طویل راستہ
خان صاحب کو بالکل اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بیانات اور سیاسی حرکتوں سے تمام سنجیدہ قوتوں کو ناراض کر بیٹھے ہیں
اسلام آباد میں چند دن گزار کر واپس لاہور پہنچا ہوں۔ لاہور کی اپنی خوشبو ہے۔ جو مرضی ہو جائے لاہور شہر میں زندگی کا احساس حد درجہ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ بھرپور شہر۔ اپنا مزاج ' اپنی حس مزاح اور ایک دمکتی ہوئی ثقافت ۔ اسلام آباد میں وقت اچھا گزرا۔ بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔
کچھ اہم ' کچھ غیر اہم اورچند خود کو اہم ترین گرداننے والے۔ اپنے قبیلے کے چند سینئر افسران نے ہنستے ہنستے بتایا کہ نئی سرکار کی رفتار بھی پرانی ہے اور چلن میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ خان صاحب مسند شاہی سے چلے گئے اور ان کی جگہ برادر خورد آن پہنچے۔تب بھی سرکار کی رفتار میں کوئی تیزی' کوئی پھرتی ہرگز ہرگز نہیں آئی۔ وہی''ڈیپ فریزر'' والی کیفیت جو ماضی میں تھی۔ بلکہ ہمیشہ سے اور آج بھی بالکل وہی ہے ۔ باقی صرف اور صرف بیانات ہیں۔
جنھیں اب کسی قسم کی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ بتا رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے اسلام آباد جا کر کام کرنے کی رفتار تیز کر دی ہے۔ تو مجھے بالکل ایسے نہیں لگا۔ اس کے برعکس ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ موجودہ حکمران سرکاری کام کو سرعت سے کرنے کی اہلیت سے محروم نظر آ رہے ہیں۔ دراصل انھوں نے صوبہ میں بہترین کام کیا ہے۔ مگر وفاق کے تقاضے اور ''پاور پلیئرز'' بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے وہ شاید ہر اہم کام کو تسلی سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد کوئی حکم جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ ضرور عرض کرونگا کہ اسلام آباد انھیں پرکھ رہا ہے اور وہ دارالخلافہ کو تول رہے ہیں۔
وزراء کی اکثریت کافی حد تک مطمئن نظر آئی ہے۔ پی ڈی ایم کے وزراء کی بات کر رہا ہوں۔ ان میں کوئی اضطرار محسوس نہیں ہوا۔ انھیں اندازہ ہے کہ مقتدر قوتوں نے ان کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ لہٰذا فکر کی کوئی خاص بات نہیں۔ یہ یقین اب تک تو درست دکھائی دے رہا ہے۔ طاقتور قوتیں بھرپور طریقے سے موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومتی سیٹ اپ کے اکابرین کو یقین ہے کہ فی الحال انھیں کوئی سیاسی طاقت ہٹا نہیں سکتی ۔ مجھے تو اگلے الیکشن اور نتائج کے ہلکے ہلکے خدوخال دھندلے طریقے سے محسوس ہو رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کو اب سرکاری سرپرستی میں اگلے وزیراعظم کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔ سب کو اندازہ ہو چکا ہے کہ آنے والے الیکشن کے نتائج میں مرکزی حکومت پیپلزپارٹی کو دی جائے گی۔ اور اقتدار کا پرندہ بلاول کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ زرداری صاحب اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سے اس امر کی کامیابی کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ انھیں سندھ کی حکمرانی دینے کا بھی شاید وعدہ ہو چکا ہے۔مجھے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بھی مطلوبہ نشستیں دلوانے کا اہتمام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کے اکابرین کو یہ سب معلوم ہے۔ انھیں پنجاب میں بدستور مرضی سے کھل کھیلنے کااختیار دیا جا چکا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ آنے والے پانچ سال' ن لیگ کے میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کی جیب میں نظر آ رہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ الیکشن میں تو تحریک انصاف کا ووٹ قیامت ڈھا دے گا۔ تو ممکنہ طور پر ان کو دھچکا لگے گا۔ وہی ہو گا جیسے ہمیشہ ماضی میں ہوتاآیا ہے ۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس انداز میں عمران خان اور ا ن کی پارٹی کو حکومت میں لایا گیا تھا' بالکل اس طرز پر پی ڈی ایم کوتیسری بار حکومت دی جائے گی۔ ہاں ایک بات درج کرنا ضروری ہے۔
شہباز شریف مقتدر قوتوں کے اعتماد کے ساتھ اب حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔ شروع کے ایک ماہ میں ان کا تاثر بہت حد تک ضعف کا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ سرکس کے سفید ''گھوڑے'' کو لگام ڈالنے میں پرعزم نظر آتے ہیں۔ اور اس وقت حالات کا بہاؤ بھی انھیں کے بل بوتے پر ہے۔ انھیں وزیراعظم بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ کام کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایک اہم بات جو سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ میاں نواز شریف بتدریج اپنی عملی اہمیت کھو رہے ہیں۔ پارٹی میں ان کا دھڑا انھیں سے احکامات وصول کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں۔
چنانچہ مقتدر حلقوں سے ان کا رابطہ بہرحال شہباز شریف کے مقابلے میں فطری طور پر کم ہے۔ لہٰذا میرے اندازے کے مطابق آنے والے وقت میں بڑے میاں صاحب اپنی سیاسی قدر و قیمت مزید کھو دینگے۔ پارٹی پر ان کی گرفت شاید کم ہو جائے۔ مگر پنجاب کے ووٹ پر انکا اثر بے انتہا ہے اور رہے گا۔ چھوٹے میاں صاحب ' ووٹ کے لیے اپنے بھائی کے مرہون منت ہیں۔ عوامی سطح پر شہباز شریف کی پذیرائی کم ہے۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف' اپنا دست شفقت چھوٹے بھائی کے سر سے اٹھا لیں تو شہبار شریف صاحب کوئی بھی الیکشن نہیں جیت سکتے۔ ابھی تو اس طرح کی بدگمانی کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا۔ مگر طاقت کے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اقتدار کی گلیوں میں کبھی بھی لکڑی کا بے جان گھوڑا بگٹٹ بھاگنا شروع ہو جائے اوراسپِ عربی کو دوڑنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ بہر حال مستقبل میں کیا ہو گا اس کا صرف قیافہ لگایا جا سکتا ہے۔ یقین سے تو آنے والے لمحہ کے متعلق بھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت مجھے مراقبے میں نظر آئی ہے۔ ان کو زیادہ تر ٹی وی پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یا ایک اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اب تمام شہروں میں احتجاج ہو گا۔چند ہزار بند ے نکل کر واویلا مچاتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ خاموشی۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اب اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
مگر شاید ابھی تک یہ نہیں بھانپ پائے کہ انھیں دربدر کیوں کیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے مقتدر طبقوں سے رابطہ تو بہرحال ہے۔مگر بے یقینی اتنی ہے کہ کسی سنجیدہ گفتگو کا دور دور تک امکان نہیں۔ خان صاحب پر طاقتور حلقے کسی صورت میں اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام آبادکے اعلیٰ حلقوں میں انکا سازش کا بیانیہ بھی تقریباً دم توڑ چکا ہے۔ وقت اوراقتدارکا ظالم پہیہ انھیں کچل کر آگے نکل چکا ہے۔ خان صاحب شدید زخمی حالت میں ہیں۔ سیاسی ضعف کی بات کر رہا ہوں۔
خان صاحب کو بالکل اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بیانات اور سیاسی حرکتوں سے تمام سنجیدہ قوتوں کو ناراض کر بیٹھے ہیں، اور اب انھیں اقتدار سے کافی عرصے کے لیے دور رکھا جائے گا۔ شاید مستقل طور پر ۔ مگر خان صاحب کو ابھی تک ان کے نزدیکی لوگ یقین دلا رہے ہیں کہ اس ''اکیلے پن'' سے جلد نکل آئیں گے۔کیونکہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ مگر یہ خام خیالی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے نظام میں شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں ہیں۔ اور جو لوگ ''صاحب اختیار''ہیں ' وہ الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے گرو ہیں۔
خیالی دنیا میں تو شاید عوام کی تائید سے کوئی دوبارہ تخت حاصل کر سکتا ہے۔ مگر عملی دنیا میں ایسا مشکل نظر آ رہاہے۔ یہ درست نکتہ ہے کہ خان صاحب' عوامی سطح پر مقبول لیڈر ہیں۔ مگر مقبولیت اورچیز ہے اور اقتدار میں آنا بالکل متضاد امر ہے۔لہٰذا خان صاحب کے قریبی دوستوں کا عوامی تائید کا مفروضہ مستقبل میں انھیں اقتدار میں شاید نا لا سکے۔
تحریک انصاف کے اکابرین سے اسلام آباد کے اہم لوگ ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دو تین سال میں اداروں اور خان صاحب کے مابین برف پگھل جائے۔ مگر آج کی تاریخ تک تو اقتدار کی گلیوں میں تحریک انصاف کے لیے برف ہی برف ہے۔ امریکی اور ملکی سازش کے بیانیے کو جس غیر سنجیدگی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی بدولت خان صاحب' اپنی پارٹی کو سیاسی طور پر برباد کیے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی ذاتی سیاست یعنی دوبارہ وزیراعظم بننے کے متعلق ہر گمان ختم ہو چکا ہے۔ مگر اب وہ تحریک انصاف کو بھی گمنامی کی شاہراہ پر لیے جا رہے ہیں۔
فہمیدہ لوگ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور بیان بازی سے بہت اکھڑے اکھڑے نظر آتے ہیں۔ خان صاحب نے جو دوست ' مقتدر حلقوں سے بات چیت کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔ وہ تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ان کی پریشانیوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رہی عوام کے ووٹ کی بات' تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام کا ووٹ اپنے لیڈر کو پھانسی تو دلوا سکتا ہے مگر اقتدار نہیں دلوا سکتا۔ یہ بات زرداری صاحب پہلے جان چکے ہیں۔ آل شریف کو بھی اس حقیقت کا بھرپور طریقے سے اندازہ ہو چکا ہے۔
اور وہ طاقتور حلقوں کے ہاتھ پر غیر مشروط بیعت کر چکے ہیں۔ خان صاحب کا معاملہ الٹ ہے۔ وہ ہر دم غیر محفوظ سیاسی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ شاید انھیں سمجھنے میں مزید وقت لگے۔ مگر اسلام آباد کی فضا میں صرف سازش ہے۔ افواہوں کے بادل ہیں۔ لاہور والوں کا دل وہاں کم ہی لگتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد کے مابین درمیانی راستہ کتنا طویل ہے۔ یہ سب سے مشکل اور پیچیدہ سوال ہے۔
کچھ اہم ' کچھ غیر اہم اورچند خود کو اہم ترین گرداننے والے۔ اپنے قبیلے کے چند سینئر افسران نے ہنستے ہنستے بتایا کہ نئی سرکار کی رفتار بھی پرانی ہے اور چلن میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ خان صاحب مسند شاہی سے چلے گئے اور ان کی جگہ برادر خورد آن پہنچے۔تب بھی سرکار کی رفتار میں کوئی تیزی' کوئی پھرتی ہرگز ہرگز نہیں آئی۔ وہی''ڈیپ فریزر'' والی کیفیت جو ماضی میں تھی۔ بلکہ ہمیشہ سے اور آج بھی بالکل وہی ہے ۔ باقی صرف اور صرف بیانات ہیں۔
جنھیں اب کسی قسم کی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ بتا رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے اسلام آباد جا کر کام کرنے کی رفتار تیز کر دی ہے۔ تو مجھے بالکل ایسے نہیں لگا۔ اس کے برعکس ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ موجودہ حکمران سرکاری کام کو سرعت سے کرنے کی اہلیت سے محروم نظر آ رہے ہیں۔ دراصل انھوں نے صوبہ میں بہترین کام کیا ہے۔ مگر وفاق کے تقاضے اور ''پاور پلیئرز'' بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے وہ شاید ہر اہم کام کو تسلی سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد کوئی حکم جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ ضرور عرض کرونگا کہ اسلام آباد انھیں پرکھ رہا ہے اور وہ دارالخلافہ کو تول رہے ہیں۔
وزراء کی اکثریت کافی حد تک مطمئن نظر آئی ہے۔ پی ڈی ایم کے وزراء کی بات کر رہا ہوں۔ ان میں کوئی اضطرار محسوس نہیں ہوا۔ انھیں اندازہ ہے کہ مقتدر قوتوں نے ان کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ لہٰذا فکر کی کوئی خاص بات نہیں۔ یہ یقین اب تک تو درست دکھائی دے رہا ہے۔ طاقتور قوتیں بھرپور طریقے سے موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومتی سیٹ اپ کے اکابرین کو یقین ہے کہ فی الحال انھیں کوئی سیاسی طاقت ہٹا نہیں سکتی ۔ مجھے تو اگلے الیکشن اور نتائج کے ہلکے ہلکے خدوخال دھندلے طریقے سے محسوس ہو رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کو اب سرکاری سرپرستی میں اگلے وزیراعظم کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔ سب کو اندازہ ہو چکا ہے کہ آنے والے الیکشن کے نتائج میں مرکزی حکومت پیپلزپارٹی کو دی جائے گی۔ اور اقتدار کا پرندہ بلاول کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ زرداری صاحب اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سے اس امر کی کامیابی کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ انھیں سندھ کی حکمرانی دینے کا بھی شاید وعدہ ہو چکا ہے۔مجھے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بھی مطلوبہ نشستیں دلوانے کا اہتمام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کے اکابرین کو یہ سب معلوم ہے۔ انھیں پنجاب میں بدستور مرضی سے کھل کھیلنے کااختیار دیا جا چکا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ آنے والے پانچ سال' ن لیگ کے میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کی جیب میں نظر آ رہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ الیکشن میں تو تحریک انصاف کا ووٹ قیامت ڈھا دے گا۔ تو ممکنہ طور پر ان کو دھچکا لگے گا۔ وہی ہو گا جیسے ہمیشہ ماضی میں ہوتاآیا ہے ۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس انداز میں عمران خان اور ا ن کی پارٹی کو حکومت میں لایا گیا تھا' بالکل اس طرز پر پی ڈی ایم کوتیسری بار حکومت دی جائے گی۔ ہاں ایک بات درج کرنا ضروری ہے۔
شہباز شریف مقتدر قوتوں کے اعتماد کے ساتھ اب حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔ شروع کے ایک ماہ میں ان کا تاثر بہت حد تک ضعف کا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ سرکس کے سفید ''گھوڑے'' کو لگام ڈالنے میں پرعزم نظر آتے ہیں۔ اور اس وقت حالات کا بہاؤ بھی انھیں کے بل بوتے پر ہے۔ انھیں وزیراعظم بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ کام کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایک اہم بات جو سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ میاں نواز شریف بتدریج اپنی عملی اہمیت کھو رہے ہیں۔ پارٹی میں ان کا دھڑا انھیں سے احکامات وصول کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں۔
چنانچہ مقتدر حلقوں سے ان کا رابطہ بہرحال شہباز شریف کے مقابلے میں فطری طور پر کم ہے۔ لہٰذا میرے اندازے کے مطابق آنے والے وقت میں بڑے میاں صاحب اپنی سیاسی قدر و قیمت مزید کھو دینگے۔ پارٹی پر ان کی گرفت شاید کم ہو جائے۔ مگر پنجاب کے ووٹ پر انکا اثر بے انتہا ہے اور رہے گا۔ چھوٹے میاں صاحب ' ووٹ کے لیے اپنے بھائی کے مرہون منت ہیں۔ عوامی سطح پر شہباز شریف کی پذیرائی کم ہے۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف' اپنا دست شفقت چھوٹے بھائی کے سر سے اٹھا لیں تو شہبار شریف صاحب کوئی بھی الیکشن نہیں جیت سکتے۔ ابھی تو اس طرح کی بدگمانی کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا۔ مگر طاقت کے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اقتدار کی گلیوں میں کبھی بھی لکڑی کا بے جان گھوڑا بگٹٹ بھاگنا شروع ہو جائے اوراسپِ عربی کو دوڑنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ بہر حال مستقبل میں کیا ہو گا اس کا صرف قیافہ لگایا جا سکتا ہے۔ یقین سے تو آنے والے لمحہ کے متعلق بھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت مجھے مراقبے میں نظر آئی ہے۔ ان کو زیادہ تر ٹی وی پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یا ایک اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اب تمام شہروں میں احتجاج ہو گا۔چند ہزار بند ے نکل کر واویلا مچاتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ خاموشی۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اب اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
مگر شاید ابھی تک یہ نہیں بھانپ پائے کہ انھیں دربدر کیوں کیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے مقتدر طبقوں سے رابطہ تو بہرحال ہے۔مگر بے یقینی اتنی ہے کہ کسی سنجیدہ گفتگو کا دور دور تک امکان نہیں۔ خان صاحب پر طاقتور حلقے کسی صورت میں اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام آبادکے اعلیٰ حلقوں میں انکا سازش کا بیانیہ بھی تقریباً دم توڑ چکا ہے۔ وقت اوراقتدارکا ظالم پہیہ انھیں کچل کر آگے نکل چکا ہے۔ خان صاحب شدید زخمی حالت میں ہیں۔ سیاسی ضعف کی بات کر رہا ہوں۔
خان صاحب کو بالکل اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بیانات اور سیاسی حرکتوں سے تمام سنجیدہ قوتوں کو ناراض کر بیٹھے ہیں، اور اب انھیں اقتدار سے کافی عرصے کے لیے دور رکھا جائے گا۔ شاید مستقل طور پر ۔ مگر خان صاحب کو ابھی تک ان کے نزدیکی لوگ یقین دلا رہے ہیں کہ اس ''اکیلے پن'' سے جلد نکل آئیں گے۔کیونکہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ مگر یہ خام خیالی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے نظام میں شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں ہیں۔ اور جو لوگ ''صاحب اختیار''ہیں ' وہ الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے گرو ہیں۔
خیالی دنیا میں تو شاید عوام کی تائید سے کوئی دوبارہ تخت حاصل کر سکتا ہے۔ مگر عملی دنیا میں ایسا مشکل نظر آ رہاہے۔ یہ درست نکتہ ہے کہ خان صاحب' عوامی سطح پر مقبول لیڈر ہیں۔ مگر مقبولیت اورچیز ہے اور اقتدار میں آنا بالکل متضاد امر ہے۔لہٰذا خان صاحب کے قریبی دوستوں کا عوامی تائید کا مفروضہ مستقبل میں انھیں اقتدار میں شاید نا لا سکے۔
تحریک انصاف کے اکابرین سے اسلام آباد کے اہم لوگ ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دو تین سال میں اداروں اور خان صاحب کے مابین برف پگھل جائے۔ مگر آج کی تاریخ تک تو اقتدار کی گلیوں میں تحریک انصاف کے لیے برف ہی برف ہے۔ امریکی اور ملکی سازش کے بیانیے کو جس غیر سنجیدگی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی بدولت خان صاحب' اپنی پارٹی کو سیاسی طور پر برباد کیے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی ذاتی سیاست یعنی دوبارہ وزیراعظم بننے کے متعلق ہر گمان ختم ہو چکا ہے۔ مگر اب وہ تحریک انصاف کو بھی گمنامی کی شاہراہ پر لیے جا رہے ہیں۔
فہمیدہ لوگ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور بیان بازی سے بہت اکھڑے اکھڑے نظر آتے ہیں۔ خان صاحب نے جو دوست ' مقتدر حلقوں سے بات چیت کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔ وہ تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ان کی پریشانیوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رہی عوام کے ووٹ کی بات' تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام کا ووٹ اپنے لیڈر کو پھانسی تو دلوا سکتا ہے مگر اقتدار نہیں دلوا سکتا۔ یہ بات زرداری صاحب پہلے جان چکے ہیں۔ آل شریف کو بھی اس حقیقت کا بھرپور طریقے سے اندازہ ہو چکا ہے۔
اور وہ طاقتور حلقوں کے ہاتھ پر غیر مشروط بیعت کر چکے ہیں۔ خان صاحب کا معاملہ الٹ ہے۔ وہ ہر دم غیر محفوظ سیاسی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ شاید انھیں سمجھنے میں مزید وقت لگے۔ مگر اسلام آباد کی فضا میں صرف سازش ہے۔ افواہوں کے بادل ہیں۔ لاہور والوں کا دل وہاں کم ہی لگتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد کے مابین درمیانی راستہ کتنا طویل ہے۔ یہ سب سے مشکل اور پیچیدہ سوال ہے۔