حکام کی غفلت یونیورسٹی روڈ پر قبضہ مافیا کے ڈیرے
جامعہ کی اراضی پر کار ڈیلرز اور ریسٹورینٹس مالکان کاروبار کررہے ہیں، سرکاری اسپتال نے بھی اپنی پارکنگ قائم کررکھی ہے
جامعہ کراچی کے بالمقابل یونیورسٹی کی کئی ایکڑ اراضی پر قبضہ مافیا نے ڈیرے ڈال لیے، سرکاری اراضی پر یومیہ بنیادوں پر کروڑوں کا کاروبار جاری ہے اور حکام مسئلے سے لاتعلق ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جامعہ کراچی کے مرکزی کیمپس کے سامنے قائم یونیورسٹی کی 7 ایکڑاراضی میں سے تقریباً نصف زمین پر قبضہ مافیا نے اپنے قدم جمالیے ہیں اور یونیورسٹی کے متعلقہ شعبوں کی سنگین غفلت و لاپرواہی کے سبب قبضہ کی گئی زمین عملی طور پر اب بعض ریسٹورینٹس، کار ڈیلرز، جھگی مافیا اور ایک سرکاری اسپتال کے تصرف میں ہے۔
جامعہ کراچی کے ذرائع کہتے ہیں کہ 7 میں سے کم از کم 3 ایکڑ اراضی قبضہ ہوچکی ہے اور تعلیم و تحقیق کے لیے مختص کی گئی جامعہ کراچی کی اس زمین پر اب روزانہ کی بنیادوں پر کروڑوں روپے کا کاروبار کیا جارہا ہے۔
جامعہ کی اراضی پر قبضے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اور اس کے متعلقہ شعبے سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام بھی اس جانب نظر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق یونیورسٹی روڈ پر قائم یہ اراضی شیخ زید اسلامک سینٹر سے جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ تک روڈ کے دوسری جانب ہے اس اراضی پر قبضے اور اس پر کارروبار کا انکشاف خود جامعہ کراچی کے سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس کی جانب سے لکھے گئے بعض خطوط میں ہوا ہے۔
اس حوالے سے جامعہ کراچی کی اسٹیٹ افسر نورین شارق کا کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضے کا معاملہ کورٹ کیس ہوتا ہے اس سلسلے میں ڈائریکٹرلیگل سے رابطہ کریں۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ جو معاملہ قبضے کے باوجود اب تک کورٹ تک نہیں پہنچاہے اس کاکون ذمے دارہے اور جامعہ کراچی کی زمین پر کس طرح ایک سرکاری اسپتال نے چار دیواری بناکر ہزاروں گز پر اپنی کارپارکنگ بنالی ہے جس پر نورین شارق کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو بھیج کر اس پر کام رکوا دیا تھا جب کہ کار شوروم اور ریسٹورنٹس کے جامعہ کی اراضی پر قیام سے متعلق بھی نورین شارق درست جواب نہیں دیا۔
ایکسپریس کو زمینوں پر مذکورہ قبضے کے حوالے سے اسٹیٹ آفس سے ملنے والے ایک خط میں یہ واضح ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کی اس اراضی پر حال ہی میں نرسریاں، کار ڈیلرز، ریسٹورینٹس نے قبضہ کرلیا ہے۔
9 مارچ 2022 کو ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ایسٹ کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا تھا کہ اس لینڈ گریپنگ اور انکروچمنٹ سے جامعہ کراچی کی زمین کو واگزار کرایا جائے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے سلور جوبلی کے گیٹ سامنے بھی زمین پر جھگیوں کی صورت میں قبضہ کیا جاچکا ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور خط کے مطابق ڈیوٹی آفیسر کی جانب سے قبضے کے حوالے سے جامعہ کراچی کے سیکیورٹی آفیسر کو ماضی میں مطلع کیا گیا تھا کہ مسجد کے سامنے لان بنالیا گیا ہے، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ڈاؤ یونیورسٹی نے دیوار بنالی ہے جب کہ میمن آرکیڈ کے سامنے رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والے گاڑیاں کھڑی کرکے فروخت کررہے ہیں۔
اس خط میں باقاعدہ سفارش کی گئی ہے کہ جامعہ کراچی کی زمین بچانے کے لیے یہاں خاردار باڑ لگائی جائے اور چاردیواری بنائی جائے 28 ستمبر 2021 کو لکھے گئے اس خط کی کاپی رجسٹرار آفس، وائس چانسلر آفس اور ڈائریکٹر فنانس کو بھی بجھوائی گئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جامعہ کراچی کے مرکزی کیمپس کے سامنے قائم یونیورسٹی کی 7 ایکڑاراضی میں سے تقریباً نصف زمین پر قبضہ مافیا نے اپنے قدم جمالیے ہیں اور یونیورسٹی کے متعلقہ شعبوں کی سنگین غفلت و لاپرواہی کے سبب قبضہ کی گئی زمین عملی طور پر اب بعض ریسٹورینٹس، کار ڈیلرز، جھگی مافیا اور ایک سرکاری اسپتال کے تصرف میں ہے۔
جامعہ کراچی کے ذرائع کہتے ہیں کہ 7 میں سے کم از کم 3 ایکڑ اراضی قبضہ ہوچکی ہے اور تعلیم و تحقیق کے لیے مختص کی گئی جامعہ کراچی کی اس زمین پر اب روزانہ کی بنیادوں پر کروڑوں روپے کا کاروبار کیا جارہا ہے۔
جامعہ کی اراضی پر قبضے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اور اس کے متعلقہ شعبے سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام بھی اس جانب نظر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق یونیورسٹی روڈ پر قائم یہ اراضی شیخ زید اسلامک سینٹر سے جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ تک روڈ کے دوسری جانب ہے اس اراضی پر قبضے اور اس پر کارروبار کا انکشاف خود جامعہ کراچی کے سیکیورٹی اور اسٹیٹ آفس کی جانب سے لکھے گئے بعض خطوط میں ہوا ہے۔
اس حوالے سے جامعہ کراچی کی اسٹیٹ افسر نورین شارق کا کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضے کا معاملہ کورٹ کیس ہوتا ہے اس سلسلے میں ڈائریکٹرلیگل سے رابطہ کریں۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ جو معاملہ قبضے کے باوجود اب تک کورٹ تک نہیں پہنچاہے اس کاکون ذمے دارہے اور جامعہ کراچی کی زمین پر کس طرح ایک سرکاری اسپتال نے چار دیواری بناکر ہزاروں گز پر اپنی کارپارکنگ بنالی ہے جس پر نورین شارق کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو بھیج کر اس پر کام رکوا دیا تھا جب کہ کار شوروم اور ریسٹورنٹس کے جامعہ کی اراضی پر قیام سے متعلق بھی نورین شارق درست جواب نہیں دیا۔
ایکسپریس کو زمینوں پر مذکورہ قبضے کے حوالے سے اسٹیٹ آفس سے ملنے والے ایک خط میں یہ واضح ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کی اس اراضی پر حال ہی میں نرسریاں، کار ڈیلرز، ریسٹورینٹس نے قبضہ کرلیا ہے۔
9 مارچ 2022 کو ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ایسٹ کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا تھا کہ اس لینڈ گریپنگ اور انکروچمنٹ سے جامعہ کراچی کی زمین کو واگزار کرایا جائے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے سلور جوبلی کے گیٹ سامنے بھی زمین پر جھگیوں کی صورت میں قبضہ کیا جاچکا ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور خط کے مطابق ڈیوٹی آفیسر کی جانب سے قبضے کے حوالے سے جامعہ کراچی کے سیکیورٹی آفیسر کو ماضی میں مطلع کیا گیا تھا کہ مسجد کے سامنے لان بنالیا گیا ہے، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ڈاؤ یونیورسٹی نے دیوار بنالی ہے جب کہ میمن آرکیڈ کے سامنے رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والے گاڑیاں کھڑی کرکے فروخت کررہے ہیں۔
اس خط میں باقاعدہ سفارش کی گئی ہے کہ جامعہ کراچی کی زمین بچانے کے لیے یہاں خاردار باڑ لگائی جائے اور چاردیواری بنائی جائے 28 ستمبر 2021 کو لکھے گئے اس خط کی کاپی رجسٹرار آفس، وائس چانسلر آفس اور ڈائریکٹر فنانس کو بھی بجھوائی گئی ہے۔