گمبھیر معاشی حالات
ہمیں ہر صورت میں وقت گزاری کے لیے مالیاتی پالیسیوں کے بجائے پائیدار معاشی پالیسیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے
ISLAMABD:
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط طے پا چکی ہیں، مزید شرائط نہ لگائی گئیں تو اگلے چند دنوں میں معاہدہ ہوجائے گا، پاکستان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مجبوری تھی، سب سے پہلے ریاست کو بچانا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے اور چین کے کنسور شیم بینک کی پاکستان کو دو ارب تیس کروڑ ڈالر کا قرض دینے پر رضا مندی کے بعد زرمبادلہ مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی کا رحجان رہا۔ ڈالر چار روپے ستر پیسے جب کہ سونے کی قیمت میں 4600 روپے فی تولہ کمی واقع ہوئی۔
معاشی بحران کے دوران مذکورہ بالا خبر تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے، موجودہ اتحادی حکومت معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ پاکستانی حکومتیں گزرے75برسوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان خود کو ان گمبھیر معاشی حالات سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، پاکستان خود کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ اہم یا مشکل فیصلے، پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا مشکل نہیں بلکہ یہ آسان فیصلے ہوتے ہیں، بس عوام کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ مشکل فیصلہ ایک آزاد، جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک معاشی ماہر کی رائے کے مطابق ''آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پر گھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔'' سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا۔
تاہم تحریک انصاف پاکستان کی حکومت عوام کو دی جانے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسڈیز کو ختم نہیں کر پائی اور نہ ہی محصولات کی وصولی کو اس ہدف تک پہنچا سکی، جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی صورتحال کے سبب آئی ایم ایف کے اس پروگرام کا ابھی تک بھی مکمل نفاذ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس معاہدے کو جون 2023 تک توسیع دلوا سکے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فریقین کوئی درمیانی راستہ ڈھونڈ لیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کر لے کہ ملکی سیاسی صورتحال اور آیندہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کچھ رعایت بحال رکھنے کی اجازت مل جائے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پرکھڑی ہو سکے۔
سب سے پہلے ملک میں نیم دلانہ نہیں بلکہ حقیقی معاشی ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے، اگر حکومت صرف اس ایک معاشی اصول کو اپنالے کہ ''جو ٹیکس بچائے وہ بچ نہ پائے'' تو یقین کیجیے ملک بہت جلد معاشی مشکلات سے نکل آئے گا۔ عام فہم انداز میں آئی ایم ایف کو ملکی معاشی مسائل کی وجہ بتایا جاتا ہے، لیکن ہر دور کی اپوزیشن یہ موقف اختیار کرتی ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف ہی واحد سہارا بن جاتا ہے، اگر اقتدار اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس حوالے سے سیاسی رویہ میں توازن پیدا کیا جاسکتا تو عوام کے لیے حالات کو سمجھنا اور ان کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا۔ موجودہ حکومت نے مشکل صورت حال میں اقتدار سنبھالا ہے۔
معاشی نقطہ نظر سے ان پارٹیوں کو تحریک انصاف کی پیدا کردہ مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن سیاسی فائدے اور فعالیت کے نقطہ نظر سے یہ اقدام ضروری سمجھا گیا تو اب مسائل کی ذمے داری بھی اسی خوش دلی سے قبول کرنی چاہیے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ غریبوں میں دو ہزار روپے ماہانہ امداد کا اعلان کرنے اور اس کی تشہیر پر کروڑوں کے اشتہار بانٹنے کے بجائے اگر یہ اعلان کیا جاتا کہ سرکاری بیوروکریسی، ججوں اور حکومتی عہدیداروں کو مفت فراہم کیا جانے والا پٹرول فوری طور سے ختم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح ان تمام موجودہ یا سابقہ افسروں یا ججوں کو پنشن کے علاوہ دی جانے والی غیر ضروری مراعات ختم کر کے ملک کے غریب عوام کو وہ خوشی فراہم کی جا سکتی تھی جو شاید دو ہزار کا امدادی چیک ملنے سے حاصل نہیں ہوگی۔
پاکستان بلاشبہ مالی مشکلات کا شکار ہے لیکن اب یہ تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان مشکلات کا سارا بوجھ ملک کے غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ مالی بوجھ مفلسوں و نادار لوگوں کے بجائے ملک کے امیر، با وسیلہ اور خوشحال طبقے کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ ایسے کسی دوٹوک فیصلہ کے بغیر کسی حکومت پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ آنے والے مہینے موجودہ حکومت کے لیے سخت ہوں گے کیونکہ روپے کی قیمت میں مزید گراؤٹ کا امکان ہے جس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا، پاکستان کا معاشی بحران ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف اور دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا سہارا بکھرتی ہوئی معیشت کو محض چند سانسیں ہی فراہم کرسکے گا۔ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کرنے والی صنعتوں کو جدید بنانا ، یہ ان ہنگامی اقدامات میں سے چند ایک ہیں حکومت جنھیں بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے معاملے سے نمٹنے کے لیے اٹھا سکتی ہے۔
پاکستان کو بمشکل ملنے والی عارضی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحیح معنوں میں مستحکم اور پائیدار معیشت کی تعمیر کرنا ہوگی، مزید براں چونکہ اس کی برآمدات کو کم قیمت پر معیاری مصنوعات فراہم کرنے والے ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش اور چین کے سبب ناکامی کا سامنا ہے، پاکستان کو نئے پلانٹ اور آلہ جات کی تنصیب کے ذریعے سے اپنے صنعتی حلقوں کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے انضمام میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے پاکستان تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے تاکہ مصنوعات کی ایجاد اور پیداوار کو بڑھاوا دیا جاسکے۔
سب سے پہلے اور بڑا سوال برآمداتی سامان کی فہرست جس میں کم قیمت پر ٹیکسٹائل، چاول، آلات جراحی، قالین، کھیلوں کا سامان اور چمڑے سے تیار اشیاء شامل ہیں، میں وسعت دینے میں ناکامی سے جڑا ہے، جو ادائیگیوں میں خسارے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی برآمدات کے حجم کو وسعت دینے اور ان کے لیے نئی منازل جیسا کہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ممالک کی تلاش غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدن کو نئی زندگی دے سکتی ہیں۔ ملک کی اولین ترجیح سیکیورٹی ہونے کے سبب معیشت کبھی بھی پاکستانی ترجیح نہیں رہی، لیکن اب اسے جغرافیائی تزویرات کے بجائے جغرافیائی معیشت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری تمام حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں۔ بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے، گو کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔
اس وقت دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے، عالمی ساہوکاروں نے ایسے کئی عالمی انتظامات کیے ہوئے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ سرمایہ اور سرمایہ داروں کا تحفظ۔ دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنلز کا سرمایہ دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں کے سرمائے سے بڑا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے استعماری عالمی معاشی نظام میں رہتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ہمیں ہر صورت میں وقت گزاری کے لیے مالیاتی پالیسیوں کے بجائے پائیدار معاشی پالیسیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک نہ صرف بیرونی قرضوں سے مستقل نجات حاصل کرسکے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط طے پا چکی ہیں، مزید شرائط نہ لگائی گئیں تو اگلے چند دنوں میں معاہدہ ہوجائے گا، پاکستان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مجبوری تھی، سب سے پہلے ریاست کو بچانا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے اور چین کے کنسور شیم بینک کی پاکستان کو دو ارب تیس کروڑ ڈالر کا قرض دینے پر رضا مندی کے بعد زرمبادلہ مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی کا رحجان رہا۔ ڈالر چار روپے ستر پیسے جب کہ سونے کی قیمت میں 4600 روپے فی تولہ کمی واقع ہوئی۔
معاشی بحران کے دوران مذکورہ بالا خبر تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے، موجودہ اتحادی حکومت معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ پاکستانی حکومتیں گزرے75برسوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان خود کو ان گمبھیر معاشی حالات سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، پاکستان خود کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ اہم یا مشکل فیصلے، پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا مشکل نہیں بلکہ یہ آسان فیصلے ہوتے ہیں، بس عوام کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ مشکل فیصلہ ایک آزاد، جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک معاشی ماہر کی رائے کے مطابق ''آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پر گھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔'' سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا۔
تاہم تحریک انصاف پاکستان کی حکومت عوام کو دی جانے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسڈیز کو ختم نہیں کر پائی اور نہ ہی محصولات کی وصولی کو اس ہدف تک پہنچا سکی، جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی صورتحال کے سبب آئی ایم ایف کے اس پروگرام کا ابھی تک بھی مکمل نفاذ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس معاہدے کو جون 2023 تک توسیع دلوا سکے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فریقین کوئی درمیانی راستہ ڈھونڈ لیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کر لے کہ ملکی سیاسی صورتحال اور آیندہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کچھ رعایت بحال رکھنے کی اجازت مل جائے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پرکھڑی ہو سکے۔
سب سے پہلے ملک میں نیم دلانہ نہیں بلکہ حقیقی معاشی ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے، اگر حکومت صرف اس ایک معاشی اصول کو اپنالے کہ ''جو ٹیکس بچائے وہ بچ نہ پائے'' تو یقین کیجیے ملک بہت جلد معاشی مشکلات سے نکل آئے گا۔ عام فہم انداز میں آئی ایم ایف کو ملکی معاشی مسائل کی وجہ بتایا جاتا ہے، لیکن ہر دور کی اپوزیشن یہ موقف اختیار کرتی ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف ہی واحد سہارا بن جاتا ہے، اگر اقتدار اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس حوالے سے سیاسی رویہ میں توازن پیدا کیا جاسکتا تو عوام کے لیے حالات کو سمجھنا اور ان کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا۔ موجودہ حکومت نے مشکل صورت حال میں اقتدار سنبھالا ہے۔
معاشی نقطہ نظر سے ان پارٹیوں کو تحریک انصاف کی پیدا کردہ مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن سیاسی فائدے اور فعالیت کے نقطہ نظر سے یہ اقدام ضروری سمجھا گیا تو اب مسائل کی ذمے داری بھی اسی خوش دلی سے قبول کرنی چاہیے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ غریبوں میں دو ہزار روپے ماہانہ امداد کا اعلان کرنے اور اس کی تشہیر پر کروڑوں کے اشتہار بانٹنے کے بجائے اگر یہ اعلان کیا جاتا کہ سرکاری بیوروکریسی، ججوں اور حکومتی عہدیداروں کو مفت فراہم کیا جانے والا پٹرول فوری طور سے ختم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح ان تمام موجودہ یا سابقہ افسروں یا ججوں کو پنشن کے علاوہ دی جانے والی غیر ضروری مراعات ختم کر کے ملک کے غریب عوام کو وہ خوشی فراہم کی جا سکتی تھی جو شاید دو ہزار کا امدادی چیک ملنے سے حاصل نہیں ہوگی۔
پاکستان بلاشبہ مالی مشکلات کا شکار ہے لیکن اب یہ تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان مشکلات کا سارا بوجھ ملک کے غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ مالی بوجھ مفلسوں و نادار لوگوں کے بجائے ملک کے امیر، با وسیلہ اور خوشحال طبقے کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ ایسے کسی دوٹوک فیصلہ کے بغیر کسی حکومت پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ آنے والے مہینے موجودہ حکومت کے لیے سخت ہوں گے کیونکہ روپے کی قیمت میں مزید گراؤٹ کا امکان ہے جس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا، پاکستان کا معاشی بحران ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف اور دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا سہارا بکھرتی ہوئی معیشت کو محض چند سانسیں ہی فراہم کرسکے گا۔ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کرنے والی صنعتوں کو جدید بنانا ، یہ ان ہنگامی اقدامات میں سے چند ایک ہیں حکومت جنھیں بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے معاملے سے نمٹنے کے لیے اٹھا سکتی ہے۔
پاکستان کو بمشکل ملنے والی عارضی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحیح معنوں میں مستحکم اور پائیدار معیشت کی تعمیر کرنا ہوگی، مزید براں چونکہ اس کی برآمدات کو کم قیمت پر معیاری مصنوعات فراہم کرنے والے ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش اور چین کے سبب ناکامی کا سامنا ہے، پاکستان کو نئے پلانٹ اور آلہ جات کی تنصیب کے ذریعے سے اپنے صنعتی حلقوں کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے انضمام میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے پاکستان تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے تاکہ مصنوعات کی ایجاد اور پیداوار کو بڑھاوا دیا جاسکے۔
سب سے پہلے اور بڑا سوال برآمداتی سامان کی فہرست جس میں کم قیمت پر ٹیکسٹائل، چاول، آلات جراحی، قالین، کھیلوں کا سامان اور چمڑے سے تیار اشیاء شامل ہیں، میں وسعت دینے میں ناکامی سے جڑا ہے، جو ادائیگیوں میں خسارے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی برآمدات کے حجم کو وسعت دینے اور ان کے لیے نئی منازل جیسا کہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ممالک کی تلاش غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدن کو نئی زندگی دے سکتی ہیں۔ ملک کی اولین ترجیح سیکیورٹی ہونے کے سبب معیشت کبھی بھی پاکستانی ترجیح نہیں رہی، لیکن اب اسے جغرافیائی تزویرات کے بجائے جغرافیائی معیشت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری تمام حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں۔ بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے، گو کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔
اس وقت دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے، عالمی ساہوکاروں نے ایسے کئی عالمی انتظامات کیے ہوئے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ سرمایہ اور سرمایہ داروں کا تحفظ۔ دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنلز کا سرمایہ دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں کے سرمائے سے بڑا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے استعماری عالمی معاشی نظام میں رہتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ہمیں ہر صورت میں وقت گزاری کے لیے مالیاتی پالیسیوں کے بجائے پائیدار معاشی پالیسیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک نہ صرف بیرونی قرضوں سے مستقل نجات حاصل کرسکے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔