سندھ اور وفاقی حکومت کا کراچی سرکلر ریلوے کی جلد از جلد بحالی کا فیصلہ
کے سی آر کو 1964 میں شروع کیا گیا تھا اور مسافروں کی تعداد میں کمی کے باعث دسمبر 1999میں اسے بند کردیا گیا
سندھ اور وفاقی حکومت نے متفقہ طور پر تھر کوئلے کیلئے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) ریلوے ٹریک پر کام شروع کرنے کیلئے رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر برائے ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق اور انکی متعلقہ ٹیموں کے درمیان جمعہ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔
ملاقات میں وزیراعلیٰ کی معاونت وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی سمیت دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے اور اس کے ٹریفک کے مسائل صرف ایک جدید کے سی آر سسٹم کے قیام سے ہی حل ہوسکتے ہیں جسے مختلف بی آر ٹی لائنوں کے ساتھ ملایا جائے گا۔
تاریخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کے سی آر کو 1964 میں شروع کیا گیا تھا اور 1984 تک یہ ایک مؤثر ماس ٹرانسپورٹیشن پروجیکٹ رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1984 کے بعد اس کی آپریشنل کارکردگی خراب ہوتی رہی جس کے نتیجے میں مسافروں کی تعداد میں کمی آئی اور بعد میں دسمبر 1999 میں اسے بند کر دیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو CPEC کے ترجیحی منصوبوں میں شامل کیا گیا اور دسمبر 2016 میں CPEC سے متعلقہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی نے اس کی منظوری دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ECNEC نے 207546 ملین روپے کی لاگت سے اس منصوبے کی منظوری دی جس میں 1.971 ارب ڈالر کا چینی قرضہ بھی شامل ہے اورانھوں نے نیشنل ریلوے اتھارٹی کو بتایا کہ چین نے نومبر 2017 میں چینی معیار کے مطابق کی گئی فزیبلٹی کی منظوری دی تھی۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو تمام متعلقہ فورمز سے منظور کیا گیا ہے لیکن زمینی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا کہ وزیراعظم کا دورہ چین جلد طے ہے جہاں وہ ان کے ہمراہ ہوں گے، کے سی آر ایجنڈے میں شامل ہے اور امید ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا۔
پروجیکٹ میں 43.225 کلومیٹر معیاری گیج ڈوئل کیریج ٹریک اربن ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تعمیر کا تصور کیا گیا ہے جو تین سال کی مدت میں بنایا جائے گا۔
گریڈ سیکشن میں کل 17.935 کلومیٹر ہے اور ایلیویٹڈ 24.21 کلومیٹر ہے جبکہ انڈر پاس 1.08 کلومیٹر ہے جب کہ 30 اسٹیشنوں میں سے 14 گریڈ کے اور 16 اونچے درجے کے ہیں۔
یومیہ سواری کا تخمینہ 457608 ہے جس کے یومیہ دس لاکھ تک پہنچنے کی امید ہے، فی ٹرین مسافروں کو لے جانے کی گنجائش کا تخمینہ 814 ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر برائے ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق اور انکی متعلقہ ٹیموں کے درمیان جمعہ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔
ملاقات میں وزیراعلیٰ کی معاونت وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی سمیت دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے اور اس کے ٹریفک کے مسائل صرف ایک جدید کے سی آر سسٹم کے قیام سے ہی حل ہوسکتے ہیں جسے مختلف بی آر ٹی لائنوں کے ساتھ ملایا جائے گا۔
تاریخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کے سی آر کو 1964 میں شروع کیا گیا تھا اور 1984 تک یہ ایک مؤثر ماس ٹرانسپورٹیشن پروجیکٹ رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1984 کے بعد اس کی آپریشنل کارکردگی خراب ہوتی رہی جس کے نتیجے میں مسافروں کی تعداد میں کمی آئی اور بعد میں دسمبر 1999 میں اسے بند کر دیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو CPEC کے ترجیحی منصوبوں میں شامل کیا گیا اور دسمبر 2016 میں CPEC سے متعلقہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی نے اس کی منظوری دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ECNEC نے 207546 ملین روپے کی لاگت سے اس منصوبے کی منظوری دی جس میں 1.971 ارب ڈالر کا چینی قرضہ بھی شامل ہے اورانھوں نے نیشنل ریلوے اتھارٹی کو بتایا کہ چین نے نومبر 2017 میں چینی معیار کے مطابق کی گئی فزیبلٹی کی منظوری دی تھی۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو تمام متعلقہ فورمز سے منظور کیا گیا ہے لیکن زمینی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا کہ وزیراعظم کا دورہ چین جلد طے ہے جہاں وہ ان کے ہمراہ ہوں گے، کے سی آر ایجنڈے میں شامل ہے اور امید ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا۔
پروجیکٹ میں 43.225 کلومیٹر معیاری گیج ڈوئل کیریج ٹریک اربن ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تعمیر کا تصور کیا گیا ہے جو تین سال کی مدت میں بنایا جائے گا۔
گریڈ سیکشن میں کل 17.935 کلومیٹر ہے اور ایلیویٹڈ 24.21 کلومیٹر ہے جبکہ انڈر پاس 1.08 کلومیٹر ہے جب کہ 30 اسٹیشنوں میں سے 14 گریڈ کے اور 16 اونچے درجے کے ہیں۔
یومیہ سواری کا تخمینہ 457608 ہے جس کے یومیہ دس لاکھ تک پہنچنے کی امید ہے، فی ٹرین مسافروں کو لے جانے کی گنجائش کا تخمینہ 814 ہے۔