اب عین ممکن ہے کہ آئندہ چند برسوں میں رہبر سر بھی اس اسکول کی باگ ڈور اپنی آئندہ نسل کے سپرد کردیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے، جن میں ہنرمند اور مزدور افراد کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل تھے۔ یہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تھے جو ہندوستان کی اعلیٰ درسگاہوں دہلی یونیورسٹی، حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی سمیت دیگر بڑی جامعات سے فارغ التحصیل تھے اور اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کرکے اس نئے وطن پاکستان میں آکر آباد ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر افراد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں قائم ہونے والے مختلف شعبہ جات میں ملازمت کے مواقع حاصل ہوگئے اور یہی افراد آگے چل کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔ لیکن ان ہجرت کرکے آنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں چند افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے اچھی ملازمتوں کے مواقعوں کو نظر انداز کرکے شعبہ تعلیم کو اپنا کر مہاجر خاندان کے بچوں کے حصول تعلیم میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں اسی شعبے سے منسلک ہوکر رہ گئے۔
ان ہی میں ایک نام سر مشتاق احمد کا ہے، جو 1947 میں علیگڑھ سے ہجرت کرکے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آئے اور سندھ کے علاقے ٹنڈو آدم میں آباد ہوگئے۔ انگریزی اور اردو میں ڈبل ایم اے کی ڈگری رکھنے والے اس نوجوان نے بھی کسی اعلیٰ ملازمت کے حصول کو مسترد کرکے ایک چھوٹے سے علاقے میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ 1953 تک جاری رہا۔ بعد ازاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے 1953-1962 تک کراچی کی مختلف درسگاہوں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور 1962 میں کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں وائٹ ہال کے نام سے ایک اسکول کی بنیاد ڈالی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور درس و تدریس میں کئی سال کا تجربہ رکھنے والے سر مشتاق احمد کی جانفشانی اور محنت سے اس اسکول کا نام پورے شہر میں لیا جانے لگا اور بہت جلد ہی وائٹ ہال اسکول کا شمار نہ صرف پی آئی بی کالونی بلکہ کراچی کے صف اوّل کے اسکولوں میں کیا جانے لگا۔
وائٹ ہال اسکول کے قیام کو ابھی صرف دس برس ہی گزرے تھے کہ اسکول کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے دیگر اسکولوں کے ساتھ ساتھ وائٹ ہال اسکول کو بھی نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وائٹ ہال اسکول کے حکومتی تحویل میں لیے جانے کے بعد سر مشتاق احمد اور اہلیہ مسز نجمہ مشتاق نے ایک نئے اسکول شمع وائٹ ہال کا آغاز کیا۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بحیثیت اسکول کے منتظم کا وسیع تجربہ رکھنے والے سر مشتاق احمد نے اس بار بھی اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے بڑی کامیابی سے شمع وائٹ ہال کی باگ ڈور سنبھال لی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نئے اسکول نے بھی بڑی تیزی سے کامیابی کے مراحل طے کرنا شروع کردیے اور ابتدائی چند برسوں میں ہی شمع وائٹ ہال کی گونج پورے شہر میں سنائی دینے لگی۔
اس قابل جوڑے نے نہایت قلیل وقت میں اس نومولود اسکول کو بھی صف اوّل کے اسکولوں میں لاکھڑا کیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف پی آئی بی کے رہنے والے بلکہ دوسرے علاقوں میں رہنے والے بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرانے کی کوشش لگے رہتے تھے۔ اس اسکول میں داخلے صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر دیے جاتے تھے اور اسکول انتظامیہ نے داخلے کے امیدوار بچوں کےلیے نہایت ہی سادہ ٹیسٹ سسٹم متعارف کرایا، جسے پاس کرنے کے بعد بچے اسکول میں داخلے کے اہل قرار پاتے تھے۔ میری بھی یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے بھی اس اسکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہماری دسویں جماعت شمع وائٹ ہال کا سب سے پہلا پاسنگ آؤٹ بیج تھا جو آج سے چالیس سال قبل 1983 میں پاس آؤٹ ہوا تھا۔
جون 2022 کو شمع وائٹ اسکول کے قیام کو پچاس سال مکمل ہوگئے۔ اسکول انتظامیہ اور فارغ التحصیل طلبا اور طالبات کی جانب سے اسکول کی گولڈن جوبلی کی تقریب 19 جون کو کراچی کے ایک بڑے بینکوئٹ ہال میں منعقد کی گئی۔
یہاں قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بتاتے چلیں کہ پی آئی بی کالونی کا مکمل نام پیر الہٰی بخش کالونی ہے جو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دیرینہ دوست اور تحریک پاکستان کے ایک متحرک کارکن سمجھے جاتے تھے۔ سر مشتاق کی دو بیٹیاں شمع اور رومیلہ جبکہ ایک بیٹا رہبر ہے۔ بیٹی شمع بہت چھوٹی عمر میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی اور انہی کے نام پر شمع وائٹ ہال اسکول کا نام رکھا گیا تھا، جبکہ دوسری بیٹی رومیلہ کئی برسوں سے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ امریکا میں مقیم ہیں۔ چند برس قبل سر مشتاق احمد کے انتقال کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے رہبر مشتاق نے اسکول کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔ اب عین ممکن ہے کہ آئندہ چند برسوں میں رہبر سر بھی اس اسکول کی باگ ڈور اپنی آئندہ نسل کے سپرد کردیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔