انصاف

انصاف کے حصول کے لیے مجھ سمیت اٹھائے جانے والے صحافی مطیع اللہ جان، ابصار عالم اور اسد طور بھی انصاف کے طالب ہیں

Warza10@hotmail.com

لاہور:
یہ کسی بھی ذی شعور کا فطری اور جمہوری حق ہے کہ اسے نہ صرف انصاف ملے بلکہ اس کے ساتھ بے انصافی ہونے پر صدائے احتجاج بلند بھی کی جائے، انسانی تاریخ میں عدل کا نظام قائم کرنے اور اسے طاقتور اشرافیہ کے پیر تلے روندنے کے واقعات کی لاتعداد مثالیں موجود بھی ہیں اور عدل کی بے قدری اور انصاف کی توہین پر انسانی احتجاج کا فطری رد عمل بھی موجود ہے۔

انصاف بر مبنی مملکت قائم کرنے کا بہت آسان اور سادہ حل انسانی تاریخ میں جا بجا موجود ہے، انصاف کی دانش اور اس کے حصول کا انتہائی سادہ حل اور اس کی تفہیم کے لیے جنگ عظیم کی تباہی کے بعد والے برطانیہ کے معروف حکمران ونسٹن چرچل سے جب پوچھا گیا کہ تباہ شدہ برطانیہ کی تعمیر ایسے کٹھن مرحلے کو کیسے عبور کیا جائے گا تو ونسٹن چرچل نے سوال کیا کہ ''کیا ہمارا عدالتی نظام برطانیہ کی تباہی کے بعد بھی انصاف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟'' سو چرچل نے ''ہاں'' کا جواب ملنے پر کہا کہ ''تو پھر ہمیں تعمیر نو اور ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا'' اسی طرح عقیدت کا دم بھرنے والوں اور دن رات عبادتوں میں گذارنے اور تلقین دینے والوں کے لیے حضرت علی رضی تعالی عنہ کا انصاف کی فراہمی کی اس سے زیادہ واضح تفہیم اور تنبیہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتی جب انھوں نے کہا کہ ''انصاف کے بغیر ظلم کے مقابلے میں کفر کی حکومت بہتر ہے۔''

انصاف کی مذکورہ طاقتور تفہیم کے بعد جب ہم اپنے ملک میں انصاف کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس اور شرمندگی، ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا، ہمارے ملک کی تقسیم کے بعد انصاف کی فراہمی واسطے برطانیہ کے 1935 انڈین ایکٹ پر ملک کو عارضی طور پر چلایا گیا، معروف وکیل حامد خان اپنی کتاب History of Judiciary in Pakistan میں لکھتے ہیں کہ ''پاکستان میں عدل و انصاف کو روندنے اور اسے اعلیٰ طبقات کا غلام بنانے کی ابتدا گورنر جنرل غلام محمد کر چکے تھے۔ 1954 میں اس وقت کے چیف آف کورٹ میاں عبدالرشید کی ریٹائر منٹ کے بعد غلام محمد نے اشرافیائی خوشنودی کے لیے اپنے کوک زئی قبیلے کے جسٹس منیر کو تمام قانونی تقاضوں کو روندتے ہوئے پہلے جسٹس ایس اکرم کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور پھر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منیر کو چیف آف کورٹ بنایا، جنھوں نے عدالتی نظام کی بنیاد میں مراعات یافتہ طبقے کو انصاف فراہم کرنے کی ٹیڑھی بنیاد ڈالی۔


آج بھی ہمارا عدالتی نظام برطانیہ کے خوشامدانہ رویئے کے تحت صرف مراعات یافتہ طبقے کو انصاف دینے پر تلا بیٹھا ہے، ہمارے عدالتی انصاف کے نظام کے بارے میں عوام کے اکثریت کی رائے ہے کہ موجودہ عدالتی نظام انصاف کی پشت پر جب تک طاقتور ''اسٹبلشمنٹ'' کی تلوار، جو ہنوز اب تک حاوی ہے یا رہے گی، اس وقت تک عام فرد عدالتی نظام سے انصاف کے حصول میں مسلسل بے دست و پا نظر آئے گا۔ سوال یہ نہیں کہ ہمارے نظام انصاف میں گورنر جنرل غلام محمد ایسے نہیں رہے لہٰذا نظام انصاف اب انصاف فراہم کر رہا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ قرائن کی روشنی میں عدالتی نظام مراعات یافتہ طبقے ہی کو انصاف فراہم کرنے پر تلا بیٹھا ہے جس کی بنیاد غلام محمد اور جسٹس منیر رکھ گئے تھے، بلکہ جب مذکورہ سوال کے جواب کی کھوجنا کی جاتی تو ہے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کی سوچ اور روح ابھی تک تروتازہ ہے البتہ نظام انصاف میں سڑاند کو انصاف کی بھینی خوشبو میں تبدیل کرنے کے نئے طریقے وضع کر لیے گئے ہیں۔

بادی النظر میں اس عدالتی کارروائی پر نظر رکھنے اور مرضی و منشا کے فیصلے لینے کا خیال سقوط ڈھاکا کے بعد جسٹس حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد آیا اور طے کیا گیا کہ ملکی سماج میں عوام کے درمیان سے ہی وہ وکیل اور عوامی شہرت دلانے والے اہم کردار گڑھے جائیں جن کو انسانی حقوق اور کچلے ہوئے طبقات کا ہمدرد بنایا جائے تاکہ وہ عوام کا اعتماد لے کر عوام کے وکیل بنیں اور ان ہی منصف سے انصاف کے طلبگار ہوں جو عوامی ہمدردی کی قبا زیب تن کیے رکھیں مگر وہ نہایت چابکدستی سے عوام کے ہر دلعزیز بن کر طاقت کے آگے ہمیشہ گھٹنے ٹیکنے پر آمادہ ہوں۔

اس نئے اور بظاہر عوام دوست ترکیب کے لیے جنرل ضیا کے دور سے کام شروع کیا گیا جو ایمان پرور انسانی حقوق کے سر بلند آج تک انتہائی خندہ پیشانی سے انجام دے رہے ہیں اور انصاف کے خواہاں خاندان اب تک انصاف کا صرف منہ تکے جا رہے ہیں، جس کی زندہ مثال چند معروف مقدمات ہیں۔ مگر ان کے قاتل ہنوز گھوم رہے ہیں جب کہ نقیب اللہ، اینکر مرید عباس اور بیٹے کے زندہ قاتل کو دیکھنے پر باپ انتظار حسین اب تک انصاف کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔

انصاف کے حصول کے لیے مجھ سمیت اٹھائے جانے والے صحافی مطیع اللہ جان، ابصار عالم اور اسد طور بھی انصاف کے طالب ہیں۔ اسی طرح دوسری جانب لاہور کے ایک شہری صابر محمود ہاشمی مسلسل پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
Load Next Story