ٹیکس اور بس ٹیکس

پاکستان اب ریاستی اختیارات کے بل پر سرکاری مراعات سے امیر ہونے والے طبقات کا مالی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے

پاکستان اب ریاستی اختیارات کے بل پر سرکاری مراعات سے امیر ہونے والے طبقات کا مالی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت کی معاشی ٹیم کا اجلاس جمعے کو اسلام آباد میں ہوا ہے ۔ اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگا رہے ہیں تاکہ غربت میں کمی کی جاسکے۔

جن صنعتوں پر سپر ٹیکس لگایا گیا ہے، ان میں سیمنٹ ،چینی، تیل وگیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینل، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹو موبائل، سگریٹس، اسٹیل، کیمیکل، بیوریجز، ہوابازی شامل ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب تک غریب قربانی دیتا آرہا تھا، اب صاحب حیثیت طبقات کی باری ہے کہ وہ ایثار سے کام لیتے ہوئے غریبوں کی مدد کریں۔ وزیراعظم نے مزید کہا ہے کہ ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنا ملک کے وزیراعظم سے لے کر وفاق اور صوبوں تک تمام اداروں کی ذمے داری ہے۔

انھوں نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں ٹیمیں بنا دی گئی ہیں، بجٹ کے بعد وزارت خزانہ، ایف بی آر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سمیت تمام اداروں کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے ٹیکس وصولی کی جائے گی۔ میڈیا کے مطابق جو افراد سالانہ 15کروڑ روپے سے زائد کماتے ہیں، ان کی آمدن پر ایک فیصد تخفیف غربت ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ جن افراد کی سالانہ آمدنی20 کروڑ روپے سے زائد ہے، ان پر 2 فیصد، 25 کروڑ پر 3 فیصد، 30 کروڑ سے زائد آمدنی والوں پر 4 فیصد تخفیف غربت ٹیکس لگایا جارہا ہے۔وزیر اعظم نے بتایا ہے کہ بجٹ سے متعلق ہم نے اہم فیصلے کیے ہیںاور بجٹ میں کیے گئے اعلانات کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط منظور ہوچکی ہیں لہٰذا ملک اب مشکل سے نکل آئے گا۔

ادھر گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بڑی صنعتوں اور زیادہ آمدنی والے افراد پر لگنے والا سپر ٹیکس ایک سال کے لیے ہوگا۔ انھوں نے اعدادوشمار بتاتے ہوئے بتایا کہ ریٹیل میں 90 لاکھ سے زیادہ دکانیں ہیں، ان میں 25 سے لے کر 35 لاکھ کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے اور ان سے 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فکس ٹیکس وصول ہوگا۔ سونے کے کاروبار میں 30 ہزار دکانوں میں سے 22 ہزار رجسٹرڈ ہیں، ہر سونے کی300 اسکوائر فٹ دکانوں پر 40 ہزار فکسڈ ٹیکس لگا دیا ہے جو بجلی بلوں کے ذریعے وصول کیا جائے گا۔

انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں وضاحت کی ہے کہ ایک سال کی مدت کے لیے تمام صنعتوں پر4 فیصد، 13 مخصوص صنعتوں پرمزید6 فیصد(مجموعی طورپر10 فیصد) سپرٹیکس لگے گا۔ سُپرٹیکس اطلاق کے بعد 13 صنعتوں کے لیے ٹیکسوں کی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر39 فیصدہوجائے گی ۔انھوں نے کہا سپرٹیکس کا اطلاق بجٹ خسا رے کو روکنے کے لیے کیاگیا ہے جو گزشتہ چار سال کے دوران ریکارڈ سطح پررہا ہے ۔

حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں،ان کے اثرات محض امیر طبقے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ نچلے طبقے پر بھی آئے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ تنخواہ دارملازمین پر دہرا بوجھ ڈال دیا گیا ہے،فکس کے ساتھ پرسنٹیج ٹیکس بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔نظر ثانی شدہ وفاقی بجٹ میں سلیبز کی تعداد کم کر کے سات کر دی گئی ہے،چھ لاکھ سالانہ آمدن پر صفر ٹیکس ہے اورچھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی رکھنے والوں پر 2.5 فیصد ٹیکس ہو گا، 12لاکھ سے 24 لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی رکھنے والوں پر 15 ہزار روپے فکس ٹیکس کے علاوہ 12.5 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوگا، اس لحاظ سے بجٹ میں اس کٹیگری کے تنخواہ دار ملازمین پر سات ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے اب نظر ثانی شدہ بجٹ میں بڑھا کر اوسط 13 ہزار سات سو پچاس روپے ماہانہ کیا جارہا ہے، 24لاکھ سے 36 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والوں پر ایک لاکھ 65ہزار روپے کے علاوہ24 لاکھ سے اوپر والی رقم پر 20فیصد ٹیکس لاگو ہوگا اس لحاظ سے دس جون2022 کو پیش کیے جانے و الے بجٹ میں اس کٹیگری کے تنخواہ دار ملازمین پر ساڑھے19 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے اب بڑھا کر33 ہزار سات سو پچاس روپے ماہانہ کیا جارہا ہے۔


تنخواہ دار ملازمین پر نئے انکم ٹیکس ریٹ پر مبنی سلیبز کے چارٹ کی کاپی کے مطابق36لاکھ سے 60لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر4لاکھ 5ہزار روپے فکس رقم کے علاوہ 36 لاکھ کی اوپر والی رقم پر25فیصد ٹیکس لاگو ہوگا، اس کٹیگری کے لیے بجٹ میں اوسط ساڑھے 54 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے اب بڑھا کر 83 ہزار 785 روپے ماہانہ کیا جارہا ہے جب کہ 60 لاکھ سے ایک کروڑ20 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 10 لاکھ 5 ہزار روپے کے علاوہ 60 لاکھ روپے سے اوپر والی رقم پر 32.5 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوگا، اس کیٹیگری کے تنخواہ دار ملازمین کے لیے دس جون کو پیش کردہ بجٹ میں اوسط ایک لاکھ67 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے اب بڑھا کر دو لاکھ 46 ہزار 250 روپے ماہانہ کیا جارہا ہے اسی طرح ایک کروڑ بیس لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی پر29 لاکھ 55ہزار روپے کے علاوہ ساڑھے35 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔

اس لحاظ سے اس کٹیگری کے تنخواہ دار ملازمین کی اگر آمدنی دو کروڑ روپے ہوتو اس صورت میں دس جون2022 کو پیش کردہ بجٹ میں اس کٹیگری کے لیے چار لاکھ79 ہزار583 روپے ٹیکس تجویز کیا گیا تھا جسے اب بڑھا کر آٹھ لاکھ83 ہزار 666روپے کیا جارہا ہے، ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے ایکٹ کے طور پر نافذ ہونے پر یکم جولائی سے ان تنخواہ دار ملازمین پر نئی شرح کے حساب سے ٹیکس کٹوتیاں شروع ہوجائیں گی۔

ادھر بڑی صنعتوں پر ایک سال کے لیے 10فیصد سپر ٹیکس عائد کیے جانے پر پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کوکاروبار مندی کا شکار ہوگیا اور مارکیٹ کریش کی صورت حال سے دوچار ہوئی۔ حکومت کے بجٹ خسارے میں کمی اور ریونیو بڑھانے کے اقدامات سے سرمایہ کار گھبراہٹ سے دوچار ہوئے کیونکہ آنے والے دنوں میں مزید سخت اقدامات کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں جس سے مارکیٹ کا گراف تنزلی سے دوچار ہوا۔

پاکستان میں ملک میں محصولیات کا نظام ہمیشہ سے پیچیدہ اور متنازعہ رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہر حکومت کی ترجیحات بھی مختلف ہوتی ہیں ، اس وجہ سے ٹیکس سسٹم شفافیت پر مبنی نہیں رہا ہے۔اب حکومت نے ٹیکس لگانے کا رخ زیادہ کمائی والے لوگوں کی جانب کیا ہے،جو کئی اعتبار سے بہتر فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ٹیکس عائد کرنے سے زیادہ ضروری اور اہم بات حکومت اور سسٹم کی کریڈیبلٹی ہوتی ہے۔جب سسٹم میں خرابیاں اور چور دروازے موجود رہیں گے تو کریڈیبلٹی قائم نہیں ہوسکتی۔ملک کی معیشت اور انتظامی کا چلانے کی ذمے داری ریاستی مشینری پر ہوتی ہے۔

ریاست کے ملازمین جتنے زیادہ پروفیشنل، متحرک،ذہین ہوں گے، ان کی جوابدہی کا نظام فعال ہوگا، ریاست کا نظم وضبط اتنا ہی بہتر ہوگا،اسی طرح ریاست کا آئین، قوانین اور ضوابط غیرمبہم اور کلیرہوں گے، ملک کا نظام اتنا ہی فعال ہوگا۔موجودہ حکومت کو اس حوالے مزید کئی فیصلے کرنا ہوں گے۔اب بھی ملک میں ایسے شعبہ جات موجود ہیں، جو ریاست سے مفت سہولیات لے کر دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ہیلتھ اورتعلیم کا نجی شعبہ اس کی ایک مثال ہے۔اسی طرح دینی مدارس، درگاہوں،فلاحی اور چیریٹی اداروں کے پاس محکمہ اوقاف، متروکہ املاک اور ریاستی زمینیں اور املاک موجود ہیں، ان کے حوالے سے بھی ایک مربوط اور غیرمبہم ریاستی پالیسی کی ضرورت ہے۔سرکاری زمینوں کی بندربانٹ سے لے کر سرکاری بینکوں کے قرضے معاف کرانے تک کی کہانی ہوش اڑا دینے والی ہے۔

پاکستان اب ریاستی اختیارات کے بل پر سرکاری مراعات سے امیر ہونے والے طبقات کا مالی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔پاکستان کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اب اس قابل نہیں رہی کہ وہ مزید ٹیکس دے سکے۔اس لیے صرف عوام کو یہ تلقین کرنا یا طعنہ دینا کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے یا انھیںٹیکس دینا چاہیے، بے وقعت ہوچکا ہے، اب ریاست کو اپنے اخراجات، مراعات اورسہولیات کم سے کم کرنا ہوں گی۔

خیبرپختونخوا، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے قبائلی وڈیروں، سرداروں، پیروں، گدی نشینوں اور بڑے زمینداروں پر ان کے شاہانہ لائف اسٹائل کے حساب سے انکم ٹیکس وصول کرنا چاہیے۔ ان طبقات کے زیرقبضہ مختلف قسم کی سرکاری زمینیں واگزار کروائی جائیں۔ ان قبائلی علاقوں میں لینڈ ریفارمز وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ان لینڈ ریفارمز میں غریب قبائلیوں کے حقوق کو اولیت دی جائے۔ اس طریقے سے ان صوبوں میں بھی مڈل کلاس بڑھے گی جس کی وجہ سے لامحالہ ٹیکس وصولیوں کا حجم بھی بڑھے گا۔
Load Next Story