اسلام کا معاشی و اقتصادی نظام
مال غنیمت کی فراوانی سے فرد معاشی طور پر مضبوط اور تجارت کو فروغ حاصل ہوا
اگر دین اسلام کے اوّلین دور کا جائزہ لیا جائے تو فوراً واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کی ترقی و سرفرازی کی اصل وجہ اسلام کا وہ معاشی و اقتصادی نظام تھا کہ جس سے پہلے اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسلام سے پہلے پوری دنیا میں جہالت، خودغرضی ، مفادپر ستی، نفسانفسی اور ظلم و استحصال کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ ظالم حکمرانوں کے خزانے بھرے ہوئے تھے مگر ان کی ہوس ِ زر ختم نہیں ہوتی تھی۔ان کی عوام کی حالت انتہائی نا گفتہ بہِ تھی۔ مگر اس کے باوجود یہ ظالم حکمران مختلف طریقوں سے عوام کا خون نچوڑتے رہتے تھے، عرب اور بیرونی دنیا میں کچلی ہوئی اور بے بس و بے کس انسانیت کی سسکیاں ہرطرف گونج رہی تھیں مگر حکمرانوں کی بے حسیِ اور خواہشات نفس کی تکمیل اپنے عروج پر تھی، یہ حکمران اپنے خزانے اور حرم بھرنے میں مگن تھے۔
دین اسلام کے ابتدائی دور میں ہی ان ظالم، غاصب اور لٹیرے حکمرانوں تک اللہ کا پیام پہنچایا گیا کہ وہ ظلم و استحصال کی اس روش سے باز آجائیں، اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کے اُصول متعین کر دئیے ہیں انھیں اپنالیں ، ان بھٹکے ہوئے متکبر حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے نتیجے میں ان ممالک میں لشکر لشی کی گئی۔ ان کے خزانوں سے جو ''مال غنیمت '' حاصل ہوا اُسے بیت المال میں جمع کر لیا گیا اور ان خزانوں کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا گیا ۔
بیت المال میں جمع تمام خزانے، دولت اور مال غنیمت اللہ تعالیٰ کی امانت ٹھہرائے گئے ۔ خلفائے راشدین انتہائی کم وظیفہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے وصول کرتے تھے ۔ یہ وظیفہ کسی بھی مزدور کی آ مدنی سے کم ہوتا تھا ، جس کی وجہ سے خلفائے راشدین انتہائی کسمپرسی اور تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے، خلفائے راشدین کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے بھی یہی زندگی اور طرز حکمرانی اپنایا۔ آ پ نے بھی خزانوں کو مسلمانوں کی اخلاقی، معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا۔
غیر مسلم اقوام کی تر قی کی وجوہات
اسلام کے عروج کا دور تقریباً سات سو سال رہا ، غیر مسلم اقوام نے اسلام کی ترقی اور عروج کا جائزہ لیا ، تحقیق کی اور اسلام کے سنہری اُصولوںکو اپنا کر ایک نیا سفر شروع کیا ۔ مسلمان اسلام کی سمندر جیسی وسعت رکھنے والی تعلیمات کو فراموش کر کے تنگ نظری کے کنوئیں میں قید ہو گئے اور غیر مسلم نے اسلام کے بنیادی اُصولوں کو اپنا کر جدوجہد شروع کی، مسلمان زوال کی انتہا کی جانب اور غیر مسلم عروج کی جانب گا مزن ہوگئے۔ انھوں نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور اپنا لیا۔ غیر اقوام سے خزانے حاصل کرنے کی تدبیروں کو اپنایا ، ان ممالک نے سا ئنس اور ٹیکنالوجی کے حصول اور اس میں دسترس حاصل کر نے کیلئے سفر شروع کیا ، روائتی اسلحہ کے تصور سے نکل کر جدید اسلحہ بنایا ، کمزور ممالک کو مغلوب کیا ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ ممالک اسلام کے ابتدائی دور کے تصور کو اپنا کر ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ چونکہ موجودہ وقت کو '' مہذب دور '' کہا جاتا ہے، اس لئے ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام سے ''مال غنیمت '' حاصل کرنے کے جدید طریقے اپنا لئے گئے ہیں، ایک بڑا طریقہ ان ممالک کو اسلحہ اور سامان تعیشات کی ایکسپورٹ ہے جس کی بدولت ان ممالک سے بھاری مقدار میں زرِ مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس دولت کو وہ اپنے ملک کے عوام ، تعلیم ، جدید ریسرچ، طبی سہولتوں اور ضروریات ِ زندگی کیلئے خرچ کر رہے ہیں، پاکستان جیسے ممالک اپنی ساری دولت ان ممالک کو دیکر لگژری گاڑیاں، انھیں چلانے کیلئے پٹرول اور دوسرا سامان تعیشات خرید رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اپنی افواج کو بھی اپنی تجارتی کا میابیوں اور ''مال غنیمت'' حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اگر صرف پچھلے پچاس سالوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ حقائق سامنے آ تے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، مادی ترقی اور معیاری زندگی بلند کرنے کا جو فلسفہ پھیلایا گیا، اُس نے پا کستان جیسے تمام ممالک کو تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے۔
پاکستانی عوام کو ایک ایسے طرز زندگی کا عادی بنا دیا گیا ہے، جس کے ہم متحمل ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ اب موبائیل فونز، ائیر کنڈ یشنڈ ، گاڑیاں، لگژری گاڑی، بڑے بڑے بنگلے ہوٹلنگ اور سامان تعیشات کی درآمد کیلئے تقریبا ً باون) 52 ( ارب ڈالر سالانہ خرچ کیا جا رہا ہے، یہ رقم پاکستانی کرنسی میں ستانوے کھرب ، چھیترارب (76) بنتی ہے۔ یہ ہے دوسرے ممالک سے دولت ہتھیانے کا ''جدید طریقہ'' یہ صرف ایک ملک کی دولت ہے جو بیرونِ ممالک جاتی ہے رقم ہتھیانے والے ممالک یہ دولت اپنے ملک وقوم کی خوشحالی پر بھی خرچ کرتے ہیں، اپنی افواج اور اداروں پر بھی۔ یہ ممالک اپنی افواج کو اپنی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی تجارتی سبقت اور معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے مختلف قسم کے اتحاد قا ئم کر رکھے ہیں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک ان کے تجارتی، معاشی اور اقتصادی مفادات میں آڑے آنے کوشش کر رہا ہے وہاں فوراً ان ممالک کی افواج حرکت میںآجاتی ہے۔ ان ممالک کی افواج اپنے ملک کی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی ملک وقوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو رہی ہیں، ان ممالک کا اپنا دفاع جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے نا قابل تسخیر ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے آلہ کار بھارت اور غاصب اسرائیل جیسے ممالک کے ذریعے پاکستان اور عرب ممالک کو اپنی بقاء کی جنگ پر مجبور کر رکھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہمارے دفاع کیلئے خرچ ہو رہا ہے مگر اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔
اگر ہم آج کے ترقی یا فتہ ممالک کا جائزہ لیں تو فوراً یہ حقیقت سا منے آ جاتی ہے کہ ان تمام ممالک نے اسلام کے ابتدائی دور کے اُصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔ جبکہ ریاست مدینہ کے لشکر اپنے دفاع کیلئے نہیں بلکہ ظالم اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسرپیکار تھے، یہ لشکر اپنے تجارتی قافلوں کو تحفظ دیتے تھے، یہ مفتوح علاقوں میں امن قائم رکھنے کیلئے ریاست کی معا ونت کرتے تھے، جو مال غنیمت اسلامی بیت المال میں جمع کرواتے تھے۔
امریکہ اور یورپ نے اسلامی ممالک کو اپنی ہی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے، ان ممالک کی اسلامی ممالک کے خلاف سازشیں فوراً سامنے آ جاتی ہیں مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کا مقابلہ کرنے کا ادراک اور فہم ہی نہیں رکھتے ۔
اصل جرم 98 کھرب روپے کی امپورٹ ہے
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے یہاں ''علمائے کرام'' کی بہتات ہے۔ یہ علماء کرام دین اسلام کی اپنے اپنے فقہ کے مطابق تشریح کرتے رہتے ہیں، مگر ان کی زیادہ تر تعلیمات '' وضو کا طریقہ'' بتانے تک محدود ہیں، اسلام کی اُن تعلیمات اور جدو جہد کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام پھیلا اور مسلمانوں کی معاشی واقتصادی حالت کو بہتر بنایا گیا ۔ زکواۃ کو تمام معاشی مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے اور زکواۃ کو معاشی واقتصادی توازن کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس قدر مال غنیمت حاصل ہوتا تھا کہ کوئی مسلما ن نادار رہ ہی نہیں گیا۔ بلکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں تو کوئی زکواۃ لینے والا ملتا ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور کے بعد بیت المال کو مسلمانوں کی مالی و معاشی حا لت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا جاتا تھا ، بہت ہی کم افراد ایسے تھے کہ جو زکواۃ کے مستحق تھے ، وہ بھی بیمار اور اپاہج وغیرہ ہوتے تھے۔
اگر ''علماء کرام'' حکومت کی راہنمائی کرتے اور اسلام کا یہ پہلو سامنے لاتے تو ممکن تھا کہ حکمران وہ پالیسیاں بناتے کہ اسقدر امپورٹ کی ضرورت ہی پیش نہ آ تی۔ فضول چیزیں منگوانے پر پا بندی عائد ہوتی ۔ ہر سال کرپشن زدہ رقم کے بیس یا تیس ارب روپے باہر جانے کا اتنا نقصان نہیں ہوتا کہ جتنا 98 کھرب روپے کی امپورٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آج بھی آدھی رقم صرف سامان تعیشات اور پیٹرول پر خرچ کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتے کہ ہمارا زرمبادلہ کم از کم باہر جاتا۔ خام مال استعمال کرنے اور ضروریات زندگی کی مصنوعات تیار کرنے کیلئے ملک میں ہی کا رخانے اور فیکٹریاں لگائی جاتیں۔ ایک ایک گھر میں گاڑیوں کی بہتات نہ ہوتی۔ ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔ مہنگی ترین گاڑیاں خریدنے، بڑ ے بڑے محل بنانے اور پر تعیش سامان حاصل کرنے کی دوڑ شامل ہے ۔ ان چیزوں کے حصول کیلئے نا جائز مال بنایا اور کمایا جاتا ہے۔
علماء کرام نے زکواۃ کی اہمیت پر جو زور دیا ہے وہ ''مال غنیمت '' حاصل کرنے پرنہیں دیا، بلکہ قیام پا کستان سے لیکر آج تک غیر اقوام ہمارے ملک سے '' مال غنیمت '' لے جا رہی ہیں ۔ عوام میں بھی شعور پیدا ہونا چاہیے اور انھیں اسلام کی تعلیمات اور اسلام کے ابتدائی دور کے متعلق آ گہی حاصل ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کی ترقی کیلئے دین اسلام کو اور اسلام کے ابتدائی دور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اسلامی ریاست کے چار ستون
(۱) قرآن و حدیث اور سنت
(۲) آ ئمہ کرام ، صوفیا ء کرام اور علماء حق کی تعلیما ت اور دین کی تشریح
(۳) صالح اور با کردار مسلمان حکمران
(۴) عدلیہ
ہمارے تمام تر مسائل کی اصل وجہ یہ کہ قرآ نی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھایا نہیں گیا، اسلام کو کلمہ توحید ، نماز قائم کرنا ، روزے رکھنا ، زکواۃ دینا اور حج ادا کرنا تک محدود کر دیا گیا ہے اور ان فرائض پر عمل کرنا ہی دین سمجھا گیا ہے۔ جبکہ ان فرائض پر عمل کئے بغیر کوئی فرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
بطور اُمتی اصل معا ملات اس کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث اور سنت کے ذریعے ہر فرد کی ذ مہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے، اور دین اسلام میں فرائض کے بعد سماجی اور معاشی خوشحال زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملکی معاشی ، اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ انتہائی ضرورت کی اشیاء کے علاوہ ہر قسم کی امپورٹ بند کر دی جائے، موجودہ پا لیسیوں کی وجہ سے زر مبادلہ تو باہر کے ممالک میں جا ہی رہا ہے۔ معاشی اور سماجی عدم توازن میں بھی بے حد اضافہ ہو چکا ہے، لوگ کرپشن زدہ رقومات سے مہنگا سامان تعیشات استعمال کر کے معاشرے کے '' معزز ترین'' افراد بنے ہوئے ہیں ۔ یہ سب کچھ دین اسلام کے اُصولوں کے متضاد ہے۔ قرآن وحدیث اور سنت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے کہ جن میں تمام تر انسانیت کیلئے دائمی خوشیاں، خو شحالی ، امن اور سکون کا پیام ہے۔ جس میں معاشرتی اور طبقاتی تفریق نہیں ہے۔جہاں جہالت نہیں بلکہ علم کی روشنی سے سارا جہاں منور ہو رہا ہے، ہر قسم کی ترقی کیلئے اسلامی ریاست کے چاروں ستونوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ !!!
امپورٹ ،ایکسپورٹ کے کا میاب اُصول''
حضور اکرم ﷺایک کا میاب تاجر بھی تھے ۔ آ پﷺ نے تجارت کے سنہری اُصول اپنائے۔ آپﷺ مکہ سے سامان تجارت لیکر باہر علاقوں میں جاتے تھے ، انھیں فروخت کرکے جورقم حاصل ہوتی اس سے وہ سامان تجارت خریدا جاتا جس کی مکہ میں ضرورت ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی یہی اُصول اپنایا۔ ان اُصولوں پر عمل کر کے دوطرفہ منافع بھی حاصل ہو تا ہے اور '' زر مبادلہ'' بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو میں آ پ ﷺکی سنت پر عمل کیا جائے تو تمام مشکلات اور پریشا نیاں ختم ہو جائیں گی ، زندگیوں میں برکت بھی شامل ہو گی ۔
مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ موجودہ دور کے علماء کرام نے اسلام کو انتہائی محدود کردیا ہے ۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور سنت مبارکہ کے کچھ پہلوؤں پر عمل کرنا ہی صرف اسلام قرار دیا گیا ہے، مگر دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے انسانیت کو دوام حاصل ہوا، لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی اور انھیں ہرقسم کا تحفظ حاصل ہوا، اور ہر فرد کو کا میاب زندگی گزارنے کے اُصول بتائے گئے ہیں ۔
ہر مسلمان حکمران پر ریاست ِ مدینہ کے اُ صولوں پر عمل کرنا لازم ہے
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو بشر ِکامل بنایا ، آ پ ؐ قرآن حکیم کی زندہ تفسیر وتصویر ہیں۔ آپ ؐ کی زندگی کے تمام پہلو یعنی سنت پر عمل کرنا ہی دین ہے۔ اسلام کسی فرد کا وضح کردہ نظام نہیں بلکہ مالک حقیقی کا اُتارا ہو ا نظام ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں پر ریاست مدینہ کے تمام اصولوں پر عمل کرنا سنت اور فرض بھی ہے۔ وگرنہ حکمران اپنے اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہونگے۔ ریاست مدینہ میں مال غنیمت حاصل کر کے ملکی خزانوں یعنی بیت المال میں جمع کروایا گیا اور انھیں عوام پر خرچ کیا گیا ۔ ملکی خزانوں کو ایکسپورٹ کے ذریعے غیر اقوام کو منتقل نہیں کیا ۔
اسلام سے پہلے پوری دنیا میں جہالت، خودغرضی ، مفادپر ستی، نفسانفسی اور ظلم و استحصال کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ ظالم حکمرانوں کے خزانے بھرے ہوئے تھے مگر ان کی ہوس ِ زر ختم نہیں ہوتی تھی۔ان کی عوام کی حالت انتہائی نا گفتہ بہِ تھی۔ مگر اس کے باوجود یہ ظالم حکمران مختلف طریقوں سے عوام کا خون نچوڑتے رہتے تھے، عرب اور بیرونی دنیا میں کچلی ہوئی اور بے بس و بے کس انسانیت کی سسکیاں ہرطرف گونج رہی تھیں مگر حکمرانوں کی بے حسیِ اور خواہشات نفس کی تکمیل اپنے عروج پر تھی، یہ حکمران اپنے خزانے اور حرم بھرنے میں مگن تھے۔
دین اسلام کے ابتدائی دور میں ہی ان ظالم، غاصب اور لٹیرے حکمرانوں تک اللہ کا پیام پہنچایا گیا کہ وہ ظلم و استحصال کی اس روش سے باز آجائیں، اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کے اُصول متعین کر دئیے ہیں انھیں اپنالیں ، ان بھٹکے ہوئے متکبر حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے نتیجے میں ان ممالک میں لشکر لشی کی گئی۔ ان کے خزانوں سے جو ''مال غنیمت '' حاصل ہوا اُسے بیت المال میں جمع کر لیا گیا اور ان خزانوں کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا گیا ۔
بیت المال میں جمع تمام خزانے، دولت اور مال غنیمت اللہ تعالیٰ کی امانت ٹھہرائے گئے ۔ خلفائے راشدین انتہائی کم وظیفہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے وصول کرتے تھے ۔ یہ وظیفہ کسی بھی مزدور کی آ مدنی سے کم ہوتا تھا ، جس کی وجہ سے خلفائے راشدین انتہائی کسمپرسی اور تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے، خلفائے راشدین کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے بھی یہی زندگی اور طرز حکمرانی اپنایا۔ آ پ نے بھی خزانوں کو مسلمانوں کی اخلاقی، معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا۔
غیر مسلم اقوام کی تر قی کی وجوہات
اسلام کے عروج کا دور تقریباً سات سو سال رہا ، غیر مسلم اقوام نے اسلام کی ترقی اور عروج کا جائزہ لیا ، تحقیق کی اور اسلام کے سنہری اُصولوںکو اپنا کر ایک نیا سفر شروع کیا ۔ مسلمان اسلام کی سمندر جیسی وسعت رکھنے والی تعلیمات کو فراموش کر کے تنگ نظری کے کنوئیں میں قید ہو گئے اور غیر مسلم نے اسلام کے بنیادی اُصولوں کو اپنا کر جدوجہد شروع کی، مسلمان زوال کی انتہا کی جانب اور غیر مسلم عروج کی جانب گا مزن ہوگئے۔ انھوں نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور اپنا لیا۔ غیر اقوام سے خزانے حاصل کرنے کی تدبیروں کو اپنایا ، ان ممالک نے سا ئنس اور ٹیکنالوجی کے حصول اور اس میں دسترس حاصل کر نے کیلئے سفر شروع کیا ، روائتی اسلحہ کے تصور سے نکل کر جدید اسلحہ بنایا ، کمزور ممالک کو مغلوب کیا ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ ممالک اسلام کے ابتدائی دور کے تصور کو اپنا کر ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ چونکہ موجودہ وقت کو '' مہذب دور '' کہا جاتا ہے، اس لئے ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام سے ''مال غنیمت '' حاصل کرنے کے جدید طریقے اپنا لئے گئے ہیں، ایک بڑا طریقہ ان ممالک کو اسلحہ اور سامان تعیشات کی ایکسپورٹ ہے جس کی بدولت ان ممالک سے بھاری مقدار میں زرِ مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس دولت کو وہ اپنے ملک کے عوام ، تعلیم ، جدید ریسرچ، طبی سہولتوں اور ضروریات ِ زندگی کیلئے خرچ کر رہے ہیں، پاکستان جیسے ممالک اپنی ساری دولت ان ممالک کو دیکر لگژری گاڑیاں، انھیں چلانے کیلئے پٹرول اور دوسرا سامان تعیشات خرید رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اپنی افواج کو بھی اپنی تجارتی کا میابیوں اور ''مال غنیمت'' حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اگر صرف پچھلے پچاس سالوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ حقائق سامنے آ تے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، مادی ترقی اور معیاری زندگی بلند کرنے کا جو فلسفہ پھیلایا گیا، اُس نے پا کستان جیسے تمام ممالک کو تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے۔
پاکستانی عوام کو ایک ایسے طرز زندگی کا عادی بنا دیا گیا ہے، جس کے ہم متحمل ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ اب موبائیل فونز، ائیر کنڈ یشنڈ ، گاڑیاں، لگژری گاڑی، بڑے بڑے بنگلے ہوٹلنگ اور سامان تعیشات کی درآمد کیلئے تقریبا ً باون) 52 ( ارب ڈالر سالانہ خرچ کیا جا رہا ہے، یہ رقم پاکستانی کرنسی میں ستانوے کھرب ، چھیترارب (76) بنتی ہے۔ یہ ہے دوسرے ممالک سے دولت ہتھیانے کا ''جدید طریقہ'' یہ صرف ایک ملک کی دولت ہے جو بیرونِ ممالک جاتی ہے رقم ہتھیانے والے ممالک یہ دولت اپنے ملک وقوم کی خوشحالی پر بھی خرچ کرتے ہیں، اپنی افواج اور اداروں پر بھی۔ یہ ممالک اپنی افواج کو اپنی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی تجارتی سبقت اور معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے مختلف قسم کے اتحاد قا ئم کر رکھے ہیں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک ان کے تجارتی، معاشی اور اقتصادی مفادات میں آڑے آنے کوشش کر رہا ہے وہاں فوراً ان ممالک کی افواج حرکت میںآجاتی ہے۔ ان ممالک کی افواج اپنے ملک کی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اپنی ملک وقوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو رہی ہیں، ان ممالک کا اپنا دفاع جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے نا قابل تسخیر ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے آلہ کار بھارت اور غاصب اسرائیل جیسے ممالک کے ذریعے پاکستان اور عرب ممالک کو اپنی بقاء کی جنگ پر مجبور کر رکھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہمارے دفاع کیلئے خرچ ہو رہا ہے مگر اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔
اگر ہم آج کے ترقی یا فتہ ممالک کا جائزہ لیں تو فوراً یہ حقیقت سا منے آ جاتی ہے کہ ان تمام ممالک نے اسلام کے ابتدائی دور کے اُصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔ جبکہ ریاست مدینہ کے لشکر اپنے دفاع کیلئے نہیں بلکہ ظالم اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسرپیکار تھے، یہ لشکر اپنے تجارتی قافلوں کو تحفظ دیتے تھے، یہ مفتوح علاقوں میں امن قائم رکھنے کیلئے ریاست کی معا ونت کرتے تھے، جو مال غنیمت اسلامی بیت المال میں جمع کرواتے تھے۔
امریکہ اور یورپ نے اسلامی ممالک کو اپنی ہی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے، ان ممالک کی اسلامی ممالک کے خلاف سازشیں فوراً سامنے آ جاتی ہیں مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کا مقابلہ کرنے کا ادراک اور فہم ہی نہیں رکھتے ۔
اصل جرم 98 کھرب روپے کی امپورٹ ہے
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے یہاں ''علمائے کرام'' کی بہتات ہے۔ یہ علماء کرام دین اسلام کی اپنے اپنے فقہ کے مطابق تشریح کرتے رہتے ہیں، مگر ان کی زیادہ تر تعلیمات '' وضو کا طریقہ'' بتانے تک محدود ہیں، اسلام کی اُن تعلیمات اور جدو جہد کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام پھیلا اور مسلمانوں کی معاشی واقتصادی حالت کو بہتر بنایا گیا ۔ زکواۃ کو تمام معاشی مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے اور زکواۃ کو معاشی واقتصادی توازن کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس قدر مال غنیمت حاصل ہوتا تھا کہ کوئی مسلما ن نادار رہ ہی نہیں گیا۔ بلکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں تو کوئی زکواۃ لینے والا ملتا ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور کے بعد بیت المال کو مسلمانوں کی مالی و معاشی حا لت بہتر بنانے کیلئے خرچ کیا جاتا تھا ، بہت ہی کم افراد ایسے تھے کہ جو زکواۃ کے مستحق تھے ، وہ بھی بیمار اور اپاہج وغیرہ ہوتے تھے۔
اگر ''علماء کرام'' حکومت کی راہنمائی کرتے اور اسلام کا یہ پہلو سامنے لاتے تو ممکن تھا کہ حکمران وہ پالیسیاں بناتے کہ اسقدر امپورٹ کی ضرورت ہی پیش نہ آ تی۔ فضول چیزیں منگوانے پر پا بندی عائد ہوتی ۔ ہر سال کرپشن زدہ رقم کے بیس یا تیس ارب روپے باہر جانے کا اتنا نقصان نہیں ہوتا کہ جتنا 98 کھرب روپے کی امپورٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آج بھی آدھی رقم صرف سامان تعیشات اور پیٹرول پر خرچ کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتے کہ ہمارا زرمبادلہ کم از کم باہر جاتا۔ خام مال استعمال کرنے اور ضروریات زندگی کی مصنوعات تیار کرنے کیلئے ملک میں ہی کا رخانے اور فیکٹریاں لگائی جاتیں۔ ایک ایک گھر میں گاڑیوں کی بہتات نہ ہوتی۔ ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔ مہنگی ترین گاڑیاں خریدنے، بڑ ے بڑے محل بنانے اور پر تعیش سامان حاصل کرنے کی دوڑ شامل ہے ۔ ان چیزوں کے حصول کیلئے نا جائز مال بنایا اور کمایا جاتا ہے۔
علماء کرام نے زکواۃ کی اہمیت پر جو زور دیا ہے وہ ''مال غنیمت '' حاصل کرنے پرنہیں دیا، بلکہ قیام پا کستان سے لیکر آج تک غیر اقوام ہمارے ملک سے '' مال غنیمت '' لے جا رہی ہیں ۔ عوام میں بھی شعور پیدا ہونا چاہیے اور انھیں اسلام کی تعلیمات اور اسلام کے ابتدائی دور کے متعلق آ گہی حاصل ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کی ترقی کیلئے دین اسلام کو اور اسلام کے ابتدائی دور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اسلامی ریاست کے چار ستون
(۱) قرآن و حدیث اور سنت
(۲) آ ئمہ کرام ، صوفیا ء کرام اور علماء حق کی تعلیما ت اور دین کی تشریح
(۳) صالح اور با کردار مسلمان حکمران
(۴) عدلیہ
ہمارے تمام تر مسائل کی اصل وجہ یہ کہ قرآ نی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھایا نہیں گیا، اسلام کو کلمہ توحید ، نماز قائم کرنا ، روزے رکھنا ، زکواۃ دینا اور حج ادا کرنا تک محدود کر دیا گیا ہے اور ان فرائض پر عمل کرنا ہی دین سمجھا گیا ہے۔ جبکہ ان فرائض پر عمل کئے بغیر کوئی فرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
بطور اُمتی اصل معا ملات اس کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث اور سنت کے ذریعے ہر فرد کی ذ مہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے، اور دین اسلام میں فرائض کے بعد سماجی اور معاشی خوشحال زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملکی معاشی ، اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ انتہائی ضرورت کی اشیاء کے علاوہ ہر قسم کی امپورٹ بند کر دی جائے، موجودہ پا لیسیوں کی وجہ سے زر مبادلہ تو باہر کے ممالک میں جا ہی رہا ہے۔ معاشی اور سماجی عدم توازن میں بھی بے حد اضافہ ہو چکا ہے، لوگ کرپشن زدہ رقومات سے مہنگا سامان تعیشات استعمال کر کے معاشرے کے '' معزز ترین'' افراد بنے ہوئے ہیں ۔ یہ سب کچھ دین اسلام کے اُصولوں کے متضاد ہے۔ قرآن وحدیث اور سنت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے کہ جن میں تمام تر انسانیت کیلئے دائمی خوشیاں، خو شحالی ، امن اور سکون کا پیام ہے۔ جس میں معاشرتی اور طبقاتی تفریق نہیں ہے۔جہاں جہالت نہیں بلکہ علم کی روشنی سے سارا جہاں منور ہو رہا ہے، ہر قسم کی ترقی کیلئے اسلامی ریاست کے چاروں ستونوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ !!!
امپورٹ ،ایکسپورٹ کے کا میاب اُصول''
حضور اکرم ﷺایک کا میاب تاجر بھی تھے ۔ آ پﷺ نے تجارت کے سنہری اُصول اپنائے۔ آپﷺ مکہ سے سامان تجارت لیکر باہر علاقوں میں جاتے تھے ، انھیں فروخت کرکے جورقم حاصل ہوتی اس سے وہ سامان تجارت خریدا جاتا جس کی مکہ میں ضرورت ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی یہی اُصول اپنایا۔ ان اُصولوں پر عمل کر کے دوطرفہ منافع بھی حاصل ہو تا ہے اور '' زر مبادلہ'' بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو میں آ پ ﷺکی سنت پر عمل کیا جائے تو تمام مشکلات اور پریشا نیاں ختم ہو جائیں گی ، زندگیوں میں برکت بھی شامل ہو گی ۔
مگر دُکھ کا مقام یہ ہے کہ موجودہ دور کے علماء کرام نے اسلام کو انتہائی محدود کردیا ہے ۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور سنت مبارکہ کے کچھ پہلوؤں پر عمل کرنا ہی صرف اسلام قرار دیا گیا ہے، مگر دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے انسانیت کو دوام حاصل ہوا، لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی اور انھیں ہرقسم کا تحفظ حاصل ہوا، اور ہر فرد کو کا میاب زندگی گزارنے کے اُصول بتائے گئے ہیں ۔
ہر مسلمان حکمران پر ریاست ِ مدینہ کے اُ صولوں پر عمل کرنا لازم ہے
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو بشر ِکامل بنایا ، آ پ ؐ قرآن حکیم کی زندہ تفسیر وتصویر ہیں۔ آپ ؐ کی زندگی کے تمام پہلو یعنی سنت پر عمل کرنا ہی دین ہے۔ اسلام کسی فرد کا وضح کردہ نظام نہیں بلکہ مالک حقیقی کا اُتارا ہو ا نظام ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں پر ریاست مدینہ کے تمام اصولوں پر عمل کرنا سنت اور فرض بھی ہے۔ وگرنہ حکمران اپنے اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہونگے۔ ریاست مدینہ میں مال غنیمت حاصل کر کے ملکی خزانوں یعنی بیت المال میں جمع کروایا گیا اور انھیں عوام پر خرچ کیا گیا ۔ ملکی خزانوں کو ایکسپورٹ کے ذریعے غیر اقوام کو منتقل نہیں کیا ۔