بیس سیری روٹی اورآئی ایم ایف
ہم آپ کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں کہ آپ توایک روٹی اس کوکہیں گے جو بازار میں ملتی ہے جو پاؤبھربھی نہیں ہوتی
ہم نے کسی پچھلے یااگلے کالم میں اپنے وزیراعلیٰ عرف ترجیح اعلیٰ کی ایک تازہ ترین ''پہلی ترجیح'' کاذکر کیاتھا۔ یہ تومعلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ان کی ''کونسی ویں ''پہلی ترجیح'' ہے کیوں کہ ان دنوں بیرسٹرسیف بھی دوسرے محاذوں پرمصروف ہیں ورنہ ان سے پوچھ لیتے کیوں کہ ان کے پاس وزیراعلیٰ،عمران خان اورپی ٹی آئی کی تمام پہلی ترجیحوں کی مکمل فہرست موجودہے پہلے تو یہ پہلی ترجیح سنیے۔
ہم آدھی روٹی کھالیں گے لیکن آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کرکے رہیں گے۔
بڑا خوبصورت بیان بلکہ ''شعر''ہے جی تو ہمارا چاہتاہے کہ فوراً اس پر ایک غزل یانظم کہہ ڈالیں اورپھر اس سے ایک پھڑکتاہواگیت نکال کر تمام گلوکاروں کو دے دیں کہ
گا میرے منوا۔ گاتا جارے
جانا ہے ہم کا دور
اگرآپ نے رنگیلے کے اس گیت کو وڈیومیں دیکھا ہوتو ''سفر'' بیل گاڑی کاہے اورجانابہت دورہے اس لیے وہ کہتاہے کہ گاتے گاتے ہی یہ سفرطے ہوگا،ہمیں تویوں لگا جیسے رنگیلے نے بیل گاڑی میں تمام پہلی ترجیحات کی بوریاں لادی ہوئی ہوں اورٹھمک ۔ٹھمک۔ٹھمک۔
چلے توکٹ ہی جائے گا سفرآہستہ آہستہ، ابھی توصرف پچھترسال ہی ہوئے ہیںاگر بیل کے بیل چلتے چلتے اللہ کو پیارے نہیں ہوئے تو ایک دن پہنچ ہی جائیں گے کیوں کہ کسی روزسب کو وہیں تو پہنچ جانا ہوتاہے۔
دراصل یہ اس قسم کے ''امیدافزا'' بیانات ہمیں خود بڑے اچھے لگتے ہیں،آپ سے کیاپردہ کہ اس قسم کے امید افزا بیانات ہم خودکوبھی ساری عمردیتے رہے ہیں۔
ابھی تاروں سے کھیلوچاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے ''چہرے''کی سحر آہستہ آہستہ
کافی عرصہ ہوا ایک مردجان بازنے کہاتھا کہ ہم ایک ہزارسال تک لڑیں گے۔تو اس وقت لوگوں نے اس پریقین نہیں کیاتھا لیکن انھوں نے سچ کہاکہ اب اس کی تیسری بلکہ چوتھی پشت یہ ہزارسالہ جنگ لڑ رہی ہے۔پھر اس نے ''گھاس'' کھانے کاعزم بالجزم کیاتھا وہ بھی بالکل سچ کہاتھاہم گھاس ہی توکھارہے ہیں۔
ایک لطیفہ یاد آرہاہے، کسی اسکول میں ایک استاد ہوا کرتا تھا،بے گھربارتھا اس لیے کھانا ''خان''کے گھرسے آتاتھا جس کی وہ مسجد تھی،ایک مرتبہ جب ایک بچہ اس کاکھانالے کرآگیا اوراس نے دیکھا کہ وہی سبزساگ ہے جو ایک ہفتے سے وہ مسلسل کھا رہا تھاتو اس نے بچے سے کہا،بیٹااپنے باپ سے کہناکہ اتنی تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں ،بس تھوڑا سانمک بھجوا دیا کرو اور میں کھیت میں خود ہی جاکر اورنمک ڈال کر''چر''لیا کروں گا۔
ویسے ہربات کی تفصیلات میں جانابھی ضروری نہیں اگرہمارے وزیراعلیٰ ''آدھی'' روٹی کاکہہ رہے ہیں تویقیناً آدھی ہی کھاتے ہوں گے باقی گزارہ پلاؤزردہ یابریانی سے کریںگے کیوں کہ بہرحال چاول زدہ پلاؤ مرغی یابریانی یاسیخ کباب بابھنا ہواگوشت۔کسی بھی اینگل سے ''روٹی'' تو نہیں ہوتی۔
علامہ اقبال کا واقعہ توآپ نے سنا ہوگا کہ وہ کسی حکیم کی دواکھارہے تھے، حکیم نے آم کھانے کومنع کیاتھا لیکن علامہ کے اصرار پر صرف ''ایک''آم کھانے کی اجازت دی،ایک دن حکیم صاحب ان کے ہاں گئے تودیکھاکہ میزپر ایک دوتین سیرکاآم پڑا ہے اورعلامہ کھارہے ہیں ،حکیم نے پوچھا ۔یہ کیا؟ بولے '' آپ نے ''ایک''آم کی اجازت دی تھی۔''
روٹی کے معاملے میں ہم آپ کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں کہ آپ توایک روٹی اس کوکہیں گے جو بازار میں ملتی ہے جو پاؤبھربھی نہیں ہوتی۔لیکن ایک مرتبہ ہم ایک مریض کے ساتھ اسپتال گئے وہاں ایک شنواری مریض بھی تھا ،انھوں نے ہمیں کھانے پر بلایاجوگھر سے لایاگیا، دیکھا تو دسترخوان پرروٹی کے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے جو کم ازکم تین انچ موٹے تھے، ٹکڑوں سے پتہ چلتاتھا کہ پورا دسترخوان صرف ایک ہی روٹی کے ٹکڑوں سے بھراہواتھا، ہم نے کھاتے ہوئے اس روٹی کی موٹائی پرتعجب کااظہار کیااورمزے کی بات یہ کہ اتنی موٹی روٹی اندر باہرسے یکساں طورپرپکی ہوئی تھی اس نے بتایاکہ یہ روٹی میری ماں نے پکائی ہے اورمیری ماں اگر چاہے تو ''بیس سیر'' کی ایک روٹی بھی پکاسکتی ہے۔
ظاہرتھا کہ اگلاسوال یہ تھا کہ اتنی بڑی روٹی پکائی کیسے جاتی ہے کہ نہ تو اتنابڑاتوا کبھی دیکھا تھا اورنہ تندور۔ویسے وہ روٹی تندوری جیسی لگتی تھی۔ تب اس نے کہاکہ ایسی روٹی ہم پتھر کی سلوں کوجوڑ کراس کے اوپرپکاتے ہیں اوراس چولہے کے اردگردبھی دھیمی آنچ رکھتے ہیں ویسے یہ بات اس نے آخرمیں بتائی کہ اس قسم کی روٹی انتہائی دھیمی آنچ پر دوتین گھنٹے میں تیارہوتی ہے۔
خلاصہ اس سارے کلام کایہ ہوا کہ اب آئی ایم ایف کی خیرنہیں۔
ہم آدھی روٹی کھالیں گے لیکن آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کرکے رہیں گے۔
بڑا خوبصورت بیان بلکہ ''شعر''ہے جی تو ہمارا چاہتاہے کہ فوراً اس پر ایک غزل یانظم کہہ ڈالیں اورپھر اس سے ایک پھڑکتاہواگیت نکال کر تمام گلوکاروں کو دے دیں کہ
گا میرے منوا۔ گاتا جارے
جانا ہے ہم کا دور
اگرآپ نے رنگیلے کے اس گیت کو وڈیومیں دیکھا ہوتو ''سفر'' بیل گاڑی کاہے اورجانابہت دورہے اس لیے وہ کہتاہے کہ گاتے گاتے ہی یہ سفرطے ہوگا،ہمیں تویوں لگا جیسے رنگیلے نے بیل گاڑی میں تمام پہلی ترجیحات کی بوریاں لادی ہوئی ہوں اورٹھمک ۔ٹھمک۔ٹھمک۔
چلے توکٹ ہی جائے گا سفرآہستہ آہستہ، ابھی توصرف پچھترسال ہی ہوئے ہیںاگر بیل کے بیل چلتے چلتے اللہ کو پیارے نہیں ہوئے تو ایک دن پہنچ ہی جائیں گے کیوں کہ کسی روزسب کو وہیں تو پہنچ جانا ہوتاہے۔
دراصل یہ اس قسم کے ''امیدافزا'' بیانات ہمیں خود بڑے اچھے لگتے ہیں،آپ سے کیاپردہ کہ اس قسم کے امید افزا بیانات ہم خودکوبھی ساری عمردیتے رہے ہیں۔
ابھی تاروں سے کھیلوچاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے ''چہرے''کی سحر آہستہ آہستہ
کافی عرصہ ہوا ایک مردجان بازنے کہاتھا کہ ہم ایک ہزارسال تک لڑیں گے۔تو اس وقت لوگوں نے اس پریقین نہیں کیاتھا لیکن انھوں نے سچ کہاکہ اب اس کی تیسری بلکہ چوتھی پشت یہ ہزارسالہ جنگ لڑ رہی ہے۔پھر اس نے ''گھاس'' کھانے کاعزم بالجزم کیاتھا وہ بھی بالکل سچ کہاتھاہم گھاس ہی توکھارہے ہیں۔
ایک لطیفہ یاد آرہاہے، کسی اسکول میں ایک استاد ہوا کرتا تھا،بے گھربارتھا اس لیے کھانا ''خان''کے گھرسے آتاتھا جس کی وہ مسجد تھی،ایک مرتبہ جب ایک بچہ اس کاکھانالے کرآگیا اوراس نے دیکھا کہ وہی سبزساگ ہے جو ایک ہفتے سے وہ مسلسل کھا رہا تھاتو اس نے بچے سے کہا،بیٹااپنے باپ سے کہناکہ اتنی تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں ،بس تھوڑا سانمک بھجوا دیا کرو اور میں کھیت میں خود ہی جاکر اورنمک ڈال کر''چر''لیا کروں گا۔
ویسے ہربات کی تفصیلات میں جانابھی ضروری نہیں اگرہمارے وزیراعلیٰ ''آدھی'' روٹی کاکہہ رہے ہیں تویقیناً آدھی ہی کھاتے ہوں گے باقی گزارہ پلاؤزردہ یابریانی سے کریںگے کیوں کہ بہرحال چاول زدہ پلاؤ مرغی یابریانی یاسیخ کباب بابھنا ہواگوشت۔کسی بھی اینگل سے ''روٹی'' تو نہیں ہوتی۔
علامہ اقبال کا واقعہ توآپ نے سنا ہوگا کہ وہ کسی حکیم کی دواکھارہے تھے، حکیم نے آم کھانے کومنع کیاتھا لیکن علامہ کے اصرار پر صرف ''ایک''آم کھانے کی اجازت دی،ایک دن حکیم صاحب ان کے ہاں گئے تودیکھاکہ میزپر ایک دوتین سیرکاآم پڑا ہے اورعلامہ کھارہے ہیں ،حکیم نے پوچھا ۔یہ کیا؟ بولے '' آپ نے ''ایک''آم کی اجازت دی تھی۔''
روٹی کے معاملے میں ہم آپ کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں کہ آپ توایک روٹی اس کوکہیں گے جو بازار میں ملتی ہے جو پاؤبھربھی نہیں ہوتی۔لیکن ایک مرتبہ ہم ایک مریض کے ساتھ اسپتال گئے وہاں ایک شنواری مریض بھی تھا ،انھوں نے ہمیں کھانے پر بلایاجوگھر سے لایاگیا، دیکھا تو دسترخوان پرروٹی کے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے جو کم ازکم تین انچ موٹے تھے، ٹکڑوں سے پتہ چلتاتھا کہ پورا دسترخوان صرف ایک ہی روٹی کے ٹکڑوں سے بھراہواتھا، ہم نے کھاتے ہوئے اس روٹی کی موٹائی پرتعجب کااظہار کیااورمزے کی بات یہ کہ اتنی موٹی روٹی اندر باہرسے یکساں طورپرپکی ہوئی تھی اس نے بتایاکہ یہ روٹی میری ماں نے پکائی ہے اورمیری ماں اگر چاہے تو ''بیس سیر'' کی ایک روٹی بھی پکاسکتی ہے۔
ظاہرتھا کہ اگلاسوال یہ تھا کہ اتنی بڑی روٹی پکائی کیسے جاتی ہے کہ نہ تو اتنابڑاتوا کبھی دیکھا تھا اورنہ تندور۔ویسے وہ روٹی تندوری جیسی لگتی تھی۔ تب اس نے کہاکہ ایسی روٹی ہم پتھر کی سلوں کوجوڑ کراس کے اوپرپکاتے ہیں اوراس چولہے کے اردگردبھی دھیمی آنچ رکھتے ہیں ویسے یہ بات اس نے آخرمیں بتائی کہ اس قسم کی روٹی انتہائی دھیمی آنچ پر دوتین گھنٹے میں تیارہوتی ہے۔
خلاصہ اس سارے کلام کایہ ہوا کہ اب آئی ایم ایف کی خیرنہیں۔