پاکستانی طالبان سے معاہدہ اور اس کے اثرات
مطالبہ یہ بھی ہے کہ طالبان کو قبائلی علاقہ میں اپنی پسندیدہ شریعت کے نفاذ کی مکمل آزادی دی جائے
شمالی وزیرستان میں ایک سماجی تنظیم کے چارکارکن قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں وقار احمد، جنید احمد ، صمد اور اسداﷲ شامل ہیں۔ شمالی وزیرستان میں دو سال قبل آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ سماجی تنظیم قائم ہوئی۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بعد شمالی وزیرستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا تھا۔
اس علاقہ کو مزاحمتی گروہوں نے اپنی کمین گاہوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ ان کمین گاہوں میں خودکش حملہ آور تیار ہوتے تھے جنھوں نے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی تھیں، جس میں ہزاروں افراد جن میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل تھے، جام شہادت نوش کیا۔
ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات سے بھی پتہ چلا تھا کہ لیاقت باغ میں ان کی گاڑی پر حملہ کرنے والا نوجوان شمالی وزیرستان سے لایا گیا تھا۔ جنگجوؤں کے مختلف گروہوں کی دہشت گردی سے شمالی وزیرستان میں زندگی درہم برہم ہو گئی تھی۔
کراچی میں نقیب اﷲ محسود کی ماورائے عدالت ہلاکت کے بعد شمالی وزیرستان کے نوجوانوں نے ایک مزاحمتی تحریک منظم کی تھی۔ شمالی وزیرستان میں رونما ہونے والے واقعات کے محرکات پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ سال طالبان حکومت کے قیام کے بعد شمالی وزیرستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر پہلے رہنما ہیں جنھوں نے پاکستانی جرگہ کے طالبان سے مذاکرات اور مبینہ معاہدہ کے منفی اثرات پر سب سے پہلے آواز بلند کی تھی۔ اسلام آباد کے حلقے کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں تشکیل دیے گئے جرگہ اراکین کا انتخاب موجودہ حکومت نے نہیں کیا تھا۔
فرحت اﷲ بابر اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔ انھوں نے ایک محفل میں بتایا کہ اس جرگہ میں پیپلز پارٹی کے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اور قومی اسمبلی کے ایک رکن بھی شامل تھے۔
فرحت اﷲ بابر نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے یہ اراکین قیادت کی منظوری کے بغیر اس جرگہ میں شامل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی طالبان کے ساتھ ہونے والے کسی معاہدہ کو قبول نہیں کر رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ان اراکین کو غلط اطلاع فراہم کر کے اس جرگہ میں شمولیت پر آمادہ کیا گیا تھا۔ طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مبینہ معاہدہ کی شرائط کے بارے میں اسلام آباد میں مختلف نوعیت کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے رہنماؤں کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختون خوا سے علیحدہ کیا جائے اور ان کی پرانی شناخت بحال کی جائے۔ ایک اور مطالبہ یہ بھی ہے کہ طالبان کو قبائلی علاقہ میں اپنی پسندیدہ شریعت کے نفاذ کی مکمل آزادی دی جائے۔
دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کو رہا کیا جائے اور ان کے جو کارکن ضرب عضب میں ہلاک ہوئے ہیں ، ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ پاکستانی طالبان کے بارے میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سنگل کمانڈ کے تحت متحد نہیں ہیں ، بلکہ مختلف رہنماؤں نے اپنے اپنے گروہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
اب یہ بھی بحث چل رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف طالبان کی مزاحمت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ کابل پر قبضہ کے بعد تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نئی افغان حکومت کی بھرپور حمایت کرتی رہی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے بار بار عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں ، اگرچہ عالمی دباؤ اور اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی بناء پر عمران خان کی حکومت نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر عمران خان طالبان کی پالیسیوں کی حمایت میں اس حد تک جذباتی ہوئے تھے کہ اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے طالبان کے خواتین کے ساتھ امتیازی پالیسیوں کا بھی دفاع کیا تھا۔ افغانستان میں طالبات کے تعلیمی اداروں کی بندش اور خواتین کو شٹل کاک برقعہ پہننا لازمی قرار دیے جانے کے حوالے سے ، عمران خان کا بیانیہ تھا کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے اور اس میں خواتین کی ایک مخصوص حیثیت ہے۔
اس بارے میں تنقید نہیں ہونی چاہیے مگر سابقہ حکومت کی افغان طالبان کی حمایت کے باوجود پاکستانی طالبان کی دہشت گرد سرگرمیوں میں فرق نہیں آیا۔ قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ پشاور ، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں دھماکے اور فوج ، پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پوسٹوں پر حملے جاری ہیں۔
کابل کی حکومت اگرچہ ان حملوں کی مذمت میں بیانات ضرور جاری کرتی ہے مگر غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں بار بار یہ بات تحریر کی جاتی ہے کہ پاکستانی طالبان کی کمین گاہیں افغان علاقوں میں بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تخریب کار افغانستان سے کارروائی کرتے ہیں مگر کابل میں قائم ہونے والی حکومت اپنی حمایت کردہ تنظیموں کو دوست ممالک کے خلاف کارروائیوں سے روک نہیں سکتی ہے۔
تاریخ سے استفادہ کیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ 80ء کی دہائی سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی۔ اس زمانہ میں کوئی منظم گروہ پاکستانی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرتا تھا۔ صرف کچھ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد صوبہ سرحد اور دیگر علاقوں میں جرائم میں ملوث ہوتے تھے۔
جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دور میں، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان میں قائم ہونے والے نیٹ ورک کے ذریعے عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع ہوا تو قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں دہشت گردی شروع ہوگئی۔ افغانستان میں قائم ہونے والی کامریڈ نور محمد ترکئی ، حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب حکومت کے خلاف قبائلی علاقوں میں افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپ قائم ہوئے۔
شمالی وزیرستان سے مجاہدین کے علاوہ دنیا بھر سے جمع کیے جانے والے گروہ افغانستان میں جہاد کے نام پر کارروائیاں کرتے تھے ، پہلے ڈاکٹر نجیب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افغان مجاہدین پھر ملا عمر کی کابل پر خلافت قائم ہوئی ، مگر افغانستان کی طرح قبائلی علاقوں میں ملک میں تخریبی کارروائیاں نہ رکیں۔ جب امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر حملہ کیا تو افغان طالبان کے علاوہ عرب چھاپہ مار گروہوں کو بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں منتقل کیا گیا۔ یوں پورا ملک دہشت گردی کی زد میں آگیا۔ پشاور پبلک اسکول کے بچوں کی دہشت گردی میں شہادت کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو امن قائم ہوا۔
اس دوران طالبان کی دہشت گردی کے خلاف شمالی وزیرستان کے نوجوانوں نے ایک تحریک منظم کی جس سے طالبان کے گروہ منتشر ہوئے مگر پھر ان علاقوں میں مذہبی گروہوں کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ یہ گروہ دوبارہ دہشت گردی کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ پاکستانی طالبان سے ان کی شرائط کے مطابق معاہدہ کے بعد شمالی وزیرستان میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ طالبان سے ہونے والے معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ فرحت اﷲ بابر یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے رابطہ کیا گیا تھا اور تمام جماعتوں کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ اس معاہدہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ یہی وقت ہے کہ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے شمالی وزیرستان کی منتخب قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔
اسلام آباد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ماضی میں اس بارے میں جو پالیسیاں تیارکی ہیں ، ان پالیسیوں میں بصیرت کا فقدان تھا جس کا خمیازہ پورے ملک نے بھگتا۔ کوئی بھی ایسا معاہدہ جس میں رجعت پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ سے ہمیشہ منفی نتائج سامنے آتے ہیں اور نئے تضادات ابھرتے ہیں اس دفعہ غور و فکر کے بعد نئی پالیسی کو عملی شکل وقت کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ کہ اس معاملہ پر پارلیمنٹ آخری فیصلہ کرے گی ، یہ خوش آیند بات ہے۔
اس علاقہ کو مزاحمتی گروہوں نے اپنی کمین گاہوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ ان کمین گاہوں میں خودکش حملہ آور تیار ہوتے تھے جنھوں نے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی تھیں، جس میں ہزاروں افراد جن میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل تھے، جام شہادت نوش کیا۔
ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات سے بھی پتہ چلا تھا کہ لیاقت باغ میں ان کی گاڑی پر حملہ کرنے والا نوجوان شمالی وزیرستان سے لایا گیا تھا۔ جنگجوؤں کے مختلف گروہوں کی دہشت گردی سے شمالی وزیرستان میں زندگی درہم برہم ہو گئی تھی۔
کراچی میں نقیب اﷲ محسود کی ماورائے عدالت ہلاکت کے بعد شمالی وزیرستان کے نوجوانوں نے ایک مزاحمتی تحریک منظم کی تھی۔ شمالی وزیرستان میں رونما ہونے والے واقعات کے محرکات پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ سال طالبان حکومت کے قیام کے بعد شمالی وزیرستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر پہلے رہنما ہیں جنھوں نے پاکستانی جرگہ کے طالبان سے مذاکرات اور مبینہ معاہدہ کے منفی اثرات پر سب سے پہلے آواز بلند کی تھی۔ اسلام آباد کے حلقے کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں تشکیل دیے گئے جرگہ اراکین کا انتخاب موجودہ حکومت نے نہیں کیا تھا۔
فرحت اﷲ بابر اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔ انھوں نے ایک محفل میں بتایا کہ اس جرگہ میں پیپلز پارٹی کے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اور قومی اسمبلی کے ایک رکن بھی شامل تھے۔
فرحت اﷲ بابر نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے یہ اراکین قیادت کی منظوری کے بغیر اس جرگہ میں شامل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی طالبان کے ساتھ ہونے والے کسی معاہدہ کو قبول نہیں کر رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ان اراکین کو غلط اطلاع فراہم کر کے اس جرگہ میں شمولیت پر آمادہ کیا گیا تھا۔ طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مبینہ معاہدہ کی شرائط کے بارے میں اسلام آباد میں مختلف نوعیت کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے رہنماؤں کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختون خوا سے علیحدہ کیا جائے اور ان کی پرانی شناخت بحال کی جائے۔ ایک اور مطالبہ یہ بھی ہے کہ طالبان کو قبائلی علاقہ میں اپنی پسندیدہ شریعت کے نفاذ کی مکمل آزادی دی جائے۔
دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کو رہا کیا جائے اور ان کے جو کارکن ضرب عضب میں ہلاک ہوئے ہیں ، ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ پاکستانی طالبان کے بارے میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سنگل کمانڈ کے تحت متحد نہیں ہیں ، بلکہ مختلف رہنماؤں نے اپنے اپنے گروہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
اب یہ بھی بحث چل رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف طالبان کی مزاحمت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ کابل پر قبضہ کے بعد تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نئی افغان حکومت کی بھرپور حمایت کرتی رہی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے بار بار عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں ، اگرچہ عالمی دباؤ اور اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی بناء پر عمران خان کی حکومت نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر عمران خان طالبان کی پالیسیوں کی حمایت میں اس حد تک جذباتی ہوئے تھے کہ اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے طالبان کے خواتین کے ساتھ امتیازی پالیسیوں کا بھی دفاع کیا تھا۔ افغانستان میں طالبات کے تعلیمی اداروں کی بندش اور خواتین کو شٹل کاک برقعہ پہننا لازمی قرار دیے جانے کے حوالے سے ، عمران خان کا بیانیہ تھا کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے اور اس میں خواتین کی ایک مخصوص حیثیت ہے۔
اس بارے میں تنقید نہیں ہونی چاہیے مگر سابقہ حکومت کی افغان طالبان کی حمایت کے باوجود پاکستانی طالبان کی دہشت گرد سرگرمیوں میں فرق نہیں آیا۔ قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ پشاور ، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں دھماکے اور فوج ، پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پوسٹوں پر حملے جاری ہیں۔
کابل کی حکومت اگرچہ ان حملوں کی مذمت میں بیانات ضرور جاری کرتی ہے مگر غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں بار بار یہ بات تحریر کی جاتی ہے کہ پاکستانی طالبان کی کمین گاہیں افغان علاقوں میں بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تخریب کار افغانستان سے کارروائی کرتے ہیں مگر کابل میں قائم ہونے والی حکومت اپنی حمایت کردہ تنظیموں کو دوست ممالک کے خلاف کارروائیوں سے روک نہیں سکتی ہے۔
تاریخ سے استفادہ کیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ 80ء کی دہائی سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی۔ اس زمانہ میں کوئی منظم گروہ پاکستانی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرتا تھا۔ صرف کچھ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد صوبہ سرحد اور دیگر علاقوں میں جرائم میں ملوث ہوتے تھے۔
جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دور میں، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان میں قائم ہونے والے نیٹ ورک کے ذریعے عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع ہوا تو قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں دہشت گردی شروع ہوگئی۔ افغانستان میں قائم ہونے والی کامریڈ نور محمد ترکئی ، حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب حکومت کے خلاف قبائلی علاقوں میں افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپ قائم ہوئے۔
شمالی وزیرستان سے مجاہدین کے علاوہ دنیا بھر سے جمع کیے جانے والے گروہ افغانستان میں جہاد کے نام پر کارروائیاں کرتے تھے ، پہلے ڈاکٹر نجیب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افغان مجاہدین پھر ملا عمر کی کابل پر خلافت قائم ہوئی ، مگر افغانستان کی طرح قبائلی علاقوں میں ملک میں تخریبی کارروائیاں نہ رکیں۔ جب امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر حملہ کیا تو افغان طالبان کے علاوہ عرب چھاپہ مار گروہوں کو بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں منتقل کیا گیا۔ یوں پورا ملک دہشت گردی کی زد میں آگیا۔ پشاور پبلک اسکول کے بچوں کی دہشت گردی میں شہادت کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو امن قائم ہوا۔
اس دوران طالبان کی دہشت گردی کے خلاف شمالی وزیرستان کے نوجوانوں نے ایک تحریک منظم کی جس سے طالبان کے گروہ منتشر ہوئے مگر پھر ان علاقوں میں مذہبی گروہوں کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ یہ گروہ دوبارہ دہشت گردی کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ پاکستانی طالبان سے ان کی شرائط کے مطابق معاہدہ کے بعد شمالی وزیرستان میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ طالبان سے ہونے والے معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ فرحت اﷲ بابر یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے رابطہ کیا گیا تھا اور تمام جماعتوں کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ اس معاہدہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ یہی وقت ہے کہ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے شمالی وزیرستان کی منتخب قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔
اسلام آباد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ماضی میں اس بارے میں جو پالیسیاں تیارکی ہیں ، ان پالیسیوں میں بصیرت کا فقدان تھا جس کا خمیازہ پورے ملک نے بھگتا۔ کوئی بھی ایسا معاہدہ جس میں رجعت پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ سے ہمیشہ منفی نتائج سامنے آتے ہیں اور نئے تضادات ابھرتے ہیں اس دفعہ غور و فکر کے بعد نئی پالیسی کو عملی شکل وقت کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ کہ اس معاملہ پر پارلیمنٹ آخری فیصلہ کرے گی ، یہ خوش آیند بات ہے۔